مجرم نہیں، مسلم کو سزا ملی ہے
(Rameez Ahmad Taquee, Delhi)
شیخ سعدی شیرازیؒ نے گلستاں میں ایک قصہ
ذکر کیا ہے کہ ایک شخص جس شاخ پر بیٹھا ہوا تھا، اسی کو کاٹ رہاتھا، ایک
عقلمندآدمی کی اس پر نظر پڑی ،تو اس نے اس بیوقوف کو سمجھایا،مگر وہ نہ
مانا،نتیجۃََکچھ دیر بعد وہ شخص درخت سے نیچے آرہا۔ آج یہی سب کچھ ہمارے
ملک ہندوستان میں ہورہا ہے کہ کچھ لوگ اس کی چھاتی پر بیٹھ کر اسی کا سینہ
چاک کرنے میں لگے ہیں۔یہ لوگ کون ہیں اور ایسا کیوں کررہے ہیں؟ تویہ وہ لوگ
ہیں جو ملک کی ترقی سے پہلے اپنی ترقی کے خواہاں ہیں اور اپنا کام بنتا
بھاڑ میں جائے جنتا، یا شیخ اپنا دیکھ جیسے خودساختہ اصول ان کا مقصدِ حیات
بن چکا ہے اوراب یہ عمومی فضا بنتی جارہی ہے،ہمارے ذہنوں اور دماغوں میں
طرح طرح کے باطل خیالات جنم لینے لگے ہیں ۔ آج ملک کی جو صورتِ حال ہے وہ
سب کے سامنے ظاہر وباہرہے،ملک کا ہر شہری اس کی آبادی اور بربادی میں برابر
کا حصہ دار ہے، خواہ وہ اس ملک میں بسنے والا مسلمان ہو، یا ہندو اور یا
پھروہ کسی بھی مذہب وملت اور فکرونطر سے تعلق رکھنے والا عام وخاص آدمی ہو،
ہر ایک کی یہ پوری پوری ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس ملک کی تعمیرو ترقی میں
، بلکہ اس کی برتر ی وبہتری میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر حصہ لے۔ جس طرح
ایک درخت کی مختلف شاخوں میں سے کسی ایک شاخ کو بھی اس درخت کا جز نہ ہونے
سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے، اسی طرح اس ملک کے پورے مختلف النوع شہریوں
کے تعلق سے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ اس ملک کے حصہ اور باشندے نہیں ہیں
اور جس طرح ایک درخت کی شادابی کے لیے یہ ضروری ہے اس کی مکمل شاخوں کو
باقی رکھ کر اس کی سیچائی کی جائے،اسی طرح ہندوستان کی جمہوریت کی بقا بھی
اسی میں مضمر ہے کہ ہم سب متحد ہوکر اس کی تعمیروترقی میں برابرکے حصہ دار
ہوں ،ورنہ جس طرح ایک درخت کی مختلف شاخیں کٹ کر ایک دوسرے سے جدا ہوکر صرف
دو دن بعد ہی ہمارے چولہوں کا ایندھن بن کر راکھ کی طرح ہوا میں منتشر
ہوجاتی ہیں، اسی طرح ہما را ملک ہندوستان، جو پوری دنیائے انسانیت میں گنگا
جمنی تہذیب کا سب سے بڑا علمبردار ملک کہلانے کا حق رکھتاہے،جس کی گود میں
مختلف رنگ ونسل اور مذہب وملت کے لوگ پلتے اور بڑھتے ہیں ، کی رنگت پھیکی
پڑجائے گی ، تاریخ کے صفحات پر اس کا نام ونشان تک باقی نہیں رہے گا،
کیونکہ اس ملک کی سالمیت وبقا اسی میں ہے کہ اس کو ان مختلف رنگوں کے ساتھ
نام دیا جائے ،اس کے ہر شہری کو ہندوستان کا ایک اٹوٹ حصہ اور جز تسلیم کیا
جائے اور سب کا ساتھ سب کا وکاس کا نعرہ صرف زبانی نہ ہو بلکہ عملی طوربھی
پر اس کا مظاہرہ کیا جائے،مذہب وملت اور ذات پات کے نام پر اس کو تقسیم نہ
کیاجائے ، ورنہ ذلت ورسوائی اور خسران کے علاوہ کچھ بھی ہاتھ نہیں آئے گا۔
مگرصد افسوس کہ آج یہاں کچھ لوگ ایسے پیدا ہوچکے ہیں جواس ملک کو ذات پات
اور مذہب وملت کے نام پر باٹنا چاہتے ہیں ، ان کی گفتاروکردار سے ذاتی بھید
بھاؤ اور آپسی مخالفت کی بوآ تی ہے، یہ درحقیقت ہماری ہی حرماں نصیبی ہے کہ
ہم نے ان جیسے جاہلوں کو اپنا پیشوا چن لیاہے ، جنہیں حقیقت میں نہ تو اپنے
وجود ہی کا صحیح علم ہے اور نہ ہی وہ مذہب کی حقیقی روح کو جانتے اور
پہچانتے ہیں ، جس کے باوصف وہ ایسی بہکی بہکی باتیں کرتے رہتے ہیں،اب تو یہ
روز مرہ کا قصہ بن چکا ہے ، بلکہ ہر کوئی جو منھ میں آتا ہے بک دیتا ہے کہ
جو وندے ماترم نہیں پڑھے گا وہ پاکستا ن چلاجائے، جو یہ نہ کرے وہ پاکستان
چلا جائے اور جس کو گائے کا گوشت کھانا ہے وہ پاکستان چلا جائے۔ حد ہوگئی
بیوقوفی اور جاہلیت کی، نہ جانے ایسے لوگوں کو کن لوگوں نے عہدہ دے دیا ہے
اور وہ دنیا کے کس کونے سے ننگ دھرنگ بھاگے ہوئے چلے آئے ہیں، ساکشی،
پراکشی، پروین توگڑیا،یوگی ادتی ناتھ اور اس طرح کے جتنے بھی لوگ ہیں خواہ
وہ جس شہر اور جس مذہب وملت سے بھی تعلق رکھنے والوں ہوں، وہ سب کے سب اس
ملک کی گنگا جمنی تہذیب کے لیے زہرِ ہلاہل ہیں، ان سے نہ ہی ہمارے دیش کا
کوئی فائدہ ہونے والا ہے اور نہ ہی وہ اس قابل ہیں کہ ہم ان سے کوئی خیر کی
امید کریں، کیونکہ سانپ سے بھلائی کی امید کرنا بڑی بیوقوفی ہے۔ان پر
بھروسہ کرنا ملک کو بندر بانٹ کرنے کے مترادف ہوگا،کیونکہ اس وقت نہ ہی ہم
ایک رہیں گے اور نہ ہی ہمارا قانون یکساں ہو گا، اچھائی کا قتلِ عام
ہوگااور برائی کی ستائش کی جائے گی، اچھے لوگ قتل کیے جائیں گے اور برے
لوگوں کو نوازا جائیگا۔ اور آج یہ سب کچھ ہورہا ہے، آپ بالکل خالی الذہن
ہوکر سوچیے کہ آج کا ہمارا ہندوستانی قانون جانب داری سے کتناپاک
ہے؟کیاہمارا قانون سب پر یکساں نافذ ہوتا ہے؟ نہیں نا! حالانکہ ہوناتو یہ
چاہیے کہ ہماراقانون بلاتفریق مذہب وملت سب پریکساں عائدہو ، چاہے وہ ہندو
ہو یا مسلمان، یا پھروہ کسی بھی مکتبۂ سے فکر تعلق رکھنے والا عام و خاص
آدمی ہو، مگر صدافسوس کہ ہمارے اس ملک میں جس کی کثرت میں وحدت شان ہے،
قانون ذات پات اور مذہب کو دیکھ کر عائد کیا جاتا ہے۔چنانچہ کسی ایک معاملہ
میں اگردومجرم پکڑے گئے، ایک مسلمان ہے اوردوسرا ہندو ہے،تو یہاں سزائیں
مختلف ہوں گی۔ہندو کے لیے کسی ایک سزا کا اعلان ہوگا، تو وہیں اسی کیس کے
مسلم مجرم کی سزا کچھ اور ہوگی ۔ ممبئی بم بلاسٹ کیس کا ملزم یعقوب میمنؒ
کوسپریم کورٹ نے جوپھانسی دینے کا فیصلہ سنایاتھا ، وہ بھی کہیں نہ کہیں
اسی بھید بھاؤ والی ذہنیت کے لوگوں کی کارستانی ہے۔ قطعِ نظر اس سے کہ ممبئ
بم بلاسٹ کیس میں یعقوب میمن مجرم تھا یا نہیں ، سوال تو یہ ہے کے کیا
ہندوستان میں 1993کے بم بلاسٹ سے زیادہ کبھی اتنی جان ضائع نہیں ہوئیں؟ کیا
گجرات، بھاگلپور، مظفرنگر فسادات میں ہوئی اموات اس سے زیادہ نہیں تھیں؟
مگر کیا ان دنگوں کے مجرمین کو تختۂ دار پر لٹکادیا گیا؟گزشتہ تین سالوں
میں تقریبا ایک ہی طرح کے جرم میں تین مسلمانوں کو پھانسی دی گئی ، جبکہ ان
تین سالوں میں پھانسی کی سزا پانے والے لوگوں کی تعداد گیارہ سو سے زائد ہے
اور ان کا جرم ان سے بھی کئی گنہ بڑھا ہوا ہے، مگرانہیں پھانسی دینا تو دور
کی بات، انہیں سزائیں بھی نہیں دی گئیں،اسی طرح کیا گاندھی جی، سابق
وزیراعظم راجو گاندھی، وزیر اعلیٰ پنجاب رمن سنگھ اور اندرا گاندھی کے
قاتلوں کو پھانسی ہوئی؟گودھرا کانڈ، مکہ مسجد اور اجمیر بم بلاسٹ کے مجرمین
جنہوں نے اپنا جرم قبول بھی کرلیاتھا ، کیا ان کو پھانسی ہوئی؟ اگر ان
اقبالی مجرمین کو پھانسی نہیں ہوئی ،تو پھر یعقوب میمن ہی کو پھانسی کیوں؟
صد افسوس کہ ان مجرموں کوپھانسی کیا ہوتی یہ لوگ تو آج بالکل دودھ میں دھلے
ہوئے بے داغ لوگوں کی طرح کھلے عام گھوم پھر رہے ہیں،مگر جب ہماری عدالت نے
آج ایک مسلمان کا جرم ثابت کردیا ، تو اس کی رحم کی اپیل کو خارج کرکے اس
کو تختۂ دار پر لٹکادیا۔ کیا یہ انصاف کا خون نہیں ہے؟ کیا یہ فیصلہ مذہب
کی بنیاد پر نہیں کیا گیا؟ حالانکہ سی بی آئی کے اس بیان سے کہ یعقوب نے
ہماری ایجنسی کو صرف ایک دن میں وہ معلومات فراہم کی جو ہماری ایجنسی چالیس
سالوں میں نہ کر سکی اور خود یعقوب میمن کے اس خط سے جو انہوں نے 28
جولائی1999میں سپریم کورٹ کو لکھا تھا کہ میں نے خود گرفتاری دی ہے اور
میری گرفتاری کی ساری خبریں بے بنیاد اور جھوٹ ہیں اورسی بی آئی نے سزائے
موت نہ دلائے جانے کے عوض مجھ سے اس کا وعدہ کیا تھا، اس لیے میرے ساتھ کیے
گئے اس وعدہ کونبھایا جائے،نیز پھانسی کے تعلق سے ہمارے ملک کا اصول یہ ہے
کہ اس کو بہت ہی حساس اور شاذ معاملے میں نافذ کیا جائے، مگرسوال یہ اٹھتا
ہے کہ کیا تمام مسلم مجرموں کا مسئلہ اتنا سنگین ہوجاتا ہے کہ اس کو پھانسی
کی سزا دے دی جائے اوروہیں جب کسی ہندو کا جرم ثابت ہوجائے ،بلکہ وہ اپنا
جرم قبول بھی کرلے، تو ان کو بیل در بیل اور چشم پوشی کرکے بچالیا
جائے۔ہمیں تو ان ججوں پر بھی بڑا افسوس ہوتا ہے جو فیصلہ دیتے وقت یہ کہتے
ہیں: فیصلہ گو تاخیر سے ہو، مگر ہمیں فیصلہ دیتے وقت اس وقت کا خیال کرنا
چاہیے جب مجرم نے جرم کیا تھا، مگر یہاں سوال یہ ہوتا ہے کہ ہمارے محترم جج
صاحب آپ یہی بات گودھرا کانڈ، مکہ مسجد اور اجمیر بم بلاسٹ، بابری مسجد کو
شہید کرنے والے اور گجرات وبھاگلپور اور مظفر نگر میں فساد مچانے والے
مجرموں کے بارے میں کیوں نہیں کہتے؟ جب آپ کے پاس ان کا معاملہ پیش کیا
جاتا ہے، تو ان کو بیل کیوں دے دیتے ہیں ؟ کیا اس وقت آپ کے دل میں ان کے
جرم کا خیال نہیں آتا؟آپ نے اور آپ کی عدالت نے تو یعقوب میمن کو بیس سالہ
عرصہ میں کبھی بیل بھی نہیں دیا، جبکہ گودگھرا کانڈ، گجرات، بھاگلپور فساد
اور بابری مسجد کو شہید کرنے والے مجرمین نہ صرف بیل پر رہاہورہے ہیں، بلکہ
آج ملک میں ان کو پدم شری اور نہ جانے کتنے بڑے بڑے اعزازات سے نوازاجارہا
ہے ،مزید یہ کہ ان میں سے کئی مجرمین تو ایسے ہیں جو آج ایوان میں بیٹھے
ہمیں ہی جرم کا درس دے رہے ہیں، کیا اس وقت آپ کے دل میں ان کے دل دوز اور
انسانیت سوز ظلم کا خیال نہیںآتا؟ معاف کیجیے گا میں یہ کوئی عدالت پر اور
اپنے محترم ججوں پر اعتراض نہیں کررہا ہوں، بلکہ ہم جس ملک میں آباد ہیں اس
کی موجودہ صورتِ حال کا رونا رورہے ہیں۔مگر یہاں یہ بات بھی یاد رہنی چاہیے
کہ اگر ظلم کہیں بھی اپنی جگہ بناتا ہے، تو صرف مظلوم ہی اس کا شکار نہیں
ہوتے ہیں،بلکہ آگ جب دہکائی جاتی ہے، تو پھروہ یہ تمیز نہیں کرتی کہ کون اس
کے دوست کا گھر ہے اور کون اس کے دشمن کا گھر ہے، سب کے سب اس ظلم کی آگ
میں جل کر بھسم ہوجاتے ہیں۔ خانہ جنگی سے کسی قوم اور ملک کا کبھی بھلا
نہیں ہوا ہے، بلکہ اس منحوس وبا کے باوصف یونان ومصرروما جیسے بڑے بڑے
سوپرپاور ملک بھی تباہ برباد ہوگئے اور تاریخ نے ان کا نام و نشان بھی مٹا
دیا، علامہ اقبال نے اسی کے بارے میں تو کہا تھا کہ:
یونان مصروروما سب مٹ گئے جہاں
اب تک مگر ہے باقی نام نشاں ہمارا
ہمار نام اس لیے باقی ہے کہ ہم متحد تھے ، دوسرے کے درد کو اپنا درد سمجھتے
تھے ، مگر آج ہم بدل گئے ہیں، سیاست ہماری تہذیب پر غالب آگئی ہے ،ہمارے
اندر رنگ و نسل ا رو مذہب کا بھید بھاؤ آگیا ہے ،اس لیے ہماری تہذیب بھی
بدلتی جارہی ہے اور ہم اپنے وقار کو کھوتے چلے جارہے ہیں،اگراب بھی ہم نے
اپنے آپ کو نہیں بدلا اور مذہب کی بنیاد پر خانہ جنگی کو بڑھاوا دیتے رہے
،تو وہ دن دور نہیں جب ہم تباہ وبرباد ہوجائیں گے، زمانہ اور تاریخ سب ہم
کوفراموش کردیں گے۔کاش اہل خرد عقل ودانش کا ناخون لے کر اس معاملے کو
سمجھتے اور منجدھار میں پھنسی ہوئی ہماری اس نیا کو پار لگاتے!!! |
|