تجدیدِ اقرار!

پون صدی اُدھر کا قصہ ہے، لاہو رکے منٹو پارک میں مسلمانانِ ہند کا ایک اجتماع ہوا، انگریزوں سے آزادی کی تحریک زوروں پر تھی، اگرچہ اس آزادی کے خواہشمند ہندو بھی تھے، مگر مسلمان ذرا مختلف قسم کی آزادی چاہتے تھے، یعنی صرف انگریزوں سے ہی نہیں بلکہ ہندوؤں سے بھی آزاد ہونا چاہتے تھے، اس کے لئے انہوں نے الگ وطن کا مطالبہ بھی کر رکھا تھا، جس کی بنیاد مسلمانوں کے ایک عظیم رہنما علامہ اقبالؒ نے دس برس قبل رکھ دی تھی، اس میں نظریہ بھی بتادیا تھا، تقسیم کی وجہ بھی اور اس الگ ملک میں شامل ہونے والے علاقے بھی۔ اس اجتماع میں الگ وطن کے مطالبے پر مبنی ایک قرار داد بھی منظور کی گئی، جسے بعد میں قرار دادِ پاکستان کا نام دیا گیا۔ اسی قرار داد کو بنیاد بنا کر مسلمانوں نے نئے جوش وجذبے سے قیامِ پاکستان کی تحریک میں حصہ لیا، اور محض سات برس میں قائداعظم محمد علی جناحؒ کی قیادت میں دنیا کے نقشے پر ایک نیا ملک قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے، یہ بات بھی کم اہم نہیں کہ کہا گیا کہ دنیا کا یہ واحد ملک ہے جو اسلام کے نام پر معرضِ وجود میں آیا ہے۔

مسلمانوں نے خود تحریک چلائی تھی، اس لئے وہ ذہنی طور پر ہجرت کے لئے تیار تھے۔ ہجرت ایک مشکل ترین کام ہے، جس میں انسان اپنی کل کائنات، گھر بار، جمع پونجی، کاروبار، کھیت کھلیان، مویشی اور ہر قسم کی جائیداد چھوڑ کر اجنبی راہوں کا مسافر بننا پڑتا ہے، منزل کیا ہوگی، گھر کیساہوگا، سامانِ زیست دستیاب ہوگا یا نہیں، روزگار کیا ہوگا، زندگی کی گاڑی کو کیسے چلایا جائے گا؟ کسی کو کچھ علم نہیں ہوتاکہ آنے والا وقت کیسا ہے؟ یہی ہوا، یہاں ہر چیز چھوڑجانے کا غم تو الگ تھا، مگر مشرقی پنجاب کے سکھوں کے ہاتھوں قتل وغارت گری کا جو بازار گرم ہوا، اس منظر کو مسلمانوں نے کسی خوفناک خواب میں بھی نہیں دیکھا تھا، خون کی روشنائی سے نہ جانے کتنی کہانیاں لکھی گئیں، دردناک انجام کتنوں کے نصیب میں ہوا، اور کتنے جان اور آبرو بچا کر پاکستان پہنچنے میں کامیاب ہوئے؟ یہاں آکر بھی حالات مہاجرین کے ہاتھ میں نہ تھے، بے سروسامانی نے کمر توڑ کر رکھ دی تھی، نہ سرکاری وسائل تھے اور نہ ہی ذاتی طور پر کسی کی پوزیشن ایسی مستحکم تھی کہ وہ اپنی زندگی کو کسی مناسب ڈگر پر چلا سکے۔ اگر کچھ حالات بہتر تھے تو ان لوگوں کے جو پہلے سے یہاں موجود تھے۔ پھر وہاں سے آنے والوں میں سے بھی چالاک اور عیار لوگوں نے جائیدادیں اپنے نام کروالیں، بہت سے جعلی کلیم کروالئے، وہاں جس کا چھوٹا ساکاروبار تھا،یا وہ مناسب زمیندار تھا تو یہاں دونوں کی قسمت بدل گئی، امیر غریب ہوگئے اور غریب امیر بن گئے۔

یہ بہت بڑی معاشرتی تبدیلی تھی، کہ لوگوں کو صدیوں سے آباد علاقوں سے اٹھ کر اجنبی شہروں اور دیہات میں آباد ہونا پڑا، اور وہ بھی اس صورت میں کہ بہت سے لوگوں کی اصل حالت ہی تبدیل ہو کر رہ گئی، کوئی اپنا سارا مال ودولت پیچھے چھوڑ آیا، تو کوئی اپنے پیاروں کے خون سے نئی مملکتِ خداداد کی بنیادوں کو سینچ آیا، اور کسی کی آبرو وہاں رہ گئی اور وہ زندہ لاش کی صورت میں پاکستان آ گیا۔ یہ تبدیلیاں معمولی نہ تھیں، ان سے نسلوں پر اثرات مرتب ہوئے۔ بات یہاں بھی ختم نہ ہوئی، سرکاری دفاتر میں اثرو رسوخ رکھنے والے بہت سے اہلکاروں نے بھی اپنا کام دکھایا اور اپنی مالی حالت بہتر کرنے میں کامیاب رہے۔ اس کے بعد ایک ظلم کا نیا دور شروع ہوا، اپنے حکمرانوں نے اقربا پروری، لوٹ مار، کرپشن، مراعات، پروٹوکول اور عیاشیوں کا جو سلسلہ شروع کیا ، وہ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا گیا، اور اب اس میں حد سے زیادہ شدت آچکی ہے۔ محکموں میں کرپشن لازم وملزوم ہوچکی ہے، کمیشن کا کلچر اس قدر فروغ پذیر ہوچکا ہے کہ اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان میں کمیشن ہی وہ واحد کام ہے جو نہایت دیانتداری سے ہوتا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ امن کا معاملہ اپنی جگہ، یہاں سکون بھی کم ہی میسر ہے۔ سب اچھا کہنا، تعمیروترقی کو عوام کی خوشحالی کہنا بجا نہیں، کیونکہ دولت چند ہاتھوں میں آچکی ہے اور غربت کی لکیر سے نیچے بسنے والے، یا روز مرنے اور روز جینے والے لوگوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔ کبھی تو 23مارچ ایسا بھی آئے کہ ہم اس روز کو ’’یومِ تجدید‘‘ کے طور پر منائیں اور ایک نئی قرار داد منظور کریں، جس میں حکمران کرپشن ، عیاشیاں چھوڑنے اور قوم کو تعلیم، صحت سمیت بنیادی سہولیات بہم پہنچانے اور عوام دیانتداری سے محنت کرنے ، تہذیب اور سلیقہ مندی سیکھنے اور دوسروں کو برداشت کرنے کا اقرار کریں تو حالات بہتر ہوسکتے ہیں۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 431526 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.