’’سیرتِ سرورِ دوجہاں ‘‘ از: سید اولادِ رسول قدسی پر اك
تاثر
’’سید اولادِ رسول قدسیؔ دنیاے علم و ادب کا وہ محترم نام ہے جن کی زنبیلِ
حیات میں نثر و نظم کے حوالے سے درجنوں گراں قدر لعل و جواہر جگمگ جگمگ
کررہے ہیں۔ آپ کے خامۂ زرنگار نے میدانِ شاعری میں مختلف النوع اصناف کو
محیط بڑی حسین اور دل کش لہلہاتی فصلیں اگائی ہیں۔ جس کی خوش گواریت شعر و
ادب کی فضاے بسیط کو خنک و شاداب کیے ہوئے ہے ۔
شاعری میں قدسیؔ کا خاص میدان تقدیسی صنفِ سخن ’’نعت‘‘ ہے اور وہ اس مقد س
و مکرم اورنازک ترین صنف میں مکمل طور پر کامیاب و کامران دکھائی دیتے ہیں۔
انھوں نے غزلیہ و بہاریہ اور نظمیہ شاعری میں بھی اپنی جودتِ فکر سے کئی
خوشنما اور خوب صورت اضافے کیے ہیں۔قدسیؔ عالم و فاضل اور دانا و بینافرد
ہیں۔ آپ کی شخصیت اور فکر میںبڑی وسعت اور ہمہ گیریت ہے۔ اِسی فکری تنوع
اور ہمہ جہتی نے آپ کے فن اور شخصیت کو ناقدین کی توجہ کا مرکز و محور
بنالیا ۔ اردو زبان و ادب کے کئی معتبر ناقدوں نے قدسیؔ کے فکر و فن پر کھل
کر داد و تحسین دی ہے۔ قدسی ؔ جامعہ اشرفیہ مبارک پوریعنی ایک مدرسے کے
فارغ التحصیل ہیں، اس تناظر میں آپ کی فنّی محاسن سے لبریز شعری کائنات کا
جائزہ لینے کے بعد ’’شعرِ مُرا بمدرسہ کَہ بُرد‘‘ جیسے خیال پر نظرِ ثانی
کروانے کو جی چاہتا ہے۔
اس وقت میرے مطالعہ کی میز پر قدسیؔ کی اپنی نوعیت اور ہیئت کے لحاظ سے
بالکل اچھوتی کتاب ’’ سیرتِ سرورِ دوجہاں‘‘ سجی ہوئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ
نعت نگاری اور سیرت نگاری دونوں اپنے موضوع کے لحاظ سے ہم رِشتہ سہی لیکن
دونوں کا دائرۂ اظہار مختلف ہے۔ نعت میں سرورِ دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم
سے محتاط اور پُر خلوص وارفتگی و شیفتگی اور آپکے جملہ محاسنِ جمیلہ اور
فضائل و شمائل کا اظہار شاعر کے نزدیک اہمیت رکھتا ہے۔ جب کہ سیرت میں
سرورِ دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات و واقعات ، کمالات و احسانات،
عادات و اطوار اور دیگر خصائصِ عظیمہ کو صحیح اور درست روایات کی بنیاد پر
بیان کرنا مقصود ہوتا ہے۔تاکہ مطالعۂ سیرت کے بعد قاری کو آقاے کائنات
صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت و الفت بھی پیدا ہو اورسنت و سیرت کی پیروی و
اتباع کا جذبہ بھی بیدار ہواور آپ کے مقدس شب و روز سے آگاہی ہو۔
منظوم سیرت نگاری کے میدان میں قدسیؔ سے پہلے بھی کئی شعرا نے اپنا نقش
مرتب کیا ہے۔ اُن کی یہ کاوشیں پابند شاعری پر مبنی ہیں ، جب کہ قدسیؔ نے
’’سیرتِ سرورِ دوجہاں‘‘میں آزاد نظم کی ہیئت کو استعمال کرکے سیرت نگاری
کے باب میں ایک بالکل نیا اور منفرد اضافہ کیا ہے۔ اس مقام پر یہ کہنا بے
جا معلوم نہیں ہوتا کہ آزاد نظم کی ہیئت اور ٹیکنک میں منظوم سیرت نگاروں
میں اولیت کا سہرا قدسیؔ کے سر ہی سجایا جائے گا۔
قدسیؔ کی یہ کاوشِ جمیل ’’سیرتِ سرورِ دوجہاں‘‘(اول) رسولِ اکرم صلی اللہ
علیہ وسلم کی ولادتِ طیبہ سے لے کر جنگ خندق تک کے اہم واقعات کو محیط ہے۔
۴۴۴؍ صفحات پر پھیلے ہوئے سیرتِ طیبہ کے اس منظوم گلد ستے کے مطالعہ کے بعد
کہیں بھی تشنگی کا احساس نہیں ہوتا۔ قدسیؔ نے بعض دیگر سیرت نگاروں کی طرح
سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا فرمودہ
اختیارات و تصرفات کو بیان کرنے سے گریز نہیں کیا ہے۔ بلکہ انھوں نے مبدئِ
فیاض کے بخشے ہوئے اپنے علم و عمل اور عشق کو مخلصانہ انداز میں استعمال
کرتے ہوئے ’’سیرتِ سرورِ دوجہاں ‘‘ کو عقیدے و عقیدت دونوں کا مکمل طور پر
آئینہ دار بنایاہے۔ قدسیؔ نے اس بات کا بھر پور خیال رکھا ہے کہ ’’سیرتِ
سرورِ دوجہاں‘‘ کا مطالعہ کرنے والا کسی بھی مقام پر شک و ریب میں مبتلا نہ
ہو، جیسا کہ بعض سیرت نگاروں کی کتب پڑھنے کے بعد ہوتا ہے۔ قدسیؔ نے نعت
نگاری کے اہم موضوع یعنی دشمنانِ رسول (ﷺ) کی مذمت و ہجو سے بھی اپنی کتاب
کو سجایا ہے جو آپ کی خوش عقیدگی کا مظہر ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی گہری
مسلکی وابستگی و پیوستگی کا اظہاریہ بھی ہے ۔جاننا چاہیے کہ حضرت حسان ابن
ثابت رضی اللہ عنہ کی’’ نعت گوئی کے نقطۂ آغاز ‘‘کا پس منظر ’’دشمنانِ
رسول (ﷺ) کے ہجویہ اشعار ‘‘کا جواب دینا ہی تھا ۔ اس اعتبار سے قدسیؔ نے
سیرت کے بیان میں’’ سنتِ حسان‘‘ کو اچھوتے انداز میں برتنے کی کامیاب کوشش
کی ہے۔
قدسیؔ نے آزاد نظم کے تنگناے میں سیرت نگاری جیسے مہتم بالشان اور آفاقی
وسعت کے حامل موضوع کو پیش کرنے کے لیے جن لفظیات ، محاورات ، تشبیہات،
استعارات، تلمیحات، محاکات، ترکیبات، پیکرات اور پیرایۂ اظہار و بیان کو
برتا ہے اُن میں تنوع اور فکری ہمہ جہتی اپنے پورے شباب پر دکھائی دیتی ہے۔
’’سیرتِ سرورِ دوجہاں‘‘ کا طرزِ اظہار قدسیؔ کی قادرالکلامی ، فنّی علو اور
زبان و بیان پر عالمانہ و فاضلانہ دسترس کو ظاہر کرتا ہے۔
قدسیؔ گوناگوں خصوصیات کے مالک ایک کثیرالمطالعہ شخص ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ
سیر ت نگاری میں بھی ان کا یہ وصف نمایاں طور پر دکھائی دیتا ہے۔ آپ نے
کائناتی آفاقیت کے حامل سیرت جیسے مقدس موضوع کو نظم کرنے میں زبان و بیان
کے صدر نگے جلوے بکھیرنے کے ساتھ ساتھ قرآنی آیات ، معتبر تفاسیر اور
مستند کتبِ احادیث و سیرت سے واقعات و روایات کو عطر کشید کرکے اپنی کتاب
میں بڑے احسن انداز میںسجایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ’’سیرتِ سرورِ دوجہاں ‘‘ کے
ورق ورق پر صحتِ روایات کا گہرا نقش مرتسم ہے اور سطر سطر سے عشق و احترامِ
رسالت مآب صلی للہ علیہ وسلم کی ابھرتی ہوئیں دل کش شعاعیں دل و دماغ نورِ
بصیرت عطا کرتی ہیں۔ خود آگہی، کائنات آگہی اور خدا آگہی کے آفاقی
تصورات سے ہمکنار کرنے والی قدسیؔ کی کاوشِ محترم ’’ سیرتِ سرورِ دوجہاں ‘‘
ہر اعتبار سے لائقِ تحسین و آفرین ہے۔ دعا ہے کہ سید اولادِ رسول قدسیؔ کا
اشہبِ قلم علم و فن کی کے میدان میں اسی طرح سرپٹ دوڑتے ہوئے ہمیں مستفیض و
مستنیر کرتا ر ہے ، ایں دعا از من و از جملہ جہاں آمین باد۔‘‘ |