بہانے بنانا کس نے دریافت کیا اس حوالے سے
کچھ پتا تو نہیں لیکن جب بھی پہلا کام چور انسان وجود میں آیا ہو گا یقینی
طور پر بہانے بنانا بھی اسی وقت معرض وجود میں آ گیا ہوگا۔ اگر اس انسان کا
علم ہو جائے تو یقینی طور پر بہت سارے لوگ اس انسان کو ڈھونڈ کر اسکو
پھولوں کے چڑھاوے چڑھانا چاہیں گے۔
بہانہ ہے کہا اسکے بارے میں ہم سب ہی جانتے ہیں اور پھر بھی اگر اسکی تعریف
کرنی ہو تعریف مطلب وہ والی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسکا تعارف کروانا ہو۔ تو بہانہ
کوئی بھی وہ بات یا قول ہے جس سے آپکی جان کام سے بچ جانے کا امکان روشن ہو
جائے۔
انسان نے بہانے استعمال کیسے کرنا سیکھا ۔ اسکا مظاہرہ ہم سکول جاتے بچوں
کی طرف سے بھی دیکھ سکتے ہیں جو سکول نہ جانے کے لئے مشہور زمانہ بہانہ کہ
پیٹ درد ہو رہا ہے اس عمدگی سے بنا سکتے ہیں ۔ بڑے بڑے انکے سامنے پانی
بھرتے نظر آئیں۔
بہانوں کے لئے نہ عمر کی قید ہے نہ وقت کی پابندی کی کیونکہ بہانہ بنانا
صرف انسان پر منحصر ہے حالات تک پربھی نہیں۔ جس کو بہانے بنانے کی لت لگ
جائے اس نے پھر بے موقع محل بھی بہانے بنا چھوڑنے ہوتے ہیں۔ اسی لئے بہانوں
کا ذخیرہ کہیں سے بھی کسی بھی وقت مل سکتا ہے۔
بہانے بنانے کے لئے پیشے تک کی بھی کوئی قید نہیں ہے۔ دودھ والے سے لے کر
ایک مینجر تک ایک مزدور سسے لے کر ایوان بالا میں بیٹھا سیاستدان تک بھی
بہانے بنا سکتا ہے۔ آخر کو بہانے ان چند چیزوں میں سے ایک ہیں جو کہ
انسانوں کو بغیر کسی امتیازی طبقے کے استعمال کرنے کی آزاد ی ہے۔
بہانوں کی بد قسمتی یہ ہے کہ انکو استعمال کیا جاتا ہے بے حد خوشی سے کیا
جاتا ہے مگر انکے بارے میں بتایا نہیں جاتا کہ جی بہانے استعمال کئے جارہے
ہیں۔ لفظ "بہانہ" بوللنا انتہا کا برا لفظ سمجھا جاتا ہے۔ حقیقیت یہ ہے کہ
جب بہانہ بنایا جا رہا ہے تو بہانہ رہتا بہانہ ہی ہے خواہ آپ اسکو کتنا ہی
گول مروڑ دیں بہانے نے رہنا بہانہ ہی ہے۔ کیونکہ سچ سچ ہی رہتا ہے ۔
بہانے بنانے میں صنف کی بھی کوئی قید نہیں خواہ آدمی ہو یا عورت بہانے
بنانے میں دونوں ہی اکثر ایک دوسرے کا کانٹے کا مقابلہ کرتے دیکھے جاسکتے
ہیں۔ اسی لئے تو کہا جاتا ہے کہ عورت کا میک اپ کرتے ہوئے پانچ منٹ اور
آدمی کا پانچ منٹ میں آنا برابر ہیں ۔ ایسے ہی موقعے تو ہوتے ہیں جب کے لئے
بہانے استعمال کئے جاتے ہیں بغیر یہ بتائے کہ یہ بہانے ہیں۔
بہانوں کی سب سے بڑی خاصیت یہی تو ہے کہ استعمال کرنے والا ببتاتا نہیں کہ
ججی وہ بہانہ بنا رہا ہے مگر جس کے سامنے بہانہ بنایا جاتا ہے اسکو یہ علم
ہوتا ہے کہ یہ بہانہ ہے۔ اللہ نے انسان کا دماغ اتنا زبردست بنایا ہے کہ
اگر آپ کچھ بھی کام کرتے رہیں تو ایک وقت آتا ہے کہ آپ اس کام کے ماہر بن
جاتے ہیں۔ یہی حال بہانوں کا بھی ہے کہ ایک وقت آتا ہے کہ آپ کو سوچنا بھی
نہیں پڑتا بہانوں کی ایک قطار آپکے سامنے ہاتھ باندھے کھڑی ہو جاتی ہے۔
بہانوں کی ایک خاص خوبی یہ بھی ہے کہ یہ صرف کام سے بچانے ہی نہیں بہت سے
کام نکلوانے کے بھی کام آتے ہیں جیسے کہ ادھار اور سچا پیار۔ ادھار میں
انسان ماں یا بیوی کو بیمار کروا دے اور "سچےپیار" کے لئے انسان ماں یا
بیوی کی برائیوں کی فہرست تیار کرالے۔ بہانوں نے آج تک کتنے کام نکلوائے
دوسروں سے۔ کتنی ذمہ داریاں اپنی ڈلوائیں دوسروں پہ۔
اسکے بارے میں حتمی طور پر تو کچھ نہیں کہا جا سکتا مگر یہ ضرور ہے کہ
مقابلہ کانٹے کا ہی ہے دونوں کی طرف ہی ووٹ آدھے آدھے نکلیں گے۔ انسان خاص
طور پر ہمارے ہان تو بہانے دن سہانے بنانے کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ کبھی
چھٹی کے لئے کبھی لوڈ کے لئے کبھی اعتبار و پیار کے لئے۔
بہانوں کے حولاے سے جو بات مجھے سب سے اچھی لگتی ہے کہ کبھی بھی کوئی بھی
دوسروں کو نہیں کہہ سکتا کہ بہانے مت بناؤ جی آخر کو ہر ایک ہی تو خود
بہانے بنانے میں دل و جان سے بھی تو مصروف ہے۔ مگر کچھ کاموں کے لئے تو
کبھی بھی بہانوں کی ضرورت نہیں پڑتی جیسا کہ سُستی کےلئے، سونے کے لئے،
گالم گلوچ کے لئے ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،دل توڑنے کے لئے۔
بہانے اس وقت دنیا کا وہ پیچ کس بن چکے ہیں جن کی ہر مسئلے کو کسنے میں
ضرورت پڑ جاتی ہے۔ انسانوں نے بہانے بنا کر جتنا فیض پایا ہے اگر حقیقت پتہ
لگ جائے تو انسان بہانے بنانا حقیقی معنوں میں چھوڑ دے مگر پھر پہلے خود کو
فیض پہنچانے والی حرکتیں شروع کرنا ہوں گی۔ |