سر جان ہارورڈ ہوٹل ( عالمی سطح پر مشہور و
معروف ماہر آثار قدیمہ ) جب انتظار گاہ میں داخل ہوئے تو ان کے چہرے سے
تھکن کے آثار ظاہر تھے، انہوں نے آتے ہی کہا “ میں معذرت چاہتا ہوں کہ آپ
کو انتظار کی زحمت اٹھانا پڑی لیکن میں ابھی ابھی موئن جو دڑو سے کراچی
پہنچا ہوں “۔
ہوٹل کے ویٹنگ روم میں صحافی، پریس فوٹو گرافر، نجی ٹی وی چینلز کے نمائندے،
یونیورسٹی کے طلبہ اور بڑی تعداد میں بیوروکرسی کے افسران اور سرکاری
اہلکار موجود تھے۔ ایک صحافی نے سر جان ہارورڈ سے پوچھا “ موئن جو دڑو کی
زمین کو ایک عرصے سے سیم (سیم و تھور) کھا رہا ہے۔۔۔۔۔“ یہ ایک سیاسی سوال
ہے سر جان ہارورڈ نے صحافی کی بات کاٹتے ہوئے کہا “ میں اس کا جواب نہیں دے
سکتا “۔
یونیورسٹی کے ایک طالبعلم نے ان کو مخاطب کر کے کہا “موئن جو دڑو کے قدیم
کھنڈرات کو بچانے کے لئے آپ کیا کررہے ہیں ؟“ یہ سوال آپ اپنی حکومت سے
پوچھیں “ انہوں نے سرکاری اہلکاروں کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔
ایک ٹھگنا، بھدا اور نہایت بے ڈول شخص طلبہ، صحافیوں اور ٹی وی چینلز کے
نمائندوں کو دھکیلتا اور تقریباً روندتا ہوا آگے آیا اور ٹوٹی پھوٹی اور
انگریزوں کی روح کو عذاب دیتی ہوئی انگریزی میں اس نے سر جان ہارورڈ کو
اپنا تعارف کرایا “ میں یہاں کا سب سے بڑا اور کامیاب ڈرامہ پروڈیوسر ہوں “
میں معذرت چاہتا ہوں مسٹر پروڈیوسر ۔ ۔ سر جان ہارورڈ نے اس کی بات کاٹتے
ہوئے کہا “ لیکن ہم نے حکومت کو سختی سے کہا ہے کہ موئن جو دڑو میں کسی قسم
کے ڈرامے یا فلموں کی شوٹنگ نہ ہونے دیں “ “ مجھے موئن جوڈرو سے کوئی
دلچسپی نہیں ہے “ بے ڈول شخص نے تیز لہجے میں جواب دیا “ کھنڈرات کی شوٹنگ
کر کے مجھے اپنے پیسے حرام نہیں کرنے ہیں “۔
“ تو پھر تم کیا چاہتے ہو؟ “ سر جان ہارورڈ نے حیرت سے پوچھا
کچھ عرصہ پیشتر میں مصر میں ایک فرعونِ مصر کی قدیم عبادت گاہ اور مقبرے کو
پانی سے بچانے کے لئے بنیادوں سمیت اکھیڑ کر اس کے اصل مقام سے اٹھا کر ایک
دوسری اور محفوظ جگہ پہنچایا گیا تھا بے ڈول اور بھدے پروڈیوسر نے کہا ہمیں
تم سے ایسا ہی ایک کام کرانا ہے!
سر جان ہارورڈ نے استعجاب سے پوچھا “ تم مجھ سے کیا کرانا چاہتے ہو؟ “
ہر سال 14 اگست،25 دسمبر،11 ستمبر، 23 مارچ ،28 مئی کو اور ان دنوں کے
علاوہ عام دنوں میں بھی ملک بھر سے سرکاری اہلکار، وزیراعظم۔ صدر مملکت،
وزرائے اعلیٰ ، اور وزیر داخلہ و وزیر خارجہ مزار قائد پر حاضری دینے آتے
ہیں۔ ان کے آنے سے ٹریفک گھنٹوں بند ہوجاتا ہے، شہر میں کوئی کام نہیں
ہوپاتا ہے، سارے شہر کی پولیس اور انتظامیہ ان کے استقبال اور حفاظت میں لگ
جاتی ہے، پورا شہر غیر محفوظ ہوجاتا ہے۔ جبکہ ٹریفک جام ہونے کے باعث
ایمبیولینس میں مریض دم توڑ دیتے ہیں اور رکشوں اور ٹیکسیوں میں بچے پیدا
ہوتے ہیں “ بھدے اور بے ڈول پرڈیوسر نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا “ ہم
نے فیصلہ کیا ہے کہ مزار قائد کو یہاں سے بنیادوں سمیت اکھیڑ کر کسی دور
دراز اور کم آبادی والے شہر میں منتقل کردیں، تم اس سلسلے میں ہماری کیا
مدد کرسکتے ہو؟
اور سر جان ہارورڈ اس کی شکل دیکھتے رہ گئے
مرکزی خیال سندھی ادب سے ماخوذ ہے |