مثنوی ’’شہِ گلگوں قبا‘‘
(Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi, Hyderabad)
صاحب زادہ ابوالحسن واحدؔ رضوی مد ظلہٗ غیر
معمولی خوبیوں کی حامل ہمہ رنگ شخصیت کانام ہے ۔شریعت و طریقت، سلوک و
معرفت ،علم و فضل ، دانائی و بینائی ، تقویٰ و طہارت، تصنیف و تالیف اور
شعر و ادب کاگراں قدر اثاثہ آپ کو والدِ گرامی حضور مفسرِ قرآن شیخ
الحدیث پیر مفتی ابولنصر محمد ریاض الدین قادری قدس سرہٗ (جامع سلاسلِ
اربعہ) کی حسین و جمیل آغوشِ تربیت میں حاصل ہوا۔ آپ کو بیک وقت عربی ،
فارسی ، اردو ، پنجابی اور دیگر کئی زبانوں پر عالمانہ و فاضلانہ دسترس
حاصل ہے۔آپ کی زنبیلِ حیات میں عربی ، فارسی ، اردو اور دیگر زبانوں میں
۳۰۰؍سے زائد کتب و رسائل جگمگ جگمگ کررہی ہیں۔ آپ شاعر، ادیب ،مصنف ،
مترجم ، عالم ، فاضل اور ماہرِ تعلیم کی حیثیت سے ایک وسیع حلقے میں اپنا
تعارف آپ ہیں۔ سہ ماہی ریاض العلم ،ماہانہ سلسبیل ، سہ ماہی نعتیہ ادب،
مجلہ عرفانِ رضا اور سالنامہ شناسائی جیسے مؤقر رسائل و جرائد کی ادارت سے
آپ کی ہمہ جہت صحافتی خوبی کا پتا چلتا ہے ۔خانقاہِ عالیہ فیض آباد شریف
، محمد نگر ، اٹک ، پنجاب (پاکستان) سے وابستہ صاحب زادہ ابوالحسن واحدؔ
رضوی فیضِ رضا سے سرشار اور فکرِ رضا کے مبلغ و داعی ہیں۔ مذہب اور ادب
دونوں ہی میدانوں میں نثر و نظم کے حوالے سے آپ کا اشہبِ قلم سرپٹ دوڑتا
ہوا اپنی کامیابی و کامرانی کے پرچم بلند کیے ہوئے ہے۔
اس وقت میرے مطالعہ کی میز پر آپ کی تازہ ترین شعری کاوش مثنوی ’’شہِ
گلگوں قبا‘‘ جلوہ گر ہے۔ ترکیب ’’شہ گلگوں قبا‘‘ سے بھی آپ کی کلامِ رضا
سے محبت و انسیت کا والہانہ اظہار ہوتا ہے۔صاحب زادہ ابوالحسن واحدؔ رضوی
مد ظلہٗ کی اس خوب صورت پیش کش پر کچھ اظہارِ خیال سے قبل مثنوی کے بارے
میں چند باتیں سپردِ قرطاس ہیں ۔
مثنوی اس نظم کو کہتے ہیں جس میں شعر کے دونوں مصرعے میں قافیہ آ ئے اور
ہر شعر کے دونوں مصرعوں کے قافیے الگ الگ ہوں۔ محققین اسے ایرانیوں کی
ایجاد بتاتے ہیں ۔عربی میں یہ صنف نہیں پائی جاتی البتہ رجز اس سے ملتی
جلتی صنف ہے ۔شبلیؔ کہتے ہیں کہ رجز کو دیکھ کر ایرانیوں نے مثنوی ایجاد کی
جو ایک ہیئتی صنف ہے جس میں کسی بھی موضوع کا اظہار کیا جاسکتا ہے اگرچہ
مخصوص معنوں میں اسے عشقیہ منظوم داستان تصور کیا جاتا ہے۔ اس میں ابیات کی
تعدا د متعین نہیں۔یہ چند ابیات سے لے کر سیکڑوں ابیات پر مشتمل ہو سکتی ہے
اس شرط کے ساتھ کہ اس کی ہر بیت معنوں میں نا مکمل ہو یعنی تمام ابیات مل
کر خیال و موضوع کی اکائی تشکیل دیں ۔ ’’بوستانِ سعدی‘‘ کی حکایات مختصر
مثنویاں ہیںجب کہ مولانا رومؔ کی ’’مثنوی‘‘ طویل ترین مثنوی خیال کی جاتی
ہے ۔اردو میں بھی عشقیہ مثنویوں کے ساتھ فلسفیانہ،واعظانہ اور اخلاقی
مثنویاںبہ کثرت موجود ہیں۔
عام طور سے رزمیہ مثنوی کے لیے بحرِ متقارب اور بزمیہ کے لیے بحرِ ہزج یا
بحرِ سریع مستعمل ہے ۔مثنوی کے عناصر یہ ہیں ۔
(1) حمد و نعت (2) مدح فرماں رواے وقت (3) تعریفِ شعر وسخن (4) قصد یا اصل
موضوع (5) خاتمہ۔ بہت سے مثنوی نگاروں نے ان روایتی پابندیوں سے انحراف کیا
ہے۔ حمد و نعت جس کا التزام عام طور سے شعرا کرتے ہیں، میرؔ اور سوداؔ کی
ہجویہ مثنویاں ان سے بھی خالی ہیں۔ جہاں تک مثنوی کے مضامین اور موضوعات کا
تعلق ہے تو اس کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ مذہبی واقعات، رموزِ تصوف، درسِ
اخلاق، داستانِ حُسن و محبت ، میدانِ کارزار کی معرکہ خیزی ، بزمِ طرب کی
دل آویزی ، رسوماتِ شادی، مافوق الفطرت کے حیرت زا کارنامے سبھی کچھ
مثنویوں کا موضوع ہیں۔اس طرح مثنوی کے مضامین میں بڑی وسعت اور ہمہ گیری ہے
۔
اردو میں کلاسیکی اور روایتی شاعری اس صنف سے مالامال ہے ۔میراں ؔجی ،
نظامیؔ، اشرف بیابانیؔ، جانمؔ، عبدلؔ، ملاوجہیؔ، غواصیؔ، مقیمیؔ، نصرتیؔ،
ابن نشاطی، سراجؔ، شفیقؔ، جعفرؔزٹلی، فائزؔ، آبروؔ، حاتمؔ، اثرؔ، میرؔ،
سوداؔ، انشاءؔ، مومنؔ اور شوقؔ وغیرہ کی مثنویاں مشہور ہیں ۔مثنوی نگار
شعرا میںمیر حسنؔ کے حصے میںجو مقبولیت اور شہرت آئی وہ اپنی مثال آپ ہے
۔یہ کہا جاتا ہے کہ اردو مثنوی کی تاریخ میرحسنؔ کے ذکر کے بغیر نامکمل
ہے۔علاوہ ازیں غالبؔ نے فارسی میں کئی مثنویاں لکھی ہیںاور اردو میں ایک
مختصر مثنوی ’’درصفتِ انبہ‘‘ ۔حالیؔ ،اقبالؔ اور جوشؔ کا کلام بھی اس سے
خالی نہیں۔مذہبی دنیا کی معروف شخصیت امام احمد رضا بریلوی کے یہاں بھی ایک
فارسی مثنوی ’’ردِ امثالیہ‘‘دیکھی جاسکتی ہے۔ برادرِ رضا مولانا حسن رضا
حسنؔ بریلوی کی ایک فارسی مثنوی ’’صمصام ِحسن بردابرفتن ‘‘ بھی خاصے کی چیز
ہے ۔ ترقی پسند شعرا میں سردار جعفری نے ’’نئی دنیا کو سلام ‘‘ اور جدید
شعرا میں قاضی سلیم نے ’’باغبان و گل فروش‘‘لکھ کر روایتی ہیئت میں اس صنف
پر طبع آزما ئی کی ہے ۔
مثنوی نگاری کی اسی روش کو آگے بڑھاتے ہوئے صاحب زادہ ابوالحسن واحد ؔ
رضوی نے اسلامی تاریخ کے ناقابلِ فراموش باب واقعۂ کربلا کو اپنی فکر و
نظر کا موضوع بناتے ہوئے ۲۲۴؍ اشعار پر مشتمل مثنوی’’ شہ گلگوں قبا‘‘ مذہبی
و ادبی دنیا کو تحفے کے طور پرپیش کیا ہے ۔ عقیدے و عقیدت سے مملو، شعر ی و
فنی محاسن سے آراستہ، موضوع اور من گھڑت واقعات و روایات سے یکسرپاک یہ
مثنوی اپنے موضوع کا مکمل حق اداکرتے ہوئے دکھائی دیتی ہے۔ اشعار کی زیریں
رَو میں پنہاں کربیہ آہنگ قاری و سامع کو بھی درد و غم سے ہمکنار کرتا ہے۔
مثنوی کی روایت کے مطابق ’’شہ گلگوں قبا‘‘ کا دریچۂ سخن بھی ’’حمدِ خالقِ
حسن و جمال جل جلالہٗ و عم نوالہٗ‘‘ جیسے دل کش عنوان سے ہوتا ہے۔’ لبوں پر
حمد اُس کی جلوہ گر ہے ‘جیسے بولتے مصرعے سے حمد کا آغاز ہوتا ہے ۔ واحدؔ
صاحب نے خالقِ حُسن و جمال جل جلالہٗ کی قدرتِ کاملہ ، اختیارات و تصرفات
اور مختلف تخلیقات کا بڑے اچھوتے اور البیلے انداز میںبیان کیا ہے۔ ۲۰؍
اشعار پر مشتمل ’’شہ گلگوں قبا‘‘ کا حمدیہ گوشہ حمد کے واجبات کی تکمیل
کرتا ہوا شعریت کی سندرتا سے مزین ہے۔ شعروں میں اردواور فارسی لفظیات کے
ساتھ ساتھ ہندی بھاشاکا گہرا رچاؤلطف و سرور کو دوبالا کردیتا ہے ؎
عجب انسان کی صورت بنائی
عجب ماٹی کی یہ مورت بنائی
کوئی سندر ، نرالی اس کی شوبھا
سجا ، سنورا ، دُھلا ،اُجلا ، سجیلا
کوئی پاپی ہمیشہ من میں مایا
کرے کوئی سدا ، سیرا ،تپسیا
وہی پھولوں میں جو خوشبو بسائے
وہی جو ساتھ کانٹے بھی اگائے
وہی جو خالقِ حُسن و ادا ہے
وہی تو قابلِ حمد و ثنا ہے
حمد کے بعد واحدؔ صاحب مثنوی’’ شہ گلگوں قبا‘‘ میں مدحتِ مصطفی صلی اللہ
علیہ وسلم کی عطر بیزی کرتے ہیں ۔’’درنعتِ رسولِ کائنات و نبی موجودات صلی
اللہ علیٰ روحہ وسلم‘‘ عنوان کے تحت ۲۱؍ اشعار کو نعت رنگ سے مزین کیا ہے
۔جس میں نعت کے تقدس کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے فکر و فن کا جادو جگانے کی
کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ واحدؔ صاحب مدحتِ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کی
ابتدا کرنے کے لیے اس طرح فکر میں مبتلا ہیں کہ نعت کا آغاز کس طرح اور
کہاں سے کیا جائے ، کس منہ سے جنابِ احمدِ مجتبیٰ علیہ التحیۃ والثنا کی
مدحت و توصیف کی جائے ۔شعری اظہار میں کس قدر خوب صورتی سے کہتے ہیں کہ ؎
ملے کوثر کی مجھ کو روشنائی
کروں! طوبیٰ کی شاخوں سے لکھائی
کوثر کی روشنائی اور طوبیٰ کی شاخوں سے نعتِ سرور صلی اللہ علیہ وسلم تحریر
کرنے کی سعادت بھی اگر مل گئی ؎
تو پھر بھی کچھ نہ لکھ پاؤں ثنا میں
قلم عاجز ثناے مصطفی میں
نہیں ہے اُن کے رتبوں کی نہایت
یہی ہے حاصلِ فہم و بصیرت
نہیں ممکن بشر سے ان کی تعریف
خدا ہی کو ہے شایاں اُن کی توصیف
واحدؔ صاحب نے گوشۂ نعت میں سید الکونین و الثقلین صلی اللہ علیہ وسلم کے
اوصافِ جمیلہ کا بڑی ہی محتاط وارفتگی کے ساتھ بیان کرتے ہوئے مثنوی کے اصل
موضوع ’’شہِ گلگوں قبا‘‘ کی طرف قلم کے رُخ کو موڑا ہے۔سب سے پہلے سیدنا
امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کی شان میں ۱۳؍ اشعار پر مشتمل منقبت کا
نذرانۂ عقیدت پیش کرکے اپنی غلامی کا ثبوت پیش کرنے کی سعادت سے بہرہ مند
ہوئے ہیں ۔منقبت میں واحدؔ صاحب نے امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کے مقامِ
رفیع کا بیان کیا ہے۔آپ کی نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے قرابت، والدین
کریمین اور برادرِ معظم رضی اللہ عنہم کا ذکرِ جمیل کرتے ہوئے آپ کے کمال،
جمال، شجاعت ، علم ، تقویٰ ، صورت، سیرت، فصاحت، بلاغت میں انفرادیت کا خوب
صورت شعری اظہاریہ پیش کیا ہے۔
منقبت کے بعد ’’امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کا امتحانِ عالی شان اور
فلسفۂ شہادت ‘‘ عنوان کے تحت ۱۷؍ اشعار میں امام عالی مقام رضی اللہ عنہ
سے یزید کے مطالبۂ بیعت کے بعد امام عالی مقام رضی اللہ عنہ جیسے شیرِ جری
کے انکار کے اسباب کا ذکر کیا ہے۔یزید کی حکومت فریب و دجل، اَخلاقی و
سیاسی گراوٹ، حدودِ حق کی پامالی اور غیر شرعی امور کی پشت پناہی کررہی تھی
۔ بھلا ایسے شخص سے امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کس طرح بیعت کرسکتے تھے۔
سچ ہے کہ اللہ کی بارگا ہ میں جو جتنا زیادہ مقبول ہوتا ہے اس کا اُتنا ہی
کڑا اور سخت امتحان ہوتا ہے۔ امام عالی مقام رضی اللہ عنہ اس سچائی سے واقف
تھے اور آپ جانتے تھے کہ راہِ حق میں مرنا حقیقتاً ابدی زندگی ہے۔ واحدؔ
صاحب تاریخ کی اس اہم اور نازک حقیقت کو یوںواشگاف کرتے ہیں ؎
یہ تھا واضح امامِ باصفا پر
کہ میں ہوں واقعی راہِ خدا پر
اُدھر تھی مصلحت اور دنیا داری
اِدھر حُسنِ یقیں اور خاکساری
یقیں تھا یہ شہِ گلگوں قبا کو
جنابِ فاطمہ کے دلربا کو
کہ میں حق پہ ہوں! یہ بالکل بجا ہے
رہِ حق میں تو مرنا بھی ، بقا ہے
اور جب امام عالی مقام رضی اللہ عنہ نے یزیدِ بے حیا کی بیعت سے انکارکردیا
تو پھر آپ پرحامیانِ یزید نے مصائب و آلام کے پہاڑ توڑے ۔ یہاں تک کہ
صدرشکِ جنت مدینۂ منورہ میں آپ رضی اللہ عنہ کا رہنا مشکل ہوگیا ۔
بالآخر مدینۂ طیبہ سے آپ کو ہجرت کرنا پڑی ۔ اگرچہ یہ جدائی قیامت سے کم
نہیں تھی ۔ لیکن امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کے نزدیک مرضیِ مولا مقدم
تھی۔صاحب زادہ ابوالحسن واحدؔ رضوی جیسے عاشقِ رسول و آلِ رسول (صلی اللہ
علیہ وآلہٖ وسلم) نے اس پُردرد اور کرب ناک منظر کو’’امام عالی مقام رضی
اللہ عنہ کی مدینۂ منورہ سے رحلت‘‘ کے عنوان سے ۱۰؍ اشعار میں پیش کیا ہے۔
اشعار میں پنہاں المیہ لب و لہجہ یقینا قاری و سامع کو بھی غم انگیز کردے
گا ؎
کہ باقی لوگ تو یاں آرہے ہیں
جو گھر والے ہیں گھر سے جارہے ہیں
گراں تھی یہ جدائی اصدقا پر
سبھی عشاق پر ، اہلِ وِلا پر
قرارِ دل مدینہ سے ہے رخصت
بہارِ جاں کی اب ہوتی ہے رحلت
مدینہ چھوڑنا آساں نہیں تھا
یہ رشتہ توڑنا آساں نہیں تھا
جدائی کا یہ منظر بھی عجب تھا
مگر کیا کیجیے! منظورِ رب تھا
بالآخر شاہ نکلے گھر سے رو کر
مدینہ سے چلے ناشاد ہوکر
جب امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کا قافلہ کربلاقدم رنجہ ہوگیاتو عاشورہ کی
شب آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے عزیزوں اور ہمراہیوں کو دعاے خیر دیتے ہوئے
امن و امان اور عافیت کے ساتھ واپس جانے کی خوشی سے اجازت دیدی۔شہ گلگوں
قباسیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے اس خطبے کو سُن کر آپ کے جاں نثار تڑپ
اُٹھے اورکہنے لگے کہ ہم آپ کو ہرگز تنہا چھوڑ کر کہیں نہیں جائیں گے ۔
راہِ مولا میں ہم بھی آپ کے ساتھ ساتھ جامِ شہادت نوش کرکے سیدِ کائنات
صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں سرخروئی حاصل کریں گے۔ ۲۵؍ اشعار پر
مشتمل ’’شہ گلگوں قبا‘‘ کا گوشہ’’شبِ عاشور‘‘ میں صاحب زادہ ابوالحسن واحدؔ
رضوی نے امام عالی مقام رضی اللہ عنہ اور ان کے رفقا کے مکالمے کوبڑی خوش
اسلوبی سے بیان کیا ہے۔جاں نثاروں کی طرف سے محبت و عقیدت کے اظہاریے کے
بعد عاشورہ کی شب کی منظر نگاری کرتے ہوئے واحدؔ صاحب نے تصویریت کا حُسن
کچھ اس طرح بکھیرا ہے کہ ایسا لگتاہے جیسے وہ منظر نگاہوں کے سامنے ہے ؎
غرض جب کہہ چکے اہلِ عقیدت
وفا کی اور محبت کی حکایت
صفیں پھر بچھ گئیں بہرِ عبادت
ہمہ مشغول در ذکر و تلاوت
ثناؤں میں ہی ساری رات گزری
دعاؤں میں ہی ساری رات گزری
مثنوی ’’شہ گلگوں قبا‘‘ کا۱۸؍ اشعار پر مبنی حصہ’’دسویں محرم کا ہولناک دن
اور رفقاے امام کی ثابت قدمی و اولوالعزمی‘‘میں واحدؔ صاحب کے موے قلم نے
جاں نثارانِ شہِ گلگوں قبا رضی اللہ عنہ کی تین دن سے سخت بھوک ا ور پیاس
کے باوجود حق کی خاطر ثابت قدمی کا دردانگیز شعری اظہار کیا ہے ؎
نہالِ فاطمی تشنہ دہاں تھے
نرے فاقوں سے بے تاب و تواں تھے
میسر آب کا جُرعہ نہیں تھا
بھلا جُرعہ تو کیا ، قطرہ نہیں تھا
لبِ آب ان کو تھی پانی سے دوری
مسلسل تین دن سے ناصبوری
اس قدر مصائب و آلام کے باوجود راہِ حق کے غازیوں کا شوقِ شہادت قابلِ دید
تھا ۔ امام عالی مقام شہیدِ بلاشاہِ گلگوں قبا رضی اللہ عنہ کے جاں نثاروں
نے جس استقلال اور استقامت کا مظاہرہ کیا وہ اپنے آپ میں بے مثال ہے۔کربلا
والوں نے اپنے گھر کو لُٹانا گوارا کرکے ناموسِ اسلام کی حفاظت فرمائی۔
اس کے بعد مثنوی صاحب زادہ ابوالحسن واحدؔ رضوی کا قلم اب مثنوی ’’شہِ
گلگوں قبا‘‘ کے نقطۂ عروج کی طرف بڑھتے ہوئے ’’عمر بن سعد کا جنگ کے لیے
فوج لے کر آنا اور امامِ عالی مقام رضی اللہ عنہ کا اتمامِ حجت‘‘کے تحت
۲۵؍ اشعار رقم کرتا ہے۔ اس گوشے میں واحدؔ صاحب نے واقعات کو بیان کرنے میں
ایسی ہر روایت سے گریز کیا ہے جو پایۂ ثبوت تک نہیں پہنچتی ۔ہر مقام کی
طرح یہاں بھی شعریت کا بھرپور لحاظ رکھا ہے۔امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کا
یزید فوج کو اتمامِ حجت کے لیے خطبہ دینے ، عمر بن سعد کے خطبہ سن کر تیر
چلانے ،حضرات حُر و مصعب کی شہادت،اور شہ گلگوں قبا رضی اللہ عنہ کے دیگر
ساتھیوں کی شہادت کو بیان کرنے کے بعد واحدؔ صاحب نے ۱۴؍ اشعار پر مشتمل
حصے ’’شہادتِ علی اکبر رضی اللہ عنہ‘‘ میں شبیہِ پیمبر فرزند امام عالی
مقام رضی اللہ عنہ کی دردناک شہادت کو فنی محاسن سے مملو شعری پیکر میں بڑی
چابکدستی سے ڈھالا ہے۔
مثنوی’ ’شہِ گلگوں قبا‘‘ کا ۳۲؍ اشعار پر مشتمل مرکزی اظہاریہ ’’قیامتِ
صغریٰ -شہ ِ گلگوں قباجنابِ امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت‘‘میں صاحب
زادہ ابوالحسن واحدؔ رضوی کے تخیل کی پرواز نے بڑا پُر تاثیر اور المناک
انداز اختیار کیا ہے ۔ایک ایک کرکے تما م جاں نثاروں کی شہادت کے بعد تنہا
امام ِ عالی مقام رضی اللہ عنہ رہ جاتے ہیں ۔ اس موڑ پر حضرت امام زین
العابدین رضی اللہ عنہ نے بھی میدانِ کارزار میں جانے کی اجازت چاہی لیکن
امام عالی مقام رضی اللہ عنہ نے فرمایا ؎
کہا شبیر نے میرے سمن بر!
مرے جانی ، مرے مہ رُو و دلبر!
تمہیں دیتا نہیں میں اب اجازت
تمہارے ذمہ ہے سب کی حفاظت
اب مخدراتِ اہل بیت رضی اللہ عنہن سے امامِ عالی مقام شہ گلگوں قبا رضی
اللہ عنہ کی فرقت و رخصت ہے ۔ بڑا غم آگیں منظر ہے۔ ناناجان سیدِ عالم صلی
اللہ علیہ وسلم کا عمامہ سر پرباندھے امامِ عالی مقام رضی اللہ عنہ میدانِ
کارزار کی طرف جارہے ہیں ، چندشعر دیکھیں اور واحدؔ صاحب کے حُسنِ بیان کو
داد دیں ؎
عمامہ مصطفی کا سر پہ رکھا
چلے خیمہ سے سوے جُندِ اعدا
کیا حضرت نے پھر اتمامِ حجت
دیا خطبہ بصد سوز و محبت
مگر اعدا نے سُن کر ان سنی کی
بس اُن کو قتل کرنے کی پڑی تھی
غرض اک دوزخی نے ابتدا کی
اُسی دم آپ نے گردن اُڑادی
ہوئی پھر حملہ آور فوج ساری
ہزاروں میں تھے وہ گستاخ ، ناری
ایسے ہوش رُبا عالم میں امامِ عالی مقام شہِ گلگوں قبا رضی اللہ عنہ نے وہ
ہمت و جواں مردی دکھائی کہ یزیدی لشکر پر ہیبت طاری ہوگئی۔ حضرت امام عالی
مقام رضی اللہ عنہ نے دشمنوں کی صفوں کو اُلٹ کر رکھ دیا ۔ ہر طرف سے اعدا
نے حملہ کیا ۔ قیامتِ صغریٰ کا وہ پُردرد منظر کیسے بیان ہوسکتا ہے ۔ واحدؔ
صاحب کے قلم نے جس کربیہ آہنگ سے شہادتِ امام حسین رضی اللہ عنہ کے وفا
افروز واقعہ کو شعری اسلوب میں پیش کیا ہے وہ الم انگیز تو ہے ہی ایجاز و
تراکیب،روزمرہ ، پیکر تراشی،الفاظ کے مناسب رکھ رکھاؤجیسے شعری حُسن سے
آراستہ بھی ہے ؎
وہ تلواروں ، کبھی تیروں کی بارش
کبھی خنجر ، کبھی نیزوں کی بارش
لگا اک تیر، ہاے! اُس جبیں پر
جو تھی بوسہ گہِ محبوبِ داور
بہت گھائل تھا اب وہ نوری پیکر
تنِ اقدس ، وہ جسمِ ناز پرور
اتر گھوڑے سے آپ آئے زمیں پر
عجب منظر تھا وہ ، اللہ اکبر
لہو جاری تھا جسمِ نازنیں سے
اُدھر دشمن کے حملے ہورہے تھے
نہ تھی اب تاب حضرت میں بظاہر
شہید ہوکر زمیں پر گرپڑے پھر
اسی پر بس نہ کی اعدا نے ، ہاے
سرِ اقدس جدا کرنے کودوڑے
عدو خولی تھا یا شبلِ لعیں تھا
سرِ اقدس کو جس نے تن سے کاٹا
عدو نے جب گلا حضرت کاکاٹا
جہاں کاذرّہ ذرّہ کانپ اُٹھا
قیامت تک نہ ہوگا ظلم ایسا
نہ ہوگا اس طرح کا حشر برپا
امامِ پاک نے کیسی وفا کی
کہ اپنی جان بھی نذرِ خدا کی
قیامتِ صغریٰ کے بیان کے بعد واحدؔ صاحب نے ۱۵؍ اشعار میں ’’امامِ عالی
مقام امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعدکے مناطر‘‘کا بیان کیاہے۔مثنوی
’’ شہِ گلگوں قبا‘‘ کا یہ گوشہ امام ِ عالی مقام رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا
اظہاریہ ہونے کے ساتھ ساتھ واحدؔ صاحب کی عربی دانی پر کمال دسترس کو بھی
ظاہرکرتا ہے ۔اس گوشے میں آپ نے اردو اشعار کے جِلو میں عربی شعر بھی رقم
کیا ہے۔
واحدؔ صاحب نے مثنوی کے خاتمہ سے قبل ۵؍ اشعارپر ’’ہدیۂ سلام-بحضور امام
عالی مقام شہ گلگوں قبارضی عنہ اللہ رب الارض و السمآء‘‘پیش کیا ہے ۔ جو
واحدؔ صاحب کے امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کے تئیں عقیدت و محبت کے
مخلصانہ رویوں کا غماز ہے۔ واحدؔ صاحب نے محض پانچ اشعار میں امام عالی
مقام رضی اللہ عنہ کے فضائلِ کثیرہ کو بڑے اجمال کے ساتھ اس طرح بیان کیا
ہے گویا کوزے میں سمندر کو بند کردیا گیا ہو ؎
سلام اُس پیکرِ صبر و رضا پر
سلام اُس عظمتِ مہر و وفا پر
سلام اُس شانِ ایماں ، شانِ دین پر
سلام اُس جانِ ایقان و یقیں پر
سلام اُس منبعِ جرأت پہ ہردم
سلام اُس محسنِ اُمت پہ ہر دم
سلام اُس پر کہ جس نے گھر لٹاکر
کیا اسلام کے جھنڈے کو برتر
شہِ گلگوں قبا ، جانِ تمنّا
حسینِ باصفا جانِ تمنّا
مثنوی ’’شہِ گلگوں قبا‘‘ کے اختتام پرصاحب زادہ ابوالحسن واحدؔ رضوی نے ۹؍
شعر ’’درمناجات بہ درگاہِ مجیب الدعوات‘‘قلم بند کرکے بارگاہِ خداوندی میں
اپنی عاجزی کااظہار کرتے ہوئے نبیِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم ،حضرت علیِ
مرتضیٰ و فاطمۃ الزہرا ، آلِ نبی ، شہِ گلگوں قبا رضی اللہ عنہم اور جملہ
اولیاے کرام کے وسیلے سے دنیوی و اخروی کامیابی کی دعامانگی ہے۔اس دعا پر
آمین کہتے ہوئے حضرت اقدس صاحب زادہ ابوالحسن واحدؔ رضوی مد ظلہٗ کو فکرو
فن کی پختگی، جذبہ وفن کی وسعت ، خیالات کی سچائی اور درد و کرب سے مملو
ایسی پُراثراور نفیس مثنوی قلم بند کرنے پر عمیق دل سے مبارک باد پیش
کرتاہوں۔ اللہ کریم حضرت کا سایہ ہم پر دراز تر فرمائے (آمین)۔
(ڈاکٹر ) محمد حسین مُشاہدؔ رضوی
سروے نمبر ۳۹ پلاٹ نمبر ۱۴ نیااسلام پورہ
مالیگاؤں (ناسک)،
۶؍ صفرالمظفر ۱۴۳۶ھ/۳۰؍ نومبر ۲۰۱۴ء، بروز اتوار |
|