یوم پاکستان اور ہمارا تجدید عہد کا عزم

 حسب سابق کی طرح اس بار بھی اہل وطن نے یوم پاکستان انتہائی جوش و خروش اور جذبے اور جنون کے ساتھ منایا گیا، صدر مملکت ،وزیر اعظم اور صوبائی وزرائے اعلی سینٹ کے چیرمین و قومی اسمبلی کے اسپیکر کی جانب سے اس قومی دن کی نسبت سے عوام کے لیے پیغامات جاری کیے، صدر مملکت جناب ممنون حسین نے اپنے پیغام میں کہا ’’23 مارچ کا دن ہمارے لیے تجدید عہد کی حثیت رکھتا ہے،تاکہ مساوات اور عدل کے زریں اصولوں کی روشنی میں عزیز وطن کی تعمیر و ترقی کاعزم نو کیا جاسکے ،جو قیام پاکستان کا اصل مقصد ہے۔صدر مملکت نے کہا کہ پاکستان کا قیام ایک طویل جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں ممکن ہوا اب اس کی ترقی اور استحکام کا راز بھی جمہوریت ہی میں پوشیدہ ہے۔ اس پیغام میں انہوں نے دہشت گردی کی جنگ سے نبٹنے اور دیگر چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستانی قوم سے متحد رہنے کی اپیل بھی کی ہے۔

میرے خیال میں جناب صدر مملکت کے پیغام میں جو سب سے اہم بات تھی وہ یہ کہ ہمیں اس ملک میں مساوات اور عدل کے قیام کے لیے جدوجہد کرنی ہوگی۔اور اس ملک کی بقاء و تعمیر و ترقی کے لیے جمہوریت کی شاہراہ پر ثابت قدمی سے چلتے رہنا ہوگا کی،نکہ پاکستان کا قیام ایک طویل جمہوری جدوجہد کا ثمر ہے۔ صدر مملکت جناب ممنون حسین نے بجا فرمایا اور حقیقت بھی یہی ہے۔لیکن صدر مملکت سے لیکر تمام ارباب اقتدار کو یہبات اپنے پلے باندھ لینی چاہیے کہ پاکستان کو قرارداد مقاصد پر عمل درآمد کیے بغیر ترقی اور جمہوریت کے راستے پر گامزن رکھنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ اس کے لیے ہمیں زبانی جمع خرچ سے ہٹ کر عملی اقدامات کرنے ہوں ہوں گے۔محض 23 مارچ کے روز پرفریب ،پرکشش اور دلوں کو لبھا جانے والے اخباری بیانات جاری کرنے سے قرارداد مقاصد منظور کرنے والے اور ایسے خواب دیکھنے والے عوام کو چکر نہیں دئیے جاسکتے،اور نہ ہی قرارداد مقاصد کو آئین کا حصہ( دیباچہ) بنا دینے سے وفاق کی اکائیوں کو مطمئن کیا جاسکتا ہے۔ اور نہ ہی قائدین تحریک پاکستان کی ارواح اسی صورت راضی ہو سکتی ہیں جب ہم قرارداد مقاصد پر اسکی روح کے مطابق عمل نہیں کرتے۔

قرارداد مقاصد پر عمل درآمد نہ کرنے کے باعث ہی آج وفاق کی اکائیوں میں اضطراب موجود ہے اگر میں یوں کہوں کہ مشرقی پاکستان کی ہم سے علیحدگی کی مین وجہ ہی قرارداد مقاصد سے روگردانی کرنا ہے۔

میں انتہائی دکھ اور کرب کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ یوم عزم یا یوم تجدید عہد کے دن کے حوالے سے جتنے بھی پیغامات ارباب اقتدار کی جانب سے جاری کیے گئے ہیں ان میں قرارداد مقاسد کا تذکرہ بھی نہیں کیا گیا ۔ اور نہ ہی ٹی وی تاک شو میں اس قراداد کے متن پر بحث کی گئی ہے۔ سوائے اس کے کہ ہمیں یہ کرنا ہوگا ،ہمیں وہ کرنا ہوگا، ہمیں متحد رہنا ہوگا ،دہشتگردی کی جنگ سے باہمی اتحاد و اتفاق کے ساتھ ہی نبٹا جا سکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔

پاکستان کو تحریک پاکستان کے مقاصد، بانی پاکستان حضرت محمد علی جناح کے افکار وخیالات کے سانچے میں ڈالنے اور مفکر پاکستان علامہ اقبال کے تصورات اور خوابوں کی تعبیر والا پاکستان بنانے کے لیے ضروری ہے کہ سوہنی دھرتی کو عدل و انصاف کا گہوارہ بنایا جائے، اور زندگی کے تمام شعبہ جات میں سے مصلحت پسندی اور نظریہ ضرورت سے پاک کیا جائے۔ بقول محترم جسٹس امیر ہانی مسلم ’’ انصاف صرف عدالتوں میں نہیں ہر جگہ ملنا چاہیے،‘‘ مجھے عزماب جسٹس امیر ہانی مسلم صاحب کے خیالات و افکار سے کلی اتفاق ہے لیکن اتنی عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ جناب والا اگر ہماری عدالتیں ہی انصاف فراہم کرنا شروع کردیں تو باقی جگہوں پر خود بخود انصاف ملنا شروع ہوجائے گا۔ کیونکہ لوگوں کو خوف اور ڈر ہوگا کہ عدالتیں بیدار ہیں انکے غیرقانونی اقدامات اور فیصلے عدالت کی پکڑمیں آجائیں گے۔ اور اگر بقول صفدر بلوچ’’ مجرم اسے کہتے ہیں جو وکلاء ،ججز اور پولیس کو پیسے نہیں دے سکتا‘‘جنرل مشرف اور حسین حقانی کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں اگر عدالتیں انہیں باہر بھیجنے کے راستے مسدود کردیتیں تو یہ لوگ کبھی بیرون ملک نہ جا سکتے۔

یوم عزم پاکستان کے موقعہ پر فوجی طاقت کے مظاہرے کرنا بہت اچھی بات ہے اور ایسا ہونا بھی چاہیے تاکہ ہمارے دشمن کسی غلط فہمی میں رہ کر ہم پر حملہ آور ہونے کی بھول نہ کر بیٹھے اگر ان مظاہروں کے ساتھ ساتھ ہمارے جنرل صاحبان ،آئین پاکستان ، دستور پاکستان، کے تابع رہ کر جمہوری اور منتخب عوامی حکومتوں کے وفادار رہنے ، اور کسی بھی قانون شکن کی پشت پر کھڑا نہ ہونے کا عہد بھی کریں تو یوم عزم کو چار چاند لگ جائیں۔ اور پاکستان سمیت پوری دنیا میں پائے جانے والے اس تاثر ’’ کہ پاکستان میں جنرلز قانون اور عدالت کے کٹہرے میں لانا ممکن نہیں ‘‘ کو زائل کرنے کا موقعہ میسر ہو…… سب سے بڑھ کر یہ کہ قائد ین تحریک پاکستان کو خراج تحسین پیش کرنے کا اس سے بہتر طریقہ اور کوئی نہیں کہ قائد کے خیالات کو بائی پاس کرکے پاکستان کے تصور کو مجروح کیا جائے اور اپنی من مانیاں کی جائیں۔ آج کا پاکستان قائد اعظم کا پاکستان نہیں ہے اور نہ ہی علامہ اقبال کا پاکستان کہا جا سکتا ہے کیونکہ آج کا پاکستان ’’مافیاز‘‘ کا پاکستان ہے، لوٹ مار کرنے والوں کا پاکستان ہے، کرپشن کنگز کا پاکستان ہے۔ دولت مندوں کا پاکستان ہے، یہ پاکستان طاقتوروں کا پاکستان ہے۔ سب کا پاکستان ہے مگر سچ کے پیروکاروں کا پاکستان نہیں کہا جاسکتا ۔
Anwer Abbas Anwer
About the Author: Anwer Abbas Anwer Read More Articles by Anwer Abbas Anwer: 203 Articles with 161290 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.