کڑوی گولی
(Tariq Hussain Butt, UAE)
اس میں کسی کو کوئی شک و شبہ نہیں ہونا
چائیے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے لیکن اس کے باوجود کوئی تاریخ سے سبق
نہیں سیکھتا بلکہ انسان نئے نئے تجربات کرنے میں جٹ جاتا ہے لیکن اس کا
نتیجہ بھی وہی نکلتا ہے جسے تاریخ کا فیصلہ کہا جاتا ہے ۔۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹
کو جنرل پرویز مشرف نے میاں محمد نواز شریف کی حکومت کو برخاست کر کے
اقتدار اپنی مٹھی میں بند کر لیا تو زندگی میں پہلی بار میاں برادران کو
سیاسی چیلنج کا سامنا کرنا پڑا اور جیلوں کی سختیاں جھیلنی پڑیں ۔ ناز ونعم
میں پلے ہوئے میاں برادران زندانوں کی سختیوں کو سہنے کے لئے ذہنی طور پر
بالکل تیار نہیں تھے اس لئے انھیں جنرل پرویز مشرف کے سانے اپنے ہاتھ
اٹھانے پڑے۔اب ہر لیڈر ذولفقار علی بھٹو تو ہو نہیں سکتا جو جنرل ضیا الحق
کی بے رحم آمریت کے سامنے ڈٹ جائے اور آمریت کو منہ دکھانے کے قابل نہ
چھوڑے۔جان عزیز تر ہو جائے تو پھر معافیاں ہی ہوتی ہیں لیکن اگر اصول زیادہ
عزیز ہو جائیں تو پھر مزاحمت ہوتی ہے اور یہی ذولفقار علی بھٹو نے کیا
تھا۔ذولفقار علی بھٹو کو علم تھا کہ جس راہ کا انتخاب اس نے کیا ہے اس میں
جا ن بچنے کے امکانات صفر کے برابر ہیں لیکن اس نے پھر بھی ہار نہ مانی ۔اس
کا یہ عزم کہ میں تاریخ کے ہاتھوں مرنے کی بجائے ایک آمر کے ہاتھوں مرنا
پسند کروں گا بالکل سچ ثابت ہوا ۔اس کی جان تو چلی گئی لیکن وہ دنیا بھر
میں مزاحمتی تاریخ کی نئی پہچان بنا اور دنیا بھر میں جمہوری تحریکوں نے اس
کی بسالتوں سے نئی توانائی حاصل کی ۔وہ پاکستانی سیاست میں جراتوں کا نیا
استعارہ بن چکا ہے اور پی پی پی کا مقبولِ عام نعرہ زندہ ہے بھٹو زندہ ہے
اپنی اہمیت جتا رہا ہے ۔ایسے راہنما جو جان کا نذرانہ دینے میں ظاہری
مفادات کو پسِ پشت ڈال دیں بڑے خال خال نظر آتے ہیں۔ایسے راہنما در اصل
انسانیت کے ماتھے کا جھومر ہوتے ہیں اور انسانیت ان کی جراتوں پر انھیں
دادو تحسین سے نوازتی ہے ۔بہر حال ایک طرف سختیاں تھیں تو دوسری طرف عمر
قید کی سزا کا عدالتی پروانہ ان سختیوں پر طویل نظر بندی کی مہر لگا چکا
تھا جو میاں برادران کے حوصلوں کو پست کرنے کے لئے کافی تھا۔سزا کسی اساس
اور نظریے کے بل بوتے پر کاٹی جا سکتی ہے لیکن یہاں پر تو کوئی اساس تھی ہی
نہیں بلکہ ایک فوجی آمر نے میاں برادران کو اقتدار کی راہداریوں کا راستہ
دکھایا تھا اور مذہبی حلقوں کی حمائت جھولی میں ڈال دی تھی جس سے وہ سیاست
میں اپنے قدم جمانے میں کامیاب ہوئے تھے ۔سچ کہتے ہیں کہ اگر مقصد محض
اقتدار کا حصول اور اس کی موج مستیاں ہوں تو پھر جیل کا ایک ایک دن کئی
صدیوں پر بھاری دکھائی دیتا ہے۔جنرل ضیا الحق کی آغوش سے اقتدار کی سیڑھیاں
چڑھنے والے سیاستدان زندانوں کی سختیاں کیسے سہہ سکتے تھے لہذا چند ہی دنوں
کے اندر تلملا اٹھے۔ہاتھوں میں لگی ہتھکڑیاں اور جیل کی تنگ و تاریک
کوٹھریوں نے دن میں تارے دکھا دئے تو پھر کسی ایسے مسیحا کی تلاش شروع ہوئی
جو ان نا مساعد حالات سے چھٹکارے کا ڈول ڈالتا۔میاں برادران کے سعودی
حکمرانوں سے بڑے گہرے اور قریبی تعلقات تھے اور پاکستان کے سیاسی معاملات
میں سعودی عرب کی اہمیت مسلمہ تھی لہذا آزمائش کی دلخراش گھڑیوں میں انھیں
آواز دی گئی۔اسے حسنِ اتفاق کہہ لیجئے کہ سعودی حکمران جنرل پرویز مشرف کے
بھی انتہائی قریب تھے اور جنرل پرویز مشرف ان کی دل سے عزت بھی کرتا تھا
کیونکہ سعودی عرب سے پاکستان کو گاہے بگاہے مفت پٹرول کا تحفہ ملتا رہتا
تھا۔پٹرول کی مفت فراہمی تعلقات کی مضبوطی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی
تھی۔بہر حال ایک این آر ا و لکھا گیا جس میں میاں برادران نے دس سال تک بحرِ
سیاست سے لا تعلقی کا عہد کیا ۔میاں برادران کئی سالوں تک اس معاہدے سے
منحرف رہے تھے اور کسی معاہدے کی موجودگی سے انکار کرتے رہتے تھے لیکن جب
اس معاہدے کی کاپیاں پریس کو جاری ہو گئیں تو لا محالہ میاں برادران کو بھی
تسلیم کرنا پڑا کہ معاہدہ تو ضر ور ہوا تھا لیکن معاہدہ پانچ سا اوں
کاتھا۔بہر حال سعودی کوششوں سے میاں برادران بمعہ اہل و عیال جدہ کے سرور
پیلس سدھارے اور جنرل پرویز مشرف سیاہ و سفید کے مالک ٹھہرے۔
سولہ سالوں کے بعد چشمِ فلک نے بالکل اچھوتا اور نرالا منظر نامہ دیکھا کہ
وہی میاں محمد نواز شریف جو ایک معاہدے کے تحت سعودی عرب جلا وطن کئے گئے
تھے مئی ۲۰۱۳ کے انتخابات میں وزیرِ اعظم کے عہدے پر پہنچے تو جنرل پرویز
مشرف کو ان کے سامنے ایک ملزم لی حیثیت سے پیش ہونا پڑا بالکل ویسے ہی جیسے
کسی زمانے میں میاں محمد نواز شریف کو جنرل پرویز مشرف کے سامنے پیش ہونا
پڑا تھا۔فرق صرف اتنا ہے کہ جنرل پرویز مشرف کی پشت پر پاکستانی فوج کھڑی
ہے اور فوج اپنے سابق سپہ سالار کا بال بھی بیکا نہیں ہو نے دینا چاہتی
جبکہ میاں محمد نواز شریف عوامی قوت کے نمائندے تھے لیکن عوام ان کی پشت پر
کھڑے ہونے کے لئے تیار نہ ہوئے لہذا انھیں عمر قید کی سزا سنا دی گئی۔وجہ
صاف ظاہر ہے کہ پاکستانی سیاستدانوں کی اکثریت خدمتِ خلق کی بجائے ذاتی
خدمت میں مشغول ہو جاتی ہے جس سے عوام کو ان کی امانت و دیانت کا یقین نہیں
ہے ۔الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے صفحات سیاستدانوں کی کرپشن کی
کہانیوں سے بھرے پڑے ہیں لیکن کرپشن کی لت پھر بھی سیاستدانوں کا دامن نہیں
چھوڑ رہی جس سے انھیں فوج کی قوت سے مسلسل خطرہ رہتا ہے لہذا وہ اکثر
وبیشتر فوج کے خلاف تندو تیز بیانات دیتے رہتے ہیں۔میری ذاتی رائے ہے کہ
اگر سیاستدان پاک صاف ہو کر امورِ حکومت چلائیں تو فوج کو کیا ضرورت پڑی ہے
کہ وہ انھیں چھڑی کی قوت دکھائے ۔سیاست دانوں کی نالا ئقیاں ہی در اصل فوجی
شب خون کا پیش خیمہ بنتی ہیں لیکن سیاست دان پھر بھی اپنی حرکات سے باز
نہیں آتے۔عوام کرپشن کا رونا رو رو کر تھک گئے ہیں لیکن حکومتی وزرا اور
سیاسی عہدیدار اپنا کام دکھانے سے باز نہیں آرہے۔کراچی میں تو بہت سے
سیاستدان فوج کے ہتھے چڑھے ہوئے ہیں اور جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند ہیں
جبکہ بہت سے احتساب کے خوف سے راہِ فرار اختیار کر چکے ہیں لیکن ان کی ہوسِ
دولت پھر بھی رکنے کا نام نہیں لے رہی۔۔
ایک وقت تھا کی ایک خصوصی طیارہ میاں برادران کو لے کر جدہ روانہ ہوا تھا
اور آج ایک خصوصی طیارہ جنرل پرویز مشرف کو لے کر دبئی روانہ ہوا ہے۔این آر
او نے دونوں صورتوں میں اپنا رنگ دکھایا ہے۔ایک دفعہ میاں برادران کی گردن
بچی تھی اور آج جنرل پرویز مشرف کی گردن بچی ہے۔اس وقت میاں برادران پر
دھشت گردی کی عدالت میں مقدمہ چلا تھا جبکہ جنرل پرویز مشرف کے خلاف سپریم
کورٹ میں آئین سے غداری کا مقدمہ چل رہا تھا اور دونوں مقدمات میں سزا موت
ہی ہے۔ سعودی عرب اگر درمیان میں نہ کودتا تو پھر شائد موت کا یہ کھیل کسی
حتمی نتیجے تک پہنچ جاتا لیکن سعودی عرب کی بر وقت مداخلت نے اس خونین
ڈرامے کو وقوع پذیر ہونے سے روک لیا ہے۔کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر جنرل
پرویز مشرف کو باہر جانے کی اجازت نہ دی جاتی تو جمہوریت کا وجود خطرے میں
پڑ سکتا تھا۔ان کی نظر میں جمہوریت کو بچانے کے لئے جنرل پرویز مشرف کی
رہائی کی کڑوی گولی نگلی گئی ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان میں
جمہوریت ہے؟کیا پاکستان میں قانون کی حکمرانی ہے؟ کیا پاکستان میں احتساب
کا دور دورہ ہے؟ کیا پاکستان میں قانون سب کے لئے برابر ہے؟ اور اگر ان
سوالوں کا جواب نفی میں ہے تو پھر کڑوی گولی کس لئے؟ سچ تو یہ ہے کہ ذاتی
اقتدار پر منڈلاتے خطرات سے خود کو محفوظ بنا لیا گیا ہے لیکن پھر بھی اسے
جمہوریت کا نام دے کر عوام کو بیوقوف بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے جسے عوام
بخوبی سمجھتے ہیں۔، |
|