کون بے کار یہاں ہے کہ سنے کام کی باتٗ
(MD SHARIB ZIA RAHMANI, New Delhi)
آئین نے بھی سبھی مذاہب کے ماننے والوں کواپنے اپنے عقیدہ کے ساتھ رہنے کاحق دیاہے لہٰذاایک خاص لفظ کوتھوپنامسلمانوں کے عقیدۂ توحیداورشہری آئینی حقوق میں گھس پیٹھی ہے۔درجات محبت مختلف ہیں اوراظہارِمحبت کیلئے الفاظ کی قیدنہیں ہے ،محبت کولفظوں میں مقیدنہیں کیاجاسکتا،وطن سے بھی اظہارِمحبت کیلئے الفاظ کی پابندی غیرآئینی اورغیراصولی ہے ۔یہ ہرشہری کاحق ہے کہ جن الفاظ میں چاہئے اپنے محبوب وطن کے گن گائے۔یہ لازمی نہیں کہ جس سے عقیدت ومحبت ہو،اس کی پوجا کی جائے۔ایک مسلمان کیلئے رسول اللہﷺسے بڑھ کس سے عقیدت ہوسکتی ہے لیکن کبھی وہ انہیں خداکادرجہ نہیں دے سکتا۔اسی طرح وہ حقیقی ماں کے علاوہ کسی اورکویہ درجہ دیناتوہین سمجھتاہے۔اس کے قدموں میں(اس کی خدمت کرکے) جنت کی تلاش تووہ کرتاہے لیکن اس کی پوجانہیں کرسکتا۔نیزحقیقی ماں کے علاوہ برادران وطن جن جن چیزکو ’ماتا‘کہتے ہیں،ان کے ساتھ پرستش کاعقیدہ جڑاہے۔ اس میں کوئی جھول نہیں ہے کہ خدائے واحدکی عبادت کے علاوہ جہاں کہیں بھی پرستش کامفہوم ہووہ مسلمانوں کیلئے ناقابل قبول ہے۔وہ وطن کیلئے جان نچھاورکردیتاہے لیکن اسے کسی صورت میں معبودقراردنہیں دے سکتا۔ |
|
سنگھ پریوارفی الحال’کنہیافوبیا‘میں
مبتلاہے جس نے نہ صرف یہ کہ دیش بھکتی کے فرضی چہروں کوبے نقاب کیاہے، ملک
کے ان اہم شہری مسائل پرنئی بحث چھیڑدی ہے جن پربات پہلے ہونی چاہئے تھی ۔
وجے مالیا،وزراء کے متضادبیانات ،مہنگائی ،جے این یواورروہت پر گھری ہوئی
بی جے پی، کسی صورت میں’کنہیا‘ سے جان چھڑاچاہتی ہے ۔ مواقع کے باوجودایوان
میں اپوزیشن پارٹیاں پوری مضبوطی کے ساتھ اسے گھیرنہ سکیں۔رام شنکرکھٹریاکے
بیان،جے این یواورروہت کیس پرپارلیمنٹ کے اندر جس بے دردی کے ساتھ غلط
بیانی کی گئی ،اس پرکانگریس نے اپنافرض نہیں نبھایا۔اسے یاتواپوزیشن کی میچ
فکسنگ کہاجائے یایہ کہ وہ اپنے کردارکونبھانے میں بری طرح ناکام رہیں۔ساتھ
ہی اسدالدین اویسی کے ایک بیان نے بی جے پی کواصل مسائل سے نکلنے کاموقعہ
فراہم کردیاجس کاانتظاراسے تھا۔بعض عمل ،ردعمل اورموضوع بحث بنانے کی غرض
سے کئے جاتے ہیں۔کوئی ضروری نہیں کہ موہن بھاگوت جیسے لوگوں کی بات کاجواب
دے ہی دیاجائے۔بیان کے وقت اویسی صاحب کی جوبھی نیت رہی ہو،یہ وقت ایساکچھ
کہنے کانہیں تھاکہ میڈیااسے لے کرکودپڑے۔اویسی صاحب سے یہ بھی سوال ہے
کہ’بھارت ماتاکی جے ‘ بولنے پرتوان کی حرارتِ ایمانی تیزہوجاتی ہے لیکن ان
کے طرزسیاست پرسوال اٹھانے والے اس تضادکومحسوس کرنے لگتے ہیں جب
انہیں’بھارت بھاگیہ ودھاتا‘کی نظم پڑھتے سناجاتاہے۔اویسی صاحب کوشایداس
کااندازہ نہیں ہے کہ ان کے غیرضروری فرمان کے بعد کمپنیوں میں کام کرنے
والے مسلم نوجوانوں،مسلم راہ گیروں اور اقلیتی آبادی کوکن دشواریوں
کاسامناکرناپڑرہاہے۔ان سے بڑے ادب کے ساتھ درخواست ہے کہ وہ ازراہِ خدااتنے
سنگین حالات میں امت مسلمہ ہندیہ کوکسی اورآزمائش میں نہ ڈالیں۔ساتھ ہی
مسلمان بھی ایسے ماحول میں صبروتحمل کادامن نہ چھوڑیں۔
دوسری بات یہ کہ کسی کا انفرادی عمل مسلمانوں کیلئے جوازکی دلیل نہیں بن
سکتاہے ۔ جاویداخترصاحب کی اہلیہ محترمہ شبانہ اعظمی نے بھی اعتراف کیاہے
کہ ان کاخاندان کمیونسٹ ہے ۔لیکن لادینیت اورغیرمذہبیت کاہدف اسلام دشمنی
نہیں ہوناچاہئے ۔جسٹس پاشااورجاویدصاحب اگرلادین ہوں تواس کامطلب یہ نہیں
کہ مذہب کااحترام بھی ملحوظ نہ رہے،اگرلادینیت مطلقاََمذہب کی مخالفت کانام
ہے توذرایہ روشن خیال، دوسرے مذاہب کے عقائداورتعلیمات پرسوال کھڑے کرکے
دکھائیں۔لیکن روشن خیالی کے پیمانے صرف اسلام مخالف بیانات رہ گئے
ہیں۔راجیہ سبھاسے جاتے جاتے انہوں نے یہ بھی کہاکہ کس سمدودھان میں لکھاہے
کہ’ ٹوپی اورشیروانی پہنناچاہئے‘۔ ہوشیارمیڈیابہت خاموشی سے تقریرکے اس حصہ
کوچباگیاجس میں انہوں نے کہاتھاکہ’’ ملک کاماحول خراب کرنے والے لیڈروں
پرحکومت لگام لگائے‘‘۔پھرجاویداخترصاحب کایہ کہناکہ ’شیروانی اورٹوپی
پہنناکس آئین میں لکھاہے،توان سے عرض ہے کہ اسے عام زبان میں مارے
گھٹناپھوٹے سرکہتے ہیں۔انہیں یہ فرق معلوم ہوگا کہ شیروانی نہ پہننے پرکسی
کو’نیپال ‘بھیجنے کی دھمکی نہیں دی گئی ہے،مودی جی نے ٹوپی پہننے سے
انکارکیاتھاتوان کیلئے کسی ملک کاویزہ ایشونہیں کیاگیاتھا۔ظاہرہے کہ یہ سب
اختیاری چیزیں ہیں لیکن یہاں تومسئلہ اختیاری چیزپرجبرکاہے۔زبان کاٹنے
پرایک کروڑکاانعام ،خودپاکستان جانے والے ،بھیجنے کی دھمکی دینے لگے۔یہ کس
درجہ کی غنڈہ گردی ہے کہ آئین سازاسمبلی کے اندرزبردستی بھارت ماتاکی جے
زبردستی بولوانے سے انکارکرنے پراسمبلی سے معطل
کردیاجائے۔اختیارپرجبراورفرقہ پرستوں کوجبرکااختیارمل جاناآئین مخالف
طرزعمل اورملک کی سالمیت ووحدت کیلئے بڑاچیلنج ہے۔خبر ہے کہ پی ڈی پی کے
ساتھ پھربی جے پی سرکاربناسکتی ہے،ایسے میں ضروری ہے کہ پی ڈی پی کی دیش
بھکتی کوپہلے بی جے پی، چیک کرلے اوراس کیلئے بھارت ماتاکی جے اورافضل
گروپرمحبوبہ مفتی سے بیان دلوالے۔دلچسپ بات یہ ہوئی ہے کہ پنجاب میں بی جے
پی کی اتحادی پارٹی اکالی دل کے لیڈرسمرنجیت سنگھ نے بھارت ماتاکی جے بولنے
انکارکردیاہے،لہٰذادیش بھکتی کے سرٹیفیکٹ بانٹنے والوں کیلئے اگنی پرکچھاہے
کہ وہ مرکز میں شری منی اکالی دل کی وزیرہرسمرت کورکی دیش بھکتی کویہ نعرہ
لگواکر جانچ لے بصورت دیگراسے وارث پٹھان جیساسلوک کرناچاہئے ۔نیزپنجاب میں
اپنی دیش بھکتی پرہرگز سمجھوتہ نہ کرتے ہوئے حمایت واپس لے کرتنہاالیکشن
لڑناچاہئے۔شیوسیناکوبھی چاہئے کہ وہ اکالی دل پروارث پٹھان اورایم آئی ایم
کی طرح پابندی کامطالبہ کرے ۔بی جے پی نے دیش بھکتی کے موضوع پرپانچ
ریاستوں کے الیکشن لڑنے کااشارہ دیاہے لیکن اپنی ہی اتحادی پارٹی کے بھارت
ماتاکی جے کہنے سے انکارپراس کے اس غبارہ سے بھی ہوانکل چکی ہے۔
جب کمال پاشااورجاویداخترجیسے لوگ جب کہیں نہ کہیں اسلام پرانگلی اٹھاتے
ہیں تواسے موضوع بحث بنایاجاتاہے۔اسلامی تعلیمات پرکمال پاشانے بیان
دیاتومیڈیانے خوب بحث کی۔لیکن جب دوسرے مذہب پراسی مذہب کے لوگ سوال اٹھاتے
ہیں،توبہت خاموشی کے ساتھ اسے دبادیاجاتاہے،جسٹس مارکنڈے کاٹجونے
کہاتھاکہ’’میں گائے کوماتانہیں مانتا،تمہارے پاس ماتھانہیں ہے کیا،ایک
جانورانسان کی ماں کیسے ہوسکتی ہے؟‘‘۔ظاہرہے یہ ہندؤں کی ’آستھا‘پرسوالیہ
نشان تھا،جس کاسہارالے کرمہاراشٹراورہریانہ میں گؤکشی پرسزاتک کاالتزام
کیاگیا،اسی فرضی آستھانے اخلاق اورآزادکوشہیدکیا۔بھگوامیڈیاکواپنے
آستھاپراپنوں کے ہی حملوں سے بچنے کیلئے بحث کرانی چاہئے ۔نیزاردومیڈیاان
سے یہ حکمت عملی سیکھے کہ کس خبرکواہمیت نہیں دی جانی چاہئے۔جب بات چھڑ گئی
ہے تواس پہلوکاجائزہ لیاجانابھی ضروری ہے کہ’ بھارت ماتاکی جے ‘کومادروطن
پرقیاس کرکے درست قراردیناکتنامناسب ہے جبکہ ’ماتربھومی‘ایک دوسرالفظ
موجودہے ۔پھر’بھارت ماتا‘کے نام سے دیوی کامجسمہ موجودہے جس کے وارانسی
اورہری دوارمیں مندربھی ہیں۔اس سے یہ واضح ہے کہ یہ ہندوتوکاایک پرستش
کاعقیدہ ہے جوسراسرعقیدۂ توحیدسے متصادم ہے۔چنانچہ آئین نے بھی سبھی مذاہب
کے ماننے والوں کواپنے اپنے عقیدہ کے ساتھ رہنے کاحق دیاہے لہٰذاایک خاص
لفظ کوتھوپنامسلمانوں کے عقیدۂ توحیداورشہری آئینی حقوق میں گھس پیٹھی
ہے۔درجات محبت مختلف ہیں اوراظہارِمحبت کیلئے الفاظ کی قیدنہیں ہے ،محبت
کولفظوں میں مقیدنہیں کیاجاسکتا،وطن سے بھی اظہارِمحبت کیلئے الفاظ کی
پابندی غیرآئینی اورغیراصولی ہے ۔یہ ہرشہری کاحق ہے کہ جن الفاظ میں چاہئے
اپنے محبوب وطن کے گن گائے۔یہ لازمی نہیں کہ جس سے عقیدت ومحبت ہو،اس کی
پوجا کی جائے۔ایک مسلمان کیلئے رسول اللہﷺسے بڑھ کس سے عقیدت ہوسکتی ہے
لیکن کبھی وہ انہیں خداکادرجہ نہیں دے سکتا۔اسی طرح وہ حقیقی ماں کے علاوہ
کسی اورکویہ درجہ دیناتوہین سمجھتاہے۔اس کے قدموں میں(اس کی خدمت کرکے) جنت
کی تلاش تووہ کرتاہے لیکن اس کی پوجانہیں کرسکتا۔نیزحقیقی ماں کے علاوہ
برادران وطن جن جن چیزکو ’ماتا‘کہتے ہیں،ان کے ساتھ پرستش کاعقیدہ جڑاہے۔
اس میں کوئی جھول نہیں ہے کہ خدائے واحدکی عبادت کے علاوہ جہاں کہیں بھی
پرستش کامفہوم ہووہ مسلمانوں کیلئے ناقابل قبول ہے۔وہ وطن کیلئے جان
نچھاورکردیتاہے لیکن اسے کسی صورت میں معبودقراردنہیں دے سکتا۔دیش بھکتی
کااگریہی خاص لفظ پیمانہ ہوتاتو’نیپال ماتا،امریکہ ماتااورجرمنی ماتا‘کے
نعرے بھی سنے جاتے۔ دراصل ہندوتوکی راہ پرسرکارگامزن ہے،اس سیاق وسیاق میں
یہ اصراریقیناََعقیدہ پرحملہ ،ہندتواکے نفاذکی کوشش اورآئینی حقوق میں
دراندازی ہے۔
ابدی مذہب اسلام کے راہنمااصول اورزندۂ جاویدکتاب قرآن مجیدنے ایسے نازک
موقعہ پرہماری راہنمائی کی ہے۔عربی میں ایک لفظ’راعنا‘ہے جس کامعنیٰ’ہماری
رعایت کیجئے‘بھی ہے۔صحابہؓ اسی معنی میں رسول اللہ ﷺسے مخاطب ہوتے تھے لیکن
اسی لفظ کادوسرامعنی ’ہمارے چرواہا‘ مرادلے کریہودی بولاکرتے تھے۔اوردھوکہ
یہ دیتے تھے کہ وہ عام مسلمانوں کی طرح اسی توجہ مبذول کرانے کے معنی میں
بول رہے ہیں۔جیساکہ آج اس لفظ (بھارت ماتا)کو دیش بھکتی کانام دیاجارہاہے
اورحقیقتاََاس کی پوجاہورہی ہے ۔چنانچہ قرآن مجیدنے ہدایت فرمائی کہ اے
ایمان والو،راعنامت کہو،(اسی مفہوم کاواضح لفظ)’انظرنا‘کہو‘(پ۱،س بقرہ آیت
نمبر۱۰۴)لہٰذا اب یہ نہیں کہاجاسکتاکہ برادران وطن ’بھارت ماتا‘دیوی کے
تصورکے ساتھ بولیں تویہ ان کااپناعمل ہے ، یہاں نیت کااعتبارہے چنانچہ ہم
مسلمان اسے حب الوطنی کے اظہارکیلئے کہاکریں توکیاحرج ہے ۔ظاہرہے کہ صحابہؓ
بھی ’راعنا‘کو’ رعایت‘ کے معنی ٰمیں ہی لیتے تھے،ان سے صاف نیت اورکس کی
ہوسکتی تھی،لیکن مقام شک میں قرآن مجیدنے ایسے الفاظ کے استعمال سے بھی منع
فرمایاجوغیروں کے یہاں کسی اورمعنیٰ میں ہوں۔حضرت حسن بن علیؓ سے روایت ہے
کہ میں نے نبی کریم ﷺسے یادکیا’چھوڑدواس چیزکوجوتمہیں شک میں ڈالے،
اختیارکرواس چیزکوجس میں شک نہ ہو‘(نسائی،ترمذی)۔
ان تمام فرضی محبتوں کامقصدصرف اورصرف اہم مسائل سے ذہن بھٹکانااورپانچ
ریاستوں میں ہونے والے الیکشن میں اسے مدعابناناہے ۔ملک کے موجودہ ماحول
پرہرانصاف پسندشہری بے چین ہے لیکن اس کااثران پرکیوں ہونے لگاجن کانہ
تودیش کی تعمیروترقی اوراس کی آزادی میں کوئی حصہ ہے اورنہ ایساکرناوہ
چاہتے ہیں۔یہ کیسی دیش بھکتی ہے کہ بھارت ماتاکی جے بھی بولیں اوردیش
کاترنگاالٹاہوجائے،اس وقت بی جے پی کودیش کاوقاریادنہیں آتا۔ اس کے پسندیدہ
لیڈرمردآہن،اولین وزیرداخلہ ولبھ بھائی پٹیل نے آرایس ایس پرپابندی دیش
بھکتی کی وجہ سے تونہیں لگائی تھی۔دراصل ترقیاتی کاموں اورمہنگائی کی طرف
سے ملک کاذہن بھٹکاکررکھنامقصدہے تاکہ ریل کے مسافرین پرمہنگائی کی
مارپڑجائے ،بین الاقوامی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں مسلسل تخفیف کے
باوجودڈیزل اورپٹرول کے دام بڑھ جائیں لیکن کسی کاذہن اس کی طرف نہ
جائے،للت مودی کوتوبھول ہی گئے ،مالیابھی نکل گئے،ملک اس پرسوال نہ
پوچھے،کسان خودکشی کرتے رہیں اورصنعتکاروں کے قرض معاف کردیئے جائیں ،کوئی
اس پرگرفت نہ کرے۔یہ سارے شوشے صرف اسی لئے چھوڑے جارہے ہیں۔دیش کی حفاظت ،اس
کی تعمیروترقی کے اوربھی کام ہیں،ملک کے سامنے مہنگائی جیسے اہم چیلنجز ہیں
جن پربحث ہونی چاہئے لیکن ’کون بیکار یہاں ہے کہ سنے کام کی بات‘۔ |
|