کلامِ رضا ؔپر تضمین نگاری
(Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi, Hyderabad)
اللہ کے نام سے شروع
مصطفیٰ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام
مورخہ۱۴؍ ربیع الاول شریف۱۴۳۴ھ بہ مطابق۲۷؍جنوری ۲۰۱۳ء بروز اتوار حسبِ
معمول اپنے جی میل اکاؤنٹ پر برقی مکتوبات (ای میلز)کی خواندگی میں مصروف
تھا ۔ اچانک چیٹ بوکس آہستہ سے نوا سنج ہوا ۔ اُدھر متوجہ ہوا تو محب
گرامی برادرِ دینی محترم محمد ثاقب قادری ضیائی زید علمہٗ ہدیۂ سلام لیے
حاضر تھے۔علیک سلیک اور خیر خیریت کے بعد انھوں نے مجھے لکھا کہ :’’ آپ
رضویات کے حوالے سے ایک کتاب ترتیب دیں۔‘‘میں نے جواباً تحریرکیا کہ :’’
محترم میری بساط میں ہوگا تو کام ضرورہوجائے گا ، پہلے موضوع تو افشا
فرمائیں ۔‘‘محترم ثاقب قادری نے تحریر کیا کہ :’’میرے ذہن میں ایک منصوبہ
ایسا ہے کہ کلامِ رضا پر لکھی گئی نعتوں اور تضامین کا ایک انتخاب مرتب
کرلیا جائے ۔جو رضویات کے حوالے سے ایک بڑی خدمت ہوگی ۔‘‘یہ موضوع میرے لیے
بڑا پُرکشش بل کہ ذاتی پسند کا ایک حصہ لگا ، میں نے فوراً ہامی بھر لی ۔
چوں کہ ناچیز کے ذخیرۂ کتب میں اہل سنت کے پرانے ماہ ناموں ، رسائل و
جرائد اور ڈائجسٹ کافی تعدا د میں موجود ہیں نیز مختلف شعرا حضرات کے نعتیہ
مجموعے بھی۔ اِن رسائل و جرائد اور مجموعوں میں کلامِ رضا پر لکھے گئے
نعتیہ و منقبتی کلام اور تضامین بارہا میری نظروں سے گذرتے رہے ہیں ۔بایں
سبب اُسی دن بل کہ اُسی وقت سے ناچیز اِس کام میں لگ گیا ۔ الحمدللہ ثم
الحمدللہ ! مجھے میری چہار دیواری ہی میں اتنا مواد مل گیا کہ بار بار بے
اختیار سبحان اللہ ! سبحان اللہ ! دل کی گہرائیوں سے نکلنے لگا۔
علاوہ ازیں برادرم محمد ثاقب قادری نے بھی مجھے قابلِ قدر کلام سے نوازا۔بل
کہ میں یہ کہوں تو مبالغہ نہ ہوگا کہ اِس کام کا سارا کریڈیٹ انھیں کے سر
جاتاہے کہ یہ منصوبہ انھیں کے تعمیری ذہن کی اُپج ہے۔ اس موقع پر میں
خانقاہ قادریہ بدایوں شریف کے صاحبِ سجادہ محترم مولانا محمد اسید الحق
عاصم القادری بدایونی الازہری صاحب کا تذکرہ بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ موصوف
نے اپنی علم دوستی کا ثبوت دیتے ہوئے اعلیٰ حضرت کےمشہورِ زمانہ ’’ قصیدۂ
معراجیہ‘‘ پرتلمیذ استاذِ زمن فخر شعراے زمن مولانا محمد حسن اثر قادری
برکاتی نوری بدایونی (م 1346ھ) کی تحریر کردہ ایک ایسی نادر ونایاب تضمین
سے نوازا جس کے بارے میں زیادہ تر خواص بھی ناواقف ہوں گے۔
مولانا محمد اسید الحق عاصم القادری بدایونی الازہری صاحب کی روانہ کردہ
مذکورہ تضمین سے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا کے کلام کی ان کے معاصرشعرا ،
علما و مشائخ میں بے پناہ مقبولیت کا اظہار ہوتا ہے ۔ عمومی طور پر شعرا کی
وفات کے بعد لوگ ان کے کلام کو اپنی فکر و نظر کا محور بناکر تضمین نگاری
کا مظاہر ہ کرتے ہیں ۔ جب کہ یہ کلامِ رضا کا امتیازی اختصاص ہے کہ اُن کے
معاصر شعرا نے اُن کے کلام پر نہ صرف تضامین لکھیں بل کہ اعلیٰ حضرت کے
مصرعے کو طرح کے طور پر برت کر نعتیہ کلام بھی لکھا ۔
اعلیٰ حضرت کے کوثر و تسنیم میں ڈوبی ہوئی زبان میں لکھے گئے’’قصیدۂ
معراجیہ‘‘کے تضمین نگار افتخارِ شعراے زمن مولانا محمدحسن اثر قادری برکاتی
نوری بدایونی علیہ الرحمہ ہیں ۔جن کے والد کانام منشی عظمت علی حمیدی ساکن
محلہ قاضی ٹولہ بدایوں ہے۔ آپ بڑے بہترین شاعر اور عالم تھے۔شاعری میں
برادرِ اعلیٰ حضرت استاذِ زمن شہنشاہِ سخن علامہ حسن رضا بریلوی سے شرَفِ
تلمّذ تھا۔اعلیٰ حضرت سے 6سال بعد16 ذی قعدہ ۱۳۴۶ھ میں آپ نے وفات
پائی۔بحوالہ: جدول مرحوم شعراے بدایوں 1930ء( مرتبہ از:قمر الحسن قمرؔ
ارشدی حمیدی بدایونی ، مطبوعہ، ماہنامہ مجلہ بدایوں (کراچی)
مولانا محمدحسن اثرؔ قادری برکاتی نوری بدایونی نے مکمل قصیدۂ معراجیہ پر
جو تضمین لکھی تھی وہ "معراجِ حضور 1328ھ" کے تاریخی نام سے جناب حکیم واصف
حسین شاہ صاحب قادری اکبرآبادی کی فرمایش پر منشی محمد صبغۃ اللہ برقؔ
صاحب نے شائع کروایا تھا۔اس تاریخی تضمین کے تین بند بہ طورِ نمونہ نشانِ
خاطر فرمائیں ؎
کہیں مبارک کہیں سلامت ، کہیں مسرّت کے غلغلے تھے
صلوٰۃ کے گیت نعت کی گت ، ثنا کے باجے بَجارہے تھے
وَرَفَعنَا کی بجا کے نوبت ، مَلک سلامی اُتارتے تھے
’’وہ سرورِ کِشورِ رِسالت ، جو عرش پر جلوہ گَر ہو ئے تھے
نئے نِرالے طَرَب کے ساماں عَرَب کے مہمان کے لیے تھے‘‘
مُبارک اے باغباں مبارک ، خُدا کرے جاوداں مُبارک
بہارِ گل کا سماں مبارک ، عنادلِ نغمہ خواں مبارک
زمین سے تاآسماں مبارک، یہاں مبارک وہاں مبارک
’’بہار ہے شادیاں مُبارک ، چمن کو آبادیاں مُبارک
مَلک فلک اپنی اپنی لَے میں ، یہ گھر عنادِل کا بولتے تھے‘‘
یہاں نہ طاعت نہ زہد و تقویٰ ، یہی وسیلہ ہے مغفرت کا
کہ ہے ثنا گوئی اپنا شیوہ ، اِسی سبب سے لکھا یہ خمسہ
مراد ہے نعتِ شاہِ والا، غرض نہیں شاعری سے اصلا
’’ثناےسرکار ہے وظیفہ ، قبولِ سرکار ہے تمنّا
نہ شاعری کی ہوس نہ پروا ، ردی تھی کیا کیسے قافیے تھے‘‘
امام احمد رضا بریلوی نے نعتیہ شعری ادب کے میدان میں جو روشن اور اجلے
نقوش مرتب کیے ہیں اُس کی آب و تاب اور چمک دمک کا اندازہ اس امر سے لگایا
جاسکتا ہے کہ اُن کے معاصر شعرا نے جہاں آپ کی طرزوں اور زمینوں کو نشانِ
منزل کے طور پر برتا اور کلامِ رضاؔ پر نعتیں اور تضامین قلم بندکیں وہیں
تازمانۂ حال بھی شعرا حضرات کلامِ رضاؔ پر طبع آزمائی کو سعادت مندی تصور
کررہے ہیں ۔
آئیے اس مقام پر تضمین سے متعلق بھی کچھ گفتگو کرتے چلیں ۔ ‘‘تضمین’’ کا
لغوی معنی ’’ضمن میں لینا‘‘ ہے ۔ لیکن اصطلاحی مفہوم’’کسی دوسرے شاعر کے
کلام کو اپنے کلام میں داخل کرنا ہے ۔‘‘ جیسا کہ مدارسِ اسلامیہ میں پڑھائی
جانے والی مشہور کتاب دُروس البلاغۃ میں درج ہے کہ : ’’تضمین ، اس کو ایداع
بھی کہتے ہیں ، وہ یہ ہے کہ اپنے شعر میں دوسرے کے شعر کا کوئی جزداخل کیا
جائے۔‘‘ ( دُروس البلاغۃ ، مطبع مجیدی ، کان پور ص ۱۱۴)
بلاغت کی مشہور و معروف کتاب ’’مختصرالمعانی ‘‘ میں بھی تضمین کی یہی تعریف
ملتی ہے ۔ علاوہ ازیں’’عین العروض‘‘ میں مفتی محبوب رضا روشن القادری لکھتے
ہیں کہ :
’’ تضمین اپنی یادوسروں کی غزل پر مصرع لگاکر تطبیق اور مصرع کے تقاضوں کو
پورا کرنے کو کہتے ہیں ۔ اکثر و بیش تر مخمس یا مثلث طور پر وضع دیا جاتا
ہے ۔ جس کے شعر میں ایک مصرع یا تین مصرع کا اضافہ کیا جاتا ہے ۔ مگر مصرع
لگاتے وقت یہ لازم ہوتا ہے کہ وہ الفاظ اورمضمون کے لحاظ سے بعینہٖ چسپاں
ہوجائے اور پڑھنے اور سننے میں ایک شاعر کا کلام ہو جیسے اعلیٰ حضرت کے
اشعار پر دردؔ کاکوروی کی تضمین ؎
والضحیٰ پاک صورت پہ لاکھوں سلام
قاب قوسین خلوت پہ لاکھوں سلام
مجتبیٰ شانِ رفعت پہ لاکھوں سلام
’’مصطفیٰ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام
شمع بزمِ ہدایت پہ لاکھوں سلام ‘‘
وہ دوعالم کے سلطان صل علیٰ
عرشِ اعظم کے مہمان صل علیٰ
جن کا دنیا میں بستر رہا بوریا
’’کل جہاں مِلک اور جَو کی روٹی غذا
اُس شکم کی قناعت پہ لاکھوں سلام‘‘
(عین العروض ، ص ۳۴)
اسی طرح صاحبِ فرہنگِ ادبیات نے تضمین کی تعریف یوں لکھی ہے :
’’ لفظی معنی’’ مضمون آفرینی‘‘ ، اصطلاحاً اپنے یا کسی اور شاعر کے کلام
پر مضمون کی مطابقت اور ردیف و قوافی کے اتباع سے مزید مصرعوں کا اضافہ۔‘‘
تضمین کی درج بالاتعریفات سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ تضمین اپنے یاکسی دوسرے
کےمصرعے یا شعر پر مضمون کی مطابقت سے اپنا مصرع لگانا۔ تضمین مخمس اور
مثلث کے انداز میں لکھی جاتی ہے ۔ ویسے اس کی کئی قسمیں بیان کی گئی ہیں ۔
(۱) کسی مصرعے سے پہلے تین مصرعے لگائے جاتے ہیں :
مثلاً : امام احمد رضا کے ایک شعر پر تضمین ؎
بہار ہے شادیاں مُبارک ، چمن کو آبادیاں مُبارک
مَلک فلک اپنی اپنی لَے میں ، یہ گھر عنادِل کا بولتے تھے
تضمین :
مُبارک اے باغباں مبارک ، خُدا کرے جاوداں مُبارک
بہارِ گل کا سماں مبارک ، عنادلِ نغمہ خواں مبارک
زمین سے تاآسماں مبارک، یہاں مبارک وہاں مبارک
’’بہار ہے شادیاں مُبارک ، چمن کو آبادیاں مُبارک
مَلک فلک اپنی اپنی لَے میں ، یہ گھر عنادِل کا بولتے تھے‘‘
اس قسم کی تضمین میں کسی شعر پر تین مصرعے شعر کے مصرعۂ اولیٰ کے قافیے کے
لحاظ سے لگائے جاتے ہیں۔
(۲) کسی مصرع پر دو مصرعے لگائے جاتے ہیں ۔ مثلاًمولانا صلاح الدین ضیاؔ
مصباحی کی مرقومہ تضمین سے ایک بند ؎
روے حبیب اکبر مائل بہ زرد ہوگا
تکلیف ہو کسی کو آقا کو درد ہوگا
’’اللہ کیا جہنم اب بھی نہ سرد ہوگا
رو روکے مصطفیٰ نے دریا بہادئیے ہیں ‘‘
(۳)کسی شعر کے ایک مصرعے پر اپنا مصرعہ لگانا وہ بھی تضمین کی ایک شکل ہے ۔
مثلاً :امام احمد رضا کے ایک مصرعے :
’’منزل نئی، عزیز جدا ، لوگ ناشناس‘‘
پر ناچیز کا ایک تضمینی مصرعہ جس سے شعر مکمل ہوا۔
’’منزل نئی ، عزیز جدا ، لوگ ناشناس‘‘
برزخ میں آکے آپ ہی ڈھارس بندھائیے
(۴)کسی ایک شعر پر پوری ، نظم ، نعت ، غزل وغیرہ لکھی جاتی ہے :
مثلاً : امام احمدرضا کے ایک شعر :
’’بنت صدیق آرامِ جانِ نبی
اُس حریمِ براء ت پہ لاکھوں سلام‘‘
پر محترم ڈاکٹر عزیز احسن (کراچی) کی ایک مکمل نظم بھی تضمین کی ایک شکل ہی
ہے:
ماہِ صدق و صفا کی حسیں روشنی
جس کے ماتھے کا جھومر صداقت بنی
رسمِ تصدیق جس کے پدر سے چلی
جس کو ورثے میں تسلیم کی خُو ملی
چاندنی جس کی رویت سے شرما گئی
میری ماں! عائشہ! علم کی منتہی
دیں میں جس کی امومت سے جاں پڑ گئی
راویوں میں ہمیشہ نمایاں رہی!
جس نے پھیلائی خوشبو احادیث کی
اور بخشی شبوں کو عجب روشنی
جس نے اوصافِ مہرِ رسالت سبھی
پیشِ اُمّت رکھے ، تھے خفی یا جلی
تاکہ ہو اُسوۂ پاک کی پیروی
اتباعِ نبی ہی کرے ہر گھڑی
کوئی نادار ہو اُمّتی یا غنی
ایسی ماں جس کی سیرت مثالی رہی
جس کی عفت کی رب نے گواہی بھی دی
ساری اُمّت کی ماؤں میں جو فرد تھی
جس کو نسواں پہ حاصل ہوئی برتری
اہلِ بیتِ مطہر میں ممتاز بھی
زوجۂ پاکِ مزّمِّل و ابطحی(ﷺ)
’’بنتِ صدیق ، آرامِ جانِ نبی
اُس حریمِ برأت پہ لاکھوں سلام‘‘
(۵)ایک قسم تضمین کی یہ بھی ہے جو کم ہی شعراکے یہاں ملتی ہے وہ یہ کہ پوری
نظم کے ہر شعر کا پہلا مصرعہ شاعر کا خود کا ہو اور دوسرا کسی دیگر شاعر کا
۔۔۔۔یا پہلامصرعہ کسی دیگر شاعر کا ہو اور دوسرا مصرعہ اپنا ہو۔اس کو تضمین
المصراع بھی کہتے ہیں ۔
ذیل میں ملاحظہ کریں حضرت حافظ شیرازی کی ایک غزل پر امام احمد رضا بریلوی
کی مرقومہ تضمین ، واوین کے مصرعےحضرت حافظ شیرازی کے ہیں ؎
’’الا یٰایھا الساقی ادرکاسا و ناولہا‘‘
کہ بریادِ شہ کوثر بنا سازیم محفلہا
بلا بارید حبِ شیخِ نجدی بروہابیہ
’’کہ عشق آساں نمود اول ولے افتاد مشکلہا‘‘
وہابی گرچہ اخفا می کند بغضِ نبی لیکن
’’نہاں کے ماندآں رازے کزوسازند محفلہا ‘‘
توہب گاہ ملکِ ہند اقامت را نمی شاید
’’جرس فریاد می دارد کہ بر بندید محملہا‘‘
مگرداں رُو ازیں محفل رہِ اربابِ سنت رَو
’’کہ سالک بے کبر نبود زِ راہ و رسمِ منزلہا ‘‘
دلم قربانت اے دودِ چراغِ محفلِ مولد
’’زتابِ جعدِ مشکینت چہ خوں افتاد دردلہا‘‘
غریقِ بحرِ عشقِ احمدیم از فرحتِ مولد
’’کجا دانند حالِ ماسبکسارانِ ساحلہا‘‘
رضاے مست جامِ عشق ساغر باز می خواہد
’’الا یٰایھا الساقی ادرکاسا و ناولہا‘‘
(۶)تضمین المصراع کی طرح ایک قسم تضمین کی تضمین الرفو بھی ہے ، اپنے یا
کسی دوسرے شاعر کے کسی مصرے کا ایک جز لے کر اپنا مصرع مکمل ( رفو) کرنا ،
تضمین الرفو کہلاتی ہے ۔ مثلاً ؎
’’کہفِ روزِ مصیبت‘‘ ہیں آقا مرے
موجِ بحر کرم سیدالانبیاء
(لمعاتِ بخشش:ڈاکٹر مشاہدؔ رضوی، ص55)
امام احمد رضا کے مصرعے :
’’کہفِ روزِ مصیبت پہ لاکھوںسلام ‘‘
کے ایک جز سے مصرع مکمل کیا گیا ہے۔
جانِ رحمت کی اطاعت کا خزانہ ہوتا
’’جان و دل ہوش و خرد ‘‘روح سے سجدہ ہوتا
(وسیلۂ بخشش: مولانا محمدادریس رضوی، ص38 )
امام احمد رضا کے مشہور مصرعے :
’’جان و دل ہوش وخرد سب تو مدینے پہنچے ‘‘
کے ایک جز سے مصرع مکمل کیا گیا ہے ۔
(۷)تضمین میں ایک قسم تضمین مزدوج بھی ہے جس کو بعض علماے ادب نے صنعت میں
شمار کیا ہے وہ یہ کہ کسی شعر میں کسی بھی مقام پر دو ہم وزن یا مقفا الفاظ
استعمال کرنا :
مثلاً : اقبال کے دوشعر دیکھیں جس میں’’چمک /جھلک‘‘۔۔۔۔۔’’شجر /حجر‘‘ :
چمک تیری عیاں بجلی میں آتش میں شرارے میں
جھلک تیری ہویدا چاند میں ، سورج میں تارے میں
خصوصیت نہیں کچھ اس میں اے کلیم تری
شجر حجر بھی خدا سے کلام کرتے ہیں
تضمین کی عمر اُتنی ہی ہے جتنی کہ عربی ، فارسی یا اردو شاعری کی عمر ہے ۔
اِن زبانوں کے مختلف شعرا نے اپنے باوقار معاصرین یا بزرگوں کے کلام پر
تضمین کی ہے ۔ تضمین کی سمت فراقؔ گورکھپوری نے کافی پیش رفت کی تھی موصوف
نے ولیؔ دکنی ، راجا رام نرائن موزوںؔ ، میرؔ ، سوداؔ ، غالبؔ ، مومنؔ ،
ذوقؔ ، داغؔ ، اقبالؔ ، اصغرؔ ، وحید الٰہ آبادی اور حفیظؔ جون پوری جیسے
شعرا پر بڑی اچھی اور خوب صورت تضامین لکھی ہے۔ ساتھ ہی فراقؔ نےخود اپنے
بھی بعض اشعار پر تضمین لکھی۔ علاوہ ازیں متعدد شاعروں نے دوسرے شاعروں
کےنعتیہ کلام اور غزلوں وغیرہ تضمین کی ہے۔
تضمین نگاری ایک مشکل فن تو ہے ہی لیکن نعت کے تنگناے میں تو اور بھی مشکل
۔۔۔اور امام احمد رضا جیسے متنوع صفات عاشق صادق کے کلام پر تو مشکل بالاے
مشکل ۔۔۔بہت ممکن ہے ، کلامِ رضاؔ پر تضمین نگاری کو کچھ لوگ مخمل میں ٹاٹ
کی پیوند کاری سے بھی تعبیر کریں ۔لیکن ایسے خیالات سے پَرے جب ہم کلامِ
رضاؔ پر طبع آزمائی کرنے والے اورتضمین نگاری کرنے والے شعرا کی فہرست پر
نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں اس صف میں جہاں عام شعرا نظر آتے ہیں وہیں بڑے بڑے
علما و شعرا حضرات بھی دکھائی دیتے ہیں ۔جنھوں نے اپنے اعلیٰ ترین فکری و
فنّی ذوق و شوق کو کلامِ رضاؔ پر تضمین نگاری کے پیکر میں ڈھالا اور ایسے
دل کش اور دل نشین ایک سے بڑھ کر ایک فنّی شہ پارے پیش کیے جو قاری کو اپنی
گرفت میں لیتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں ۔ ناقدبہت کم تضمینوں اور کلام پر مخمل
میں ٹاٹ کی پیوند کاری کا لیبل چسپاں کرنے کی جرأت کرے گا ۔ بیش تر
تضمینیں جذبہ و تخیل ، جدت و ندرت ، معنی آفرینی ، مضمون آفرینی ،زبان و
بیان ، شوکتِ الفاظ اور فنّی لحاظ سے بلند معیار ہیں ۔ بعض حضرات نے تو
اپنی تضمینوں میں ایسے گلہاے لفظ و بیان اور اسلوب بکھیرے ہیں کہ سبحان
اللہ! کلامِ رضاؔ میں استعمال کی گئی زبان اور معانی و مفہو م سے اُن کی
تضمین نگاری اس طرح ہم رشتہ نظر آتی ہے کہ کہیں کسی قسم کا جھول دکھائی
نہیں دیتا ۔آمد آمد کے صد رنگ جلوے تضمین نگار کی علمی حیثیت کو بھ
آشکارکرتے ہیں ۔
کلامِ رضاؔ پر تضمین نگاری کا باضابطہ آغاز حیاتِ رضاؔ ہی میں ہوچکا تھا ۔
جس کے ثبوت میں حضرت مولانا محمد حسن اثر قادری برکاتی نوری بدایونی علیہ
الرحمہ (م 1346ھ) کی مرقومہ ’’قصیدۂ معراجیہ‘‘ پر تضمین ’’معراجِ حضور
1328ھ ‘‘ کو پیش کیا جاسکتا ہے ۔
بعد ازاں شعرا حضرات نے عموماً کلامِ رضاؔ، خصوصاً سلامِ رضا ؔ پر بڑی خوب
صورت تضمینیں لکھیں۔ اما م احمدرضا کا قصیدۂ سلامیہ ’’مصطفیٰ جانِ رحمت پہ
لاکھوں سلام‘‘ آفاقی شہرتوں کا حامل کلام ہے۔ صرف سلامِ رضاؔپر تضمین
نگاری کا اگر جائزہ لیاجائے تو شاید ہی اردو کا کوئی دوسرا شاعر ہو جس کے
صرف ایک کلام پر اس قدر زیادہ تعداد میں تضمین قلم بند کی گئی ہو گی۔ یہ
امام احمد رضا کے کلام اور سلام کی بے پناہ مقبولیت کی ایک روشن علامت ہے ۔
میں اپنے بچپن سے سلامِ رضاؔ پر لکھی گئی تضمینیں سنتا اور پڑھتا رہا ہوں ۔
جن میں جناب اخترالحامدی، جناب طیش صدیقی، حضرت سید آل رسول حسنین میاں
نظمی مارہروی، جناب اوج اعظمی، حضرت پیر سید نصیرالدین نصیرؔ گولڑوی ، جناب
بشیر حسین ناظم ، جناب عثمان عارف نقش بندی(سابق گورنر اترپردیش)، اور
علاقائی لحاظ سے ناشک (گلشن آباد) شہر کے مشہور شاعر جناب شبیر احمدعرشیؔ
کی تضمینیں قابلِ ذکر ہیں۔یہ تمام تضمینیں چندے آفتاب چندے ماہ تاب کے
مصداق ہیں۔ سلامِ رضا پر لکھی گئی یہ تضمینیں شہرت و مقبولیت کی بلندیوں کو
چھورہی ہیں ۔ان حضرات میں حضرت پیر سید نصیرالدین نصیر گولڑوی، حضرت سید
نظمی میاں مارہروی، جناب اخترالحامدی ،جناب بشیر حسین ناظم ،جناب اوج اعظمی
کے ذریعے سلام و کلامِ رضا پر کی گئی تضمین نگاری خاصے کی چیز ہے۔
غالباً1965ء یا 1967ء میں ماہ نامہ استقامت ، کان پور کے معاون مدیر جناب
طیش صدیقی نے اعلیٰ حضرت کے مجموعہ کلام حدائق بخشش کی بعض منتخب نعتوں اور
سلام مصطفیٰ جانِ رحمت کے بعض چنیدہ اشعار پر تضمین لکھ کر ’’گلہاے عقیدت
‘‘ کے نام سے شائع کروائی تھی۔ اس سے قبل جناب سید محمد مرغوب اخترالحامدی
الرضوی (تلمیذ رشید حضرت ضیاء القادری بدایونی) نے سلامِ رضا کے تمام اشعار
پر جن کی تعداد 171 ہے ، تضمین قلم بند فرماکر ’’بہارِ عقیدت‘‘ کے نام سے
شائع کروائی تھی۔ آپ کی یہ تضمین عالمِ اسلام میں بے پناہ مقبول ہے ۔
آفاقی شہرتوں کے حامل اس سلامِ بلاغت نظام کے 170 اشعار پر 1986ء یا 1987
ء میں مولانا عبدالجبار رہبرؔ اعظمی نے تضمین لکھی جو ’’ظہورِ قدسی ‘‘ کے
نام سے کتابی شکل میں منظر عام پر آئی۔ اسی دوران جناب شہزاد احمدصاحب کی
ایک نئی اور شاندار کوشش سامنے آئی ۔ جو ہر طرح قابلِ ستایش اور لائقِ
تحسین ہے اور وہ یہ کہ’’لاکھوں سلام‘‘ کے زیرِعنوان اعلیٰ حضرت امام احمد
رضا کے مشہورِزمانہ سلام پر دس شاعروں کی تضمینوں کاایک خوب صورت انتخاب
جناب شہزاد احمد صاحب نے پیش کیا ۔ یہ بھی غالباً 1986ء یا 1987ء ہی کی بات
ہے ۔ مذکورہ مجموعہ ’’ انجمن ترقی نعت‘‘ شاہ فیصل کالونی نمبر 5 ، کراچی 25
پاکستان سے اشاعت پذیر ہوا ۔
’’لاکھوں سلام‘‘ مرتبہ :جناب شہزاد احمد صاحب میں حضرت علامہ شمس الحسن
صدیقی شمسؔ بریلوی، حضرت مولانا سید محمد مرغوب اخترالحامدی الرضوی، سید
محفوظ علی صابرؔالقادری بریلوی، جناب ڈاکٹر سید اشرف علی ہلالؔ جعفری ،
حضرت مولانا محمد اسلم بستوی ، حضرت عزیزؔ حاصل پوری، حضرت مولانا سید حبیب
احمد صاحب نقش بندی تلہری ، حضرت مولانا عبدالسلام صاحب شفیقؔ ، جناب عثمان
عارف نقش بندی (سابق گورنر اترپردیش) اور صوفی مسعود احمد رہبرؔ چشتی جیسے
حضرات کے موے قلم سے نکلی ہوئی سلامِ رضا پر تضمینیں شامل ہیں ۔
حضرت مفتی حسن منظر قدیری صاحب نے بھی سلام رضا سے ایسے 32 اشعار منتخب
کرکے تضمین پیش کی ، جن میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سرِ مبارک ،
گیسوے عنبریں ، مقدس مانگ، جبینِ سعادت ، رخسارِ ناز ، عرقِ مبارک ، چشمانِ
اقدس ، نگاہِ اقدس ، مژۂ پاک، ابروے مبارک ، گوشِ مبارک ، خطِ مبارک ریشِ
مبارک ، دہنِ مبارک ، زبانِ مبارک ، لبہاے مبارک ، مقدس تبسم ، گلوے مبارک
، شانۂ اقدس ، پُشتِ مبارک ، دستِ اقدس ، بازوے مبارک ، شکمِ ناز ، کلائی
مبارک ، کفِ مبارک ، دستِ مبارک انگشتِ مبارک ناخنِ مبارک مہرِ مبارک ،
پنڈلیِ مبارک ، زانوے اقدس کے تذکرے ملتے ہیں۔ سلامِ رضاؔ کے ایسے منتخب 32
اشعار پر مفتی منظر حسن قدیری صاحب کی مذکورہ تضمین’’ عکسِ جمیل ‘‘ کے نام
سے ادارۂ افکارِ حق بائسی ،پورنیہ سے شائع ہوچکی ہے ۔ بہ طورِ نمونہ چند
بند نشانِ خاطر فرمائیں ؎
سرِ مبارک :
سرنگوں جملہ شاہانِ اعظم رہے
سر جھکائے ہوئے قیصر و جم رہے
خاک پہ کج کلاہانِ عالم ہے
’’جس کے آگے سرِ سروراں خم رہے‘‘
اُس سرِ تاجِ رفعت پہ لاکھوں سلام ‘‘
جبینِ مبارک :
جس کارتبہ سرِ حشر بالا رہا
جس پہ شانِ کریمی کا سایہ رہا
پیشِ داور جو محشر کا دولہا رہا
’’جس کے ماتھے شفاعت کا سہرا رہا
اُس جبینِ سعادت پہ لاکھوں سلام ‘‘
دستِ اقدس:
سائلِ در کو بہتر سے بہتر دیا
ذرّہ مانگا کسی نے تو گوہر دیا
الغرض دامنِ زندگی بھر دیا
’’ہاتھ جس سمت اٹھّا غنی کردیا
موجِ بحرِ سماحت پہ لاکھوں سلام‘‘
کفِ پاے مبارک :
جس طرف سے بھی گذرے رسولِ حشم
ذرّۂ خاکِ طیبہ ہوا محترم
اِس قدر محترم وہ نقوشِ قدم
’’کھائی قرآں نے خاکِ گذر کی قسم
اُس کفِ پا کی حرمت پہ لاکھوں سلام ‘‘
سلامِ رضاؔ ہی کے حوالے سے جناب سید صابر حسین شاہ بخاری نے بھی ایک انوکھی
کتاب مسمیٰ بہ’’ جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند‘‘(مطبوعہ ادارۂ فروغِ
افکارِ رضا ، برہان شریف ،اٹک ، پاکستان) ترتیب دی جس میں اعلیٰ حضرت کے
مشہور مصرع ’’جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند‘‘پر مختلف شعرا کی طبع کی
گئی تضمینیں موجود ہیں ۔اعلیٰ حضرت کے اس شعر پر شعرا نے بہت ہی کیف آگیں
تضمینیں کہی ہیں۔ اس شعر پر تضمین کہتے وقت شعرا نے اس شعر کے معنی و مفہوم
کو بھی بڑی خوبی سے واضح کیا ہے ۔ ہر ایک نے فکرو فن کی جولانی اور جذبہ و
تخیل کی روانی بڑے احسن اسلوب میں دکھا ئی ہے۔ بڑی بے ساختگی ، سلاست اور
روانی کے ساتھ اس پرمصرعے لگائے ہیں ، ذیل میں جناب سید صابر حسین شاہ
بخاری صاحب کی مذکوہ کتاب سے چند تضمینیں خاطر نشان فرمائیں ؎
اختر الحامدی :
جب ہوا ضَوفگن دین و دنیا کا چاند
آیا خلوت سے جلوت میں اسریٰ کا چاند
نکلا جس وقت مسعودِ بطحا کا چاند
’’جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند
اُس دل افروز ساعت پہ لاکھوں سلام‘‘
عبدالغنی سالکؔ:
فرش پر آگیا عرشِ اعلیٰ کا چاند
خلد و فردوس گل زارِ ماویٰ کا چاند
بزمِ مخلوق میں دین و دنیا کا چاند
’’جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند
اُس دل افروز ساعت پہ لاکھوں سلام‘‘
طارق سلطان پوری :
آسمانِ دنا فتدلیٰ کا چاند
رشکِ خورشید چرخ فاوحیٰ کا چاند
وہ شبِ سعد و پُرنور اسریٰ کاچاند
’’جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند
اُس دل افروز ساعت پہ لاکھوں سلام‘‘
سلامِ رضاؔ پر تضمین نگاری ایک مستقل تحقیقی موضوع ہے ۔ جس پر علاحدہ سے
کام کی ضرورت ہے ۔ ان شاء اللہ اس موضوع پر بھی خامہ فرسائی کی جائے گی۔
جیسا کہ عرض کیا گیا کہ کلامِ رضاؔ پر تضمین نگاری حیات ِرضاؔ ہی میں شروع
ہوگئی تھی اور اس کا اولین نقش ’’قصیدۂ معراجیہ‘‘ پر مولانا محمد حسن اثر
قادری برکاتی نوری بدایونی علیہ الرحمہ کی مرقومہ تضمین سے ملتا ہے ۔ جناب
ڈاکٹر سید اشرف علی ہلال جعفری (وفات 5 اکتوبر 2001ء) تضمین نگاری کے فن کا
ایک معتبر نام ہے ۔ موصوف نے حضرت رضاؔ بریلوی ، میر افقؔ کاظمی، عزیزؔ
حاصل پوری ، کیفؔ ٹونکی، بیدؔم شاہ وارثی، مذاق ؔالعیشی اور مولانا حسن رضا
حسنؔ بریلوی کے علاوہ دیگر شعرا کے نعتیہ کلام پر بڑی خوب صورت تضمینیں قلم
بند کی ہیں ۔آپ کی مرقومہ تضمینوں کا مجموعہ پہلے’’ مطلعِ انوار‘‘ اور بعد
میں’’کشولِ ہلال‘‘ کے نام سے طبع ہوچکا ہے۔ آپ نے جہاں اعلیٰ حضرت کے دیگر
کلام پر تضمین لکھی وہیں’’قصیدۂ معراجیہ ‘‘کے61 اشعار پر آپ کی تضمین
قابلِ ذکر ہے ۔ مولانا محمد ادریس رضوی صاحب (امام سنی جامع مسجد ، پتری پل
، کلیان ) نے بتایا کہ ڈاکٹر ہلال جعفری صاحب کی یہ تضمین ماہ نامہ جہانِ
رضا ، لاہور جلد7 ، شمارہ نمبر 68 ، جنوری 1998ء میں شائع ہوئی تھی۔ تلاشِ
بسیار کے بعد مذکورہ شمارہ حاصل نہ ہوسکا، ذیل میں ڈاکٹر جعفری صاحب
کے’’قصیدۂ معراجیہ‘‘ پر لکھے گئے دو تضمینی بند نشانِ خاطر کیجیے ؎
بساطِ کونین سج رہی تھی، چراغِ انوار جل رہے تھے
شبِ دنا کہکشاں کی چتون پہ حُسنِ فطرت کے دائرے تھے
قدم قدم پر روش روش پر ستارے جھک جھک کے کہہ رہے تھے
’’وہ سرورِ کشورِ رسالت جو عرش پر جلوہ گر ہوئے تھے
نئے نرالے طرب کے ساماں عرب کے مہمان کے لیے تھے‘‘
متاعِ حُسنِ ازل کی طلعت ضیاے بزمِ دنا کی عظمت
مہ رسالت فروغِ طلعت چراغِ طاقِ حرم کی زینت
ہلالؔ ہو پھر قمر کی صورت بہ فیضِ فیضانِ اعلیٰ حضرت
’’نبیِ رحمت شفیعِ امت رضاؔ پہ للہ ہو عنایت
اُسے بھی ان خلعتوں سے حصہ جو خاص رحمت کے واں بٹے تھے‘‘
اعلیٰ حضرت کے معاصرین کے علاوہ اُن کے خلفا و تلامذہ نے بھی آپ کے کلام
پر تضمین نگاری کا مظاہرہ کیا ۔ حضرت برہانِ ملت مولانا برہان الحق جبل
پوری علیہ الرحمہ نے سلامِ رضا پر اور حضرت محدثِ اعظم ہند سید محمد اشرفی
کچھوچھوی علیہ الرحمہ نے ‘‘کیا ہی ذوق افزا شفاعت ہے تمہاری واہ واہ’’ پر
تضمین لکھی۔ بعد کے شعرا میں سید آلِ رسول حسنین میاں نظمی مارہروی نے
اعلیٰ اعلاحضرت کی سترہ نعتوں پر تضامین لکھی، جو ‘‘شانِ مصطفی ﷺ’’ کے نام
سے شائع ہوئی ۔ جناب محمد عثمان اوجؔ 12 نعتوں اور مکمل سلام پر تضمین پیش
کرنے کی سعادت حاصل کی ۔ مولانا محمد ادریس رضوی نے بھی کئی کلام اور
‘‘کعبے کے بدرالدجیٰ تم پہ کروروں دُردد’’پر تضمین قلم بند کی جو ‘‘نغماتِ
بخشش’’ اور ‘‘سبیلِ بخشش’’ میں شامل ہیں ۔ مولانا صلاح الدین ضیاؔ مصباحی
کا بھی ایک مجموعہ ‘‘سازِ بخشش’’ منظر عام پر آیا جس میں اعلیٰ حضرت کی 15
نعتوں پر تضمینیں موجود ہیں۔
ذیل میں کلامِ رضا پر لکھی گئی چند نمایندہ تضمینی بند نشانِ خاطر کریں ؎
حضور سید العلماء قدس سرہٗ:
سرورِ انبیا مالکِ جزو کل
وہ ہے نبیوں میں یوں جیسے غنچوں میں گل
بات تو صاف ہے پھر یہ کیوں شور و غل
’’خلق سے اولیا ، اولیا سے رسل
اور رسولوں سے اعلیٰ ہمارا نبیﷺ‘‘
حضور محدثِ اعظم ہند قدس سرہٗ:
پنجۂ قدرت ہے ہر انگشت بہرِ بحر و بر
جب پھریں سورج پھرا اٹھیں تو دو ٹکڑے قمر
جھک رہا ہے ان کے آگے ابرِ نیساں کا بھی سر
’’انگلیاں ہی فیض پر ٹوٹے ہیں پیاسے جھوم کر
ندّیاں پنجابِ رحمت کی ہیں جاری واہ واہ
مولانا نسیم بستوی:
ترا جلوہ جو دیکھا رسولوں نے تجھے وحدتِ حق کی دلیل کہا
زہے عزو رفعت قرآ ں نے تجھے عظمتِ ربِ جلیل کہا
تجھے فخرِ صفی و مسیح کہا ، تجھے نازِ کلیم و خلیل کہا
’’ترےخُلق کو حق نے عظیم کہا ، تری خَلق کو حق نے جمیل کیا
کوئی تجھ سا ہوا ہے نہ ہوگا شہا ، ترے خالقِ حُسن و ادا کی قسم ‘‘
پیر سید نصیرالدین نصیرؔ گولڑوی:
غمِ دوراں سے گھبرائیے ، کس سے کہیے
اپنی الجھن کسے بتلائیے ، کس سے کہیے
چیر کر دل کسے دکھلائیے ، کس سے کہیے
’’ کس کا منہ تکیے ، کہاں جائیے ، کس سے کہیے
تیرے ہی قدموں پہ مٹ جائے یہ پالا تیرا‘‘
سید محمد محبوب اخترالحامدی:
ہے کون سننے والا کسے حالِ دل سنائیں
محشر میں ہم کو پُرسشِ اعمال سے بچائیں
نادم ہیں روسیاہ ، زیادہ نہ اب لجائیں
’’سرکار ہم کمینوں کے اَطوار پر نہ جائیں
آقا ، حضور ، اپنے کرم پر نظر کریں‘‘
شرفِ ملت سید محمد اشرف میاں مارہروی:
دور سے دیکھ کے جنت نے کیامیرا طواف
حشر کے روز مجھے مل ہی گیا ایسا غلاف
کہ ملائک بھی مجھے ڈھونڈتے ہیں چو اطراف
’’چور حاکم سے چھپا کرتے ہیں یاں اس کے خلاف
تیرے دامن میں چھپے چور انوکھا تیرا‘‘
سید آلِ رسول حسنین میاں نظمی مارہروی:
ملک و جن و بشر ارض و سما، ان کی امت میں ہے ساری اقلیم
نعمتیں حق سے ملی ہیں ان کو رب نے بخشی ہے انھیں شان کریم
رافع و دافع و نافع شافع، شاہد جلوہ رحمٰن و رحیم
’’اپنے مولیٰ کی ہے بس شان عظیم جانور بھی کریں جن کی تعظیم
سنگ کرتے ہیں ادب سے تسلیم، پیڑ سجدے میں گرا کرتے ہیں‘‘
علامہ بدرالقادری :
گشتگانِ نگہ دہر نہ مایوس شوید
گر حیاتِ ابدی در دوجہاں می طلبید
لائی ہے خلدِ مدینہ سے صبا آج نوید
’’مرنے والوں کو یہاں ملتی ہے عمرِ جاوید
زندہ چھوڑے گی کسی کو نہ مسیحائی دوست‘‘
مولانا محمد ادریس رضوی :
خزانے رکھتے ہیں دونوں جہاں کے شاہ زمن
مہکتے ہیں عرق مصطفیٰ سے سارے چمن
وہ رحمتوں کا خزانہ وہ نعمتوں کی بھرن
’’مرے غنی نے جواہر سے بھر دیا دامن
گیا جو کاسہ مہ لے کے شب گدائے فلک‘‘
مختصر یہ کہ کلامِ رضا پر تضمین نگاری کا یہ ایک سفرِ مسلسل ہے جو کہ اب
بھی جاری و ساری ہے ۔ یقیناً یہ بھی اردو زبان و ادب کی ایک گراں قدر خدمت
ہی ہے ۔ کلامِ رضا پر لکھی گئی تضمینوں کی تعداد کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا بے
جا معلوم نہیں ہوتا کہ شعر وادب کی تاریخ میں شاید ہی اردو دنیا کاامام
احمد رضا بریلوی کے علاوہ کوئی دوسرا نعت گوشاعر ہوگا جس کے کلام پر اتنی
کثرت سے تضمین نگاری کی گئی ہو ۔اس بات سے بھی کلامِ رضاؔ کی شہرۂ آفاق
مقبولیت کااندازہ ہوتا ہے ۔ |
|