“ نیب نے نہ ٹیکس نادہندہ کو دبوچا اور نہ ہی ایف بی آر کے کسی اعلیٰ افسر کو “

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 30 فیصد لوگ غربت کا شکار ہیں۔ ہر وہ شخص غریب ہے جس کی آمدنی اسکے ضروری اخراجات پورے کرنے سے قاصر ہے۔ سوا دو ماہ بعد نیا بجٹ آنیوالا ہے۔ بجٹ کے بعد کوئی معجزہ رونما نہیں ہو گا۔ قرضوں کا بوجھ جوں کا توں نہیں مزید بڑھ جائیگا۔ 2013ءسے اب تک آئی ایم ایف سے 5271 ارب ڈالر بطور قرض لئے جبکہ 4415 ارب ڈالر لوٹا دئیے۔ قرضے تو ایک ہاتھ دے دوسرے ہاتھ لے والی بات ہے۔ زرداری حکومت نے آئی ایم ایف سے گیارہ ارب ڈالر قرض منظور کروایا تھا، موجودہ حکومت نے چھ ارب ڈالر قرض منظور کروایا تھا۔ قرضے اور ترسیلات زر نہ ہوں تو معیشت کا کارخانہ خاموش ہو جائے۔
پاکستان میں اب تک ٹیکس سے مستثنیٰ چیزوں پر 225 ارب روپے کے ٹیکس لگائے جا چکے اور ادویات‘ زرعی مشینری‘ شہری ہَوا بازی کی صنعت‘ ایل این جی اور ایل پی جی اور پاور جنریشن سے متعلق مشینری پر درآمدی ڈیوٹی بھی بڑھائی جا چکی ہے ایک طرف حکومت نے بتایا کہ کہ قطر سے ایل این جی کی درآمد شروع ہو گئی ہے جسکے استعمال سے لوڈشیڈنگ میں کمی آئیگی اور سی این جی کی قلت بھی دور ہو گی 5 جون کو موجودہ حکومت اپنے اقتدار کے تین سال کی مدت پوری کر لے گی۔ چند ماہ قبل حکومت نے بیرون سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کےلئے ہَوا بازی سے متعلق پالیسی کا اعلان کیا اور اب ہَوا بازی کےلئے ناگزیر اشیاءپر درآمدی ڈیوٹی میں اضافہ کر دیا۔ یہ بات عیاں ہے کہ اشیاءکی لاگت پیدائش کا سارا بوجھ کارخانہ دار نہیں صارفین اٹھاتے ہیں۔ بنکوں سے قرضوں کی معافی کا بوجھ بھی پاکستانی عوام نے اٹھایا ہے مشرف دور میں 2000ءسے 2006ءکے دوران 125 ارب کے قرضے معاف کئے گئے جبکہ منتخب حکومتوں کے 1985ءسے 1999ءکے عرصے میں صرف 30 ارب کے قرضے معاف کئے گئے تھے۔ نواز شریف کے سابقہ دو ادوار 1990ءسے 1993ءاور 1997ءسے 1999ءمیں 22.35 ارب کے قرضے معاف کئے گئے، بے نظیر بھٹو کے دور میں صرف 7.23 ارب کے قرضے معاف کئے گئے تھے۔ جن لوگوں کے قرضے معاف کئے گئے وہ کبھی بھی دیوالیہ نہیں ہوئے۔ حکومت قرض نادہندگان سے ریکوری کرنے کے بجائے انہیں ایمنسٹی سکیموں سے نہال اور مزید بے خوف کرنے کی کوششوں میں مصروف نیب نے بھی ہر دور حکومت میں سیاسی مخالفین کو دبانے کی کوشش کی۔ سول اور ڈیفنس ہاﺅسنگ سوسائٹیوں میں معمولی قیمت پر قیمتی پلاٹ حاصل کرنےوالے لوگوں کو ایف بی آر نے ٹیکس سے آزاد رکھا ہے۔ نیب نے نہ ٹیکس نادہندہ کو دبوچا ہے نہ ہی ایف بی آر کے کسی اعلیٰ افسر کو۔ ٹیکس ایمنسٹی سکیم کے تحت گوشوارے جمع کرانے کی تاریخ میں دو بار توسیع کی گئی اور ماضی کا تجربہ ہے کہ تاریخیں بڑھاتے چلے جانے سے کبھی بھی مطلوبہ نتائج سامنے نہیں آئے۔ نان فائلرز کےلئے 50 ہزار روپے سے زیادہ روزانہ کی ٹرن اوور پر 0.6 فیصد ود ہولڈنگ کا نفاذ کر دینا چاہئے۔ نئی ڈیڈ لائن کے خاتمے پر آئندہ بجٹ میں نان فائلرز کےلئے ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح ایک فیصد تک بڑھا دینی چاہئے ۔ جمہوری نظام میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ ٹیکس کے بدلے عوام کو حکومت کی طرف سے کیا فائدے اور کونسی سروسز فراہم کی جا رہی ہیں۔ ڈنمارک سویڈن‘ بیلجیئم جیسے ممالک سوشل جمہوری ماڈل کی بہترین مثال ہیں ہمارے ہاں 68 سال سے بیروزگاری اور غربت کا رونا چل رہا ہے تھانے کچہریوں اور عدالتوں میں دھکے غریبوں اور ظلم رسیدہ لوگوں کےلئے ہیں، صاحبان عقل کےلئے ریمنڈڈیوس‘ کانجو اور پرویز مشرف کی مثالیں کافی نہیں۔ مشرف اور عام پاکستانی کا فرق 20 کروڑ لوگوں کو بخوبی پتہ چل گیا ہے عام شہری کو کتنی سکیورٹی حاصل ہے چور اُچکا جب اور جہاں چاہے کسی کو گن پوائنٹ پر لوٹ سکتا ہے۔ سٹیٹ بنک نے انکشاف کیا ہے کہ 3.7 کھرب روپے کی رقم اکانومی کی بجائے گورنمنٹ سکیورٹیز میں لگائی جا رہی ہے۔ کارپوریٹ سیکٹر کی سالانہ رپورٹس کےمطابق 446 ارب کی رقم فالتو پڑی ہے سارا زور زمینوں کی خریداری اور ہا¶سنگ سوسائٹیاں بنانے پر ہے، مارکیٹوں میں چینی اشیاءکی بھرمار ہے سرمایہ دار سارا پیسہ اس جگہ لگا رہے ہیں جہاں راتوں رات امیر تر بننے کے مواقع ہیں۔ سرکاری سکولوں کالجوں کی حالت زار سب کے سامنے ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 30 فیصد لوگ غربت کا شکار ہیں۔ ہر وہ شخص غریب ہے جس کی آمدنی اسکے ضروری اخراجات پورے کرنے سے قاصر ہے۔ سوا دو ماہ بعد نیا بجٹ آنیوالا ہے۔ بجٹ کے بعد کوئی معجزہ رونما نہیں ہو گا۔ قرضوں کا بوجھ جوں کا توں نہیں مزید بڑھ جائیگا۔ 2013ءسے اب تک آئی ایم ایف سے 5271 ارب ڈالر بطور قرض لئے جبکہ 4415 ارب ڈالر لوٹا دئیے۔ قرضے تو ایک ہاتھ دے دوسرے ہاتھ لے والی بات ہے۔ زرداری حکومت نے آئی ایم ایف سے گیارہ ارب ڈالر قرض منظور کروایا تھا، موجودہ حکومت نے چھ ارب ڈالر قرض منظور کروایا تھا۔ قرضے اور ترسیلات زر نہ ہوں تو معیشت کا کارخانہ خاموش ہو جائے۔ پاکستان کی برآمدات سے آمدنی 24 ارب ڈالر جبکہ درآمدات پر 41 ارب ڈالر خرچ ہو رہے ہیں۔ سالانہ تجارتی خسارہ 17 ارب ڈالر ہے۔ اگر 18.7 ارب ڈالر کی بیرون ملک پاکستانیوں کی ترسیلات زر میسر نہ آئیں تو تجارتی خسارہ ہمیں کہیں کا نہ چھوڑے۔ اس وقت مجموعی بیرونی قرضہ 65.5 ارب ڈالر ہے پاک چین اقتصادی راہداری کےلئے قرضہ جمع کیا جائے تو 2018ءتک بیرونی قرضوں کا بوجھ 90 ارب ڈالر تک بڑھ جائیگا۔ راہداری کےلئے قرضہ 46 کےلئے حکومت کے ذمہ 503 روپے واجب الادا تھے۔ اس رقم کی ادائیگی کے بعد اب پھر اتنی ہی رقم حکومت کے سر پر سوار ہو جائیگی ۔ حکومت کو ملک و قوم کے وسیع مفاد میں مثبت اقدامات اٹھانے چاہیئں۔
Mian Khalid Jamil {Official}
About the Author: Mian Khalid Jamil {Official} Read More Articles by Mian Khalid Jamil {Official}: 361 Articles with 300762 views Professional columnist/ Political & Defence analyst / Researcher/ Script writer/ Economy expert/ Pak Army & ISI defender/ Electronic, Print, Social me.. View More