کیا اِس عوامی اور جمہوری حکومت میں..قوم
پرویز مشرف کی واپسی کی منتظر ہے ....؟
یہ حقیقت ہے کہ کبھی کارگل کا وسیع و عریض علاقہ جس کی اکثر چوٹیاں
16سے18ہزار فٹ سے بھی زیادہ بلند ہیں جہاں سردیوں میں درجہ حرارت
منفی30ڈگری سے بھی کم رہتا ہے اور یہ علاقہ آزاد کشمیر کا حصہ ہونے کی وجہ
سے پاکستان کے کنڑول میں تھا جِسے 1971 کی جنگ میں بھارت نے پاکستان سے
چھین لیا تھا اور اِس کے ساتھ ہی اِس میں بھی کوئی شک نہیں کہ جب 1971 کی
جنگ میں بھارت نے دھوکے اور چالاکی سے پاکستان سے یہ علاقہ اپنے قبضے میں
لے لیا تھا تو پھر بھارت کو ہی شملہ معاہدے کی روح سے پاکستان کو اِس کے
کچھ ہزار قیدیوں سمیت 5 ہزار مربع کلومیٹر تک کا علاقہ ڈنکے کی چوٹ پر واپس
کرنا پڑا کیونکہ بھارت نے اِسے انتہائی چالاکی اور دھوکے سے حاصل کیا تھا
اور یہ بھی (پاکستان اور بھارت میں لکھی گئیںبے شمار )تاریخ کی کتابوں درج
ہے کہ تب ہی سے ریاست جموں وکشمیر میں STATUS QUOُ پر ایک ایسا سمجھوتہ عمل
میں لایا گیا کہ جس کے مطابق پاک بھارت افواج اُس وقت جہاں تھیں اُسے لائن
آف کنٹرول قرار دے دیا گیا اور پھر اِس معاہدے کے تحت کارگل LOC کے اِس پار
بھارت کے غاصابہ کنٹرول میں چلا گیا۔
اِس حوالے سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جنرل ضیا الحق مرحوم کے دور میں بھارت
نے جب سیاچن پر قبضہ کیا تو غالباً 1980میں بھارت کو منہ توڑ جواب دینے کے
لئے جنرل ضیا الحق مرحوم نے کارگل پر قبضہ کرنے کی اپنی منصوبہ بندی کی جو
کہ اندورنی اور بیرونی مخالفت اور دباؤ کی وجہ سے مؤخر کر دی گئی۔
مگر جنرل پرویز مشرف نے دسمبر1989 میں اُس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف
کو کارگل آپریشن کے بارے میں بریف کیا اور اِن سے اجازت لے کر کشمیر کی
آزادی کے لئے پرویز مشرف نے8مئی 1999کو ”آپریشن البدر “کے نام سے کارگل
محاذ کھول دیا۔ یوں کارگل کی بلندوبالا چوٹیوں پر پوزیشنیں سنبھالنے کے بعد
بھارتی پوزیشنوں پر گولہ باری شروع کردی گئی جس کے نتیجے میں بھارت کو شدید
جانی اور مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔
جس کی گواہی بھارتی فوجی جرنیل میجر جنرل اشوک کمار سہتہ نے بھارتی انگریزی
اخبار دی سنڈے میں شائع ہونے والے اپنے مضمون ”KARGAL FAILURE OF THE
MIND“میں کچھ یوں دی ہے کہ”پاکستانی مداخلت کاروں نے بھارتی آرمی کو اتنی
سرعت اور بے خبری کے عالم میں آلیا جس کا بھارتی فوج تصور بھی نہیں کرسکتی
تھی اور اُنہوں نے اپنے اِسی مضمون میں آگے چل کر مزید لکھا ہے کہ ”حقیقت
یہ ہے کہ اِنڈین آرمی اِس قسم کے کسی بھی فوجی آپریشن کا پیشگی اندازہ
لگانے میں بُری طرح سے ناکام رہی جس میں مداخلت کاروں کا نشانہ وسیع محاذ
تھا“ اور اِن کے بعد اَب ایک اور بھارتی فوجی نے ٹھیک گیارہ سال بعد کارگل
جنگ کے فارمیشن کمانڈر لیفٹنینٹ جنرل ریٹائرکشن پال کاٹی وی نے اپنے ایک
انٹرویو میں کارگل محاذ کے حوالے سے اپنی خاموشی توڑتے ہوئے اعتراف کیا ہے
کہ” کارگل جنگ حقیقت میں بھارت نے نہیں جیتی اُنہوں نے اِس کا برملا اظہار
کرتے ہوئے کہا ہے کہ 1999میں کارگل جنگ میں587 فوجیوں کی جانیں ضائع ہوئیں
اور 1363زخمی ہوئے اور اِس حوالے سے اُنہوں نے اِس بات کا بھی اعتراف کیا
کہ بھارت اسٹرٹیجک لحاظ سے کارگل جنگ بُری طرح سے ہار گیا تھا اور اُنہوں
نے اپنے اِسی انٹرویو میں اِس کا بھی انکشاف کیا ہے کہ اِس دوران بھارت
سیاسی اور سفارتی محاذ پر بھی ناکام رہا اِن کا کہنا تھا کہ کارگل جنگ کے
حوالے سے بھارتی سیاست دان اور حکمران بھی بھارتی فوج کی طرح سے بوکھلاہٹ
کا شکار رہے جس کی وجہ سے بھارت کو کارگل جنگ میں ہار کا سامنا کرنا پڑا
اور یہی وجہ ہے کہ اُنہوں نے گیارہ برس تک اپنی زبان بند رکھی کیونکہ
اِنہیں یقین نہیں تھا کہ بھارت نے حقیقتاً کارگل جنگ جیتی تھی۔
اگرچہ کارگل کے محاذ کے حوالے سے بھارتی فوجی جنرلوں کی جانب سے اپنی شکست
اور ہار کے اعترافی بیانات کے بعد اَب ہمارے ملک میں سیاسی اور عوامی سطح
پر کارگل کے منصوبہ سازوں جن میں جنرل ریٹائر پرویز مشرف سرِ فہرست تھے اِن
کی نااہلی ثابت کرنے والوں کو اپنی زبانیں بھی بند رکھنی چاہئیں کہ کارگل
جنگ میں پاکستان کی شکست ہوئی تھی اور بھارت کو جیت مگر بھارتی جنرلوں کے
اعترافی بیانات آنے کے بعد دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوگیا ہے جبکہ حالات
اِس کے بالکل برعکس تھے یعنی کہ پاکستان کی جیت ہوئی تھی اور بھارت کو ذلت
آمیز شکست سے دوچار ہونا پڑا تھا۔
یوں میرا بھی یہی خیال ہے کہ بھارتی فوجیوں کے اقبالی بیانات کے بعد پرویز
مشرف اپنے اُوپر کارگل محاذ کے حوالے سے نااہلی اور ناکامی کے لگنے والے
الزامات سے بچ گئے ہیں اور قوم کو اَب اِس بات کا بھی پورا یقین ہوجانا
چاہئے کہ پرویز مشرف کا کارگل محاذ کھولنے کا مقصد خالصتاً کشمیر کی آزادی
تھا جس میں وہ سُرخرو ہونے کو تھے کہ اُس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن کی
مداخلت کے باعث پاکستانی وزیر اعظم کی ذرا سی غلطی کی وجہ سے پاکستان کو
کارگل کی پوزیشن سے پیچھے ہٹنا پڑا۔
بہرکیف! آج دنیا پرویز مشرف کو کچھ بھی کہے مگر اِس حقیقت سے کوئی بھی
انکار نہیں کرسکتا کہ وہ خالصتاً ایک محب وطن اور غیور پاکستانی ہیں جنہوں
نے ہمیشہ اپنی قوم کو پاکستان سے محبت کا درس دیا اور آج بھی جب یہ خود
ساختہ جلاوطنی کی زندگی دیارِ غیر میں گزار رہے ہیں تو یہ وہاں سے بھی اپنے
ہم وطنوں کو پاکستان سے محبت اور سرزمینِ پاک سے اپنی محبت کے پیغامات
بھیجتے رہتے ہیں جو اِس بات کا بھی بین ثبوت ہے کہ وہ اپنے ملک اور قوم سے
کتنی محبت رکھتے ہیں جو وہ سات سمندر پار رہ کر بھی ملک اور قوم کے لئے اِن
کی بہتری اور تابناک مستقبل کے لئے کتنے پریشان ہیں۔ اِس کا انداز اُن کی
اِس بے چینی اور بے قراری سے پاکستانی قوم لگا سکتی ہے کہ وہ ہر پل عوام کو
پہنچنے والی تکالیف سے آگاہ ہیں۔ اِن کا بس نہیں چل رہا کہ وہ موجودہ حکومت
کو فوراً ہٹا کر خود اقتدار میں 12اکتوبر 1999کی طرح آکر بیٹھ جائیں۔
اور شائد یہی وجہ ہے کہ آج ملک میں ایک مکمل جمہوری حکومت ہونے کے باوجود
بھی عوام کی ایک بڑی تعداد اِس حکومت کی عوام دشمن پالیسیوں سے خائف ہے اور
عوام کی اکثریت یہ کہنے پر مجبور ہے کہ اِس جمہوری حکومت سے اچھی تو پرویز
مشرف جیسے آمر کی حکومت بھلی تھی جس کی پالیسیاں ملک کے غریب اور مفلوک
الحال عوام کے لئے تو اچھی تھیں۔ اور اِسی خاموش عوامی حمایت کا فائدہ
اٹھاتے ہوئے ملک کے سابق صدر پرویز مشرف نے کہا ہے کہ فیس بک پر مداح اِن
کی وطن واپسی اور ملک میں آئین اور قومی سیاست میں اہم کردار ادا کرنے کے
خواہش مند ہیں۔ تاہم پرویز مشرف کا کہنا ہے کہ یہ میری خوبی اور کیا
کامیابی نہیں ہے کہ لوگ آج بھی مجھے پسند کرتے ہیں حالانکہ ملک میں ایک
عوامی حکومت ہے مگر یہ حکومت عوام کو اُس طرح سے ریلیف دینے میں بُری طرح
سے ناکام ہوگئی ہے جس طرح میں نے جِسے پاکستان مسلم لیگ (ن) نواز شریف کے
حامی لوگ میرا دورِ آمریت کہتے ہیں میں نے عوام کو اشیائے ضروریہ انتہائی
سستے داموں اِن کی دہلیز تک پہنچائی تھیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ صرف پانچ ماہ
کے مختصر سے عرصے میں ایک سماجی نیٹ ورکنگ ویب سائٹ پر میرے مداحوں کی
تعداد 2لاکھ سے بھی زیادہ ہوگئی ہے جس میں 18سے 34سال کی عمر کے وہ80فیصد
لوگ شامل ہیں جو قوموں کی تقدیر کا فیصلہ کرتے ہیں یہ لوگ مجھے چاہتے ہیں۔
اِن کا کہنا ہے کہ اگر عوام میراساتھ دیں تو میں عوام کو مہنگائی بھوک و
افلاس اور کرپشن سمیت ملک میں ہونے والی دہشت گردی اور قتل و غارت گری سے
بھی پاکستان جلد آکر نجات دلواسکتا ہوں۔
اَب پرویز مشرف کے اِس عندیے اور عوامی حمایت کے بعد ہمارے موجودہ حکمرانوں
اور سیاستدانوں کو یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ اُنہوں نے عوام کے لئے کیا....کیا
ہے؟ کہ عوام ایک جمہوری حکومت کے ہونے کے باوجود بھی پرویزمشرف جیسے آمر کو
ملک کی دوبارہ حکمرانی کے خواب دیکھ رہے ہیں۔
بہرحال! ملک کے سابق آمر صدر جنرل ریٹائر پرویز مشرف کیسے بھی ہیں مگر ساری
پاکستانی قوم کو اِس کا اعتراف ضرور کرنا ہوگا کہ اِن میںیہ اچھائی ضرور ہے
کہ وہ ملک اور قوم کے ساتھ پہلے بھی مخلص تھے اور آج بھی اُسی طرح مخلص اور
سچے ہیں جس طرح یہ اپنے دورِ حکومت میں تھے۔ |