ڈیل یا ڈھیل!
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
گہری نظر سے دیکھا جائے تو یہ کوئی ایشو ہی
نہیں، مگر اپنے میڈیا اور عوام و خواص کی نجی محفلوں کو دیکھا جائے تو یہ
اہم ترین معاملہ تھا، جس پر ہر کوئی اپنی سوچ کے مطابق تبصرے کر رہا ہے۔
سابق فوجی حکمران پرویز مشرف پاکستان سے باہر چلے گئے، ان پر کئی مقدمات
قائم تھے، جن میں آئین سے غداری کا مقدمہ بھی شامل ہے۔ انہوں نے زیادہ تر
عدالتوں سے حاضری سے استثنا حاصل کررکھا تھا۔ ہمارے خیال میں ان کے پاکستان
سے علاج کی غرض سے باہر چلے جانے کی خبر اہم ا س لئے نہیں، کہ وہ حقیقی
معنوں میں بیمار تھے ہی نہیں، کیونکہ جب وہ پاکستان سے روانہ ہوئے تو وہ
نہایت اطمینان کے ساتھ گئے، پر سکون رہے، تکلیف کا احساس تک نہیں ہوا، دبئی
جاتے ہی انہوں نے سگار سلگا کر اپنے سیاسی ساتھیوں سے میٹنگ کی، آئندہ کا
لائحہ عمل تیار کیا، پاکستانی محبت کرنے والے عوام کو بتایا کہ وہ تندرست
ہوتے ہی پاکستان لوٹ آئیں گے، وہ کس قسم کی تندرستی چاہتے ہیں، اس کا علم
نہیں۔ ان کی باہر جانے کی خبر کی اہمیت اس لئے بھی نہیں کہ وہ پہلی مرتبہ
نہیں گئے، اس سے قبل بھی وہ باہر رہ کر لیکچر وغیرہ دے کر آمدنی کماتے رہے
ہیں۔ تیسری بات یہ ہے کہ وہ اندر رہیں یا باہر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا،
یہاں بھی وہ آزاد ہی تھے، ٹی وی چینلز پر چہچہاتے تھے، بیان دیتے تھے ،
ملاقاتیں کرتے تھے، یہی کچھ باہر جاکر بھی ہوگا تو ہونے دیں۔
مشرف کی اس روانگی پر تقریباً تمام ہی سیاست دانوں نے اپنے جذبات کا اظہار
کیا ہے، چونکہ یہ سیاسی معاملہ تھا اس لئے تمام سیاسی قائدین کا اس موقع پر
بیان دینا بنتا تھا، خواہ انہیں سیاسی دکانداری چمکانے کا نام ہی دیا جائے۔
سب سے پہلا ہنگامہ بلاول زرداری نے برپا کرنے کی کوشش کی، کہ مشرف بے نظیر
قتل کیس میں بھی ملوث تھا، گویا حکومت نے بے نظیر کے قاتل کو باہر جانے دیا،
اسی تناظر میں پی پی احتجاج وغیرہ بھی کر رہی ہے۔ حکومت مختلف حیلے بہانے
کر کے خاموشی اختیار کرنے کے موڈ میں ہے، شاید اس لئے بھی کہ اس کے پاس
کوئی معقول جواب یا جواز بھی نہیں۔ مگر کیا کیجئے کہ جواب دیئے بغیر گزارہ
بھی نہیں۔ چوہدری نثار علی خان نے بھی ظاہر زبان سے کاروائی کے چند جملے
نکالے اور قوم کو آگاہ کیا کہ حکومت نے یہ اقدام عدالت کے فیصلے کی روشنی
میں کیا ہے۔ حسبِ روایت پرویز مشرف کے (نصف) ہم نام پرویز رشید میدان میں
اترے اور قوم کو بتایا کہ یہ واقعہ طویل عدالتی کاروائی کے نتیجے میں معرض
وجود میں آیا ہے، اس میں حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں۔ اپوزیشن لیڈر خورشید
شاہ بھی اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں، اور کہتے ہیں کہ لگتا ہے
کہ اب مشرف گئے ۔ عمران خان نے اپنا حصہ ملاتے ہوئے کہا کہ ناداں گر گئے
سجدے میں جب وقت قیام آیا۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے کہا ہے کہ
طاقتور ملزموں پر ہاتھ نہیں ڈالا جاتا۔ بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر
عبدالمالک بلوچ نے ٹرائل کے بغیر مشرف کے باہر جانے پر تنقید کی ہے۔ سندھ
کے وزیراعلیٰ نے کہا ہے کہ ثابت ہوگیا کہ یہاں امیر کے لئے قانون اور ہے
اور غریب کے لئے اور۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن نے بھی شدید احتجاج کرتے
ہوئے کہا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 6پر عمل کرنے کے دعویدار خود ہی آمر کے
سہولت کار بن گئے۔ رانا ثناء اﷲ نے بھی اپنی عادت کے عین مطابق بیان دیا کہ
اگر کسی عدالت نے وارنٹ جاری کئے تو مشرف کو انٹر پول کے ذریعے واپس لایا
جائے گا۔
اس ضمن میں ایک اہم ترین بیان احمد رضا قصوری کا ہے، ان کا شمار مشرف کے
قریبی ساتھیوں میں ہوتا ہے، ان کا کہنا ہے کہ مشرف حکومت سے ڈیل کر کے گئے
ہیں، جس کی تفصیلات بہت جلد سامنے آ جائیں گی۔ گویا حکومت کا یہ بیان کہ وہ
عدالت کے فیصلے کی روشنی میں باہر گئے ہیں، حقیقت پر مبنی نہیں ہے۔ سب
لوگوں کے بیان اپنے اپنے مائنڈ سیٹ کے مطابق ہیں، اگر پی پی اب احتجاج کر
رہی ہے تو اس نے اپنے دور میں مشرف پر مقدمات کو انجام تک کیوں نہیں
پہنچایا، گارڈ آف آنر دیتے ہوئے کچھ تو سوچنا چاہیے تھا۔ رہی مسلم لیگ ن تو
اقتدار کو مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتی، اور نہ ہی اپنے لئے حالات خراب کرنا
چاہتی ہے۔ جو ہونا تھا سو ہوگیا، ایسا ہوتا ہی رہتا ہے، یہاں قانون طاقتور
کے ہاتھ کی چھڑی ہے، وہ جب چاہے، جِدھر چاہے گھما دے۔ |
|