سابق ناظم کراچی مصطفےٰ کمال تین سال بعد
منظر عام پر آئے تو صحافتی پنڈتوں نے وہ ہو ہو کار مچائی کہ کان پڑی آواز
سنائی نہ دیتی تھی جس وقت اور جو بھی چینل لگایا جاتا مصطفےٰ کمال ہی نظر
آتایا اسی کا ذکر ہو رہا ہوتا، کوئی اینکر یا تجزیہ کار ایسا نہ تھا جو ایم
کیو ایم اور مصطفےٰ کمال پر اپنی اپنی سوچ اور فکر کے گھوڑے نہ دوڑا رہا ہو،
ایسے میں ذہن چند ہونے والے واقعات کی طرف چلا جاتا ہے جب ممتاز حسین قادری
کو خاموشی سے پھانسی دے دی جاتی ہے اور پوری قوم سراپا احتجاج بن کر سڑکوں
پر نکل آتی ہے مگرلوڈ شیڈنگ کے خلاف احتجاج کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے اور
میچ ہارنے پر بلے جلائے جانے اور ٹی وی توڑنے کے اِکا دُکا واقعات کے مناظر
دکھانے والے تی وی چینلز کو نہ تو وہ ملک گیر احتجاج نظر آتا ہے اور نہ ہی
لاکھوں لوگوں کا نمازِ جنازہ میں شریک ہونا اور صحافت کے بے باکوں کی
زبانیں بھی اس معاملے میں گنگ ہو کر رہ جاتی ہیں۔ ۔۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ
بے شمار مسلکی اور سیاسی اختلافات کے باوجود تمام مسالک کی تمام مذہبی
جماعتوں نے اس حکومتی فیصلے کی بھرپور مزمت کی اور ممتاز قادری کی پھانسی
کو سفاکانہ عمل قرار دیتے ہوئے اس پر شدید ردِ عمل کا اظہار کیا، مگر قابل
افسوس اَمر یہ ہے کہ جو ہونا چاہئے تھا وہ نہ ہوا، تمام مذہبی جماعتوں کو
ممتاز قادری کی پھانسی اور بعدازاں حکومتی اقدامات اپنے لیے ایک ترازو
سمجھنا چاہئے کہ حکومت نے ان کا وزن تول کر تمام فیصلے کیے ہیں اور یہ
فیصلے اور اقدامات مذہبی سیاسی جماعتوں کے لیے لمحہ فکریہ بھی ہیں، لمحہ
عمل بھی اُنھیں ’’ Now or Never ‘‘ کی پالیسی کو اپناتے ہوئے ایک مضبوط اور
مؤثر مذہبی اتحاد بنا کر اپنی قوت کا مظاہرہ کرنا ہوگا کیونکہ حکومتی
فیصلوں پر اثر انداز ہونے کیلئے پارلیمانی طاقت کا ہونا ضروری ہے جوکہ
مذہبی جماعتوں کی نہ ہونے کے برابر ہے اور اس کی بڑی وجہ 2013ء کے انتخابات
ہیں، ہر جماعت کا انفرادی طور پر حصہ لینا ہے، ماضی میں متحدہ مجلس عمل کی
مثال ہمارے سامنے ہے، اسی مثال کو پیش نظر رکھتے ہوئے مذہبی جماعتوں کو اس
تجربے کو ایک مرتبہ پھر دہرانا ہوگا اور اس مرتبہ ساتھ پرائیویٹ سکول اونرز
کی کمیونٹی کو بھی شریک اتحاد بنانا چاہئے کیونکہ وہ بھی حکومتی ہتھکنڈوں
سے بہت نالاں اور پریشان ہیں چونکہ الیکشن لڑنے کے لیے سرمایہ درکار ہوتا
ہے اور سکولز کمیونٹی میں بیشتر ایسے لوگ ہیں جنھیں سرمائے کی بھی فکر نہیں،
اس لیے مذہبی جماعتوں کو اتحاد بنانے اور اپنی حیثیت منونے کا اس سے اچھا
اور بہتر موقع پھر نہیں ملے گا کیونکہ ’’ رسمِ دنیا ہے، موقع بھی ہے اور
دستور بھی ہے‘‘۔ اگر مذہبی جماعتوں کے راہنماؤں نے اپنی انا کے خول اور
فروعی اختلافات کے پیش نظر یہ موقع ضیائع کردیا تو پھر 2018ء کے عام
انتخابات تو درکنار وہ آئندہ بھی پارلیمینٹ میں جانے کے خواب تو دیکھیں گے
مگر تعبیر نہیں پائیں گے۔
|