’وقت یکساں نہیں رہتا یہ بتاد و اس کو ‘
(Nazish Huma Qasmi, Mumbai)
دہلی میں منعقد ہ انٹرنیشنل صوفی ازم کانفرنس سے وزیر اعظم اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے اپنے والہانہ لگاؤ اور اسلام کی صحیح تصویر پیش کررہے تھے اور دنیا کو یہ تاثر دینے کی کوشش کررہے تھے کہ ہمارے ملک ہندوستان کے مسلمان ہمارے ساتھ ہی نہیں بلکہ اسلام کا ایک بہت ہی اہم شعبہ صوفیت جس کے اراکین ہمیشہ سے درویش رہے ہیں اور ارباب حکومت سے کنارہ کشی کئے رہے ہیں وہ بھی ہمارے ساتھ ہیں اور انہوں نے اپنے مخصوص پروگرام میں ہمیں مہمان معزز کی حیثیت سے بلایا ہے ۔ لیکن انہی دنوں جھارکھنڈ میں ایک پندرہ سالہ معصوم بچے کی اس کے ایک عزیز رشتہ دار سمیت جان لے لی گئی، حملہ آوروں نے پہلے انہیں زدوکوب کیا پھر اپنی وحشیانہ حرکتوں پر عمل کرتے ہوئے انہیں پھانسی دے دی گئی، یہ ہندوستان میں کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے جس میں چند سرپھروں اور انسانیت کے دشمنوں نے معصوموں کی جان لی ہے اس سے قبل بھی اس طرح کے بے شمار واقعات منظر عام پر آچکے ہیں، دادری کا واقعہ ہو یا پھر جھارکھنڈ کا حالیہ واقعہ ان تمام میں ایک ہی ذہنیت کارفرما ہے، یہ وہ درندے اور بھیڑیے ہیں جو جانور کے نام پر انسانوں کی جان لیتے ہیں، حالانکہ جس طرح دادری کے واقعہ میں یہ بات واضح ہوئی تھی کہ مرحوم اخلاق کے گھر میں بکرے گوشت تھا یہاں بھی بات واضح ہے کہ یہ لوگ بیوپاری تھے جو بڑے جانور وںکی خرید و فروخت کا کام کرتے تھے لیکن پولس اور انتظامیہ اس معاملہ کو بھی دبانے کی کوشش کررہی ہے، اور یہ کوشش کی جارہی ہے کہ معاملہ کو جلد از جلد ختم کردیا جائے ۔ |
|
دہلی میں منعقد ہ انٹرنیشنل صوفی ازم
کانفرنس سے وزیر اعظم اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے اپنے والہانہ لگاؤ
اور اسلام کی صحیح تصویر پیش کررہے تھے اور دنیا کو یہ تاثر دینے کی کوشش
کررہے تھے کہ ہمارے ملک ہندوستان کے مسلمان ہمارے ساتھ ہی نہیں بلکہ اسلام
کا ایک بہت ہی اہم شعبہ صوفیت جس کے اراکین ہمیشہ سے درویش رہے ہیں اور
ارباب حکومت سے کنارہ کشی کئے رہے ہیں وہ بھی ہمارے ساتھ ہیں اور انہوں نے
اپنے مخصوص پروگرام میں ہمیں مہمان معزز کی حیثیت سے بلایا ہے ۔ لیکن انہی
دنوں جھارکھنڈ میں ایک پندرہ سالہ معصوم بچے کی اس کے ایک عزیز رشتہ دار
سمیت جان لے لی گئی، حملہ آوروں نے پہلے انہیں زدوکوب کیا پھر اپنی
وحشیانہ حرکتوں پر عمل کرتے ہوئے انہیں پھانسی دے دی گئی، یہ ہندوستان میں
کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے جس میں چند سرپھروں اور انسانیت کے دشمنوں نے
معصوموں کی جان لی ہے اس سے قبل بھی اس طرح کے بے شمار واقعات منظر عام پر
آچکے ہیں، دادری کا واقعہ ہو یا پھر جھارکھنڈ کا حالیہ واقعہ ان تمام میں
ایک ہی ذہنیت کارفرما ہے، یہ وہ درندے اور بھیڑیے ہیں جو جانور کے نام پر
انسانوں کی جان لیتے ہیں، حالانکہ جس طرح دادری کے واقعہ میں یہ بات واضح
ہوئی تھی کہ مرحوم اخلاق کے گھر میں بکرے گوشت تھا یہاں بھی بات واضح ہے کہ
یہ لوگ بیوپاری تھے جو بڑے جانور وںکی خرید و فروخت کا کام کرتے تھے لیکن
پولس اور انتظامیہ اس معاملہ کو بھی دبانے کی کوشش کررہی ہے، اور یہ کوشش
کی جارہی ہے کہ معاملہ کو جلد از جلد ختم کردیا جائے ۔ موجودہ حالات کے پیش
نظر یہ واضح ہے کہ اب فرقہ پرستی کے دلدادہ درندہ صفت بھیڑیے مکمل طور پر
آزاد ہیں، ہندوستان کے قانون کی حیثیت ان کے نزدیک ردی کے ٹوکرے کی بھی
نہیں ہے، جو معاملہ پولس کے ذریعہ عدالت تک جانا چاہئے اب ان مقدمات کی
شنوائی خونی بھیڑیے کررہے ہیں، جس کا فیصلہ عدالت میں ہونا چاہیے اس کا
فیصلہ اب دن دہاڑے سڑکوں پر موت کی شکل میں رونما ہورہا ہے، آئے دن اس طرح
کے واقعات پیش آرہے ہیں لیکن حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے بلکہ ان
خونیوں کی حکومت پشت پناہی کررہی ہے ورنہ کیا مجال ہے کہ ایک واقعہ کے بعد
دوسرا واقعہ رونما ہوجاتا، اگر قانون سختی سے ان سے نمٹنے کی کوشش کرتا تو
یہ حادثے بار بار پیش نہیں آتے ۔ ایک طرف تو ہماری حکومت دنیا کو یہ باور
کرانے کی کوشش کررہی ہے کہ ہم سب کے ساتھ ہیں، ہم سب کو ایک ساتھ لے کر چل
رہے ہیں لیکن دوسری طرف جس طرح مسلمانوں اور دلتوں کے خلاف محاذ بناکر
انہیں بے یار و مددگار کرنے کا لائحہ عمل طے کیا جارہا ہے اگر اس پر بروقت
کارروائی نہیں ہوئی تو ہندوستان میں امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھنا
ایک خواب ہوجائے گا، ایک ایسا خواب جس کی کوئی تعبیر نہیں بنتی ہے۔ جہاں
صرف اندھیرے کی حکمرانی ہوگی۔ اب یہ کہنا کہ ہماری حکومت ان تمام معاملات
کو سنجیدگی سے لے رہی ہے، دلت اور مسلمانوں کی حفاظت ہمارے لئے بہت ضروری
ہے، جب تک ملک میں یکسانیت کے ساتھ ترقی نہیں ہوگی، جب تک اس ملک کا مسلمان
قومی دھارے میں شامل نہیں ہوگا، دلتوں کے ساتھ انصاف کا معاملہ نہیں برتا
جائے گا اْس وقت تک دیش کی ترقی نہیں ہوسکتی ہے اْس وقت تک ہم دنیا کی تیز
رفتاری کا مقابلہ نہیں کرسکتے ہیں اقلیتوں کا تحفظ ہماری اولین ذمہ داری ہے
نیز دیگر بڑی بڑی باتیں ان سب باتوں کو سن کر مذاق سا محسوس ہوتا ہے، ایسا
لگتا ہے کہ کوئی ہمیں آگ میں ڈال کر تھپکی دینے کی کوشش کررہا ہے کہ
گھبراؤ نہیں ہم تمہیں بچالیں گے،آئے دن سرکاری وزراء کے بیانات اور ان کے
کارندوں کے کرتوت کا موازنہ کیا جائے تو یہ اظہر من الشمس ہے کہ دونوں میں
کھلم کھلا تضاد ہے، ایک طرف جان بچانے اور ترقی کی بات کی جاتی ہے تو دوسری
طرف دادری، سہارنپور، ہریانہ اور رانچی میں سر عام کسی کو پھانسی دی جاتی
ہے اور کسی کو نذر آتش کردیا جاتا ہے، کہیں لاکھوں کروڑوں کی املاک تباہ و
برباد کردی جاتی ہے اور کبھی کارپوریٹ کی غلامی کا طوق گلے میں ڈال کر اپنے
ملک کے کسانوں کے ساتھ سوتیلا سلوک کیا جاتا ہے، کہیں کسی غریب کو اس لئے
مرنا پڑتا ہے کہ وہ قرض ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا ہے اور کہیں ہزاروں
کروڑ کا قرض لیکر ملک سے فرار ہوجاتا ہے اور ملک کی خفیہ ایجنسی اس کا پتہ
بتانے سے عاجز ہوتی ہے۔
ایک عجیب سا ماحول بنا ہوا ہے۔۔۔! وزیراعظم کہتے ہیں کہ میں ڈاکٹر بھیم راؤ
امبیڈکر کا بھکت ہوں میرے لئے ملک کا قانون سب کچھ ہے، قانون کی پاسداری
کیلئے کسی سے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، قانون سے بالاتر کوئی نہیں ہے،
لیکن ڈاکٹر امبیڈکر کے بھکت ہمارے وزیراعظم نے اپنے بھکتوں کو یہ بات نہیں
بتائی یا وہ بتانا ہی نہیں چاہتے ہیں کہ اس ملک کا قانون بھی ہے جس کی
پاسداری ضروری ہے، اس ملک کا قانون پارلیمنٹ میں تیار ہوا ہے ناگپور کے
جنگل میں نہیں۔ اس ملک میں جس قانون کا راج ہے وہ سیکولر ازم کے دلدادہ خوش
مزاج لوگوں کے ذریعہ تیار کیا گیا ہے جنہوں نے رات دن کی جانفشانی کے بعد
اسے ہر مذہب ہر ذات کو یکساں طور پر حقوق عطاء فرمائے، لیکن ان نام نہاد
بھکتوں نے اب یہ طے کرلیا ہے کہ اس ملک میں اب وہ راج اور قانون چلے گا جسے
بدسلیقہ ہٹلر کے مریدوں نے ترتیب دیا ہے۔ وزیراعظم کیلئے اب یہ ضروری ہوگیا
ہے کہ وہ جملہ بازی کے پھندے بنانے چھوڑ دیں اور عملی میدان میں قدم رکھیں،
بے لگام ہوتے سرکش گھوڑوں پر نکیل کسی جائے، بے محابا الفاظ کا استعمال
کرنے والوں کے خلاف باضابطہ کارروائی ہو، من مانی کرتے نیوز چینل کو کٹہرے
میں کھڑا کیا جائے ۔ ورنہ دنیا کے طول و عرض کا چکر لگا کر اور ہر جگہ لچھے
دار تقریر کرکے دامن پر لگے خونی دھبے کو دھویا نہیں جاسکتا ہے، اخبارات و
رسائل میں بیان بازی کے ذریعہ مزید کسانوں غریبوں کی دلجوئی نہیں ہو سکتی
ہے، وزیراعظم من کی بات کرتے ہیں لیکن خود دوسرے کے من کی بات نہیں سنتے
ہیں، محض کانفرنس اور سیمینار میں جاکر خود کو سب سے بڑا مسیحا اور ایک سچا
ہمدرد کہہ دینا کافی نہیں ہے بلکہ اب وقت آگیا ہے کہ اس پر عمل درآمد بھی
ہو ۔ اگر یہ آپ کے اچھے دن ہیں تو جلد ہی تعمیل جملہ نہ ہونے کی صورت میں
وقت بدل بھی سکتا ہے۔ اور جیسے ہی وقت بدلے گا تو لال کرشن اڈوانی کی طرح
خود کو ٹھگا محسوس کریں گے اور اس وقت کچھ کرنے کا موقع بھی نہیں ہوگا ۔
|
|