ایک دن گورنر خیبر پختونخواہ کیساتھ

ساتھیوں کے ہمراہ ہم گورنر خیبر پختونخواہ کیلئے مختص گورنر ہاؤس پہنچے -جہاں پر سیکورٹی اہلکاروں نے باقاعدہ نام ٗ شناخت پوچھی اور پھر سونگھنے والے "کتوں"سے ہماری تلاشی لی- شائد انہیں اپنی تلاشی پر اعتماد نہیں تھا-عجیب سرکاری لوگ ہے انسان پر اعتما دنہیں کرتے لیکن "کتوں"پر اعتماد کرتے ہیں-
دفتر میں داخل ہونے کے بعد ہمیں بتایا گیا کہ آج آپ کو گورنر کے ساتھ کوریج کیلئے جانا ہے ہم بھی دل میں خوش ہوگئے کہ چلو" ایک دن گورنر خیبرپختونخواہ" کے ساتھ ہم بھی گزارلیں گے - ساتھ ہی سینہ بھی پھول گیا کہ آخر کار ہم بھی سینئر میں شمار ہوگئے کیونکہ1998 ء سے صحافت کرتے کرتے ہمیں آج تک کسی نے سینئر ہی نہیں سمجھا نہ ہی کسی "پہنچی"شخصیت نے مشورے ٗ پی آر او کیلئے بلایا کیونکہ بیشتر صحافی جو ہماری طرح بالوں سے سینئر ہو جاتے ہیں انہیں حکومتی عہدیدار بلاتے بھی ہیں اور نوازتے بھی ہیں لیکن.... واہ رے قسمت ..... نوازنے کی بات تو الگ آج تک کسی نے مشورے کیلئے نہیں بلایا... تو جیسے ہی دفتر میں کہا گیا کہ آپ گورنر کیساتھ باڑہ جائینگے تو خوش ہوگئے - لیکن یہ خوشی اس وقت ادھوری رہ گئی جب ساتھ میں بتایا گیا کہ چونکہ کوئی اور وقت پر نہیںآیا اس لئے آپ اسی "سینئر"کی جگہ جائینگے-

ساتھیوں کے ہمراہ ہم گورنر خیبر پختونخواہ کیلئے مختص گورنر ہاؤس پہنچے -جہاں پر سیکورٹی اہلکاروں نے باقاعدہ نام ٗ شناخت پوچھی اور پھر سونگھنے والے "کتوں"سے ہماری تلاشی لی- شائد انہیں اپنی تلاشی پر اعتماد نہیں تھا-عجیب سرکاری لوگ ہے انسان پر اعتما دنہیں کرتے لیکن "کتوں"پر اعتماد کرتے ہیں-

جو پیغام ہمیں دیا گیا تھا اس میں بتایا گیا تھا کہ نو بجے صبح گورنر ہاؤس پہنچنا تھا دیگر دو ٹیموں کے ہمراہ ہم بھی اندر چلے گئے جہاں پر ہمیں کھڑا کیا گیا جن صاحب نے ہمیں پیغام دیا تھا کہ 9 بجے ہم پہنچ گئے ہیں کیا صورتحال ہے تو ایس ایم ایس کے ذریعے پیغام صرف مسکراتے ہوئے چہرے کا ملا...اور کچھ نہیں ... ہمارے کچھ صحافی دوست بھی گورنر ہاؤس پہنچے جہاں تک ہمیں ساڑھے دس بجے تک انتظار کروایا گیا اسی دوران ہم اپنی گاڑیوں میں بیٹھے رہے کوئی یہ پوچھ نہیں رہاتھا کہ " آخر تم کس مرض کی دوا ہو" -

ساڑھے دس بجے وہ صاحب آئے جنہوں نے میڈیا کو بلایا تھا کچھ ساتھیوں نے ان سے چائے کی فرمائش کی وہ صاحب چائے پلائینگے کی گردان کرتے رہے اسی دوران گورنر ہاؤس کے لان میں ہیلی کاپٹر اتر گیا - اس میں پٹرول ڈالا گیا اور ہم گورنر ہاؤس خیبر پختونخواہ کی عمارت جس کی از سر نو خوبصورتی کیلئے کام ہورہا تھا اسی میں گم تھے اور گاڑی میں بیٹھ کر "آزاد صحافت"اور اپنی اوقات پر سوچتے رہے کہ جب آزاد میڈیا "صاحبوں"کے آگے پیچھے ہوتا ہے تو یہی حال ہوتا ہے- ایک صحافی دوست نے بات کی کہ جہاں گورنر نے جانا ہے ہم پہلے ہی چلے جائینگے صاحبان بعد میں آجائیں یہاں انتظار سے بہتر ہے وہاں پر کچھ کرلیں گے یہی بات اسی دوست نے بھی کی لیکن بقول اس کے " میڈیا " کو اپنے آگے پیچھے لے جانے کا اپنا مزا ہے-تمھیں اس کا پتہ ہی نہیں-

گیارہ بجے ہمیں بتایا گیا کہ " صاحب"ہیلی کاپٹر میں جائینگے اس لئے اپنی اپنی گاڑیوں میں بیٹھ کر روانہ ہو جاؤ یہاں سے "سرکار "کی مدح سرائی کرنے والے اور سرکار سے صحافت کے نام پر تنخواہ لینے والے"کلرک نماصحافی"بھی آپ کے ساتھ جائینگے - ہمیں روانہ کردیا گیا لیکن گورنر ہاؤس کے سامنے روڈ پر جانے سے روک دیا گیا.. سیکورٹی اہلکاروں نے کسی سے بات کی .. ایک صاحب جن کا تعلق گورنر ہاؤس سے تھا بڑے اکڑ سے نیچے اترے لیکن بتایا گیا کہ بھائی واپس جاؤ یہاں سے آگے نہیں جاسکتے - اسی دوران ایک صحافی نے سیکورٹی اہلکاروں کے حوالے سے بات کی کہ دیکھو یہ ہمیں آگے جانے کی اجازت نہیں دے رہے . میں نے جواب دیا کہ صاحب جی یہ انکی ڈیوٹی ہے اس میں کوئی بڑا چھوٹا نہیںٗ یہی تو ایک ادارہ ہے جو بغیر کسی لحاظ کے اپنا کام کررہا ہے- ہمیں دوسرے راستے پر پولٹیکل ایجنٹ کے دفتر لے جایا گیا جہاں پر گورنرہاؤس کے اہلکار کیساتھ جو اس وقت دفتر جانے کی کوشش کررہا تھا کو خاصہ دار نے روک دیا - گورنر ہاؤس سے تعلق رکھنے والے شخص نے کہہ دیا کہ میں"اونچی چیز "ہوں .. خاصہ دار نے جواب دیا یہاں آنیوالا ہرایک اپنے آپ کو اونچی چیز سمجھتا ہے اسی پر تو تو میں میں ہوگئی لیکن بعد میں جب صحافی موقع پر پہنچے تو حالات کو کنٹرول کرلیا گیا تاکہ بے عزتی کا پتہ نہ چلے ..اسی سفر میں ہمیں اندازہ ہوگیا کہ سرکار کے کام کیوں لیٹ ہوتے ہیں..

رنگ روڈ کے راستے ہمیں شلوبر کے علاقے میں پہنچایا گیا جہاں پر گورنر نے آنا تھا- پولٹیکل انتظامیہ سمیت علاقے کے مخصوص ملکان ہاتھوں میں گلدستے لئے کھڑے تھے ہماری ٹیمیں موقع پر پہنچ گئیں تو ایک صاحب جس کے چہرے پر مونچھیں بڑی تھی اور ساتھ میں اس کا بڑھا ہوا پیٹ اس کے مفت خوری کا چلتا پھرتا نمونہ تھا -نے صحافیوں کیساتھ بدتمیزی کی جس پر صحافیوں نے کیمرہ مینوں سمیت گورنر کی اس تقریب جس میں وہ نقاب کشائی کررہے تھے انکار کردیا-بعد میں سیکورٹی فورسز سے تعلق رکھنے والے اہلکار بھی معذرت کیلئے پہنچ گئے لیکن ...ان صاحب کے الفاظ ...اورصبح دس بجے سے ہونیوالے سلوک نے صحافیوں کو غصہ کیا تھاسو کسی نے بھی ان کی معذرت قبول نہیں کی اور کہا کہ صرف تقریر کی کوریج ہوگی- یہ الگ بات کہ پی ٹی وی کے ایک اہلکار جو باپ کی جگہ کوٹے میں کیمرہ مین بھرتی ہوا تھاوہیں پر کھڑا ر رہا کیونکہ اسے اپنی بے عزتی محسوس نہیں ہورہی تھی جبکہ ایک مقامی صحافی نے آنکھیں بند کرتے ہوئے گورنر کی اس نقاب کشائی کی فوٹیج بھی بنا ڈالی- پی ٹی وی کا اہلکار تو صاحب کے آگے پیچھے ہونے کے چانس میں تھا لیکن اپنے قبائلی صحافی کے آنکھیں بند کرنے پر بہت غصہ آیا لیکن....

تقریب شروع ہوگئی- متنی سے تختہ بیگ کی نئی سڑک صرف ایک سال میں بن گئی ٗ اور امید ظاہر کی گئی کہ اس سڑک کی تعمیر سے حالات بہتر تبدیل ہونگے --ساتھ میں روایتی باتیں بھی ہوگئیں کہ حکومت اب قبائلی علاقوں کی صورتحال پر توجہ دے رہی ہیں- تقریروں کے بعد ہائی ٹی کا دور چلا اور ہمارے کچھ دوست تو جیسے ..... رات سے بھوکے تھے ....خیر...اسی دوران بارش شروع ہوگئی -ہمیں بتایا گیا کہ صاحب لوگوں نے باڑہ بازار جانا ہے اسی لئے لائن میں لگ جاؤ اور یہاں سے باڑہ بازار جائینگے جو سال 2010سے بند پڑاتھا اوراب کھل گیا ہے-بارش میں روانہ ہوگئے راستے میں دیکھا کہ شلوبر کا ایک گورنمنٹ سرکاری سکول اس وقت بھی خیموں میں ہے اور ہزاروں بچے دو بڑے خیموں میں پڑھا رہے ہیں-دیکھ کر افسوس بھی ہوا ساتھ میں دیکھاکہ سڑک کنارے نہ کوئی بندہ نہ بندے کی ذات ٗ اندازہ ہوا کہ یہ غیر اعلانیہ کرفیو ہے اور قبائلیوں کو کہاگیا ہے کہ "صاحب:"لوگ باڑہ کے دورے پر ہیں اس لئے اپنی اوقات میں ہو اورگھر میں رہو.. ایک جگہ پر دیکھا کہ سفید ریش آدمی اور بچے ایک دکان میں بیٹھے تھے اور افسوس سے ہمیں دیکھ رہے تھے جب غور کیا تو پتہ چلا کہ ایک خاصہ دار کلاشنکوف اٹھائے ان پر مسلط ہے کہ کہیں یہ اٹھ کر آگے نہ آجائیں ....

کرفیو زدہ باڑہ بازار میں گورنر کو بریفنگ دی گئی کہ یہاں حالات تبدیل ہوگئے ہیں اور امن آچکا ہے اس وقت صحافیوں کو بتایا گیا کہ دیکھ لو کتنا امن ہے ٗ اور ہم سنگینوں کے سائے تلے امن کو دیکھ رہے تھے ..در و دیوار کی تباہی بتا رہے تھے کہ یہاں کبھی بازار تھے لیکن اب.... ٹوٹے پھوٹے دیوار ....اور خاموشی تھی.... جب ہم نے سوال کیا کہ شلوبر کے سکول جو کہ اس وقت خیمے میں ہیں اس طرح کی تبدیلی دیکھنے کو ملے گی تو پولٹیکل ایجنٹ نے صاحب کے کان میں کہہ دیا کہ"ابھی کام جاری ہے" جلد ہی متوقع تبدیلی دیکھنے کو ملے گی جسے صاحب نے آگے فارورڈ کرتے ہوئے کہہ دیا کہ ہم سرکاری سکولوں کی حالت بہتر کررہے ہیں ... ان کے ہیلی کاپٹر میں جانے کے بعد صحافیوں کی ٹیموں نے پشاور کا رخ کیا . باڑہ قدیم کے نزدیک پہنچنے پر گورنر ہاؤس کے ایک اہلکار نے بتایا کہ یہ بھی دکھاؤکہ کتنا رش ہے اور ہم اس کو دیکھتے رہ گئے کہ جو جگہ دکھانے کی ہیں وہ ہم اسی طرح دکھا نہیں سکتے جس طرح ہیں لیکن خاموشی سے روانہ ہوگئے- راستے میں ایک جگہ پر رکے تو ایک دو طالب علم ہمارے حلئے کو دیکھ کر پشتو میں آوازیں لگانے لگے کہ "ابے او گنجے کس لئے آئے ہو" وہ سمجھے تھے کہ اسکو پشتو نہیں آتی ہوگی جواب میں میں نے سر نکال کر جواب دیا کہ "تمھاری نانی کی شادی تھی"اس کی کوریج کیلئے آئے تھے ... جس پر دونوں طلباء نے جلدی سے منہ موڑ لیا... پھر دفتر آئے اور اور ہم اپنی دل کی بھڑاس لئے "ایک دن گورنر کیساتھ" لکھنے بیٹھ گئے-
 
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 589 Articles with 424982 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More