پاکستان میں اقلیت!
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
بلاول زرداری نے ، جنہیں ان کی خواہش
پر بھٹو بھی لکھا اور بولا جاتا ہے، ہندو برادری کے اجتماع سے خطاب کرتے
ہوئے کہا ہے کہ ’’․․ بھارت میں ایک مسلمان کو صدر بنایا جاسکتا ہے تو
پاکستان میں اقلیتی نمائندے کو کیوں اعلیٰ عہدہ نہیں دیا جاسکتا ․․ ہم
پاکستان میں یکساں قانون نافذ کریں گے ․․․ مذہب کی زبردستی تبدیلی کو روکنا
بہت ضروری ہے ․․․ مشرف اور بے نظیر کے لئے الگ الگ پاکستان نہیں بنایا
جاسکتا، دونوں کو ایک ہی پاکستان میں رہنا ہے ․․․‘‘۔ بلاول زرداری پاکستان
پیپلز پارٹی کے لئے امید کی آخری کرن کی حیثیت رکھتے ہیں، جب سے پارٹی زوال
پذیر ہوئی ہے، تب سے قوم کو یہی بتایا جاتا ہے، کہ بس بلاول کے آنے پر
انقلاب آجائے گا۔ موصوف کبھی باہر جاتے ہیں تو ان کی واپسی پر بھی قوم کو
بھر پور سیاسی تبدیلی کی نوید سنائی جاتی ہے۔ اب آنے والے دنوں میں ان کو
جنوبی پنجاب میں جلسہ ہونے کو ہے، جوکہ مخدوم احمد محمود رحیم یار خان میں
منعقد کرنے جارہے ہیں، بتایا جارہا ہے کہ جنوبی پنجاب میں سیاسی حالات کی
کایا پلٹ جائے گی، اور پی پی ہی خطے کا مستقبل ہے۔ یہ سب کاروائیاں سیاست
کا حصہ ہیں، قوم کو امید اور توقع پر رکھا جاتا ہے، مایوسی سیاست میں گناہِ
کبیرہ کا درجہ رکھتی ہے۔ بلاول زرداری نے بھی اپنی پارٹی اور موجود رہنماؤں
کی توقع پر پورا اترنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ وہ جلسوں میں بالکل عوامی
انداز میں تقریر کرتے ہیں، اپنی والدہ ماجدہ کے اندازِ خطابت کو اپناتے اور
اپنے جیالوں کے دلوں کو گرماتے ہیں۔ عوامی جذبات کو ابھارنے کے ہنر آزماتے
ہیں۔ ان کے خطاب سے یہ اندازہ کم ہی لگایا جاسکتا ہے کہ وہ باہر کی دنیا سے
تعلیم حاصل کرکے آئے ہیں، یا وہ دنیا کی تہذیب اور آداب سے بخوبی آگاہ ہیں۔
وہ تعلیم حاصل کرنے کے باوجود مقامی سیاست کی طرح دوسروں کو للکارنے اور ان
کے الٹے سیدھے نام لے کر ہی اپنے کارکنوں کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہیں، وہ
پارٹی کے لوگوں کے مزاج کو تبدیل کرنے کی بجائے، انہیں وقت کے ساتھ ڈھالنے
کی بجائے، خود ان کے انداز میں ڈھل چکے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے نوجواں چیئرمین کا تازہ بیان ان کے اپنے نظریات پر بھی مبنی
ہے اور ان کی پارٹی کی ترجمانی بھی۔ پاکستان کے کسی بھی سیاسی ، سماجی حتیٰ
کہ مذہبی رہنماؤں میں سے بھی کسی کو اقلیتوں کو برابر کے انسان سمجھنے میں
اعتراض نہیں، بلکہ اسلام میں اقلیتوں کے حقوق ہر کسی سے زیادہ ہیں۔ یہی وجہ
ہے کہ تمام مسلمان لیڈر اقلیتوں کے حقوق کی علمبرداری کے ساتھ ان کے مذہبی
تہواروں میں بھی شرکت کرتے رہتے ہیں، چند ماہ قبل وزیراعظم پاکستان نے بھی
ہندوؤں کے ایک تہوار دیوالی پر خود پر رنگ پھینکنے کا مطالبہ کیا تھا، مگر
انہیں علم نہیں تھا، یا پھر یاد نہیں تھا کہ رنگ ہولی پر پھینکے جاتے ہیں ،
دیوالی پر نہیں۔ مسیحی برادری کے مذہبی تہواروں میں مذہبی رہنما خیر سگالی
کے جذبے کے تحت جاتے رہتے ہیں۔ پاکستان میں زبردستی مذہب کی تبدیلی کی
روایت نہ ہونے کے برابر ہے، اس لئے بلاول صاحب کو اس قدر ناراض ہونے کی
ضرورت نہیں۔ ویسے بھی اگر کوئی کسی کو زبردستی مذہب تبدیل کرانے کی کوشش
کرتا ہے، تو اس کے لئے یقینا پہلے سے قانون موجود ہے، عمل کروانے والا
چاہیے۔
مارچ کو تو نظریہ پاکستان کا مہینہ قرار دیا جاتا ہے، کیونکہ 23مارچ کو یہی
قرار داد منظور کی گئی تھی، کہ مسلمانوں کے لئے الگ وطن حاصل کیا جائے گا۔
پاکستان واحد ملک ہے جو ایک الگ اسلامی ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے پر
نمودار ہوا۔ پھر اس کا آئین بنا ، بنتے بگڑتے آخر 1973ء میں معرضِ وجود میں
آنے والا آئین ہی حتمی قرار پایا، اگرچہ وہ ترامیم کی دو درجنیں پوری کرنے
کو ہے، مگر اس کی اصل وہی ہے۔ اب بلاول نے اپنے نانا کے اس کارنامے پر پانی
پھیرنے کا فیصلہ کرلیا ہے، تو وہ خود اپنی سیاست کا راستہ تیار کرلیں۔ ویسے
بھی بے شمار اعلیٰ عہدوں پر اقلیتوں کے ممبران جلوہ گر رہے ہیں، بھگوان داس
کا معاملہ تو تازہ ہے، وزیروں مشیروں کی کہانیاں اس کے علاوہ ہیں۔ بلاول
صاحب اگر پاکستان میں بھی اقلیت کے نمائندے کو کسی اہم ترین عہدے پر دیکھنا
چاہتے ہیں، تو اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ بھارت نے اگر کسی مسلمان کو صدر
بنایا تو پاکستان نے اسی کے ہم منصب ڈاکٹر قدیر کو کس قدر خوار کیا، اگر
عبدالکلام کو صدر بنایا جاسکتا ہے تو کیا ڈاکٹر قدیر کو نہیں بنایا جاسکتا؟
پاکستان میں اقلیت کی اپنی اہمیت ہے، اس پر سیاست کرنے کی گنجائش نہیں۔
|
|