جوہری کانفرنس: پاکستان اورایران کے ایٹمی پروگرام بارے عالمی موقف میں تبدیلی

پاکستان کی طرف سے پہلی بارایٹمی سلامتی کے شعبے میں تربیتی ورکشاپ کاکامیاب انعقادکیاگیاجس میں دنیابھرکے ۹ ۲ ممالک کے حکام نے شرکت کی۔شرکاء نے ایٹمی سلامتی کے شعبے میں پاکستان کے اقدامات کی تعریف بھی کی۔دفترخارجہ کے ترجمان کی طرف سے جاری بیان کے مطابق انٹرنیشنل نیٹ ورک فارنیوکلیئرسیکیورٹی ٹریننگ اینڈ سپورٹس سنٹرکاسالانہ اجلاس ایٹمی توانائی کے بین الاقوامی ادارے (آئی اے ای اے)کے تعاون سے۴۱سے ۸۱مارچ تک اسلام آبادمیں ہوا۔بیان کے مطابق یہ اجلاس پہلی بارآئی اے ای اے کے ہیڈکوارٹرسے باہرمنعقدہواہے۔بیان میں کہاگیا ہے کہ انٹرنیشنل نیٹ ورک فارنیوکلیئرسیکیورٹی ٹریننگ سپورٹ سنٹر موثراورتعاون پرمبنی طریقہ کارکے تحت ایٹمی سلامتی یقینی بنانے کی عالمی کوششوں میں معمول کے مطابق کرداراداکررہا ہے۔اسلام آبادمیں ہونے والے اجلاس میں افغانستان، برازیل، بلغاریہ،چلی، چین جیوتی،ایکواڈور، گھانا، انڈونیشیاء،جاپان، اردن، قازقستان،کینیا، کوریا، لبنان،لیتھونیا، مراکش، میانمار،رومانیہ، روس، سینگال،جنوبی افریقہ ،سوڈان، تھائی لینڈ،برطانیہ، یوکرائن ،امریکہ اورویتنام کے ۶۵ حکام نے شرکت کی۔ورلڈ انسٹی ٹیوٹ آف نیوکلیئرسیکیورٹی اورآئی اے ای اے کے حکام نے بھی اجلاس میں شرکت کی۔بیان کے مطابق ایک ذمہ دارایٹمی ملک ہونے کے باعث پاکستان نے ایٹمی سلامتی کے موثر اقدامات وضع کیے ہیں اوراس نے ایٹمی سیکورٹی کی تربیت کیلئے مناسب صلاحیت قائم کی ہے۔بیان میں کہاگیا ہے کہ پاکستان سنٹرآف ایکسیلنس فارنیوکلیئرسیکیورٹی ایک جدید ادارہ ہے جوملکی اوربین الاقوامی شرکاء کونیشنل انسٹی ٹیوٹ آف سیفٹی اینڈ سیکیورٹی اورپاکستان انسٹی ٹیوٹ آف انجینئرنگ آف اپلائیڈ سائنسز کے تعاون سے ایٹمی سلامتی سے متعلق تربیت فراہم کرتا ہے۔بیان کے مطابق اجلاس کے شرکاء نے مذکورہ اداروں اورپاکستان کے اعلیٰ تربیتی معیار اورایٹمی سلامتی کیلئے اس کے بہترین اقدامات کوسراہا ۔اجلاس میں شرکاء نے ایٹمی سلامتی کے شعبے میں ایک دوسرے کے تجربات اورمعلومات کاتبادلہ کیا۔ایک اوراخبارکی خبر ہے کہ پاکستان نے جوہری موادکے تحفظ کے ترمیمی کنونشن کی توثیق کردی ۔ترجمان دفترخارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ جوہری موادکے تحفظ کی دستاویزپرصدرممنون حسین نے وزیراعظم نوازشریف کی ایڈوائس پر دستخط کیے ۔ اس سے قبل ۴۲ فروری کووزیراعظم نوازشریف کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں نیشنل کمانڈ اتھارٹی نے ترمیمی کنونشن کی اصولی طورپرمنظوری دی تھی۔ترجمان نے کہا کہ پاکستان کی جانب سے جوہری موادکے تحفظ کے ترمیمی کنونشن کی توثیق اس کے ایک ذمہ دارریاست ہونے کاآئینہ دارہے۔واشنگٹن سے خبررساں اداروں کے حوالے سے خبر ہے کہ امریکہ کے صدرباراک اوباما نے کہا ہے کہ ہم ایٹمی سے استفادے کیلئے ایران کے حق کوتسلیم کرتے ہیں۔میڈیا رپورٹ کے مطابق امریکی صدرنے جشن نوروزاورنئے ہجری شمسی سال کی آمدکی مناسبت سے ایرانی قوم کومبارکبادپیش کی۔اپنے تہنیتی پیغام میں صدراوبامانے کہا کہ میں ہرسال نوروزسے استفادہ کرتاہوں تاکہ ایرانی عوام کے ساتھ اس سلسلے میں کس طرح سے ان کے ساتھ تعلقات کے نئے باب کاآغازکیا جائے۔امریکہ اورایران کے دوطرفہ تعلقات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ گذشتہ چندعشروں میں پہلی بارنئے مستقبل کے حوالے سے ایک موقع ہاتھ آیاہے۔انہوں نے کہا کہ گذشتہ برسوں میں بارہا آپ نے سنا ہے کہ میں نے کہا کہ ایران کے ساتھ مشترکہ مفادات اوراحترام کی بنیادپرتعاون کیلئے امریکہ آمادہ ہے۔اوریہ وہی کام تھاجومیں نے کیاہے۔انہوں نے مشترکہ جامع ایکشن پلان ذکرکرتے ہوئے کہا کہ گذشتہ چندبرسوں میں امریکہ اورایران کے سفارتکار اورایٹمی سائنسدان ایک جگہ جمع ہوئے اورانہوں نے آمنے سامنے بات چیت کی۔انہوں نے ایران نے ایٹمی سمجھوتے میں کیے گئے وعدوں پرعمل کیاجس کے بعدعالمی برادری نے ایران کے خلاف عائدپابندیاں اٹھالیں اورایران کاجوسرمایہ بیرون ملک منجمدتھا اس تک اسے دسترس حاصل ہوگئی۔

امریکہ اوردیگرایٹمی قوتیں اپنے دعووں اوربیانات اوراقدامات سے یہی باورکراتی رہی ہیں کہ ایٹمی قوت حاصل کرناصرف انہی کاحق ہے ۔ان کے علاوہ کسی اورملک کویہ اختیارنہیں کہ وہ ایٹمی اسلحہ بنائے یااس تک دسترس حاصل کرے۔اس حوالے سے مسلم اورغیرمسلم ممالک کے درمیان ان کارویہ الگ الگ ہے۔کوئی غیرمسلم ملک ایٹمی قوت بننے کی کوشش کرے تویہ طاقتیں خاموش رہتی ہیں جوں ہی کوئی مسلمان ملک جوہری توانائی حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے توان طاقتوں کودنیاکاامن تباہ ہوتا ہوادکھائی دیناشروع کردیتا ہے۔ہندوستان ایٹمی اسلحہ بناتا رہا تومغربی قوتوں کویہ خیال بھی نہ آیا کہ انڈیا کے ایٹمی ہتھیاربنانے سے دنیا کاامن خطرے میں پڑجائے گا۔ نہ ہی انہیں یہ خیال آیا کہ ہندوستان کے ایٹمی اسلحہ بنانے سے دنیامیں ایٹمی اسلحہ کاپھیلاؤہوجائے گا۔اس کوکسی نے نہیں روکا۔ جوں ہی پاکستان نے ہندوستان کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں اپنے دفاع کیلئے ایٹمی پروگرام شروع کیا تومغربی طاقتوں کی نیندیں حرام ہوگئیں۔پہلے ان قوتوں کی یہ کوشش رہی کہ پاکستان یہ پروگرام شروع ہی نہ کرے۔ذوالفقارعلی بھٹو کواس پروگرام سے بازرکھنے کیلئے امریکہ نے ہرحربہ استعمال کیا ۔ جب پاکستان نے اپناایٹمی پروگرام شروع کردیا تو اس پروگرام کونامکمل رکھنے اورپایہ تکمیل تک نہ پہنچنے دینے کی کوششیں کی جاتی رہیں ۔ان قوتوں کی یہ کوششیں بھی ناکام ہوگئیں ۔جب ایک بارپھرہندوستان نے جوہری تجربات کیے تواس کے جواب میں پاکستان بھی جوہری تجربات کرنے کوتیارہوچکاتھا توامریکہ نے تمام حربے استعمال کرکے پاکستان کوجوہری تجربات سے روکنے کی بھرپورکوشش کی۔امریکہ کی یہ کوشش بھی ناکام ہوگئی۔مغربی قوتیں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں جوبھی منفی کوششیں کیں وہ سب کی سب ناکام ہوئیں۔مغربی طاقتیں جوں جوں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کوبندکرنے یامحدودکرنے کی کوششیں کرتی ہیں پاکستان کاایٹمی پروگرام اس سے بھی زیادہ ترقی کرتاہے۔جب تما م حربے ناکام ہوگئے توپاکستان کے ایٹمی پروگرام کے غیرمحفوظ ہونے اوردہشت گردوں کے ہاتھ لگنے کے خدشات کااس زورسے شورمچایاگیا کہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ مغربی قوتوں کوپاکستان کے ایٹمی پروگرام کی جتنی فکرہے دنیامیں کسی اورچیزکی اس کے ایک فیصد بھی نہیں ہے۔یہاں تک تاثرپھیلانے کی کوشش کی جاتی رہی کہ دہشت گرداب پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ آئے روز فاصلے بھی بتائے جانے لگے تھے کہ دہشت گرداب پاکستان کے اتنے فاصلے پررہ گئے ہیں۔پاکستان میں چاہے جمہوری حکومت رہی یامارشل لاء اورایمرجنسی کادوررہا ۔پاکستان کاایٹمی پروگرام اپنی معمول کی رفتارکے ساتھ جاری رہا۔کسی بھی دورحکومت میں یہ پروگرام معطل نہیں کیاگیا۔نہ ہی کوئی ایسا دورحکومت آیاجس میں پاکستان کاایٹمی پروگرام غیرمحفوظ ہواہو۔پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے غیرمحفوظ ہونے کاشوشہ اب بھی اسی طرح چھوڑاجارہا ہے۔یہاں تک کہاگیا کہ پاکستان اپنے ایٹمی پروگرام کی سیکیورٹی ہمارے حوالے کرے۔پاکستان نے اپنے ایٹمی پروگرام کی حفاظت نہ توپہلے کسی اورکے حوالے کی ہے اورنہ آئندہ کسی اورکے حوالے کرے گا۔اسلام آبادمیں منعقدہ پانچ روزہ جوہری کانفرنس جس میں انتیس ممالک کے حکام نے شرکت کی پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی سیکیورٹی پراطمینان کا اظہارکیا گیا۔پاکستان کی جوہری سیکیورٹی کے انتظامات کی تعریف کی گئی۔پاکستان پہلے بھی بارہا یہ باورکراچکا ہے کہ پاکستان کاایٹمی پروگرام محفوظ ہے۔اب دنیا کے ۹۲ ممالک نے پاکستان کی جوہری سیکیورٹی کے انتظامات کوخوددیکھ لیا ہے اورسراہا بھی ہے۔اب دنیاکاکوئی ملک اورکوئی چینل پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے غیرمحفوظ ہونے کاتاثرپھیلانے کی کوشش نہ کرے۔غیرمسلم ممالک کوتوایٹمی اسلحہ بنانے کی خاموش چھوٹ دے دی جاتی ہے جبکہ مسلم ممالک کے بارے میں پہلے تویہ کوشش کی جاتی ہے کہ یہ ایٹمی پروگرام شروع ہی نہ کریں ۔ جب شروع ہوجاتا ہے توبندکرانے کی کوششیں شروع ہوجاتی ہیں ۔ جب جوہری تجربات کاوقت آتا ہے یاکوئی ملک جوہری تجربات کرلیتا ہے توپھراس مسلمان ملک کوپابندیوں میں جکڑدیاجاتا ہے۔پاکستان کوایٹمی تجربات سے روکنے کی بھرپورکوشش کی گئی۔ جب پاکستان نے یہ تجربات کرلیے توپھرعالمی قوتوں نے پاکستان پرپابندیاں لگادیں جونائن الیون تک جاری رہیں۔دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے کیلئے امریکہ کوپاکستان کی ضرورت پڑی تویہ پابندیاں بھی ختم کردی گئیں۔ان پابندیوں میں بھی پاکستان نے ہمت نہیں ہاری۔ایٹمی پروگرام بھی اسی طرح جاری رہا اوردیگرمعاملات بھی معمول کے مطابق چلتے رہے۔امریکہ کی یہ سوچ تھی کہ پاکستان پابندیوں سے تنگ آکراپناایٹمی پروگرام بندکردے گا۔ ایسا نہ ہوا ہے اورنہ ہی ہوگا۔پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے ہیروڈاکٹرعبدالقدیرخان کے ساتھ جورویہ اختیارکیاگیا وہ ہماری قومی تاریخ کاتاریک باب ہے۔پابندیوں کے مشکل دورمیں سعودی عرب نے پاکستان کوتیل فراہم کیا۔پاکستان کاایٹمی پروگرام اپنے جوبن پرآیا توایران نے بھی اپناایٹمی پروگرام شروع کردیا۔جوں ہی ایران نے ایٹمی پروگرام شروع کیاتوایک بارپھرمغربی قوتوں کی نیندیں حرام ہوگئیں۔ایران کواپناایٹمی پروگرام بندکرنے کاباربارکہا جاتارہا۔ ایران کاایٹمی پروگرام دنیاکیلئے خطرہ قراردیاجانے لگا۔ایٹمی اسلحہ کے پھیلاؤکوروکنے کی باتیں کی جانے لگیں۔ایران بارباریہ وضاحت کرتا رہا کہ اس کاایٹمی پروگرام کسی کے خلاف نہیں صرف اپنے دفاع کے لئے ہے۔مغربی قوتیں ایران کے ایٹمی پروگرام کوبندکرانے کی کوششیں کرتی رہیں ادھرایران نے اپناایٹمی پروگرام جاری رکھا۔اس دوران امریکی ڈرون بھی مارگرائے۔جب ایران کے ایٹمی پروگرام کوبندکرانے کے تمام حربے ناکام ہوگئے توایران پراقتصادی پابندیاں لگادی گئیں۔دنیابھرمیں ایران کے اثاثے منجمدہوگئے۔یہاں تک کہ پاکستان ایران گیس پائپ لائن منصوبہ بھی روک دیناپڑا۔ان سخت معاشی حالات میں بھی ایران نے ہارنہیں مانی ۔یہاں تک کہ مغربی طاقتوں کوایران کے ساتھ معاہدہ کرناپڑا۔ایران کومحدودپیمانے پرایٹمی پروگرام جاری رکھنے کی اجازت دیناپڑی۔مغربی قوتوں کاخیال تھا کہ ایران معاہدے پرپورانہیں اترسکے گا۔ یہ کسی نہ کسی شق کی خلاف ورذی کربیٹھے گا جس سے اس کے ایٹمی پروگرام کوبندکرانے کاپھرموقع مل جائے گااورپابندیاں بھی جاری رہیں گی۔ ایران نے جوہری معاہدے پرعمل کرکے دکھادیا تومغربی قوتوں کوایران پرعائداقتصادی پابندیاں ختم کرناپڑیں۔تجزیہ نگاروں نے اس معاہدے کوایران کی فتح قراردیا ہے۔اب امریکی صدرباراک اوباما نے کہا ہے کہ وہ ایٹمی توانائی کے استفادے کاایرانی حق تسلیم کرتے ہیں۔پابندیوں کے خاتمے کے بعدایران کی اقتصادی ترقی کی راہیں بھی کھل گئی ہیں۔ایران اب جوہری تجربات بھی کررہا ہے۔پاکستان اورایران کے بارے میں مغربی ممالک کی رائے میں تبدیلی سے دوباتیں سامنے آتی ہیں پہلی یہ کہ دنیااب ایٹمی اسلحہ بنانے کے اختیارکے حوالے سے اپنے موقف میں تبدیلی لے آئی ہے۔اب انہوں نے ہارمان لی ہے کہ ایٹمی اسلحہ بنانے کااختیارصرف ان کاہی نہیں دنیاکے تمام ممالک کا ہے۔یہ بات ناممکنات میں سے ہے۔ دوسری بات یہ سامنے آتی ہے کہ دنیاپاکستان کے ایٹمی پروگرام کوبندکرانے کانیاحربہ استعمال کرنے کی پلاننگ کررہی ہے اس لیے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی سیکیورٹی کی تعریف کی گئی ہے۔جس ایٹمی پروگرام کے غیرمحفوظ ہونے کی مغربی قوتوں کوسب سے زیادہ فکرتھی اب اس کے محفوظ ہونے کی تعریفیں کی جانے لگی ہیں۔تاکہ پاکستان اپنے ایٹمی پروگرام کے حفاظتی انتظامات پرتوجہ کم کردے اورہمیں نیاحربہ استعمال کرنے کاموقع مل جائے۔ پاکستان اپنے ایٹمی پروگرام کی حفاظت سے نہ غافل ہوا ہے اورنہ ہی ہوگا۔قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کافرمان ہے کہ یہودونصاریٰ مسلمانوں کے دوست نہیں ہوسکتے۔ پاکستان نے جوہری کانفرنس کاانعقادکرکے اپنے ایٹمی پروگرام بارے مغربی قوتوں کے تمام خدشات، پروپیگنڈے، تفکرات غلط ثابت کردیے ہیں۔ہمارے ادراک میں تویہ بات بھی آرہی ہے کہ جہاں جوہری کانفرنس میں شریک حکام نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے حفاظتی انتظامات کی تعریف کی وہاں وہ قوتیں جن کوپاکستان کاایٹمی پروگرام گلے میں کانٹے کی طرح چھبتا ہے انہوں نے کن انکھیوں سے وہ نقائص تلاش کرنے کی کوشش ضرورکی ہوگی جس کوبنیادبناکروہ یہ باورکرانے میں کامیاب ہوجائیں کہ پاکستان کاایٹمی پروگرام غیرمحفوظ ہے۔یاان نقائص کومستقبل میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں منفی پروپیگنڈے میں استعمال کرسکیں ہمیں یقین ہے کہ وہ اس میں بھی ناکام رہے ہیں۔ان سے خیرکی توقع نہیں کی جاسکتی۔
Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 394 Articles with 304704 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.