تمام پڑھنے والوں کی خدمت میں سلام پہنچے!
میں اکثر کہتا ہوں کہ جوں جوں ہم زندگی کی دوڑ میں آگے سے آگے جا رہے ہیں
اتنا ہی ہم ایک دوسرے سے تعلق میں پیچھے ہوتے جارہے ہیں رشتے کا لحاظ بالکل
ہی ختم ہوتا جارہا ہے کسی بھی بندے کو تھوڑا سا کھرید لو وہ آپ کو اپنی ایک
کہانی سنانا شروع کردے گا اور اس کی یہ کہانی زیادہ تر انہیں الفاظ پر ہوگی
کہ اس کے فلاں بھائی نے اس کے ساتھ یہ بدسلوکی کی اس کے فلاں رشتہ دار نے
اس کے ساتھ یہ کیا فلاں نے یہ کیا حتیٰ کہ ہم اسے آخر میں یہ کہہ کر چپ
کرواتے ہیں کہ یار ہماری بھی داستان کوئی تمہارے سے مختلف نہیں ہمارے ساتھ
بھی ایسے ہی ہے ہم سب ایک ہی مرض کے مریض ہیں۔
آج سے کچھ زیادہ نہیں بلکہ کچھ تھوڑا عرصہ پہلے پیچھے جائیں تو پہلے یہ
حالات نہیں ہوتے تھے بلکہ ہر شخص آپ کو مطمئن نظر آتا تھا کہ جیسے اس کو
کوئی پریشانی بھی نہیں یہ فرق کیوں تھا اور پھر آج اسی انسان میں یہ فکر
اور پریشانی کیوں نظر آنے لگی تو آج ہم اس پر بات کریں گے۔ تو ہم اگر اس
دور پر نگاہ دوڑائیں تو اُس دور میں آپ کو مغرب کے بعد یا عشا کے بعد ایک
چوپال نظر آتی جس میں اس ایریا میں بسنے والے لوگ اکٹھے ہوتے اور اپنے اپنے
مسائل بیان کرتے ان مسائل کو سننے کے لیے اس ایریا کے بڑے بڑے بزرگ ہوتے
تھے جو ان لوگوں کے مسائل کو سنتے اور حل بھی کرتے تو جب وہ بندہ جس کو
کوئی مسئلہ ہوتا تھا تو اسے وہ مسئلہ بیان کر کے اطمینان ہوتا کہ شاید اب
اس کا یہ مسئلہ حل ہو جائے مثال کے طور پر اسی چوپال میں جب کسی شخص کو
مسئلہ ہوتا کہ اس کے گھر میں آج گندم ختم ہو گئی ہے تو وہ خود تو نہ بیان
کرتا بلکہ بعض اوقات اس کا پڑوسی اس محفل میں اس طریقے سے بات کرتا کہ اس
کی عزت نفس بھی مجروح نہ ہو اور اس کی مدد بھی ہو جائے تو وہ جو بزرگ ہوتے
فوراً اپنے بیٹوں کو حکم دیتے کہ جاؤ اپنے گھرولے﴿ اس دور میں گندم کو مٹی
کے گھرولوں میں رکھا جاتا جیسے آج بھی ہمارے اکثر دیہاتوں میں گھرولے بنا
کر اس میں گندم رکھی جاتی ہے ﴾ تو وہ بزرگ کہتے کہ جاؤ اسے اپنے گھرولے سے
گندم نکال کر دے دو۔ تو وہ گندم نکال کر خود اس کے گھر میں رکھ آتے اب یہ
گندم کوئی ادھار پہ نہیں دی جاتی بلکہ صرف بھائی چارے کے طور پر نہ قابل
واپسی۔تو وہ بندہ جو ہوتا تو اس کے منہ سے دعائیں نکلتیں اور یوں یہ
چوپالیں بستی رہیں ان جیسے بزرگوں اور ان جیسے لوگوں کی دعاؤں سے۔ پھر یہ
ہوتا کہ آپ کو کوئی بندہ پریشان حال نظر نہ آتا۔
پھر ہماری بڑی بڑی سوسائٹی میں رہنے والے لوگوں کو ماڈرن کہلانے کا شوق ہوا
اور یہ شوق چلتا چلتا ان لوگوں تک بھی جاپہنچا پھر ایک سوچ پیدا ہوگئی کہ
اپنے آپ کو اوپر لاؤ کوئی تمہارا نہیں بس تم صرف اپنے آپ کے ہو اور پھر وہ
انسان اپنے خون کے رشتہ داروں تک سے دور ہوتا گیا اور پھر اس انسان پر وہ
وقت آیا کہ جب اس کو کوئی غم آیا تو کوئی اس کے غم میں شریک نظر نہ آیا اور
پھر اسی انسان کے چہرے پر ہر طرف آج ہمیں دکھ پریشانی کے آثار نظر آتے ہیں
اور آج ہمیں وہ انسان پریشانی کے حل کے لیے جگہ جگہ مارا مارا پھرتا نظر
آتا ہے۔
اپنے آپ کو ماڈرن اور ایڈوانس بنانے کے لیے ہم اس قدر آگے نکل گئے کہ ہم
درحقیقت اپنے آپ کو ہی بھول بیٹھے سب سے پہلے تو ہم نے یہ سوچا کہ دنیا میں
ترقی کی ضامن صرف ایک چیز ہے اور وہ ہے دولت پھر اس دولت کو کمانے کیلیے
ہمارے اندر ایک اور سوچ پیدا ہوئی کہ میرا سگا بھائی میرا دشمن ہے وہ باپ
کی جائیداد پر قبضہ کرنا چاہتا ہے اور میں اسے یہ کرنے نہیں دوں گا پھر
دولت کمانے کے لیے اس حد تک آگے نکل گئے کہ ہم اپنوں سے بھی ہاتھ دھو
بیٹھے۔
کچھ عرصہ قبل میں بازار میں ایک دکان پر گیا تو وہاں ایک دکان پر میری ایک
شخص سے ملاقات ہوئی بات چیت کا سلسلہ بڑھا تو مجھے اس سے مل کر بڑی خوشی
ہوئی تو وہ بھی بڑا خوش ہو ا کہنے لگا کہ آپ آتے رہا کرو آپ سے باتیں کر کے
بڑا مزہ آتا ہے تو میں اکثر اس کے پاس جاتا تو ایک دن یونہی ایک بات ایسی
چلی کہ میں اس بندے کو خوش قسمت ترین بندہ سمجھنے لگا وہ کہنے لگا کہ میرا
تعلق تھل کے ایک علاقے سے ہے ہمارے گاؤں میں بزرگوں کی اکثر اسی طرح کی ایک
محفل آباد ہوتی ہے اور میں خود کئی دفعہ ان محافل میں شریک ہوا ہوں تو وہ
کہنے لگا میں ان محافل میں سب سے بڑی جو چیز دیکھی وہ یہی تھی کہ ہمارے
بزرگ ہمیں سکھاتے کہ بیٹا دوسروں کے لیے اپنے کان ہمیشہ کھول کر رکھو اور
تم سے جتنا ہو سکے اس کی سنو کہ جب تم دوسروں کی سنو گے تو وہ اوپر والا
تمہاری سنے گا۔ وہ کہنے لگا کہ اگر آج واقعی ہم ایک دوسرے کی سنیں تو تو
ہمارے سارے مسائل ختم ہو جائیں۔
تو میرے نزدیک آج بھی وہ بندہ اس لیے خوش نصیب ہے کہ اسے آج کے اس نفسا
نفسی کے دور میں بھی ایسے بزرگوں میں بیٹھنا نصیب ہوا میں نے ایک دفعہ یہی
بات اپنے ایک دوست بتائی تو وہ کہنے لگا کہ یار تم کیا ہر وقت ان پرانے
ذہنوں کے مالک بابوں کی کہانی لے کر بیٹھے ہوتے ہو تو میں نے اس سے کہا کہ
اگر تم یہ چاہتے ہو کہ زندگی تمہیں کسی کھیل میں شکست نہ دے تو ان بابوں کی
محافل کو اپنا لو تو وہ کہنے لگا کہ یا ر آجکل ایسے بابے کہاں ملتے ہیں میں
تو جس کو دیکھوں وہ بڑی عمر میں بھی عجیب عجیب حرکتیں کر رہا ہوتا ہے تو
میں نے کہا کہ تم ایک بار اس عجیب غریب حرکتیں کرنے والے بابے سے بنا کر تو
دیکھو تم ایک بار اس کی سن کر تو دیکھو۔ کیونکہ اس بندے کے پاس زندگی کا
ایک بہت بڑا تجربہ ہے وہ زندگی کی ہر اونچ نیچ کو سمجھتا ہے تو جب تم اس کی
سنو گے تو تم خود اپنے اندر ایک چینج محسوس کرو گے میں یہ باتیں ایسے نہیں
کر رہا میں نے خود یہ تجربہ کیا ہے۔
تو یہ بابے ہوتے ہیں تو یہی درس دیتے کہ تم دوسروں کی سنو تم دوسروں کو وہ
کندھا دو کہ جس کے سہارے وہ سر رکھ کر تم کو اپنا دکھڑا سنا سکے۔ تو اگر ہم
آج اپنے آپ کو ماڈرن کرنا بھی چاہتے ہیں تو کریں لیکن اس دوڑ میں اپنوں کا
ساتھ کیوں چھوڑیں۔ اگر ہم تھوڑا پیچھے جائیں تو چاہے ہمارا گھر چھوٹا سے
چھوٹا کیوں نہ ہوتا ہم انہیں بزرگوں کے سایہ رحمت سے اکٹھے رہتے اور ایسا
اتفاق ہوتا کہ یورپ بھی ہماری مثالیں دیتا لیکن پھر ہم نے خود اسی قوم کی
تقلید کی اور اپنے آپ کو ایڈوانس کہلوانے کے لیے ہم نے اپنی وراثتوں کا
بٹوارا کروایا اور آج ہم اپنوں سے اتنا دور ہو گئے کہ وہی جو ہمیں جان سے
پیارے ہوتے تھے وہی ہمارے جان کے دشمن بن گئے۔
آج ہماری پوری قوم اس بات سے پریشان ہے کہ حکمران ہماری سنتے نہیں تو پہلے
آپ تو ایک دوسرے کی سنیں جب آپ ایک دوسرے کی سنیں گے تو خود بخود وہ آپ کی
سنیں گے اور میں یہ بات آج چیلنج کر کے کہتا ہوں کہ اگر آج ہم ایک دوسرے کی
سنیں تو ہمیں ان حکمرانوں کی ضرورت ہی نہ پڑے تو اب ہماری یہ ذمہ داری بنتی
ہے کہ ہم قیمتی وقت میں اپنوں کو کچھ وقت دیں تاکہ ہماری وہ اولاد جو آج ہم
سے دور ہوتی جارہی ہے اور وہ اولاد جو گریبان پکڑتے ہوئے یہ بھی نہیں
دیکھتی کہ اپنے باپ کا گریبان پکڑ رہی ہے تو اگر ہم انہیں بچوں کو شروع ہی
سے وقت دیں تو ہو سکتا کہ اس کی زندگی میں چینج آجائے ہمیں اپنی آنے والی
نسل کو وہ پیار دینا ہوگا جو کل ہمیں بابوں کے ڈیروں پہ ملتا تھا کہ جہاں
ہمیں زندگی کا اصل مقصد کا پتہ چلتا تھا یہ ایڈوانس کی زندگی ہمارا مستقبل
نہیں ہے چاہے آپ یہ بات تسلیم نہ کریں لیکن تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی
قوم نے اپنے کانوں کو دوسرے کی سننے کے لیے بند کیا تو وہ قوم پھر زیادہ
عرصہ وجود میں نہ رہی تو اب ہم پر ہے کہ آج ہم اپنی تاریخ کو پھر سے زندہ
کریں اور ایسا معاشرہ قائم کریں کہ جہاں کوئی بندہ اپنے دکھ سنانے کے لیے
کسی سائیکالوجسٹ کا رخ نہ کرے کہ جو ہماری اسی خامی کا فائدہ اٹھا کر ہم سے
نہ جانے کتنے پیسے بٹور لیتا ہے اگر ہم دوسروں کی سنیں تو ہو سکتا ہے کہ اس
معاشرے میں کئی برائیاں ختم ہو جائیں۔
تو اللہ آپ کو دیے سے دیا جلانے کی توفیق دے ﴿آمین﴾ |