زندہ دلان لاہور پر قیامت صغریٰ

اہلیان لاہور پر اک بار پھر قیامت صغریٰ ٹوٹ پڑی ہے لاہور کے گلشن اقبال پارک میں ایک خود کش بمبار نے خود کو پر ہجوم جگہ پر اڑا دیا جہاں بچے،عورتیں،مرد کثیر تعداد میں موجود تھے اس روز عیسائیوں کا تہوار ایسٹر بھی تھایقیناً عیسائی فیملیاں بھی وہاں موجود ہوں گی خود کش حملے کے باعث 80 قیمتی جانوں نے قربانی دی اور 370 افراد زخمی ہوگئے ، ہر طرف بچاؤ بچاؤ کی چیخ وپکار سنائی دے رہی تھی درمندوں کے درد کا مداوا کوئی کرنے والا نہیں تھا ہر طرف خوف کا راج۔۔۔۔۔۔ حسب معمول خدشات کے باوجود سیکیورٹی کا ناقص ترین انتظام ۔۔۔۔۔ریلیف میں تاخیر ۔۔۔۔ بعد میں وہی روایتی ردعمل ،مذمتی بیانات کا لا متناہی سلسلہ ۔۔۔۔ فوٹو سیشن کیلئے خادم اعلیٰ اور ان کی کابینہ ،سیاسی لیڈران کرام کے ہسپتالوں کے دورے ۔۔۔۔ مگر جو اس دنیا سے چلے گئے ان کا کیا قصور تھا ؟ کیا ان کو سیکیورٹی کی ضرورت نہیں تھی ؟ یقیناً تھی ۔۔۔ سیکیورٹی کیوں نہ دی گئی ؟ اس لئے کہ بڑے مجاروں کی حفاظت پر سیکیورٹی اہلکار معمورتھے کمی تھی اہلکاروں کی؟ یہ غریب تو کسی کھاتے میں آتے ہی نہیں، ان کی کیا ضرورت ہے ہمارے سیاست دانوں ،حکمرانوں کو۔۔۔۔ اگریہ مر گئے تو ان کے نام کے جعلی ووٹ کاسٹ کروا دیں گے ہمارے ازل سے سمجھ دار سیاست دان۔۔۔۔

عام عوام پر یہ قیامت ٹوٹی ہے اور ہمارا تعلق بھی عام عوام سے ہی ہے اس لئے جو درد ہمیں ہے وہ اعلیٰ قیمتی لباس زیب تن کرنے ،کروڑوں کی سواری پر گھومنے،قیمتی ایکڑوں کی اراضی پر مشتمل بلند وبالا محلات میں رہنے والے سیاست دانوں اور حکمرانوں کو ہرگزہرگز نہیں ہے کیونکہ "جس تن لگے سو تن جانے" ہر بار راویتی،جذباتی بیانات اخبارات اور میڈیا کو دے کر عوام کو مطمئن کر دیا جاتا ہے سب اچھا کی رٹ لگا دی جاتی ہے ۔دعوے کیے جاتے ہیں کہ حکومت کی رٹ قائم ہو گئی اب چڑیا بھی پر نہیں ما ر سکے گی۔لیکن تھوڑے سے عرصے کے بعد دوبارہ حملہ ہوجاتا ہے ۔۔۔ لاہور گلشن اقبال پارک میں ہونے والا یہ حملہ ہمارے ضمیروں کو جھنجوڑ رہا ہے کہ ابھی بھی پاکستان میں ملک دشمن موجود ہیں جو جہاں چاہیں کاروائی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔کبھی یہ حملہ سرکاری اہل کاروں پر تو کبھی عوام نہتے عوام پر ۔۔۔۔۔یہ سلسلہ کب رکے گا؟ اس کا کسی کو علم نہیں ۔البتہ اتنا ضرور ہے کہ قوم اتنے سانحات،صد مات کو برداشت کرکے بھی یکجا ،پرعزم ہے ۔عوام اپنی ذمہ داری ادا کر رہے ہیں مگر غافل ہیں تو حکمران اور سیاستدان جو اپنے اصلی دشمن کو ابھی تک بھی پہچان ہی نہیں پائے چٹکلے دار بیانات دئیے جا رہے ہیں کوئی حقیقتاًکہتا ہے کہ نواز شریف مودی کو ساڑھیاں بھیج رہے ہیں تو جوا ب میں مودی جاسوس بھیج رہا ہے اس کا جواب حکمرانوں کے چمچے کڑچھرے یوں دیتے ہیں کہ اس بیان دینے والے سیاستدان کو تو قوم مسترد کرچکی ۔۔۔۔ کیا جو ہار جائے اسے ملک بدر کردینا چاہیے ؟ اس پر حقیت پسندانہ بیان جاری کرنے پر پابندی لگا د ی جائے ۔۔۔۔ اگر آپ کے عزائم یہ ہیں تو یہ ہمارے نزدیک فسطائیت کے سوا کچھ نہیں ۔

پاکستان کی خفیہ ایجنسیاں اعلیٰ را کے ایجنٹ کو پکڑ چکی ،انکشافات کا سلسلہ ابھی جاری ہے تازہ ترین اطلاعات کے مطابق پاکستان میں بھارت کے تیار کردہ 500 دہشت گرد موجود ہیں جو ملک کو بدامنی کا شکار کرنے میں شب وروز ناپاک کوششیں کر رہے ہیں ذرا سوچیں جس ملک میں اتنی بڑی تعداد میں ملک دشمن عناصر موجود ہوں اور حکومت سب اچھا کی رٹ لگائے کیا یہ حکومت کی ناکامی نہیں ؟ اگر نہیں تو پھر اسے کیا کہا جائے؟ اقتدار کی حوس کے شکار حکمرانوں کی حالت یہ ہے کہ یہ بھارت سے رشتہ توڑنے کو تیار نہیں ،صاحبان علم جانتے ہیں کہ کفریہ طاقتیں (یو این او،امریکہ،روس،اسرائیل وغیرہ) انڈیا کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کر رہی ہیں اگر امریکہ ،روس ،اسرائیل جیسی ہماری ازلی دشمن طاقتیں بھارت کی پشت پر نہ ہوں تو بھارت کی طرف سے پاکستان پر حملے کا خیال تو دور کی بات ،بھارت پاکستان کی طرف منہ کرکے پیشاب بھی نہیں کر سکتا ۔جب کہ ہمارے رہبران قوم (درحقیقت رہزان ) ملک دشمنوں کے پٹھو بنے ہوئے ہیں ان سے سودی قرضے لیکر بغلیں بجاتے نہیں تھکتے ۔۔۔۔ دوسری طرف یہی ہمارے دشمن ہمارے دشمنوں کو ہم پر مسلط کر رہے ہیں ۔ایک اور چال جو ان کفریہ طاقتوں نے چلی وہ یہ کہ پاکستان میں چند ضمیرفروشوں کو خرید مذہبی ،سیاسی فرقہ پرستی کا وسیع جال بچھا رکھا ہے ،ہمارے سرکاری اداروں کو سویلین سے لڑاکر ملک کے اندر خانہ جنگی کی کیفیت پیدا کر دی ہے ۔ ان حالات میں پاکستان کے سیکیورٹی ادارے کیا کیا کریں گے؟ اب حکمرانوں پر اولین ذمہ داری عائد ہوتی ہے پاکستان کے اصل دشمنوں کاقومی سطح پر تعین کرکے منصوبہ بندی کی جائے آپس میں دست وگریبان ہونے سے گریز کیا جائے سب سے اہم ترین بات یہ کہ حکومت پاکستان کے اسلامی تشخص کو داؤ پر نہ لگائے اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوگا کہ پاکستان کی محب وطن مذہبی طاقتیں سڑکوں پر آنے پر مجبور ہوجائیں گی اس سے مزید نقص امن کا خطرہ پیدا ہوگا چند ڈالروں کے عوض پاکستان کے اسلامی تشخص کو اگر داؤ پر لگانے کی کوشش کی گئی تو عاشق رسول غازی ممتاز قادری شہیدؒ کی پھانسی اور نام نہاد حقوق نسواں بل کے بعد جو عوام جو کر رہے ہیں حکمرانوں کے سامنے ہے ابھی بھی حکمرانوں کے پاس وقت ہے(ایٹی ریپ بل نہ لاکر،اسلام دشمنی سے توبہ تائب ہوکر) اپنا قبلہ درست کرلیں تو پاکستانی حکمران اپنے خود پیداکردہ بہت سے مسائل سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔

پاکستانی دینی قیادت نے پاکستان میں خود کش حملے حرام قرار دئیے ہیں ان کی کوئی مسلمان حمایت نہیں کر سکتا ۔بے گناہ ،نہتے انسانوں کو مارنا اسلامی تعلیمات کا قتل ہے ہمارے نزدیک گلشن اقبال پارک میں ہونے والا خود کش حملہ اسلام اور پاکستان پرخود کش حملہ ہے اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ۔ ایسے واقعات کے مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچانا سٹیٹ کا کام ہے ہمارا یقین ہے کہ اگر اسلامی نظام ملک میں قائم ہوجائے تو فساد فی الارض پھیلانے والوں کو سرعام شرعی سزائیں دی جائیں تو ایسا کرنے کی کسی میں جرأت نہ ہوگی۔حکومت پاکستان سے قوم مطالبہ کر رہی ہے کہ بھارتی گرفتار جاسوس کو اسلامی شریعت کے مطابق سرعام سزا دی جائے تاکہ آئندہ کسی ملک دشمن میں پاکستان آکر پاکستان دشمنی کرنے کی جرأت پیدا نہ ہو۔
Ghulam Abbas Siddiqui
About the Author: Ghulam Abbas Siddiqui Read More Articles by Ghulam Abbas Siddiqui: 264 Articles with 245852 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.