قدسیؔ : فن اور شخصیت -اِک تاثّر
(Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi, Hyderabad)
’’قدسیؔ : فن اور شخصیت ‘‘دراصل ادیبِ شہیر
مولانا رحمت اللہ صدیقی(مدیر :پیغامِ رضا) کے موے قلم سے نکلا ہوا عہد حاضر
کے سب رنگ شاعر و ادیب مولانا سید اولادِ رسول قدسیؔ مصباحی کے فکر و فن
اور شخصیت کا ایک خوب صورت تعارف نامہ ہے۔ جس میں مولانا رحمت اللہ صدیقی
نے بڑی عرق ریزی ، خلوصِ دل ، قلمی پختہ کاری اور حُسنِ ترتیب کے ساتھ
قدسیؔ کے ہمہ جہت پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی کامیاب سعی کی ہے۔
مولانا رحمت اللہ صدیقی کااشہبِ قلم کافی عرصہ سے مذہبی صحافت کے میدان میں
سر پٹ دوڑ رہا ہے۔ ’’پیغامِ رضا‘‘ جیسے مؤقر سالنامہ جریدے کے توسل سے وہ
کئی اہم نمبرس شائع کرچکے ہیں۔ آپ کو مذہب اور ادب دونوں سے حد درجہ لگاؤ
ہے ۔ مزید اس شوق و ذوق کو بالیدگی عطا کرنے کاکام اُن کے ہم زلف مولاناسید
اولادِ رسول قدسیؔ کی ہمہ جہت علمی و فکری اور شعری و ادبی کائنات نے کیا
ہے۔ قدسیؔ عالم و فاضل اور دانا و بینافرد ہیں۔فقیہ و مبلغ ہیں ۔ عہد حاضر
کے سب رنگ شاعر و ادیب ہیں۔ محقق اور بلند پایہ نثر نگار ہیں۔وسیع المطالعہ
اور لسانیاتی تنوع کے حامل ہیں۔ آپ کی شخصیت اور فکر میںبڑی وسعت اور ہمہ
گیریت ہے۔ ان کا آبائی وطن یوں تو اڑیسہ ہے لیکن دیارِ مغرب امریکہ میں
مقیم رہ کر اپنی علمی و فکری اور شعری و ادبی خوشبوؤں کو فضاے بسیط میں
مکمل کامیابی و کامرانی سے بکھیررہے ہیں۔ شعری میدان میں روایت پسندی کے
جلو میں جدیدیت کا لب و لہجہ، مضمون آفرینی ، جدتِ ادا، نادرہ کاری اور
حُسنِ تخیل کے ساتھ ساتھ فکری و فنّی پختگی، شیفتگی اور شگفتگی کے ہمہ رنگ
جلوے ان کی صنفی اور ہیئتی تنوع سے پُرشاعری میں جگہ جگہ دکھائی دیتے
ہیں۔اِسی فکری تنوع اور ہمہ جہتی نے آپ کے فن اور شخصیت کو ناقدین کی توجہ
کا مرکز و محور بنالیا ۔ اردو زبان و ادب کے کئی معتبر ناقدوں نے قدسیؔ کے
فکر و فن پر کھل کر داد و تحسین دی ہے۔
’’قدسیؔ : فن اور شخصیت ‘‘ میں مولانا رحمت اللہ صدیقی نے قدسیؔ جیسے ہمہ
رنگ اور ممتاز و مؤقر شاعر و ادیب ، عالم و فاضل ، دانا و بینا ، فقیہ و
مبلغ کے ہر ہر پہلو پر دل کش پیرایۂ زبان و بیان اور پختہ اسلوب میں روشنی
ڈالی ہے۔قدسیؔ کو دنیاے ادب میں متعارف کروانے کے لیے صدیقی صاحب کی کاوشِ
محترم مسلسل جاری ہے، اور رفتہ رفتہ قدسیؔ شناسی اُن کی ذات کا استعارہ
بنتے جارہی ہے۔ اس کتاب میں آپ نے قدسیؔ کی شعری کائنات ، نثری شہ پاروں،
فتاؤؤں کے نمونوں ، تدریسی سرگرمیوں، خانگی حالات، تبلیغی مساعی، اردو کے
علاوہ دیگر زبانوں پر قدسیؔ کی مہارت وغیرہ اور قدسی کے فن اور شخصیت کے
حوالے سے مشاہیر علم و ادب کی آراکو بڑے سلیقہ مندانہ انداز میں خوانِ
مطالعہ پر سجایا ہے۔ اس کتاب میں صدیقی صاحب نے قدسیؔ کی بے جاقصیدہ خوانی
نہیں کی ہے بلکہ وہی لکھا ہے جس میں صداقت اور سچائی ہے۔ صدیقی صاحب نے
پوری کوشش کی ہے کہ قدسی ؔنامہ میں کہیں بھی ذاتی محبت و اُنسیت کا دخل نہ
ہو۔ یہ سچ ہے کہ ادب میں جیسا مقام قدسیؔ کو دیا جانا چاہیے وہ نہیں دیا
گیا ۔ لہٰذا صدیقی صاحب کے اس شکوے کو کہ :’’ادبی دنیا ہو یا مذہبی دنیا ہر
جگہ تعصب ، تنگ نظری اور اقربا پروری کی جڑیں بہت گہری ہوچکی ہیں ۔ اس لیے
کسی بھی فن ، فن کار اور فن پارے کو اس کا جائز حق نہیں مل پارہا ہے
،(ص۴۹)۔‘‘کو ذاتی عقیدت پر محمول نہیں کیا جاسکتا۔
دعا ہے کہ قدسیؔ صاحب کا برق رفتار قلم یوں ہی چمکتا دمکتا رہے اور صدیقی
صاحب اُس کی چمک دمک سے دنیاے علم و ادب کو یوں ہی منور و مجلاکرتے رہیں۔
(آمین) |
|