مفتی توفیق احسن برکاتی مصباحی نوجوان سنی علما میں کئی
اعتبار سے نمایاں حیثیت کے حامل ہیں ۔ وہ بیک وقت ایک جواں سال زود گو نثر
نگار،مایۂ ناز ادیب، بلند پایہ شاعر، محقق عالمِ دین، بے لوث معلم اور
بہترین مفتی ہیں۔آپ کی ولادت بہنگواں ،اعلاپور ،ضلع اعظم گڑھ کے ایک علم
دوست گھرانے میں ۱۲؍ جولائی ۱۹۸۴ء کوہوئی۔مقامی مدرسہ حنفیہ انوارالعلوم
اور جامعہ عربیہ اظہارالعلوم ،جہاں گیرگنج ، فیض آباد میں ابتدائی اور
متوسطات کی تعلیم ہوئی ۔اعلا دینی تعلیم کے حصول کے لیے جامعہ اشرفیہ عربی
یونی ورسٹی مبارک پور میں داخلہ لیا ۔جہاں سے عا لمیت و فضیلت کے ساتھ
تحقیق فی الفقہ کا کورس مکمل کیا ۔فی الحال آپ ممبئی کی مشہور دانش گاہ
’’الجامعۃ الغوثیہ‘‘میں تدریسی خدمات پر مامور ہیں، ساتھ ہی ساتھ عالمی
تحریک سنی دعوتِ اسلامی کے ترجمان ماہ نامہ سنی دعوتِ اسلامی کے ایڈیٹر بھی
ہیں۔ آپ کا موے قلم زمانۂ طالبِ علمی ہی سے نثر و نظم دونوں میدانوں میں
گل بوٹے کھلا رہا ہے۔ اتنی کم عمری میں آپ نے دنیاے سنیت کو کئی بیش بہا
کتب و رسائل کا تحفہ پیش کیا ہے۔لیکن جس انداز سے اس جواں سال قلم کار کی
پذیرائی ہونی چاہیے وہ نہ ہوسکی ۔بہ ہر کیف !آپ کاتحقیقی، تصنیفی اور
تالیفی سفر تیز رفتاری سے جاری و ساری ہے ۔مختلف ماہ ناموں اور اخبارات
میںآپ کے تحقیقی مقالات اورکتب و رسائل پر تبصرے مسلسل شائع ہوتے رہتے
ہیں۔
اس وقت میرے مطالعہ کی میز پر آپ کی تاریخ ساز تحقیقی تصنیف ’’ممبئی عظمیٰ
کی مختصر تاریخ‘ ‘ سجی ہوئی ہے۔جوکہ صحیح معنوں میں عروس البلاد ممبئی میں
سوادِ اعظم اہل سنت و جماعت کی مذہبی سرگرمیوں کی اولین تاریخی دستاویز
کہلانے کا جملہ حقوق اپنے نام محفوظ رکھتی ہے۔موصوف نے ممبئی کی عمومی
تاریخ کو "موہن جوداڑو" اور "ہڑپا" کی کھدائی کی مثل ممبئی میں سواد اعظم
اہل سنت و جماعت کی مذہبی سرگرمیوں کی خصوصی تاریخ کے گم شدہ و گم گشتہ
جزائر کو "واسکوڈی گاما" کی طرح تلاش کرنے کی کامیاب محققانہ کوشش کی ہے،
اور اسے بڑی صاف ستھری ، رواں دواں ، دل نشین اور شستہ علمی وادبی زبان میں
خوانِ مطالعہ پر سجادیا ہے۔ اس اہم ترین تحقیقی کتاب کی تصنیف پر راقم
برادرِ گرامی محبِ مکرم مفتی توفیق احسن برکاتی مصباحی کو صمیم قلب سے
مبارک بادپیش کرتا ہے۔ اس کتاب کے منظر عام پر آنے کے بعد ہمارے اس مایۂ
ناز محقق کی جس انداز سےستایش اور پذیرائی کی جانی چاہیے تھی وہ دکھائی
نہیں دیتی۔ یہ ہماری جماعت کا بہت بڑا المیہ ہے پیشہ ور مقررین پر ہم روپے
پانی کی طرح بہادیتے ہیں جب کہ برسوں شب و روز محنتِ شاقہ کے بعد اس طرح کے
تحقیقی کام کرنے والوں کو حوصلہ افزائی کے دولفظ بولنے میں بھی ہم بخیلی کا
مظاہرہ کرتے ہیں۔
توفیق احسن برکاتی کی یہ تحقیقی تصنیف کسی پی ایچ ڈی مقالے سے کم نہیں۔بلکہ
فی زمانہ لکھے جانے والے سطحی انداز کے پی ایچ ڈی مقالات کی بھیڑ میں یہ
تحقیقی کتاب کئی اعتبار سے اہمیت کی حامل دکھائی دیتی ہے۔ ۴۶۴؍ صفحات پر
پھیلی ہوئی ’’ ممبئی عظمیٰ کی مختصر تاریخ‘‘ دس ابواب پر مشتمل ہے۔جس میں
۱۱۷ کتب و رسائل اور اخبارات و جرائد سے مصنف نے اسفادہ کیا ہے۔اس کتاب میں
فاضل مصنف نے تحقیق کے جدیدترین اصولوں کی مکمل طور پر پاسداری کی ہے۔
باب اول میں صوبۂ مہاراشٹر کے حدودِ اربعہ اور اس کا جغرافیہ پیش کیا ہے
اور شہر ممبئی کے قدیم وجدید رنگ کو نمایاں کیا ہے۔ مہاراشٹر کا جغرافیہ
اور محل و قوع اور ممبئی از ابتدا تا انتہا کے تاریخی پس منظر کو بڑی عرق
ریزی سے پیش کیا ہے۔ ۹ صفحات پر مبنی اس مختصر سے باب میں ممبئی شہر کی
جغرافیائی، سماجی، تعلیمی، مذہبی ، معاشی اور سیاسی تاریخ کا اجمالی نقشہ
ہمارے سامنے آجاتا ہے۔
باب دوم میں ہندوستان میں اسلام کے دورِ اول کو عنوان بنا یا ہے جو کہ اپنے
موضوع کے لحاظ سے کافی اہمیت کا حامل ہے ۔اس باب میں فاضل محقق نے کافی
گہرائی و گیرائی سے اپنے موقف کو بیان کیا ہے۔ اس باب کے مطالعہ سے مصنف کی
دقتِ نظر اور وسعتِ مطالعہ کا وصف صاف جھلکتا محسوس ہوتا ہے۔ قدیم و جدید
مآخذ کی روشنی میں ظہورِ اسلام سے ہندوستان میں اسلام کی آمد تک اور
ہندوستان میں مسلمانوں کی قدیم اور اولین آبادی کی تحقیق میں مصنف کامیاب
دکھائی دیتے ہیں۔ اس باب کے مطالعہ سےہندوستان میں مسلمانوں کی آمد سے
متعلق تاریخ کے بہت سے گم شدہ جواہر پارےہمارے ہاتھ لگتے ہیں۔
باب سوم میں قطبِ کوکن فقیہ مخدوم علی مہائمی علیہ الرحمہ کے احوال و آثار
، دینی و علمی خدمات اوراس عہد کے مذہبی و سیاسی حالات کو قلم بند کیا ہے
۔ممبئی کی تاریخ قطبِ کوکن حضرت فقیہ مخدوم علی مہائمی رحمۃ اللہ علیہ کے
ذکرِ خیرکےبغیر کسی بھی صورت میں مکمل تسلیم نہیں کی جاسکتی۔ ممبئی شہر
دراصل ان ہی بے نفس اور خدادوست شخصیت کی دعاؤں کا ثمرہ ہے جو ہمارے ملک
بھارت کی صنعتی راجدھانی کا درجہ رکھتاہے۔ مفتی توفیق احسن برکاتی مصباحی
نے اس باب میں قطب کوکن فقیہ مخدوم علی مہائمی رحمۃ اللہ علیہ کے احوال و
آثار کا تحقیقی جائزہ لیا ہے۔آپ کی علمی و دینی اور عظیم روحانی شخصیت کے
ہر ہر پہلو کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے ۔ آپ کی تصانیف عقائد و نظریات ،
خدمات اور روحانیت وغیرہ کا بیان اجمال میں تفصیل کا جلوہ لیے ہوئے ہے۔
حضرت قطبِ کوکن کے عہد کے مذہبی حالات کو بیان کرتے ہوئے فاضل محقق نے اُس
زمانے کے مسلمانوں میں رائج بعض معمولات کو"مستند" و "معتبر" حوالوں سے
مزین کرکے بیان کیا ہے، جو دورِ حاضر میں کچھ " مہربانوں" کے نزدیک "بدعت"
کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان چشم کشا حقائق میں سے صرف ایک مثال نشانِ خاطر
کریں، توفیق احسن برکاتی مصباحی حضرت مخدوم علی مہائمی علیہ الرحمہ کے عہد
میں عید میلادالنبی ﷺ کے جشن کے انوکھے انداز کو مولانا ابوظفر حسان ندوی (
بھیونڈی) کی زبانی یوں کوڈ کیا ہے :" مولانا ابوظفر ندوی اس کی تفصیل میں
لکھتے ہیں: حضور اقدس ﷺ کی عید ولادت کا جشن بھی پایۂ تخت گجرات میں خوب
دھوم دھام سے منایا جاتا ، پہلی ربیع الاول سے صبح و شام نعت خوانی ہوتی ،
جس میں سادات، ائمہ مساجد ، مشائخ ، صوفیہ ، زہاد، عباد، صلحا ، فقرا اور
عوام سب شریک ہوتے، شاید ہی کوئی معزز اور مشہور آدمی اس کی شرکت سے محروم
رہ جاتا، یہ اجتماع بارہ ربیع الاول تک جاری رہتا ،اس میں نعت خوانی کے
ساتھ قرآن خوانی ، حدیث خوانی ، ذکر اور آواز کے ساتھ درود خوانی بھی
ہوتی، بارہویں کی شب کو آخری مجلسِ میلاد میں نعت خوانی ہوتی ۔ اور جب
ولادت کا ذکر قریب آتا تو سلطان بھی پہنچ جاتا ، پھر خلعت لایا جاتا ، جس
میں سلے، بن سلے کپڑے ہوتے اور ترتیب کے ساتھ میلاد خوانوں کو ، پھر مخصوص
لوگوں کو، پھر عام لوگوں کو دیا جاتا ، کوئی وہاں سے محروم واپس نہ آتا۔"
( ممبئی عظمیٰ کی مختصر تاریخ ص ۶۳، بہ حوالہ : گجرات کی تمدنی تاریخ ،
دارالمصنفین شبلی اکیڈمی ، اعظم گڑھ، ایڈیشن ۲۰۰۰۵ء ، ص ۱۳۰)
باب چہارم میں شہر ممبئی کے مسلم دورِ حکومت اور مذہبی احوال و آثار کا
تجزیہ کرتے ہوئے آغاز میں لکھتے ہیں : " ممبئی پر مسلمانوں کا دورِ حکومت
زیادہ واضح نہیں ہے، اس وجہ سے ممبئی کے مذہبی حالات بھی پردۂ خفا میں
ہیں۔ البتہ مسلمانوں کی حکومت کے قیام سے قبل ممبئی اور ماہم میں وہ مسلمان
عرب آباد تھے جو تجارتی اَغراض کی بنا پر یہاں آئے تھے اور مقامی باشندوں
میں خلط ملط ہوچکے تھے۔ ہم ذیل میں تاریخ کی چند کڑیاں ملاکر اس حقیقت کو
سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں۔"(ص ۶۹)
تاریخ کے بکھرے اوراق سے توفیق احسن برکاتی مصباحی نے بڑے تحقیق و تفحص سے
حُسن ترتیب کے ساتھ اس باب میں تاریخ کی کڑیوں کو ملاتے ہوئے کامیاب نتیجہ
اخذ کیا ہے۔ چوں کہ یہ تحقیقی کتاب ممبئی عظمیٰ میں سوادِ اعظم اہل سنت و
جماعت کی مذہبی سرگرمیوں کو محیط ہے لہٰذا اس باب میں جابجااس کا ذکر ملتا
ہے۔ ممبئی دورِ قدیم ہی سے اہل سنت کا مرکز رہا ہے ۔یہاں کی عوام و خواص
پرانے زمانے سے ہی ان ہی مراسم اور معمولات کو انجام دیتے آئے جنھیں آج
عرفِ عام میں "بریلوی معمولات" سے تعبیر کیا جاتا ہے جب کہ حقائق اس بات کی
نشان دہی کرتے ہیں کہ امام احمد رضا قادری برکاتی بریلوی کی ولادت سے قبل
ہی سے ممبئی تو کجا پورے ملک میں ایسے معمولات رائج تھے۔ اس باب میں امام
احمد رضا قادری برکاتی بریلوی کے سفرِ ممبئی کا بالتفصیل جائزہ لیا ہے جو
قابلِ مطالعہ ہے۔ آل انڈیا سنی کانفرنس جیسی اہل سنت و جماعت کی متحرک اور
فعال تنظیم میں شامل ممبئی کے علما کے ذکر سے بھی اس با ب کو سجایا ہے۔
۱۹۴۷ء کے بعد ممبئی کےمذہبی حالات کا تاریخی و تحقیقی تجزیہ کرتے ہوئے فاضل
محقق نے اس بات کو پایۂ ثبوت تک پہنچانے کی کامیاب کوشش کی ہےکہ زمانۂ
قدیم سے ہی ممبئی کے مسلمانوں کے وہی عقائد و معمولات تھے جنھیں آج ایک
مخصوص مذہبی فکر کا حامل طبقہ "بدعت "کہتے نہیں تھکتا ۔ انگریزوں کی سازشوں
سے مذہبی فرقہ بندی کے سبب کس طرح ممبئی کے مسلمانوں کے عقائد میں بگاڑ
آنا شروع ہوا اور بد مذہبیت کے علمبرداروں نے کس طرح اہل سنت کی مساجد پر
قبضہ جمایا، اس کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :" اس وقت بد مذہبوں نے اپنا
سازشی جال بچھانا شروع کیا ۔ بہ ظاہر خود کو کمزور ظاہر کرکے در پردہ اپنی
ریشہ دوانیوں کا سلسلہ جاری رکھا ۔ چند سنی مساجد پر اپنا سیاسی رسوخ
استعمال کرتے ہوئے قبضہ بھی جمالیا اور چند نئی مساجد خود تعمیر کیں۔ "( ص
۹۴) اس مقام پر اگر بدمذہبوں کے ذریعے قبضے میں لی گئیں مساجد کا نام بھی
درج کردیا جاتا تو بات دو آتشہ ہوجاتی۔ ممبئی میں سوادِ اعظم اہل سنت و
جماعت کے تحفظ و استحکام میں علماے اہل سنت کی خدمات کو بھی اس باب میں پیش
کیا گیا ہے۔
باب پنجم کو ممبئی شہر میں آرام فرما اولیاے کرام و بزرگانِ دین کے تذکرۂ
خیر سے آراستہ و مزین کیا گیاہے ۔ جزیرۂ ممبئی دورِ قدیم ہی سے اولیاے
عظام اور صوفیاے کرام کی آماجگاہ رہا ہے۔ جگہ جگہ مزارت و مقابرِولیا اس
بات کے منہ بولتے ثبوت ہیں۔ عقیدے و عقیدت میں رچی بسی ممبئی کی عوام ان
پاکانِ خدا کے آستانوں پر بڑے ادب و احترام سے حاضر ہوتے ہیں جس میں مذہب
اور رنگ و نسل کی کوئی تفریق دیکھنے کو نہیں ملتی۔ تیسرے باب میں قطب کوکن
مخدوم علی مہائمی رحمۃ اللہ علیہ کا تفصیلی ذکر ہوچکا ہے اس باب میں حضرت
علی شاہ بخاری ، شیخ مصری ، بابا حاجی عبدالرحمٰن شاہ قادری ، بسم اللہ شاہ
بابا، سید عبداللہ شاہ قادری ، سید مقبول شاہ قادری ، بابا بہاء الدین
قادری اصفہانی ، سیدعاشق شاہ بخاری، سید بدرالدین رفاعی ، سید عبداللہ شاہ
، سید مظفر شاہ علیہم الرحمۃ کا ذکرِ جمیل کیا ۔ ان اولیاے کاملین کے علاوہ
بھی ممبئی کی خاک پر آرام فرمانے والے مزید اولیا کے تذکار مواد کی عدم
فراہمی کے سبب اس کتاب کی زینت نہ بن سکے ۔ بہ قول مصنف:" جومواد کی عدم
فراہمی کی وجہ سے تشنہ تشنہ سا ہے اور کئی بافیض اولیا کا تذکرہ رہ گیا ہے۔
" مزید کربیہ انداز میں اہل تحقیق کو دعوت دیتے ہوئے لکھتے ہیں : " ویسے
اولیاے ممبئی پر ایک مستقل کتاب کی اشد ضرورت محسوس ہوتی ہے، اے کاش! کوئی
قلم کار اس جانب توجہ دے اور یہ تاریخ اس کے نام منسوب ہوجائے۔" (ص ۱۲)
باب ششم میں عروس البلادکے وفات یافتہ علماے اہل سنت اور سرکردہ مشائخ
کےاحوال پیش کیے گئے ہیں ۔ جن میں کچھ ایسے بھی ہیں جن کا مستقل قیام تو اس
شہر میں نہیں رہتا تھا لیکن ان کی قربانیوں کا گہرانقش اس شہر نے قبول کیا
ہے۔ان علما و مشائخ میں علامہ شاہ فضل رسول بدایونی، مولانا سید محمد
ابراہیم باعکظہ، قاضی سید عبدالفتاح گلشن آبادی، مولانا احمد مختار صدیقی
میرٹھی، مولانا نذیر احمد خجندی صدیقی، مولانا عبدالعلیم صدیقی میرٹھی، شیر
بیشۂ سنت علامہ حشمت علی لکھنوی، سید آلِ مصطفیٰ قادری مارہروی، سید
مصطفیٰ حیدر حسن میاں مارہروی، مفتی محبوب علی رضوی لکھنوی، سید حامد اشرف
کچھوچھوی، علامہ مشتاق احمد نظامی، سید انوار اشرف مثنیٰ میاں، آلِ رسول
سید حسنین میاں نظمی مارہروی، مولانا عبدالقادر کھتری، مولانا غلام ربانی
فائق ،مولانا عبدالرحیم ساحلؔ مصباحی ، مفتی شعبان علی نعیمی حبابیؔاور
مولانا منصور علی رضوی علیہم الرحمۃ و الرضوان قابلِ ذکر ہیں۔ مصنف نے ان
علماو مشائخ کی حیات و خدمات کے مختلف گوشوں کوبالتفصیل قلم بند کرنے کی
کامیاب کوشش کی ہے۔۱۳۵ صفحات پر پھیلے ہوئے اس اہم باب میں کچھ متقدمین و
متاخرین علما کا تذکرہ نہ ہوسکا اس ضمن میں توفیق احسنؔ مصباحی کا حق پسند
قلم اس طرح اعتراف کرتا ہےجو یقیناً فاضل محقق کے اپنی تحقیق کے تئیں
مخلصانہ رویوں کی غمازی کرتا ہے : " متقدمین و متاخرین میں چند علما چھوٹ
بھی گئے ہیں،"۔ چند سطروں کےبعد ان علما کے نام شمار کرتے ہوئے راقم ہیںکہ:
" ان حضرات پر مواد کی تحقیق جاری ہے ، ان شآء اللہ بہت جلد اس کی تکمیل
کی کوشش ہوگی۔ " ( ص ۱۳)
باب ہفتم میں ممبئی کی سنی تحریکات کی تاریخ اور ان کی خدمات کا احاطہ کرتے
ہوئے آل انڈیا جماعت رضاے مصطفیٰ، انجمن تبلیغ صداقت، بزمِ قادری رضوی،
آل انڈیا سنی جمعیۃ العلماء، آل انڈیا جمعیۃ الاشرف، آل انڈیا تبلیغ
سیرت ، آل انڈیا سنی تبلیغی جماعت ، رضا اکیڈمی ممبئی، دعوتِ اسلامی ممبئی
، اور سنی دعوتِ اسلامی ممبئی جیسی ممبئی عظمیٰ میں ماضی و حال میں سرگرم و
متحرک اور فعال تنظیموں کا تفصیل کے ساتھ تحقیقی منظر نامہ توفیق احسن
برکاتی کے قلم زرنگار نے غیر جانبداری کے ساتھ پیش کیا ہے۔
باب ہشتم میں مصنف نے ممبئی عظمیٰ میں جاری موجودہ مدارسِ اہل سنت کے احوال
و کوائف کو درج کیا ہے ۔ یوں تو ممبئی کے مختلف علاقوںمیںچھوٹے چھوٹے
سیکڑوں مدارس و مکاتبِ اہل سنت جاری و ساری ہیں ۔اس باب میں ۲۸ نمایاں
مدارسِ دینیہ کی تفصیل پیش کی گئی ہے۔
باب نہم میں فاضل محقق نے سنی صحافت کو موضوع بنایا ہے، اورقدیم و جدید
اخباری و مجلاتی صحافت پر تفصیلی گفتگو کی ہے۔ مسلمانوں کے قدیم مطابع کا
بھی ذکر کیاہے ۔ ممبئی کے ابتدائی اخبارات کا سرسری بیان کرتے ہوئے ضمنی
عنوان "صحافت اور ادب" پر مختصر مگر جامع بحث کی ہے جو مصنف کے صحافتی مزاج
کی بھی عکاسی کرتی ہے اور ساتھ ہی صحافت اور ادب پر ان کے دقتِ نظر کا
اظہاریہ بھی ہے۔" بر صغیر کی مطبوعہ صحافت کا عہدِ اولین" عنوان کے تحت
مصنف نے سیر حاصل تحقیقی مواد سپردِ قرطاس کرتے ہوئے ممبئی کی صحافتی تاریخ
کا ہلکا سا اشاریہ بھی پیش کیا ہے۔ بہ قول مصنف: " ہندوستانی زبان میں
مطبوعہ صحافت کی مذکورہ تفصیلات میں غور کرنے سےجو حقائق سامنے آتے ہیں ان
کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ برصغیر ہندوپاک میں آزادی سے قبل کے صحافتی
نقوش میں سرزمین بمبئی کے اہم ترین اخبارات و جرائد اعلیٰ ترین چمک دمک
رکھتے ہیں اور ان کا صحافتی سفر اعلیٰ ترین قدروں کا حامل ہے۔"(ص ۳۴۲)
اس باب میں مصنف نے صحافت ، ادب ، مطبوعہ صحافت کے بعد سنی صحافت پر تفصیل
سے روشنی ڈالی ہے ۔ بالخصوص ۱۹۴۷ء کے بعد سنی صحافت پر کافی گفتگو کی ہے۔
اور کثیر تعداد میں سنی اخبارات و رسائل کے اسما شمار کرائے ہیں۔ آزادی کے
بعد مسلم سنی مذہبی صحافت میں کافی ترقی ہوئی ہے ۔اب تو ایک نئے رنگ و
آہنگ سے سنی صحافت اپنا جلوہ بکھیر رہی ہے۔بہ قول توفیق احسن برکاتی : "
آزادی کے بعد سے اب تک کے سنی رسائل و جرائد پر نظر ڈالی جائے تو بڑا خوش
آیند نتیجہ برآمد ہوتا ہے ۔ گذشتہ پچاس برسوں کو سنی صحافت کا عہدِ زریں
کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔"(ص ۳۴۵)
توفیق احسن برکاتی مصباحی کے قلم نے اس باب میں بعض ان اخبارات پر تحقیقی
انداز میں تنقید کے نشتر بھی چلائے ہیں جو کہ خالص غیر مذہبی ہونے کے
باوجود بھی اہل سنت مخالف سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں ۔ ۶۵ صفحات پر مشتمل
یہ باب ۳۲سنی مذہبی اخبارات و رسائل اور جرائد کا تفصیلی معلوماتی اشاریہ
ہے۔ بعض اہم اخبارات و رسائل پر معروف اہل علم و قلم کے تاثرات کو بھی
حوالے کے طور پر پیش کیاہے۔ نیز اہل سنت و جماعت کی ترویج و اشاعت اور ردِ
بدمذہباں میں ان اخبارات و رسائل کی خدمات کو صاف ستھری علمی زبان میں
خوانِ مطالعہ پر سجانے کی کامیاب سعی کی ہے ۔ سنی صحافت پر مبنی یہ باب خود
مصنف کے نزدیک بھی سنی صحافت کی نامکمل تاریخ کا احاطہ کرتا ہے۔ کسی مصنف و
محقق کا اس طرح کھلے دل سے اعتراف کرنا اور اپنی بات یا تحقیق کو حرفِ آخر
نہ سمجھنا توفیق احسن برکاتی مصباحی کے علمی قد کو مزید بلند و بالاکرتا
ہے۔
باب دہم میں ۱۹۴۷ء کے بعد سے ممبئی میں خدمات انجام دینے والے سنی طباعتی و
نشریاتی اداروں کا تعارف اور ان کی مطبوعات کاذکر کیا ہے۔ ۵۷ صفحات پر
مشتمل اس باب میں ۳۳ طباعتی و نشریاتی اداروں کا تعارف ہمیں حاصل ہوجاتا
ہے۔
اخیر میں کتابیات کا گوشہ شامل ہے جس میں ۷۷ قدیم و جدید کتب اور ۴۰
اخبارات و رسائل کے نام درج ہیں جن سے مصنف نے استفادہ اٹھایا ہے۔ ۱۱۷ کتب
و رسائل اور اخبارات کے حوالوں سے مزین و آراستہ مفتی توفیق احسن برکاتی
مصباحی کی یہ تاریخ ساز علمی و تحقیقی دستاویز ممبئی عظمیٰ کی اہل سنت کی
تاریخ کا اولین پڑاؤ ہے ، جو ہر اعتبار سے لائق تحسین و ستایش ہے۔ اس
تحقیقی کام میں مصنف کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ انھوں نے کہیں بھی کسی بھی
شخصیت،تنظیم، مدارس، اخبارت ، رسائل اور نشریاتی اداروں کا ذکر کرنے میں
ذاتی وابستگی اور عقیدت و محبت کو حاوی نہیں ہونے دیا اور جن اخبارات و
رسائل وغیرہ کے اہل سنت مخالف رویوں پر تنقید کی ہے اس میں بھی کہیں اصولِ
تنقید سے سرِ مو انحراف نہیں کیا ہے ۔اس کتاب کی تصنیف میں محقق کو کیسی
محنت و مشقت کرنی پڑی ہوگی اس کو تحقیق جیسے دقت طلب میدان میں سفر کرنے
والے ہی صحیح طور پر سمجھ سکتے ہیں ۔ "ممبئی عظمیٰ کی مختصر تاریخ"کےمطالعہ
سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مفتی توفیق صاحب نے اسے یوں ہی نہیں لکھ دیا بلکہ اس
کے لیے انھیں بڑی پِتّہ ماری کرنا پڑی ہے۔ جب کہ یہ کام کوئی منصوبہ بند
پروجیکٹ کا حصہ نہ ہونے کے باوجود بھی منصوبہ بند لگتا ہے۔ بہ قول مصنف:"
یہ موضوع نہ کسی منصوبہ بند پروجیکٹ کا حصہ ہے اور نہ ہی فیلو شب کے تحت
تحریر کیا گیا ہے ، بلکہ محض ایک اہم ضرورت کے شدید احساس اور ذاتی دل چسپی
کا نتیجہ ہے ۔ "(ص ۱۱)۔ اور اس عرق ریزی میں انھیں کیسی دقتیں اٹھانا پڑیں
اس کا بھی ہلکا اشارہ یوں کرتے ہیں:" نئی ممبئی میں امامت و خطابت ، ممبئی
میں تدریس اور میگزین کی ادارت کے بعد جو وقت ملتا رہا، اس میں یہ کام ہوتا
رہا۔ لائب ریریوں میں جانا، ممبئی کے بزرگ علما و ائمہ سے ملاقات و مکالمہ
، خانقاہوں اور مدارس کے ذمہ داران سے رابطہ کرکے معلومات کا نوٹس تیار
کرنا ایک دشوار گزار کام تھا، کہیں ہمت افزائی تو کہیں حوصلہ شکنی، اور
تلخیوں بھری باتیں ، سب کچھ سہتارہا اور جمع کرتا رہا ، اب یہ کُل پونجی
قارئین کے حوالے کررہا ہوں ۔" (ص ۱۲)
بے پناہ مصرفیات کے باوجود حوصلہ افزائی اور دل شکنی ، محبت اور تلخیوں کے
ملے جلے اثرات کے سائےمیںپیش کی گئی اس تحقیقی کاوش کا جس شاندار انداز میں
پذیرائی اور استقبال ہونا چاہیے تھا آخر کار نہ جانے ایسا کیوں نہیں
ہوا؟خیر ! مفتی توفیق احسن برکاتی مصباحی کو ایک بار پھر میں اس اہم تحقیقی
اور تاریخی دستاویز " ممبئی عظمیٰ کی مختصرتاریخ" پر ہدیۂ تبریک و تہنیت
پیش کرتا ہوں اور دعا گو ہوں کہ اللہ کریم اپنے محبوب ﷺ کے صدقہ و طفیل ان
کی جملہ خدمات کو شرفِ قبول بخشے اور انھیں صحت و سلامتی عطا فرمائے اور
دنیا و آخرت میں سرخرو کرے ۔(آمین بجاہِ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم
) |