موسم سرما کے اختتام کے بعد بہاریں لوٹ آئی
تھیں۔ ملک کے اکثر حصوں میں موسم خوشگوار ہو چکا تھا۔ پنجاب کے خشک سرد
ہوائیں گدھے کے سینگ کی طرح غائب ہوچکے تھیں۔ بچے، جوان ، بوڑھے، مرد اور
عورتیں سب موسم بہار کا مزہ لینے میں مصروف تھے۔
موسم بہار کا ہو اور دن اتوار کا، پھر بھی لاہور کے عوام گھروں میں محصور
رہیں، یہ ممکن نہیں۔ اسی اتوار کو معمول سے بڑھ کر چہل پہل نظر آرہی تھی ۔
سردیوں کے مارے عوام موسم بہار کا بھر پور لطف اٹھانے کے پروگرام ترتیب دے
رہے تھے۔ ابھی سورج سر کے اوپر کھڑا تھا کہ پارکوں میں لوگوں کا آنا شروع
ہو چکا تھا۔ سہ پہر کا وقت ہوتے ہی پارکوں کی گہماگہمی عروج پر پہنچ چکی
تھی۔ بچے اپنے والدین اور فیملیز کے ساتھ تفریح میں مصروف تھے۔ گلشن اقبال
لاہور کے اقبال پارک میں سینکڑوں افراد موجود تھے۔ سورج غروب ہونے کے قریب
تھا۔ بچے ہفتہ بھر کی تھکاوٹ اتارنے میں مصروف تھے۔ ملازم پیشہ مرد اپنے
فیملیز کے ساتھ خوش گپیوں میں کھوئے ہوئے تھے۔ خواتین پر فضا ماحول کو
انجوائے کر رہی تھیں۔ کچھ لوگ پارک سے واپس ہونے لگے تھے۔ جبکہ ابھی بھی
بہت سے لوگ آرہے تھے۔
مرکزی دروازے کے قریب بے تحاشہ بھیڑ تھی۔ تمام لوگوں کے چہروں پر خوشی کو
محسوس کیا جا سکتا تھا۔ اچانک ایک خوفناک دھماکہ ہوا۔ خون کے فواریں پھوٹنی
لگیں۔ گوشت کے چیتھڑے اڑنے لگے۔ انسانی اعضاء بکھرنے لگے۔ بچوں اور عورتوں
کی چیخ و پکار بلند ہونے لگی۔ افراتفری پھیل گئی۔ کسی کا ہاتھ نہیں تو کوئی
پاؤں سے محروم۔ کسی کا سر دھڑ سے الگ تو کسی کا چہرہ مسخ ہوا۔ کسی کا دماغ
نکلا ہوا ہے تو کسی کا سینہ چاک ہوا۔ دھماکہ کیسے ہوا کسی کو کوئی خبر نہ
تھی۔ کوئی زخمیوں کو سنبھالنے میں مصروف تو کوئی لاشوں کے ٹکڑے اکھٹے کرنے
میں لگا ہوا۔ پلک جھپک میں 60 سے زائد افراد افراد وطن عزیز کی مٹی کو اپنے
خون کا نذرانہ پیش کر چکے تھے۔ 300 سے زائد افراد زندگی کی جنگ لڑنے میں
مصروف تھے۔
کسی کو یہ خبر نہ تھی کہ آج ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ کس نے یہ ظلم
ڈھایا؟ کوئی مذہب تو دور کی بات کیا انسانیت اس بر بریت کی اجازت دے سکتی
ہے؟ کیا انسان کا خون اتنا سستا ہو سکتا ہے؟ کیا ایسے کرنے والے لوگ
انسانیت کے حق دار ہیں؟ یقینا وطن عزیز گذشتہ دو دہائیوں سے دہشت گردی کا
شکار ہے۔ جب سے امریکہ نے افغانستان میں قدم رکھے ہیں اسی دن سے پاکستان
میں خون کے چشمے جاری ہو چکے ہیں۔ نہ تفریحی مقامات محفوظ نہ بزنس سینٹرز
محفوظ۔ نہ تعلیمی ادارے محفوظ نہ مسجد یں محفوظ۔ جنازوں تک کو دہشت گردی کا
نشانہ بنایا جارہا ہے۔
خطے میں امریکی تسلط کے ساتھ ہی ملک دشمن عناصر نے وطن عزیز کا رخ کیا۔ ملک
کو کوئی کونہ محفوظ نہ چھوڑا۔ کبھی سوات کے خوبصورت وادی پر آگ برسائے تو
کبھی کراچی کی روشنیوں کو ماند کیا۔ کبھی پشاور اور کوئٹہ نشانہ پر تو کبھی
چارسدہ اورلاہور ٹارگٹ بنا۔ کہیں بلیک واٹر کے کارندے گرفتار ہوئے تو کہیں
را کے افیسرز۔ کوئی مذہب کے نام پر اسلامی شعار کو بدنام کر رہا ہے تو کوئی
پیسے کے خاطر ملک کو تباہ کر رہا ہے۔
یہ سب آخر کب تک چلے گا؟ پاکستانی عوام کب تک قربانی کے بکرے بنتے رہیں گے؟
ان حالات کا ذمہ دار کون ہے؟ پاکستانی حکومت اور سیکیورٹی ادارے انتہائی
قدم کیوں نہیں اٹھاتی؟ ہم اپنا لہوں کس کے ہاتھوں پر تلاش کریں؟ باجوڑ
مدرسے کے معصوم طلبہ کو کس جرم کی سزا دی گئی؟ جامعہ حفصہ کی طالبات کا کیا
قصور تھا؟ آرمی پبلک سکول میں کس نے خون کی ہولی کھیلی؟ چارسدہ یونیورسٹی
میں قتل عام کس نے کیا؟ واگہ بارڈر پر دھماکہ کیوں کیا گیا؟ پشاور سیکٹریٹ
بس میں بم کس نے رکھا؟ اقبال پارک کی مقتولین کا خون کیوں بہایا گیا؟
کہیں یہ وطن عزیز کے خلاف کوئی سازش تو نہیں؟ کہیں وطن عزیز کے محافظین
علماء اور افواج کو ایک دوسرے سے لڑانے کی کوشش تو نہیں؟ کہیں مسجد و مدرسہ
کو بدنام کرکے اسلامی نظام کی جگہ سیکولر نظام کا اہتمام تو نہیں؟
آئیں اس کٹھن وقت پر یہ عہد کریں کہ اپنے خون کے آخری قطرے تک وطن عزیز
اسلامی جمہوریہ پاکستان اور اپنے دین اسلامی نظریات کی بھر پور حفاظت کریں۔
دینی مدارس اور عصری ادارے عسکری قوت کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر اغیار کے
ناپاک عزائم کو خاک میں ملائیں اور وطن عزیز کو ایک آزاد پر امن اسلامی
سٹیٹ بنائیں۔
|