فیض : انقلاب کا مرد آہن

ہم جب دنیائے اردو ادب پر طائرانہ نظر ڈالتے ہیں تو گذشتہ صدی کو اردو ادب کی سب سے زرین صدی کے نام سے موسوم کر سکتے ہیں۔ اس میں اردو کی بہت سی تحریکوں نے اپنی عملی سرگرمیوں سے پورے ادب کو لالہ زار بنا دیا۔ سماجی نقطۂ نظر سے ترقی پسند تحریک نے ظلم و جبر و استبداد کے خلاف زبردست ہلچل پیدا کی۔ جہاں ایک جانب ادب میں قدامت پرستی کے بندھے ٹکے اصولوں کو بالائے طاق رکھا گیا اور روایات کی جکڑبندیوں کو توڑا گیا، اصطلاحات اور علامتوں کو نیا جامہ پہنا کر’’ ادب برائے زندگی‘‘ کے نعروں کو نہایت زور و شور کے ساتھ رو بہ عمل لایا گیا۔ وہیں دوسری جانب ادب کے ذخیرہ میں ایسے نادر اور نایاب ادیبوں اور شاعروں کا اضافہ ہوا جس نے اردو ادب کو عالم گیر مقام دلانے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی۔ پریم چند، کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، سجاد ظہیر، سعادت حسن منٹو، شوکت تھانوی، مخدوم محی الدین، مجاز لکھنوی، سلام مچھلی شہری، سردار جعفری، ن م راشد، جاں نثار اختر، اختر حسین رائے پوری، مجنوں گورکھپوری اور فیض احمد فیض جیسی عظیم قدآور شخصیات نے اردو ادب کے ذخیرہ کو مالامال کیا۔

کمیت اور مقدار کے لحاظ سے اس عہد کی سب سے اہم خوبی یہ رہی کہ اردو ادب کی ابتداء سے لے کر صدی کی نصف اول تک جتنا بھی ادب تخلیق کیا گیا۔ اس سے کہیں زیادہ صدی کے نصف دوّم کے محض چند سالوں میں ادب کا سرمایہ بنا۔ جب ہم اس ذخیرہ پر نظر ڈالتے ہیں تو بہت سی تخلیقات ہماری آنکھوں کو خیرہ کرتی ہے اور اپنے خالقوں کو بام عروج پر متمکن کرتی ہیں۔ ان میں سے سب سے ہم اور ممتاز نام فیض احمد فیض کا ہے جس نے اپنے قلم کی سیاہی سے پورے عہد کو منور کر دیا۔

فیض ایک ہمہ جہت شخصیت کا مالک تھا۔ جس کی شاعری برصغیر کی جغرافیائی حدود کو توڑ کر پورے عالم کو مسحور کرتی ہے۔ کبھی وہ ایک ایسا سیاست داں نظر آتا ہے۔ جو جبر و استبداد کے خلاف سینہ سپر ہوتا ہے تو کبھی وطن عزیز کی محبت میں سرشار ہوکر فوجی لباس زیب تن کئے ہوئے بندوق ہاتھ میں لئے سرحد پر کرنل کے فرائض انجام دیتا ہے اور جب نازک موقع آتا ہے تو قلم ہاتھ میں لے کر صحافت کے میدان میں معرکہ آرائی کرتا ہے۔ کبھی دبے کچلے لوگوں کا مسیحا بن جاتا ہے اور کبھی وقت آنے پر اپنے ہی لوگوں کی سازشوں کا شکار ہو کر پا بہ زنجیر ناتواں قیدی ہو کر اپنی ہی انگلیوں کو اپنے خون میں ڈبو کر عشق و محبت کی داستانِ وفا تحریر کرتا ہے۔ اور پراعتماد لہجئ میں کہتا ہے کہ
لائو تو قتل نامہ مرا میں بھی دیکھ لوں
کس کس کی مہر ہے سر محضر لگی ہوئی

فیض کی آفاقی شخصیت کو سمجھنے کے لئے اس کی حیات کے تمام پہلوئوں کا مطالعہ کرنا ضروری ہے۔ جس میں ایسے عناصر پوشیدہ ہیں جن کی بدولت فیض اپنے عہد پر چھائے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ان عناصر کی وجہ سے ہی فیض میں انقلابی جذبہ ٹھاٹھیں مارتا ہوا نظر آتا ہے۔ جو پہلو بہ پہلو فیض کی شخصیت کو تہہ دار بناتا ہے۔ یہی جذبہ عوام الناس میں عدل و انصاف اور انقلاب کی گرمی پیدا کرتا ہے۔

فیض کے سینے میں ایک درد مند انسان کا دل دھڑکتا ہے کہ جو ہر وقت اس کے ہوش و حواس کو بیدار رکھتا ہے۔ اسی دردمندی کے جذبے کے سبب فیض نے عدل و انصاف کو ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھا۔ اس ضمن میں بچپن کے اس وقعہ کا ذکر کرنا ضروری ہے جس نے فیض کو ایک مرد آہن بنا کر ظلم و استبداد کے مدمقابل لا کھڑا کیا۔ اپنے ایک انٹرویو میں فرماتے ہیں
’’ہم جب پہلی مرتبہ مدرسہ بھیجے گئے تو بڑے اہتمام کئے گئے۔ ہمیں مخملی کپڑے پہنائے گئے آنکھوں میں کاجل لگایا گیا۔ یہ اور وہ نہ جانے کیا کیا اہتمام ہوئے دو گھوڑوں والی گاڑی میں بٹھا کر مدرسہ بھیجا گیا۔ وہاں پہنچے تو دیکھا کہ ٹاٹ بچھا ہوا ہے اور میلے کچیلے کپڑوں میں بے چارے بچے بیٹھے ہوئے ہیں۔ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے لگے کہ یہ کون سا جانور آگیا۔ بچوں نے ایسے ٹھٹھے لگائے ہم پر کہ بہت ندامت ہوئی۔ اور فیصلہ کیا آج کے بعد ہم یہ نہیں کریں گے کہ ہم اور یہ الگ الگ ہیں۔‘‘

بظاہر یہ واقعہ بہت معمولی معلوم ہوتا ہے۔ لیکن جب ہم اس کا نفسیاتی تجزیہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ فیض کو ناانصافی اور نابرابری پسند نہیں تھی۔ یہ جذبہ بچپن ہی سے اس کے دل و دماغ کی آبیاری لاشعوری طور پر کر رہا تھا۔ جب وہ تنومند اور خوبرو ہو کر عہد شباب کی منزلوں پر پہنچے تب پورے آب و تاب اور روانی کے ساتھ نمایاں ہونے لگا۔ جس کا عکس ٹریڈیونینوں کی سربراہی اور ترقی پسند تحریک کی سرگرم کارکن کے قلم سے نازک لہجہ میں نکلنے والے اشعار میں ہمارے سامنے آتا ہے۔
جب کبھی بکتا ہے بازار میں مزدور کا گوشت
شاہراہوں پہ غریبوں کا لہو بہتا ہے
آگ سی سینے میں رہ رہ کے ابلتی ہے نہ پوچھ
اپنے دل پر مجھے قابو ہی نہیں رہتا ہے

وطن کی محبت انسان کا فطری جذبہ ہے۔ فیضؔ میں بھی یہ جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ وہ اپنے ملک کی عوام سے بےپناہ محبت کرتے تھے۔ ایک فیاض اور فراخ دل انسان ہمیشہ ان میں رچا بسا رہنا زیادہ پسند کرتا ہے۔ ان سے محبت اور ہمدردی کا اظہار ان کے اشعار میں کثرت سے ملتا ہے۔ عوام کے انقلابی جذبے کو بیدار رکھنے کے لئے قید و بند اور وسائل کے محدود ہونے کے باوجود اپنے انقلابی عزم کو دہراتا رہتا ہے۔
اے خاک نشینوں اٹھ بیٹھو وہ وقت قریب آ پہنچا ہے
جب تخت گرائے جائیں گے جب تاج اچھالے جائیں گے
جب ٹوٹ گریں گی زنجیریں اب زندانوں کی خیر نہیں
جو دریا جھوم اٹھیں گے تنکوں سے نہ ٹالیں جائیں گے
کہتے بھی چلو بڑھتے بھی چلو بازو بھی بہت ہیں سر بھی بہت
چلتے بھی چلو کہ اب ڈیرے منزل پہ ڈالے جائیں گے
اے ظلم کے مارو لب کھولو چپ رہنے والوں کب تک
کچھ حشر ان سے تواٹھے گاکچھ دور تو نالے جائیں گے

عموما انقلاب کے جذبے کو زبان کے اظہار میں چیخ و پکار اور گھن گرج کاسہارا لینا ایک فطری عمل ہے جس کی مثال شاعر انقلاب جوشؔ ملیح آبادی کے انقلابی اشعار میں ان کا جوش و خروش اور شور شرابا ہے لیکن اس کے برخلاف فیضؔ کے انقلاب کا جذبہ نہایت گرم جوشی اور نرم و نازک لہجہ کے ساتھ ریشمی انداز بین کا مظہر ہے۔ الفاظ کی شیرینی اور جملے جملے نرم روی سے اس کے ۷جذبے میں کہیں بھی لچک اور کمزوری نہیں دکھائی دیتی۔ اسرائیل کے جبرواستبداد کے مقابلے میں فلسطینی مجاہدین آزادی کے درد بھرے نوحے اور نظم ایرانی طلبہ کےنام اس کی بہترین مثال ہے۔

مایوسی قوائے انسانی کو مضمحل، دل و دماغ کو سست اور حوصلوں کو پست کردیتی ہے۔ نتیجتاً ساری طاقتیں ضائع ہو جاتیں ہیں اور صورت حال اس وقت اور دوگنی ہو جاتی ہے جب حساس آدمی ان مشکلات سے دوچار ہوتا ہے اور اس کے سامنے کوئی سانحہ وقوع پذیر ہوتا ہے۔ شاعر کا ذہن بھی حساس ہوتا ہے۔ اس لئے اس پر ان اثرات کا پڑنا لازمی ہے۔ فیضؔبھی ان مشکلات سے گذرے ہیں لیکن وہ مایوسی اور زنجیدگی کے سامنے کبھی خمیدہ کمر نہیں ہوئے۔ برصغیر کی آزادی ایک خوش کن اور فرحت بخش لمحہ تھا لیکن ساتھ ہی ہندوپاک کی تقسیم ایک زبردست سانحہ تھا جس نے ملک عظیم کے ہر فرد کو مضطرب اور رنجیدہ کر دیا تھا۔ ہر شخص ایک انجانے خوف کے ماحول سے گذر رہا تھا۔ تقسیم کے نتیجے میں ہونے واے فسادات نے ہر شخص کی سوچ و فکر میں ہل چل کر دی تھی۔ ایسے حالات نے فیضؔ کے دل و دماغ کو جھنجھوڑا لیکن وہ مایوس نہیں ہوئے اور اپنے انقلابی سفر کو جاری رکھا۔
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں کہیں نہ کہیں
نجات دیدہ دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی

افراتفری قتل و غارتگری مایوسی اور ذہنی ہیجان کے مناظر دیکھنے کے باوجود فیضؔ نے اپنے انقلابی سفر کو کبھی درماندگی کا شکار ہونے نہیں دیا انصاف و انقلاب کا سفرجو ٹاٹ پٹی سے شروع ہواتھا وہ قید و بند اور تقسیم ہند کے سانحہ کے بعد بھی نہیں رکا۔ یہی سلسلہ ۲۰؍ نومبر ۱۹۸۴ء کو لاہور میں فیضؔ کے ابدی نیند سونے سے اب تک جاری رہا۔ حق انصاف اور انقلاب کا سفر اب بھی جاری ہے۔

فیضؔ کی ایک نظم

کس طرح آئے گی جس روز قضا آئے گی
شاید اس طرح کہ جس طور کبھی اوّل شب
بے طلب پہلے پہل مرحمت بوسۂ لب
جس سے در کھلنے لگیں ہر سمت طلسمات کے در
اور کہیں دور سے انجان گلابوں کی بہار
یک بیک سینہ مہتاب کو تڑپانے لگے
شاید اس طرح کہ جس طور کبھی آخر شب
نیم وا کلیوں سے سرسبز سحر
یک بیک حجرۂ محبوب میں لہرانے لگے
اور خاموش دریچوں سے یہ ہنگامِ رحیل
جھنجھناتے ہوئے تاروں کی صدا آنے لگے

کس طرح آئے گی جس روز قضا آئے گی
شاید اس طرح کہ جس طور نہ لوک سنائیں
کوئی رگ واہمۂ درد سے چلانے لگے
اور قزاق سناں دست کا دھندلا سایہ
از کراں تا بہ کراں دہر پہ منڈلانے لگے

جس طرح آئے گی جس روز قضا آئے گی
خواہ قاتل کی طرح آئے کہ محبوب صفت
دل سے بس ہو گی یہی حرف وداع کی صورت
للہ الحمد بانجام دل دل زدگاں
کلمۂ شکر بنام لب شیریں دہناں

Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi
About the Author: Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi Read More Articles by Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi: 409 Articles with 646658 views

Dr.Muhammed Husain Mushahid Razvi

Date of Birth 01/06/1979
Diploma in Education M.A. UGC-NET + Ph.D. Topic of Ph.D
"Mufti e A
.. View More