یہ ہماری خو ش قسمتی ہے کہ آجکل جناب چیف
جسٹس پاکستان انور ظہیر جمالی صاحب کی تقاریر اور بیانات پڑھکر اندازہ ہوتا
ہے کہ پاکستان سے انکی جو وابستگی ہے وہ من و عن ایسی ہے جیسی پاکستان
بنانے وا لے چاہتے تھے، انہیں اس بات کا احساس ہے کہ ہم ۶۸؍سال گذرجانے کے
بعد بھی ملک کو ایک اسلامی فلاحی ریاست نہ بنا سکے ۔ اسلامی اقدار بھولکر
حلال و حرام میں بھی فرق نہ کرسکے اور قومی، لسانی اور علاقائی گتھیوں میں
الجھ گئے، پاکستانی کوئی بھی نہ بنا۔
پچھلے کچھ عرصہ سے میڈیا پر جو خبریں ہوتی ہیں ان میں ایک خبر ہوتی ہے کہ
فلاں شخص کو جس نے ۱۵ ۔ ۲۰ سال قبل کسی کو قتل کردیا تھا اسکو فلاں جیل میں
تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔ میں چیف جسٹس صاحب سے درخواست کرتا ہوں کہ ایک
بڑی بنچ تشکیل دے کر اس معاملہ پر کوئی فیصلہ کرایا جائے کہ ان بد بختوں کو
دوہری سزا کیوں دی جارہی ہے۔ اگر حکومت کے پاس تختہ ڈار نہ تھا یا پھانسی
دینے والوں کی کمی تھی تو انکو اتنے عرصہ کیوں موت و زیست کی کشمکش میں
ڈالے رکھا، کیوں نہ انکی سزا کو عمر قید میں تبدل کر دیا اور پھر عرصہ دراز
کے بعد پھانسی دیدی گئی۔کیا یہ ظلم کی تعریف میں نہیں آتا؟
امید ہے کہ میری یہ کوشش صحیح جگہ تک پہنچ جائے ، کوئی فیصلہ عین قانون کے
مطابق ہو جائے مگر سدائے سحرا نہ ہوجائے۔ |