جی ہاں عینک کے بغیر ہمارا گزارا نہیں ۔۔۔۔
اور ماشاء اللہ ہمارے چھوٹے صاحب زادے موقعے کی تلاش میں رہتے ہیں کہ کب
والدہ محترمہ وضو کے لئے اکلوتی عینک اتاریں اور کب وہ اس پر ہاتھ صاف کریں
۔۔۔ اب دیکھیں نا کمبخت مل کر نہیں دے رہی اور ہمارا کچھ بھی پڑھنا لکھنا
مشکل ہوگیا ہے ۔۔ دور کی ہوتی تو صبر شکر کر کے بیٹھ جاتے ۔۔۔۔ لیکن قریب
کی نظر کا چشمہ ہے اور پڑھنے کا جنون کہاں سے قرار آئے گا پھر ۔۔۔۔ خیر
ہماری تو صرف نظر کا مسئلہ ہے لیکن ہمارے سیاسی بھائی لوگوں کی سیاسی بصیرت
کو دیکھ کر تو ایسا لگتا ہے کہ ایک سیاسی عینک کی انہیں بھی ہماری طرح
ضرورت ہے ۔۔۔۔۔ اور پھر حکومتی عہدیداران کے تو کیا کہنے انہیں تو چشمے کے
ساتھ بھی عوام نظر نہیں آتی ۔۔۔۔ اگر کچھ نظر بھی آتا ہے تو اقتدار کی کرسی
صاحبہ جس کے لئے سیاستی بازار میں ہر وقت ہلچل مچی رہتی ہے ۔۔۔۔ اب دیکھیں
نا تھر کے بھوکے بھوکے پیاسے اپنے ہم وطن کسی کو نظر نہیں آتے۔۔۔ بستیاں
اجڑ گئیں امداد کے کھوکلے نعروں کے درمیان ۔۔۔لیکن ملک کے اس پار سری لنکن
بھائی جانوں پر پڑی آفت دور سے بھی نظر آگئی ۔۔۔۔ کہتے ہیں نا یا شیخ اپنی
اپنی دیکھ لیکن ہماری حکومت کتنی بھولی ہے اگر اسے کچھ نظر بھی آتا ہے تو
اقتداز ۔۔۔۔
آج کل ریٹنگ کا بڑا زور ہے ۔۔۔۔ اور میڈیا پر ماشاءاللہ مارننگ شوز اس میں
پیش پیش ہیں ۔۔۔۔ خوبصورت بنی ٹھنی ہوسٹس کے تو کیا کہنے ایک سے بڑھ کر ایک
۔۔۔مہنگے ترین لباسوں کی بہار اور میک اپ کی تہیں جمائے یہ ہوش ربا ادائیں
دکھاتی خواتین اپنے معصوم گھریلو خواتین کو چادر اور چار دیواری سے تو باہر
نکال ہی دیا ہے ۔۔۔ اور ساتھ ہی بےچارے شوہروں کی جیبیں بھی ہلکی کرنے کا
سبب بن رہی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ کسی زمانے میں اکلوتا پی ٹی وٰی ہوتا تھا ۔۔۔صبح کا
آغاز تلاوت قرآن اور پھر اخلاقیات سے بھرے شوز ٹیلی کاسٹ ہوتے تھے ۔۔۔
شائستہ لب ولہجہ سے میزبان اور مہمان کے ادبی ذوق کا پتا چلتا تھا ۔۔۔۔۔ آج
کل تو صبح ہی صبح ناچنے اور گانے سے ہمارے چینلز شروعات کرتے ہیں ۔۔۔۔۔ اور
اخلاقیات کا تو پتانہیں البتہ واہیات گفتگو اور بے مقصد لایعنی باتوں کے
علاوہ کچھ اچھا سننے کو نہیں ملتا ۔۔۔۔۔۔۔ مگر کیاکیا جائے آج کل کا یہی
ٹرینڈ ہے ۔۔۔۔ میڈیا کو بھی لگتا ہے ہماری طرح ایک عدد عینک کی ضرورت ہے وہ
بھی اخلاقیات کی ۔۔۔۔ شاید لگانے سے کچھ بہتری آئے۔۔۔۔۔
جاتے جاتے عوم الناس پر بھی بات ہوجائے ۔۔۔آج کل ہم سب کی قووت برداشت ختم
ہوتی جارہی ہے ۔۔۔ ہر کوئی مہنگائی کا رونا روتا نظر آتاہے۔۔۔۔ مانتے ہیں
مہنگائی کا جن بے قابو ہوچکا ہے اور اسے قابو کرنا ہم کمزور عوام کے بس میں
نہیں لیکن جناب اس کے ذمہ دار کون ہیں۔۔۔ ہمارا بھولپن جو ہردفعہ مطلب پرست
سیاسی شاطروں کی چکنی چپڑی باتوں میں آجا تا ہے یا پھر ہم میں سوچنے سمجھنے
کی صلاحیت ختم ہوچکی ہے جس کے سبب ہمیں لارے لپے دے کر الیکشن میں سیٹین
پکی کی جاتی ہیں اور پھر ہمیشہ کی طرح ہمیں چائے میں گری مکھی سمجھ کر باہر
پھینک دیا جاتا ہے۔۔۔۔ عام آدمی کی تو دور کی نظر اور قریب کی نظر دونوں ہی
لگتا ہے خراب ہوچکی ہے جس کے سبب سوچے سمجھنے کی قووت بھی متا ثر ہوئی ہے
۔۔۔۔ یا پھر ہم سب آنکھیں بند کرکے ان کرپٹ سیاست دانوں کے پیچھے چلنے کے
اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ اگر ایسی کوئی عینک ایجاد ہوتی بھی ہے تب بھی اسے
پہن کر آنکھیں بند کر کے ہی چلیں گے ۔۔۔۔ ہماری مثال ریوڑ کیطرح ہے جدھر
بھی ہانک دو چل پڑے ۔۔۔۔ اچھا تو چلیں جناب یہیں پر اختتام کرتے ہیں اپنی
بات کا ۔۔۔۔ ابھی عینک صاحبہ کو بھی ڈھونڈنا ہے نا جانے گھر کے کس کونے میں
جا چھپی ہیں مل کر ہی نہیں دے رہیں ۔۔۔۔ فی امان اللہ
۔ جہاں رہیں سب خوش رہیں اور ہماری عینک کے ملنے ۔ |