اندھیر نگری چوپٹ راج

ہندوستان پر ہندوتو کے سیاہ بادل چھائے ہوئے ہیں، ہر صبح اگنے والا سورج رات کی تاریکی کو تو فنا کے گھاٹ اتار دیتا ہے، مگر سماج و معاشرہ کا گھٹا ٹوپ اندھیرا ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔ چند مفاد پرستوں کی وجہ سے پورے ملک میں جو سنگین حالات اور خوف و ہراس کا ماحول پیدا ہوا ہے وہ عالم آشکارا ہے، جگ ہنسائی ہورہی ہے، پورا عالم اس ملک کو امن کی نصیحت کررہا ہے، جو امن کا گہوارہ، صلح و آشتی کا علمبردار ہے، مگر حالات نے ایسی کروٹ بدلی اورمفادپرستی کا غلبہ اتنا ہوگیا کہ ملک (اندھیر نگری چوپٹ راجہ)کی مثال بن گیا۔یہ وہ تیر نہیں جو اندھیرے میں چھوڑدیا گیا بلکہ وہ حقائق ہیں جن کا ہر آن مشاہدہ ہوتا ہے۔ جھنجھوڑنے والے روح فرسا واقعات اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں اور ہر ذی شعور کے لبوں پر ایک مثال بے ساختہ آجاتی ہے (رویش ببیں حالش مپرس)راج پاٹ کی چاہ نے ہمیں کس دوراہے پر لا کر کھڑا کر دیا، ملک کی فاسشٹ تنظیمیں متحد ہیں، ہر صورت میں ہندوستان سے ترنگا نوچ کر بھگوارنگ چڑھانا چاہتی ہیں۔ دوسری طرف برسر اقتدار جماعت آنے والے انتخابات میں راج تلک کے لئے کوئی بھی کسر باقی نہیں رکھنا چاہتیں، ہر صورت میں تاج چاہئے، حکومت کی بھوک نے ان لوگوں کو اتنا اندھا کردیا کہ ہر اُس بات کو روا جانتے ہیں جو ان کے لئے معین ومددگارہو، ہروہ تدبیر عمدہ خیال کی جاتی ہے جو اقلیتوں اور اکثریت کو بانٹ کر ہندوستان کی نام نہادتکثریت کا جنازہ اٹھ سکے۔ کبھی مسلمانوں کی مخالفت کے نام پر، کبھی رام مندر کا شوشہ چھوڑ کر ووٹ بینک بچایا جاتاہے اور نئے مدعا پیدا کرکے اس میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ کیا یہ جمہوریت کا طریقۂ کار ہے یا اندھیر نگری کا؟

ہرذی شعور فرد اس کا ادراک کر سکتا ہے، مگر جال اتنی خوبصورتی سے بنا جاتا ہے کہ عام آدمی سب کچھ جانتے ہو ئے جذبات کے دھارے میں مثل موج کودتا چلاجاتا ہے، چٹانوں کے جگر چیر دیتا ہے جب اسے اپنی کوتاہ فہمی کا احساس ہوتا ہے تو تاخیر پر ماتم کے سوا کچھ باقی نہیں رہتا۔ آئیے ذرا تصویر کو قریب سے دیکھیں اور حالات کو پرکھیں کہ کیا سیاسی جماعتیں ملک کے مفاد میں فکر مند ہیں یا اپنے اقتدار اور سلطنت حاصل کرنے کے خواب کو سجانے میں؟ چند دنوں پہلے ایک دہشت گرد ہیڈلی گرفت میں آیا، اس سے سوالات و جوابات کا سلسلہ ایسے موڑ پر پہنچا جہاں تقسیم کی بات بڑے نازک انداز سے ذہنوں میں پیدا ہو، شعلہ جوالہ بن کر ابھرے اور ہندو مسلم اتحاد پارہ پارہ ہوجائے، عشرت جہاں انکاؤنٹر کے حوالہ سے یہ بات عام کی گئی کہ وہ فرضی نہیں تھا، وہ لشکر طیبہ کی ایک خاص رکن تھی، جو ممبئی حملوں میں معاون تھی، حالانکہ ملک کا تحقیقی دستہ اس بات کا انکشاف کر چکا ہے، دلائل پیش کئے جاکے ہیں لیکن ایک دہشت گرد کی زبان پر برسر اقتدار سیاسی جماعت کے افراد کا یقین چہ معنی دارد؟ اور نیتاؤں کی زبانوں کا دراز ہوجانا سمجھ سے بالاترہے۔ وہ جماعت جو بزعم خود دہشت پسندی کے خاتمہ کے لئے کمر بستہ ہے، اس کا یہ عمل کس حدتک موزوں ہے؟ عشرت جہاں ایمبولنس بند کرنا، تحقیقی دستہ کو بے اثر کہنا، سیاسی مفاد کے لئے استعمال شدہ گرداننا، کیا یہ ملک کی سالمیت کے لئے خطرہ نہیں ہے؟ کیا یہ ہندوستان کو دو دھاروں میں تقسیم کرنے کی کوشش نہیں ہے؟ چلئے تحقیقات دوبارہ ہوجاتی لیکن کیا یہ طرز اس بات کا غماز نہیں ہے کہ ہر واقعہ کو سیاسی مفاد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے؟ اب وہی عشرت جہاں کو جاننے سے انکار کر رہا ہے۔ اب کیوں سانپ سونگھ گیا؟ انسانیت اور جمہوریت کا نقصان کرنے والے اب کیا مانیں گے اس کی بات؟ یا اگر دہشت گرد کی بات پر اتنا بھروسہ ہے تو پو چھئے امریکہ سے کیوں مدد کی لشکر طیبہ کی؟ ہیڈلی کہتا ہے کہ 70لاکھ روپے امریکہ نے لشکر کو دئیے تو کیوں آپ کی زبان نہیں کھلتی؟ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارنے والی، سفاک و خون ریز جماعت یا اس کے افراد کی مدد کیوں کی؟ اس سوال کے لئے کھلی کوئی زبان؟ کیوں تالے لگ گئے ان زبانوں کو جو گھٹنوں سے نیچے رہتی ہیں اور ہمیشہ امریکہ کے قصیدہ پڑھتی رہتی ہیں اور وہ چینلز جنہوں نے اوبامہ کی آمد پر پورے دن امریکہ سے آیا میرا دوست کے ترانے بجائے انہوں پوچھے سوالات؟ کیوں پو چھیں گے کوئی اس میں ان کے سیاسی مفادات وابستہ کیا یہ شوشہ ہندو مسلم تقسیم کر پائے گا تو پھر اس کو میڈیا سے لوگوں کے ذہنوں سے ایسے محو کردو جیسے آٹے سے بال نکال دیا جاتا ہے

اگر ملک کی فکر ہے، جمہوریت کی فکر ہے، تو ایک ہی شخص کی دو باتوں پر یہ رویہ کیوں؟ کہ ایک کے سامنے قانون، عدالت، ضابطے پس پشت ڈال دئے گئے اور دوسری پر چوں تک نہیں کی ؟یہ وطن سے محبت ہے یا مفاد پرستی؟ کیا ان سوالات کے جوابات عام انسانوں کے ذہن پر پڑے پردوں کوچاک نہیں کرتے؟ ایک شخص سر عام پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتا ہے، وزیر داخلہ موجود ہزاروں کا مجمع موجود مگر شکوہ شکایت، اعتراض کچھ بھی نہیں۔ پورے ملک میں سناٹا پسرا رہا، مگر یہی کام ایک نوجوان نے واٹس ایپ پر کیا تو اسے قانونی کاروائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کیا ہماری عقلیں مسخ ہوگئیں؟ کیا ہمارے ذہن کی رسائی کم ہوگئی؟ کیا جذبات میں اتنے اندھے ہوگئے کہ ملک کو کھلی آنکھوں اندھیر نگری بننے دے رہے ہیں اور سیاسی جماعتوں کے ہاتھ کا کھلونا بن چکے ہیں۔ ہزاروں افراد ملکی روایتوں کی بقا اور حفاظت کے لئے قفس عنصری سے آزاد ہوگئے کیا ان کے خوابوں کی تعبیر ہے جو ہمارے سامنے ہے؟ کیا آزادی کے لئے ان جیالوں نے بھی فرقہ پرستی کی تعلیم دی؟ آزادی کے نغمات گنگناتے ہوئے جان لٹانے والے تمہارے آباو اجداد ہی تو تھے، تم اسی نسل کے ہو ،کیا اشفاق بھگت تمہارے نہیں؟ کیا انہوں نے یہی پیغام دیا جو آج عام ہے؟ انسانوں کا قتل عام صرف جھوٹ کا پلندا بنا کر۔ ذرا سوچو سیاسی جماعتیں تمہاری ہمدرد ہوتیں تو کیوں ہزاروں فسادات ہوتے؟ کیوں انسانوں کو خاک و خون میں تڑپنا پڑتا؟ اورتمہارے آئیڈیل تمہارے جذبات سے کھیل کر سیر و تفریح میں مگن ہوتے؟ اس ملک کا وزیر اعظم جہاں عوام بھوک سے ترستی ہے، روٹی نہ ملنے سے کئی بچے دم توڑ دیتے ہیں، وہ اور اس کی کابینہ 567کروڑ روپے سفر پر خرچ کردیتی ہے جو گذشتہ اندازے سے 80فیصد زیادہ ہے۔ اس سفر کے نتائج کہاں ہیں؟ معیشت کتنی مستحکم ہوئی؟ کتنے روزگار فراہم ہوئے؟ کتنے افراد معاشرہ میں عمدہ اور اعلیٰ تعلیم کے باوجود دردر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبورہیں۔ یہ بدتر حالات کس کی دین ہیں؟ ایک لمحہ سوچ کر فیصلہ کیا جائے ملک کو بچانا ہے؟ یا اندھیر نگری چوپٹ راجہ جہاں انسانی خون اور پانی میں کوئی فرق نہ ہوگا، آنے والے صوبہ جاتی انتخابات ہندوستان کے لئے بڑی اہمیت کے حامل ہیں، جو ملک کا مستقبل طے کریں گے۔ یہ دلچسپ ہوگا کہ ہم ہندوستانی بن کر سوچتے ہیں اور انتخاب میں حصہ لیتے ہیں یاہندو اور مسلمان بن کر اور فرقہ پرستی کو بڑھائے اور ملک کے لئے قاتل ماحول تیار کرتے ہیں؟
Rahat Ali Siddiqui
About the Author: Rahat Ali Siddiqui Read More Articles by Rahat Ali Siddiqui: 82 Articles with 85033 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.