’’ماہِ طیبہ ‘‘ کی ضیا پاشیاں
(Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi, Hyderabad)
جناب محمد حسین قادری برکاتی شیداؔ میرٹھی
کو میںاپنے بچپن سے جانتا ہوں ۔ ہفت روزہ اخبار ’’انوار ‘‘ مالیگاؤں کے
ایڈیٹر ، آل انڈیا سنی جمعیۃ العلماء شاخ مالیگاؤں کے متحرک و فعال جنرل
سکریٹری ، ایک اچھے ناظمِ اجلاس، بہترین خطیب اور بیباک صحافی کی حیثیت سے
آپ کی خدمات کو کبھی بھی فراموش نہیں کیاجاسکتا ۔ شیداؔقادری صاحب ایک
طویل عرصہ سے شہر کے مختلف شعبہ ہاے حیات سے منسلک رہتے ہوئے اپنی سرگرمیوں
کو جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ دینی ، علمی ، ادبی، سماجی، ثقافتی ، سیاسی اور
تعلیمی میدانوں میں آپ نے اپنالوہامنوالیا ہے۔ فی الحال آپ کی نگرانی میں
مالیگاؤں کے تعلیمی اُفق پرچمکتا ہوا ’’شیدا تعلیمی کیمپس‘‘ ایک وسیع حلقے
میں علم و عمل کا نورِ بصیرت عام کررہا ہے۔ جس کیمپس میں پہنچ کر مجھے اس
لحاظ سے بھی قلبی مسرت کا احساس ہوا کہ گلشنِ برکات کے مہکتے پھول حضرت
اقدس امینِ ملت پروفیسر سید محمد امین میاں قادری برکاتی زیب سجادہ خانقاہِ
عالیہ قادریہ برکاتیہ مارہرہ مطہرہ کا یہ انقلاب آفریں قول درج ہے کہ ’’
آدھی روٹی چاہے کھاؤ ، بچوں کومگر پڑھاؤ۔‘‘ جناب شیداؔ قادری اپنے مرشدِ
باوقار کے اس قول پر عمل کرنے اور کروانے کی حتی المقدور کوشش میں مصرو ف
ہیں ۔ جو لائقِ ستایش ہے۔
ایک مرتبہ راقم نے جب اچانک شیداؔ قادری صاحب کے مجموعہ کلام ’’ کاسۂ
حباب‘‘ کے اجرا سے متعلق تقریب کے بینرز دیکھے تو حیرت وا ستعجاب میں
مبتلاہوگیا ۔ کیوں کہ اب تک شیداؔ صاحب کا یہ روپ تو بہر حال مجھ سے پوشیدہ
تھا۔ باوجود کوشش کے آپ کا اولین مجموعہ ’’کاسۂ حباب‘‘ دستیاب نہ ہوسکا۔
لیکن حال ہی میں آپ کے تقدیسی شاعری پر مشتمل شعری مجموعے ’’ماہِ طیبہ‘‘
کے مسودے سے قبل شیداؔ صاحب نے ’’کاسۂ حباب‘‘ عنایت کی ۔ اپنے تجربات ،
محسوسات ، وارداتِ قلبی ، سماج میں پیش آنے والے مختلف واقعات وغیرہ کو
مختلف انداز میں ’’کاسۂ حباب‘‘ میں پیش کرنے میں شیداؔ صاحب کامیاب دکھائی
دیتے ہیں۔حمد، چند نعتوں اور منظومات کے علاوہ غزلیات پر مشتمل یہ مجموعہ
لائقِ مطالعہ ہے۔’’کاسۂ حباب‘‘ میں شعری و فنی محاسن کو برتنے میں شیداؔ
صاحب کہاں تک کامیاب و کامران ہوئے ہیں ۔ اُسے اہلِ نقد و نظر پر چھوڑتے
ہوئے آپ کے دوسرے شعری مجموعے پر اپنی تبصراتی کاو ش کو مہمیز دیتا ہوں ۔
شیداؔ قادری برکاتی صاحب کے دوسرے شعری مجموعے ’’ ماہِ طیبہ‘‘کا مسودہ اس
وقت میرے مطالعہ کے میز کی زینت بنا ہوا ہے۔ شیداؔ صاحب کے کلام کا سرسری
مطالعہ اس بات کو ظاہرکرتا ہے کہ آپ نے سادگی اور صفائی کے ساتھ اپنے عشقِ
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اظہار کے لیے نعتیہ اشعار کو اپنی کارگاہِ فکر
میں ڈھالنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وارفتگی و شیفتگی کے
سبب کہیں کہیں فنی محاسن اور لفظیات کا نگار خانہ متاثر دکھائی دیتا ہے ۔
نعت کے بارے میں عام خیال یہی ہے کہ نعت دراصل روحانی مسرت اور دلی طمانیت
کے حصول کا ذریعہ ہوتی ہے۔عقیدے و عقیدت کا اظہار اس صنف میں مقصود ہوتا
ہے۔ شعرا کسی فنّی تقاضے کے تحت نعت نہیں کہتے ۔ البتہ شاعر کا جواسلوب
ہوتا ہے وہ نعت گوئی میں بھی اُجاگر ہوکر سامنے آجاتاہے۔ لیکن یہ بھی سچ
ہے کہ نعتوں میں بھی شعریت کا ہوناضروری ہے۔ غزل گو شعرا کی نعتوں میں اکثر
نعتیں غزل ہی کے فارم میں ہوتی ہیں۔ شیداؔ قادری میرٹھی کی بیشتر نعتیں غزل
کے فارم میں ہی لکھی ہوئی ہیں۔
شیداؔ صاحب نے ’’ ماہِ طیبہ‘‘ کی ضیا پاشیاں کرتے ہوئے پہلے حمد باری
تعالیٰ اور مناجات و دعا کی کرنیں بکھیری ہیں۔ جس میںاللہ رب العزت جل
جلالہٗ کی حمد و ثنا کے جلو میں شیداؔ صاحب نے خداے واحد جل جلالہٗ کی عظمت
و جلالت کا شاعرانہ بیان کرنے کی بہترین کوشش کی ہے۔ اپنی عاجزی و انکساری
کا اظہار بھی کیا ہے اور اللہ جل شانہٗ سے استعانت بھی طلب کی ہے ۔ مناجات
اور دعا میں آپ کا اظہارِ بندگی صاف ستھرا اور نکھرا دکھائی دیتا ہے۔ ساتھ
ہی دعا میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں پیدا فرمانے پر اللہ
کا شکر ادا کرنا اور مدینۂ منورہ کی زیارت کے لیے محبوبِ خداﷺ کا توسل پیش
کرنا شیداؔ صاحب کی اہل سنت و جماعت کی شہرۂ آفاق خوش عقیدگی کا غماز ہے
؎
ہادیِ برحق کو بھیجا ہے ہمارے بیچ
بندوں پر ہے یہ تیرا احسان خدا
واسطہ تجھ کو تیرے ہی محبوب کا ہے
مجھ کو بنادے طیبہ کا مہمان خدا
شیداؔ قادری برکاتی میرٹھی کے دل میں عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا جذبہ
کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے ۔ آپ نے جس ماحول میں اپنا لڑکپن ، جوانی اور شعور
کی پختگی کا دَور گزاراہے ۔ وہاں خوش عقیدگی اپنی مکمل آب و تاب کے ساتھ
جلوہ گر رہی ۔ تحفظ و ترویجِ عشقِ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ وسلم میں
شیداؔ قادری صاحب نے عملی مظاہرے بھی کیے ۔ جس کے شواہد تاریخِ مالیگاؤں
کے اوراق پر ثبت ہیں۔ جب ریاستِ مہاراشٹرکی درسی کتاب میں نبیِ مکرم صلی
اللہ علیہ وسلم کے بارے میں قابلِ اعتراض مواد شائع ہوا، اُس وقت شیداؔ
صاحب نے جو فعال کردار ادا کیا اور قید و بند کی صعوبتوں کو جھیلا وہ آپ
کے عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک روشن اندازہے۔ مصطفیٰ جانِ رحمت
صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین و تضحیک پر جان قربان کردینے کے جذبات سے
سرشار شیداؔ صاحب کا یہ شعر محض شعر نہیں بلکہ حقیقت کی ترجمانی ہے ؎
توہینِ مصطفیٰ (ﷺ) ہمیں منظور ہی نہیں
مٹ جانا اُن کے عشق میں ہم کو قبول ہے
توہینِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی صورت منظور نہ کرنے والے شیداؔ
قادری برکاتی میرٹھی ، گستاخیِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر سراپا احتجاج بن
گئے اورآل انڈیا سنی جمعیۃ العلماء کی جنرل سکریٹری شپ پر متمکن رہتے ہوئے
ایک منظم تحریک(جسےمالیگاؤں میں کتاب والی تحریک کے نام سے یادکیا جاتاہے)
چلائی اور قوم کے نام یہ پیغام دیا کہ ؎
ہم کو توہینِ رسالت نہیں منظور کبھی
جان دے دیں گے محمد(ﷺ) کے گھرانے کیلئے
شیداؔ قادری میرٹھی کی نعت گوئی عقیدے و عقیدت سے عبارت ہے۔ گو کہ آپ نے
یقیناً سادہ ترین زبان اختیار کی ہے اور عام فہم انداز میں شعر ی اظہار کو
برتا ہے ۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ اس میں سطحیت یا سادہ بیانیہ اسلوب کو پیدا
ہونے نہیں دیا۔ شیداؔ صاحب کی عقیدت مستحکم اور توانا ہے اور آپ کا رسولِ
کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تئیں عقیدہ ایمان افروز اور قرآنی ادب کا
آئینہ دار ہے ۔شیداؔ صاحب کے شعروں میں پنہاں محبتِ رسول صلی اللہ علیہ
وسلم کے دل کش اظہاریے کے پُرخلوص ہونے سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ چند
اشعار نشانِ خاطر کریں ؎
یہ کلامِ پاک کا فرمان دیکھو تو ذرا
کس قَدَر ہیں مصطفیٰ ذی شان دیکھو تو ذرا
رب نے اپنے بعد رکھا ہے فقط آقا کا نام
کتنی عظمت والے ہیں انسان دیکھو تو ذرا
کتنے عزت مآب ہیں آقا (ﷺ)
باغِ جنت کا باب ہیں آقا (ﷺ)
اُن کا سایہ ہے اور نہ ثانی ہے
آپ اپنا جواب ہیں آقا (ﷺ)
دل میں خدا کے بعد نبی کا مقام ہے
سچی عقیدتوں کا یہی تو شعار ہے
نعت گوئی نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قلبی وابستگی اور ذکرِ سیدِ عالم
صلی اللہ علیہ وسلم کا مقدس شناخت نامہ ہے۔ اس تناظر میں شیداؔ صاحب کے بعض
اشعار کے مطالعہ سے مکانِ دل تجلی سے معمور اور جہانِ فکرماہِ طیبہ کی ضیا
پاشیوں سے چمک چمک اُٹھتا ہے ۔ ’’ماہِ طیبہ ‘‘ میں شامل ’’ حبیبِ خدا‘‘
عنوان کے تحت نعتِ پاک بڑی عمدہ اور دل نشین ہے ؎
دونوں عالم کے پیارے حبیبِ خدا (ﷺ)
ہیں خدا کے دلارے حبیبِ خدا (ﷺ)
رحمتیں آپ کی سارے عالم پہ ہیں
ہیں سبھی کے سہارے حبیبِ خدا (ﷺ)
یانبی یانبی میری سانسوں میں ہے
میری آنکھوں کے تارے حبیبِ خدا (ﷺ)
نعت کا موضوعِ اول و آخر حضور جانِ نور، رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی
ذاتِ بابرکات ہے۔ حضور احمدِ مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلقہ تمام
اسوہ ، تاریخ ، اقوال ، فضائل ، شمائل او ر خصائل وغیرہ بھی نعت کے موضوعات
میں شامل ہیں ۔ حضور ختمیِ مرتبت صلی اللہ علیہ وسلم سے استغاثہ و فریاد کو
بھی خوش عقیدہ شعراے نعت نے اپنی نعتوں میں لازمی قرار دیا ہے ۔کیوں کہ
آقاے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ تعالیٰ کی عطا سے ’’قاسمِ نعمت‘‘
ہیں ۔’’شافعِ محشر‘‘ ہیں ۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ و
مخلصانہ عقیدت و احترام نہ ہوتو نعت میں تاثیر کا جوہر پیدا نہیں ہوسکتا ۔
شیداؔ میرٹھی کے اشعار میں استغاثہ و فریاد بھی ہے اور عقیدت و احترام بھی
؎
اے سیدِ عالم خیرِ بشر ، لے لیجیے کچھ میری بھی خبر
دنیا نے بہت ڈھایا ہے ستم ، یاشاہِ اُمم یاشاہِ اُمم
حشر کی پہلی ہی منزل پہ اندھیرا ہے بہت
قبر میں نور بسا دیجیے طیبہ والے
بروزِ حشر آقا ہم گنہ گاروں کو کافی ہے
تمہاری چشمِ رحمت کا اشارا یارسول اللہ ﷺ
اُمتِ مسلمہ جب تک نبیِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں پر عامل رہی اور
آقاے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ پر چلتی رہی ۔ کامیابی و
کامرانی اُن کے قدموں کا بوسہ لیتے رہی۔ آج سیرت و سنت سے دوری کے سبب ہم
ذلت و خواری کے دلدل میںدھنستے جارہے ہیں۔شیداؔ صاحب نے بارگاہِ رسالت مآب
صلی اللہ علیہ وسلم میں اس صداقت کا کیسا حقیقت پسندانہ اظہار کیا ہے ،
خاطر نشین کریں ؎
آپ کی راہ سے بھٹکنے پر
میں مثالِ زوال ہوں آقا
مانتا ہوں میں خود کی کرنی سے
دنیا میں پائمال ہوں آقا
آج نبیِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت و الفت کے زبانی دعوے تو بہت
کیے جارہے ہیں، لیکن آپ کی سیرتِ طیبہ اور سنتوں سے ہم کوسوں دور ہیں جب
کہ محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تقاضہ یہی ہے کہ آپ ﷺ کے اسوۂ حسنہ
پر عمل کیا جائے ؎
شیداؔ زباں سے کہنا ہی کافی نہیں فقط
کردار سے بتاؤ کہ آقا سے پیار ہے
اُخروی نجات کا نسخۂ کیمیا آقاے کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں پر
عمل پیراہونا ہے، ملتِ اسلامیہ کے تئیں درد مند دل کے حامل شیداؔ صاحب بڑے
خلوص سے قوم کے نام حقیقی کامیابی کا یوں پیغام دیتے ہیں ؎
مصطفیٰ کی سنتیں اپنا لے تُو
ورنہ تیری آخرت دشوار ہے
شیداؔ قادری برکاتی صاحب نے نعتوں کے علاوہ خاتون جنت حضرت فاطمۃ الزہرا
رضی اللہ عنہا ، حضراتِ خلفاے راشدین ، شہیدِ کربلا امام حسین رضی اللہ
عنہم، حضرت سیدنا غوثِ اعظم ، حضرت سیدنا خواجہ غریب نواز علیہم الرحمۃ کی
شان میں عقیدت مندانہ منقبتیں لکھی ہیں۔ جو اپنے ممدوحین کے لیے شیداؔ صاحب
کے مخلصانہ جذبات کا اظہاریہ ہیں۔ بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم
میں صلوٰۃ وسلام کے بعد اپنے مرشدِ باوقار حضور سید امین میاں قبلہ مارہروی
دام ظلہٗ العالی (سجادہ نشین خانقاہِ عالیہ قادریہ برکاتیہ مارہرہ مطہرہ و
پروفیسر شعبۂ اردو مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ ) کی شان میں ایک محبت
آمیزمنظوم نذرانہ پیش کیا ہے ۔ جو اپنے مرشدِ گرامی کے لیے ایک مرید کی
طرف سے خلوص و عقیدت کا عکاس ہے ۔
’’ ماہِ طیبہ‘‘میں شامل شیداؔقادری میرٹھی کاتقدیسی شعری اثاثہ آپ کے سوزِ
دروں ، طہارتِ فکر، تقدیسِ خیال ، وارفتگیِ شوق ، اظہار کی صداقت اور محبتِ
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دل کش و دل نشین اظہاریہ ہے ۔ شیداؔ صاحب شعریت
پر مزید توجہ مرکوز رکھیں توآپ کا کلام عقیدے و عقیدت کے ساتھ ساتھ شعری و
فنی محاسن کا ایک خوب صورت مرقع بن کر آپ کو شاعرانہ بلندیوں سے ہمکنار
کرسکتا ہے۔ بہر کیف! راقم جناب محمد حسین شیداؔ قادری برکاتی میرٹھی کو
’’ماہِ طیبہ‘‘ جیسے حسین مجموعے کی اشاعت پر مبارک باد پیش کرتے ہوئے دعا
گو ہے کہ ربِ کریم جل جلالہٗ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقہ و طفیل
’’ماہِ طیبہ‘‘ کو قبولِ عام بخشے اور آپ کے لیے توشۂ آخرت بنائے ۔
(آمین بجاہِ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم) |
|