لے پالک جمہوریت کو فولادی ٹُھڈا

کمانڈو ایک بار پھرجمہوریت کے" بچے جموروں"کو مُکے دِکھاتا،لے پالک جمہوریت کو ٹُھڈے لگاتا ہوا ،آمری ڈگڈگی بجاتا، سیاسی کھلاڑیوں کی سیاسی نابالغی کا فائدہ اُٹھاتا ہوا رات کے اندھیروں میں پورے حکومتی پروٹوکول کے ساتھ اور حکومتی آہنی حصار میں " سب سے پہلے اپنی جان" کا نعرہ گنگناتا ہوا اپنے کسی " لاعلاج " مرض کا علاج کروانے بیرون ملک چلا گیا۔
کمانڈو ایک بار پھرجمہوریت کے" بچے جموروں"کو مُکے دِکھاتا،لے پالک جمہوریت کو ٹُھڈے لگاتا ہوا ،آمری ڈگڈگی بجاتا، سیاسی کھلاڑیوں کی سیاسی نابالغی کا فائدہ اُٹھاتا ہوا رات کے اندھیروں میں پورے حکومتی پروٹوکول کے ساتھ اور حکومتی آہنی حصار میں " سب سے پہلے اپنی جان" کا نعرہ گنگناتا ہوا اپنے کسی " لاعلاج " مرض کا علاج کروانے بیرون ملک چلا گیا۔
فلم شعلے کا مشہورِ زمانہ سین اور ڈئیلالگ یاد آ گیا جو تھوڑی سی ذاتی ترمیم کے بعد نئے HD پرنٹوں کے ساتھ آپکی خدمت میں پیش ہے۔
کتنے آدمی تھے ؟؟؟
" سرکار ایک تھا حضور"
وہ ایک اور تم لوگ وزیروں مشیروں کی پوری فوج،پھر بھی تم اُسکو نہ روک سکے؟
" سرکار وہ کہتا تھا میں کمانڈو ہوں،میں ڈرتا ورتا کسی سے نہیں"
اچھا۔۔۔تو پھر؟
" سرکار وہ ہم سب کو چونا لگا کر بڑے آرام و اطمنان سے چلا گیا،حضور جاتے جاتے یہ بھی کہہ گیا کہ اپنے سردار کو بتا دینا میں واپس پھر آﺅں گا"

اِدھر مشرف کے جانے کی میڈیا رپورٹس آنا شروع ہوئیں ہی تھیں کہ حکومتی سیاسی مخالفین کو تو بس جیسے اپنے اپنے پرانے حساب برابر کرنے کا موقع ہاتھ آ گیا۔خود حکومتی صف میں بھی سابق صدر پرویز مشرف کے بیرون ملک جانے پر ملال ہوا بلکہ کچھ نے تو اپنی باقاعدہ ناراضی کا برملا اظہار بھی کیا۔ پرویز مشرف کے بیرون ملک جانے سے کئی سوالات جنم لیتے ہیںکہ آخر کون سے ایسے محرکات اور وجوہات تھیں یا کون کسی ایسی مجبوریاں یا اندرونی یا بیرونی دباﺅ تھاجس کے آگے حکومتی " شیر" آخر ڈھیرکیسے ہو گئے۔

ذرامملکت خُدا داد کے وزیر داخلہ چوہدری نثار کی معصومیت تو دیکھیں، موصوف تو کہتے ہیں کہ سابق صدر پرویز مشرف بیمار تھے ،انکا نام ای سی ایل میں ضرور تھا مگر عدالت کے حکم پر ہم نے مشر ف کا نام ای سی ایل سے نکال دیا اور اپنا علاج کرانے بیرون ملک چلے گئے۔ چوہدری نثار کو یہ نہیں پتہ تھا کہ مشرف تو محترمہ بے نظیر بھٹو کیس میں نامزد ہیںاور لال مسجد آپریشن میں ہلا ک ہونے والے عبدالرشید غازی کیس میں بھی نامزد ہیں۔چوہدری صاحب کو تو یہ بھی یاد نہیں رہا کہ 12 اکتوبر1999کو اُنہیں کی سیاسی جماعت کی منتخب،ہیوی مینڈیٹ اور آئینی حکومت کا اِسی آمر نے کمانڈو ایکشن کے ذریعے تختہ الٹایا تھا ۔چوہدری صاحب کو تو یہ بھی بھول گیا ہوگا کہ یہی وہ شخص ہے جس نے 3 نومبر2007 کو ملک میں ایمرجنسی لگائی تھی۔آئین توڑنے والے کی سزا موت ہے جو آئین میں درج ہے ۔اِن تمام غیر قانونی و سنگین غیر آئینی اقدامات کے باوجود مشرف کو محفوظ راستہ دینا عام آدمی کی بھی سمجھ سے بالا ہے۔بھلا پھر عام پاکستانی کے لئے پیغام کیا ہوگا ؟ ؟؟

ملک ابھی نامولود ہی تھا کہ جنرل یحیٰ نے آئین توڑ ڈالامگرپورے اعزاز کے ساتھ رخصت کیا گیا ۔ ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ جنرل ایوب خان نے بھی آئین کو روند دیا۔کیا بگاڑ لیا ایوب خان کا بھی ؟ خدا خدا کر کے ملکی تاریخ کی پہلی جمہوری حکومت بنی ہی تھی کہ اُس وقت کے آمر نے آمریت کی دو شاخہ تلوار سے ایک طرف تو بھٹو صاحب کو پھانسی کے پھندے پر لٹکایا جب کہ دوسری طرف جمہوری حکومت کابھی تختہ اُلٹ دیا۔کیا بگاڑ لیا جنرل ضیاءالحق کا ؟ پورے اعزازات کے ساتھ فیصل مسجد کے احاطہ میں دفنایا گیا۔تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس ملک میں آئین اور قانون کس کے لئے بنایا گیا ہے؟ کیا قانون کی حکمرانی اورآئین کی بالادستی صرف اور صرف عام پاکستانیوں کے لئے ہی ہے ۔یحیٰ ،ایوب ،ضیا اور مشرف قانون اورآئین ِ پا کستان سے بالا تھے جو انکا کو مائی کا لال بال بھی بیگا نہ کر سکا۔

پارلیمنٹ ہاﺅس کے فلور پر عمران خان کی آمد پر" کوئی شرم ہوتی ہے ،کوئی حیا ہوتی ہے،کوئی ایتھک ہوتے ہیں" جیسے تاریخی ڈائیلاگ مارنے والے خواجہ آصف سے ذرا پوچھو کہ اب آپ اپنی حکومت کے لئے کیا کہنا چاہیں گے اپنی ؟ خواجہ سعد رفیق اب کس منہ سے مشرف پر جملے کسیں گے جو اپنی ہر پریس کانفرنس میں للکار للکار کراپنے نیم بیٹھے ہوئے گلے سے بڑکیں لگاتے رہے کہ مشرف نے آئین کو دو مرتبہ توڑنے کے مرتکب ہوئے ہیں ا نکو کسی صورت ملک سے بھاگنے نہیں دیا جائے گا۔اور احسن اقبال کس طرح اپنی عوام کا سامنا کریں گے جو یہ تک کہتے رہے ہیں کہ اگر پرویز مشرف ملک سے باہر گئے تو وہ سیاست تو دور کی بات اپنے ہر من پیارے قائد میاں نواز شریف سے منہ موڑ لیں گے۔رہی بات پرویز رشید کی تو انکا تو مقابلہ ہی نہیں بنتا ،انکا تو کام ہی حکومت کے پُرانے منجن کو نئی دیدہ زیب پیکنگ میں بیچ کر معصوم بھولی بھالی عوام کو بے وقوف بنانا ہے ورنہ وہ بھلا تنخواہ کس بات کی لیتے ہیں؟

شیر پنجاب جناب شہباز شریف صاحب ،آصف علی ذرداری کو تو آپ لاہور،لاڑکانہ اور کراچی کی گلیوں میں گھسیٹ نہ سکے پر حضورِ والا آئین اور آپکی حکومت توڑنے والے پرویز مشرف کو تو بیرون ملک بھاگنے نہ دیتے بھلا۔عوام کی آپ پر نظریں لگی ہوئی تھیں جناب ۔ آپ تو عوام کے پسندیدہ ترین اور مقبول ترین لیڈر ہیںآپ ہی ذرا میٹرو بس اور اورنج ٹرین سے تھوڑی سی توجہ وسعی تر ملکی مفاد میںاس جانب فرماتے اور مشرف کو ملک سے بھا گنے نہ دیتے ۔ٹویٹر پر سرگرم نون لیگی واحد خاتون محترمہ مریم نواز شریف صاحبہ آپ کے شیر کہاں گئے ؟ آپ تو کسی بھی محاذ پر اپنی قیادت و کارکنوں کی اکیلا نہیں چھوڑتیں ،پھر آپکے ٹویٹر اکاﺅنٹ پر یہ پُر اسرار خاموشی کا کیا مطلب لیا جائے؟ کیا سبھی نون لیگی رہنماﺅں کی خاموشی کو " رضامندی" سمجھی جائے ؟؟ یا پھر کوئی بڑی مجبوری سمجھا جائے ؟؟

عوام جاننا چاہتی ہے کہ آخر کیا معاملہ ہوا ہے ؟ کیا سٹوری بنائی گئی یا پھر کیا کوئی ڈیل کا حصہ تھا جو نون لیگی حکومت نے پرویز مشرف کو رات کے اندھیروں میں بیرون ملک جانے دیا۔کہیں ایسا تو نہیں ہوا کہ NRO کے خالق کے ساتھ بھی ایک اور NRO معاہدہ ہو گیا ہے؟ یا پھر اپنی حکومت کو پورا کرنے کے لئے اور افواجِ پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کی" مزید" بہتری کو تسلسل میں رکھنے کے لئے اپنی پرانی"روایتی اَنا" کی قربانی دینا پڑی ؟جو بھی ہوا ہے آخر ایک دن سب کے سامنے تو آ ہی جائے گا۔مگر یاد رہے ہماری آنے والی نسلیں تمام آئین شکنوں کو باعزت راہِ فرار فراہم کرنے والوں، اعزازات کے ساتھ محفوظ راستہ دینے والے سیاستدانوں اور ذمہ داروں کو کبھی بھی معاف نہیں کریں گی۔اوریہ بھی یاد رہے کہ اگر آمروں اور آئین شکنوں کو اسی طرح پروٹوکول ملتارہا تو اِس ملک میں آئین بھی ٹوٹتا رہے گا ،مُکے بھی لہراتے رہیں گے اور فولادی ٹُھڈے بھی پڑتے رہیں گے۔
Sarfraz Awan
About the Author: Sarfraz Awan Read More Articles by Sarfraz Awan: 14 Articles with 10811 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.