1 کروڑ اللہ کے بندوں کی ضرورت ہے۔؟
(ajmal malik, faisalabad)
یہاں جس کا ہاتھ نہیں پڑا وہ شریف ہےاور جوبچ گیا و ہ بے گناہ ہے۔یہ بستی جھوٹ پر قائم ہےلیکن سیاست دان سارے پاوتر ہیں۔دوزخ خالی پڑی ہے کیونکہ شیطان ابھی زندہ ہیں۔ ہم ابلیسی بستی کے باسی ہیں۔جماعت اسلامی کہتی ہے امریکہ شیطان اعظم ہے ۔لیکن امریکی کہتے ہیں ’’ سیاستدان اور ڈائپرز ایک ہی وجہ سے بروقت تبدل کرلینے چاہیں‘‘۔۔۔یہاں شریف ابن شریف اوربھٹو ابن بھٹو کا دور ہے،تحریک انصاف اور جماعت اسلامی تو بانجھ نکلیں ،وارث بھی نہ دے سکیں۔۔۔۔ |
|
|
سراج الحق کرپشن فری پاکستان مہم کے دوران دستخط کرتے ہوئے |
|
میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں ۔
یہ شعر جانےکس کا ہے لیکن ملکی سیاست کی حقیقی تشریح ہے۔حرام کی کمائی کا
مقدر پہلے نالی پھر گٹر ہوتا ہے۔سیاست کا’’طوائف‘‘سے دامنی تعلق ہے۔طوائف
چولی ہے ۔کیونکہ طوائف جب رقاصہ تھی تب سیاست درباروں میں تھی۔1857کےبعد’’حضوروالا‘‘درباروں
سےایوانوں میں توآگئے لیکن اقبا ل اُن کا بلند ہی رہا۔زنجیر عدل کا شوشہ
ٹوٹا تو رعایا اورفریادی مزیدکھجل ہوئے لیکن طوائف ۔ نادھن ۔دھنا پر تھرکتی
ہوئی حضور والا کے پیچھے ہی رہی۔طوائفوں کو ایوانوں میں جگہ نہ ملی تو
منڈیاں آبادہو گئیں۔حضوروالا آج بھی چم کی چلا رہے ہیں۔وہ مالک بننے
کےلئے نوکرکا پارٹ پلے کر رہے ہیں۔ایسے نوکر۔جنہیں اپنا شجرہ نسب بنانے کی
مہلت بھی نہیں۔انہیں پتہ ہے یہ کام سیاسی مخالفین کا ہے۔یہاں جھوٹ کا
ڈھنڈورا ۔اتنا پیٹا جاتا ہے کہ سچ لگے۔جھوٹےہر چار پانچ سال بعدہمیں ملتے
ہیں۔ہم ان کا مان سمان کرکے سچا مان لیتے ہیں۔
منیجر( امیدوار سے):مجھے پتہ ہے کہ تمہارے سی وی پرلکھی ہوئی ہر بات جھوٹی
ہے ۔اس لئے میں تمہیں سیلز مین کی نوکری پر رکھتاہوں ۔
پاکستان کے بیشتر سیاستدانوں کی سی وی۔سیلز مین جیسی ہے۔جھوٹی۔سیاست گر ۔وفا
کی منڈی کے’وڈے‘بیوپاری ہیں اور ہم بے وفائی جنس ہیں۔دنیا میں کئی معاشرے
معاشی کرپٹ ہیں۔ ہم سیاسی کرپٹ بھی ہے۔یہاں جرم کی نشاندہی کرنا کےجرم
برابر ہے۔ٹیکس چور۔ بلکہ این آر او زدہ معاشرہ۔یہاں مَجھ ۔دوسری مَجھ کی
بہن ہے۔لٹیرے۔لٹیروں کے ساتھی۔رشوت لے کر رشوتی مقدمات دبانے والے
اجرتی۔قرضے معاف کرا۔کے مزید قرضے لینے والے رسہ گیر۔ بے کس مقروضوں کی
جائیداد قُرقنے والے گروپ۔یہاں لاٹھی اور بھینس والا قانون ہے۔میں بھی اسی
معاشرے کی جنس ہوں۔میں نے کئی بار دوستوں کی آواز پر لبیک کہہ کے ووٹ ڈالا
۔پھر جیتنے والوں نے گھاس بھی نہ ڈالا۔اجناس پھر پک کر تیار ہیں بس
سوداگروں کاانتظار ہے۔
یہاں جس کا ہاتھ نہیں پڑا وہ شریف ہےاور جوبچ گیا و ہ بے گناہ ہے۔یہ بستی
جھوٹ پر قائم ہےلیکن سیاست دان سارے پاوتر ہیں۔دوزخ خالی پڑی ہے کیونکہ
شیطان ابھی زندہ ہیں۔ ہم ابلیسی بستی کے باسی ہیں۔جماعت اسلامی کہتی ہے
امریکہ شیطان اعظم ہے ۔لیکن امریکی کہتے ہیں ’’ سیاستدان اور ڈائپرز ایک ہی
وجہ سے بروقت تبدل کرلینے چاہیں‘‘۔ امریکہ ہمارے جوتے کی نوک پر ۔ ہم
اسلامی پاکستان کے باسی ہیں ۔ کلمے کے نام پربننے والی دنیا کی دوسری
اسلامی ریاست کے باسی۔ لا الہ اللہ کی بازگشت سننے کے خواہش مند پاکستانی ۔یہاں
بننے والی شراب’’اسلامی‘‘ ہے اور جُوابھی ۔یہاں اسلامی سود،حلال رشوت
اورشرعی کمیشن بھی چلتا ہے۔یہاں ناجائز کو جائز کہنے کامذہبی جوازبھی موجود
ہے۔ایک سیاسی دعوت میں اچانک ہنگامہ ہو گیا کیونکہ وزیر صاحب لیگ پیس اٹھا
کر کھا گئے۔
دوسراوزیر: یہ آپ نے کیا۔کِیا؟
وزیر:مرغے کی ٹانگ قبلہ رخ پڑی تھی ۔
’’اسلامی کرپشن نے ہماری خوشحالی کو گروی رکھ چھوڑا ہے۔سیاستدانوں کے
سالانہ گوشواروں میں کرپشن کا خانہ بھی شامل ہو جائے تو بھلا ہو گا۔یہاں کے
لٹیرے اسلامی قزاق ہیں۔قومی سلامتی کے دشمن۔احتساب بیوروکی ’’150میگا کرپشن
کیسز ‘‘نامی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع ہو چکی ہے۔وزیر اعظم نواز شریف،
شہبازشریف، زرداری،گیلانی، ڈار، پرویز اشرف، شجاعت اور پرویز الٰہی سمیت
بڑے بڑے حضوروں کی رپورٹ ۔ وہی بے ڈھنگی چال جو پہلے تھی سو ۔اب بھی
ہے۔حضوروں کا اقبال ابھی بلند ہے۔چئیرمین نیب کہتےہیں کہ یہاں سالانہ
4380ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہےاور ہمارا قرض صرف 70 ارب ڈالر ہے۔
’’حضوروں‘‘نے خزانہ لوٹ کر375 ارب ڈالر بیرونی بنکوں میں چھپارکھے ہیں۔ثبوت
بھی موجود ہیں لیکن بلی بغیر گھنٹی کے پھر رہی ہے۔
نیب ایک کرپٹ سیاستدان کو پکڑنے پہنچی۔گھنٹی بجائی۔ نوکرنے پوچھا:جی کس سے
ملنا ہے؟
آفیسر:جاؤ اپنے صاحب سے کہو کہ نیب والے آئے ہیں۔
نوکر:واپس آکر:صاحب تو گھر پر نہیں ۔
آفیسر :ٹھیک ہے ۔ لیکن اپنے صاحب سے کہنا کہ جب بھی گھر سے نکلیں اپنا
سرساتھ ہی لے جایا کریں۔ کھڑکی میں نہ رکھا کریں ۔
پاکستان میں ہزاروں سرکاری و غیر سرکاری سر کھڑکیوں میں پڑے ہیں ۔شائد
کھوپڑیوں سےتین چار بار بر ج الخلیفہ تعمیر ہو جائے۔پاکستان بچپن سے ہی
سیاسی اور مذہبی غیر سیاسی تحریکوں کی آماجگاہ ہے۔کار خیر میں سب کا حصہ
حسبِ توفیق ہے۔کچھ تحریکیں تو منہ کے بل گر یں اور کچھ کامیاب بھی ہو ئیں
لیکن انقلاب فرانس نہ آیا۔خربوزوں کی راکھی گیدڑ ہم نےخود بٹھائے ۔مذہبی
سیاست کرنے والے وزارتیں لے بیٹھے اور سیاست کو مذہب کہنے والےوراثتیں لے
کر بیٹھے۔یہاں کے بلال ہمیشہ حبشی غلام رہیں گے۔یہاں شریف ابن شریف اوربھٹو
ابن بھٹو کا دور ہے،تحریک انصاف اور جماعت اسلامی تو بانجھ نکلیں ،وارث بھی
نہ دے سکیں۔
جماعت اسلامی واحد جماعت ہے جو’’ڈائپرز‘‘والی امریکی مثال مانتی ہے۔جماعت
کی شوری نے ابن مودودی( حیدرفاروق) کے بجائے پہلا قرعہ میاں طفیل محمد کے
نام نکالا۔پھرقاضی حسین احمد۔سید منورحسن اوراب سراج الحق ۔جماعت اسلامی کے
امیر ہیں اور دل کےامیربھی۔ اتنا بڑا دل کہ ڈاکٹرز بیماری سمجھنے لگیں۔امیر
کا گھر غریب کا ٹھکانہ ہے۔گھرکےگیٹ سےپانی کی بوتل ٹنگی ہے تاکہ وہ خود بند
ہوجائے۔سراج الحق 1989میں اسلامی جمعیت طلبہ کےناظم اعلی منتخب ہوئے ۔ حلف
اٹھانے کی باری آئی تو ذمہ داری کے خوف سے رو ۔ رو کر نہال ہو گئے
۔پروفیسر خورشید اور سید منورحسن نے حوصلہ دیا ۔ وہی سراج الحق آج جماعت
کے امیر ہیں۔۔آج بھی وہ۔ جی تھری نہیں تھری جی کی بات کرتے ہیں۔انہوں نے
پڑھائی کا خرچہ چرواہا بن کر اٹھایا اورہوسٹل کی فیس مزدوری کرکے ادا
کی۔کئی بارالیکشن جیتا ۔وزیر خزانہ بھی رہے۔غیر ملکی دوروں پرمہنگے ہوٹلوں
کے بجائے مساجد میں سو رہے۔فٹ پاتھ پر بیٹھ کر نان چنے کھانے والے
امیر۔سراج
پاکستانی سسٹم میں سب سے شفاف دِکھنے والی چیز کرپشن ہےاور یہ پوشیدہ نہیں
برہنہ ہے۔برہنگی کا راستہ جماعت اسلامی روکناچاہتی ہے۔سراج الحق نے یکم
مارچ 2016سےکرپشن فری پاکستان مہم شروع کر رکھی ہے۔وہ کہتے ہیں حکومت مالی،
اخلاقی اور نظریاتی ساری کرپشن میں ملوث ہے۔نیب کے پر اور ناخن نہ کاٹے
جائیں۔ مہم کا ہدف کرپٹ نظام اور کرپٹ اشرافیہ کا خاتمہ ہے۔وہ بھی اربوں
لوٹنے کی بات کرتے ہیں۔ کہتے ہیں قومی ادارے یوں بکے جیسے کمہار گدھے بھی
نہیں بیچتا۔ کرپشن مخالف مہم31مارچ تک جاری رہے گی۔آگاہی واک اورموٹر
سائیکل ریلیاں ہوں گی۔ کیمپس بھی لگائے جائیں گے۔ایک کروڑ افراد سے دستخط
لئے جائیں گے ۔
استاد : پاکستان ایک دن کرپشن فری ہو جائے گا ۔ یہ کون سا Tense ہے۔؟
طالبعلم: Future impossible tense.
طالب علم کاجواب اپنی جگہ۔ لیکن مولانا رومی کہتے ہیں کہ’’میں نے بہت سے
انسان دیکھے ہیں جن کے بدن پر لباس نہیں ہوتا اور بہت سےلباس دیکھے ہیں جن
کے اندر انسان نہیں ہوتا‘‘۔ہمارے ہاں بھی لباس کی بہتات اورانسانوں کا
انحطاط ہے۔میری آواز جماعت اسلامی کی آواز میں شامل ہے۔انسدادکرپشن مہم
کا میں ادنیٰ مجاہد ہوں۔لیکن احتساب کا بِیڑاصرف جماعت کیوں
اٹھائے۔حضورِوالا کا اقبال سر نگوں کرنے کا قلعہ صرف سراج کیوں سر
کرے۔؟جماعت اسلامی کی ڈیڑھ اِٹی مسجد میں توسیع کب ہو گی۔؟ایک کروڑ دستخط
جانے کب پورے ہوں گے؟۔میں نے تو دستخط کر دئیے ہیں۔ضمیر فروشوں کی منڈی سے
ایک جنس کم ہوگئی ہے۔طوائف بھی تماش بینوں کے چنگل سے نکل آئے تو سواد
آجائے۔! |
|