تصوف ، سلسلۂ چشتیہ اور سرزمینِ ہند
(Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi, Hyderabad)
تصوف ، سلسلۂ چشتیہ اور سرزمینِ ہند
اللہ تعالیٰ جل شانہٗ کا یہ بے پناہ احسان اور اس کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں
ساری مخلوق میں سب سے افضل اور اشرف بنایا ۔ اور ہمیں اپنے پیارے حبیب محمد
مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں پیدا فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے ہر دور
میں اپنے بندوں کی ہدایت اور رہِ نمائی کے لیے اپنے نبیوں اور رسولوں کو
دنیا میں مبعوث فرمایا، تاکہ وہ اس کے بندوں کو کفر و شرک اور گمراہیت و
ضلالت کی تاریکی سے نکال کر وحدہٗ لاشریک جل شانہٗ کی بارگاہِ اقدس میں
سجدہ ریز کریں اور اس کی وحدانیت کا اقرار کرتے ہوئے اس کے نبیوں اور
رسولوں کی نبوت اور رسالت کو بھی سچے دل سے تسلیم کریں ۔ اللہ تعالیٰ قادرِ
مطلق ہے وہ چاہتا تو اپنے نبیوںاور رسولوں کو دنیا میں بھیجے بغیر بھی
لوگوں کو سیدھے راستے پر لاسکتا تھا کہ وہ کسی بھی معاملہ میں کسی کا محتا
ج نہیں ہے بل کہ کائنات کا ذرّہ ذرّہ اسی کا محتاجِ کرم ہے ۔ لیکن یہ اس کی
مرضی اور مشیت ہے کہ اس کے بندے بھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکرکے حق
کی راہ میں مشقتیں جھیلیں تاکہ وہ اپنے فضل اور عطا ے خاص سے انھیں بلند
درجات سے نوازے ۔
چناں چہ اللہ تعالیٰ نے اس کام کی بجا آوری کے لیے اپنے نبیوں اور رسولوں
کو عہد بہ عہد مبعوث فرمایا ۔ حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت عیسیٰ علیہ
السلام تک یہ سلسلہ جاری رہا آخر کار اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب
احمدِ مجتبیٰ محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر دروازۂ نبوت و رسالت کو بند
کردیا ۔ اب اگر اس کے بندے گمراہی اور ضلالت میں مبتلاہوں گے تو ان کی
ہدایت و رہِ نمائی کے لیے اس نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا یہ عظیم
منصب امتِ محمدیہ کے سپرد کردیا ۔اب دینِ اسلام کی تبلیغ و اشاعت اور اس کے
تحفظ و استحکام کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں علما، صلحا، صوفیہ
اور اولیا کو منتخب فرماکر ان کے مقامات کو بلند فرمادیا۔ پیارے نبی صلی
اللہ علیہ وسلم نے العلماء ورثۃ الانبیاء (علما انبیا کے وارث ہیں ) کا
مژدہ سنا کر علما کی عزت بڑھائی ۔جہاںعلماے اسلام مدارس میں اپنے درس و
تدریس اور وعظ و نصیحت کے ذریعے اسلام کی تبلیغ کا کام انجام دیں گے وہیں
اولیا و صوفیہ اپنی خانقاہوں میں بیٹھ کر بھٹکے ہوئے انسانوں کو راہِ راست
پر لانے کے لیے ان کی طہارتِ نفس اور تزکیۂ باطن کا کام انجام دیں گے ۔
یہی وہ دو جماعتیں ہیں جو انسانوں کا رشتہ فانی دنیا سے توڑ کر باقی رہنے
والی ذات خداے وحدہٗ لاشریک سے جوڑتی ہیں ۔ ان دونوں کا رتبہ اپنی اپنی جگہ
بلند وبالا ہے ۔
پوری دنیا میں اولیا و صوفیہ نے اسلام کی ترویج و تبلیغ میں جو نمایاں
کردار ادا کیاہے وہ اہلِ فہم پر روشن ہے۔ تبلیغِ دین کے لیے جہاں بادشاہانِ
اسلام اور سپہ سالارانِ اسلام نے اپنی فتوحات کے پرچم بلند کیے وہیں اولیا
ے اسلام نے اپنی روحانی توجہات سے لوگوں کے دلوں کو تسخیر کیا ۔ سرزمینِ
ہندوستان پر جواں سال سپہ سالار محمد بن قاسم رحمۃ اللہ علیہ سے لے کر
سلطان شہاب الدین غوری تک تمام فاتحین کا مقصد ہندوستان میں اسلام کی تبلیغ
و اشاعت تھا۔ ان سلاطین کے حملوں کے دوران ہندوستان میں اولیا و صوفیہ اور
علما کے قافلے بھی یکے بعد دیگرے وارد ہوتے رہے اور اسلام کی اشاعت میں
مصروف رہے ۔ جب ان بادشاہوں کو عروج و اقبال حاصل ہونے لگا تو ان کے اندر
دنیا سے محبت، جاہ و منصب اور سیم و زر کی ہوس پیدا ہونے لگی اور ان کی
ساری توجہ اپنے ذاتی وقار کی طرف مرکوز ہوگئی ، آپسی رسہ کشی اور خانہ
جنگی بھی بعض علاقوں میں ہونے لگی ۔ لیکن علماو اولیا نے ایسے دور میں دین
و مذہب کی تبلیغ کے لیے اپنے آپ کو مصروف رکھا اور بادشاہوں اور امرا کے
دربار سے دوری اختیار کیے رہے۔حقیقت تو یہی ہے کہ ہمارے ملک میں اسلام کو
جتنی تقویت ان اولیا و صوفیہ سے پہنچی و ہ بادشاہانِ زمانہ سے نہیں پہنچی
۔یہ انھیں حضرات کی انتھک محنت کا نتیجہ ہے کہ برِ صغیر ہندوپاک میں آباد
مسلمانوں کی تعدا د پوری دنیاے اسلام کے مجموعی اعداد کے شمار سے کہیں
زیادہ ہے۔
بادشاہوں اور سلطانوں نے اپنی طاقت کے بل پر ہندوستان کی زمینوں کو تو فتح
کرلیا لیکن اہلِ ہند کے دلوںپر فتح پانے میں وہ بری طرح ناکام ہوگئے ۔ یہ
کام اولیا و علما نے بہ حسن و خوبی انجام دیا اور اپنے اعلا اَخلاق و کردار
اور بے لوث خدمت کے سبب ہندوستانیوں کے دلوں کو تسخیر کرلیا ۔ یہاں کے
مقامی راجا اور نواب اپنی رعایا پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑرہے تھے ان علما و
اولیا نے اپنی کوششوں سے ان مظلوموں کے دکھ درد کا مداوا کیا اور انھیں
سکون و اطمینان کی لذت سے ہم کنار کیا ۔ ان بے نفس اور پاک باز ہستیوں کی
اخلاص و للہیت سے پر دعوت و تبلیغ کا یہ حسین ثمرہ ہے کہ آج دنیاے اسلام
میں ہندوستان اسلامی روحانیت کا ایک بڑا مرکز کہلاتا ہے ۔
بادشاہوں کی حکومتیں اور ان کا اقتدار تو ان کی نااہلی اور آپسی چپقلش کی
وجہ سے ختم ہوگیا لیکن علما و اولیا کی سلطانی اور حکم رانی آج بھی قائم و
دائم ہے جس کا نظارا ہندوستان بھر میں پھیلے ان بزرگوں کو مزارات اور مقابر
پر دیکھنے کو ملتا ہے ۔ بلالحاظِ مذہب و رنگ و نسل ان حضرات کی مزارات پر
لوگوں کا تانتا بندھا رہتا ہے ۔ برصغیر میں کفر و شرک کے اندھیروں سے اسلام
کی روشنی میں لانے والے مبلغین میں سب سے نمایاں ہستی سلسلۂ چشت کے قد
آور بزرگ سلطان الہند خواجہ غریب نواز حضرت معین الدین چشتی حسن سنجری
رحمۃ اللہ علیہ ہیں ۔ جن کی برکت سے راجپوتانہ کی سر زمین میں اسلام کی
اشاعت ہوئی اور جن کے قدموں کی برکتوں سے ہندوستان پر مسلم حکم رانوں نے
اپنی سلطنت قائم کی ۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کی ذات سے
لاکھوں انسانوں نے اسلام کا نورِ یقین حاصل کیا اورسلسلۂ چشتیہ سے منسلک
آپ کے بالواسطہ یا بلاواسطہ خلفا و مریدین نے پورے ملکِ ہندوستان میں
تبلیغِ اسلام کا وہ کارنامہ انجام دیا جسے تاریخِ اسلام میں قدر و منزلت کی
نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
پو رے ملک میں جو لوگ ان حضرات کے ہاتھوں پر اسلام قبول کرتے یہ انھیں تمام
گناہوں سے توبہ کراتے اللہ تعالیٰ کی عبادت اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی
فرماں برداری کا عہد لیتے بے حیائی و بداَخلاقی ، ظلم و زیادتی اور لوگوں
کے حقوق کی پامالی سے دور رہنے کی تلقین کرتے ، حسنِ اَخلاق کی ترغیب دیتے
اور برے اعمال و افعا ل بچنے کی تاکید فرماتے ۔ ذکرِ الٰہی اور تقوا و
پرہیزگاری کا درس دیتے ۔ یہ ان ہی پاک باز ہستیوں کی بے لوث اور مخلصانہ
تبلیغ کا اثر ہو اکہ ہندوستانی عوام کے دل ان حضرات کی طرف پھِر گئے اور
انھوں نے اسلام کی آغوش میں آجانے میں ہی دونوں جہاں کی نجات تصور کیا ۔
اللہ تعالیٰ نے ہندوستان میں لوگوں کی روحانی تربیت اور اسلام کی تبلیغ و
اشاعت اور تحفظ و استحکام کے لیے طریقت کے جس خاندان کو منتخب فرمایا وہ
سلسلۂ چشت ہے اس سلسلہ کی نام ور اور بزرگ ہستی خواجہ غریب نواز حضرت معین
الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کو ہندوستان میں اسلامی حکومت کی بنیاد سے پہلے
ہی اس بات کا غیبی طور پر اشارا مل چکا تھا کہ وہ سرزمینِ ہند کو اپنی
تبلیغی و اشاعتی سرگرمیوں کا مرکز بنائیں ۔
چشت جس کی جانب اس سلسلہ کو منسوب کیا جاتا ہے وہ خراسان میں ہرات کے قریب
ایک مشہور شہر ہے جہاںاللہ تعالیٰ کے کچھ نیک بندوں نے انسانوں کی روحانی
تربیت اور تزکیۂ نفس کے لیے ایک بڑا مرکز قائم کیا ۔ ان حضرات کے طریقۂ
تبلیغ اور رشد و ہدایت نے پوری دنیا میں شہرت و مقبولیت حاصل کرلی اور اسے
اس شہر چشت کی نسبت سے ’’چشتیہ‘‘ کہاجانے لگا۔ چشت موجودہ جغرافیہ کے مطابق
افغانستان میں ہرات کے قریب واقع ہے۔
سلسلۂ چشتیہ کے بانی حضرت ابو اسحاق شامی رحمۃ اللہ علیہ ہیں ۔ سب سے پہلے
لفظ ’’چشتی‘‘ ان ہی کے نام کا جز بنا، لیکن حضرت خواجہ معین الدین چشتی حسن
سنجری رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت نے اس سلسلہ کے پرچم تلے دعوتِ حق کا جو کام
انجام دیا اور آپ کو جو شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی اس سے لفظ’’ چشتی‘‘دنیا
بھر میں بے پناہ مشہور و مقبول ہوا۔ طریقت کے دیگر سلاسل کی طرح یہ سلسلہ
بھی حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ سے ملتا ہے ۔
برصغیر ہند وپاک میں سلسلۂ چشت کے بانی حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ
اللہ علیہ کا شجرۂ بیعت و خلافت اس طرح ہے :
(۱)سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری
(۲) حضرت خواجہ عثمان ہارونی
(۳) حضرت خواجہ حاجی شریف زندانی
(۴) حضرت خواجہ مودود چشتی
(۵)حضرت خواجہ ابویوسف چشتی
(۶) حضرت خواجہ ابو محمد بن ابی احمد چشتی
(۷) حضرت خواجہ ابو احمد ابدال چشتی
(۸)حضرت خواجہ ابو اسحاق شامی چشتی
(۹) حضرت خواجہ ممشاد علی دینوری
(۱۰) حضرت خواجہ امین الدین ابو ہیبرہ بصری
(۱۱)حضرت خواجہ سدیدالدین حذیفہ مرعشی
(۱۲) حضرت خواجہ ابراہیم ادہم بلخی
(۱۳) حضرت خواجہ ابوالفیض فضیل بن عیاض
(۱۴) حضرت خواجہ ابوالفضل عبدالواحد بن زید
(۱۵)حضرت خواجہ حسن بصری علیہم الرحمۃ
(۱۶)حضر ت علیِ مرتضیٰ رضی اللہ عنہ
ہندوستان میں چشتیہ سلسلہ کی بنیاد حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ
علیہ کے ہاتھوںسے رکھی گئی مگر ان سے پہلے خانوادۂ چشت کے جو صاحبِ کمال
بزرگ ہندوستان تشریف لائے وہ خواجہ ابو محمد چشتی ہیں جس زمانہ میں سلطان
محمود غزنوی نے سومنات پر چڑھائی کی خواجہ ابو محمد چشتی نے خواب میں دیکھا
کہ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرمارہے ہیں کہ : ’’اے ابومحمد ! تم
کو سلطان مجاہد کی مدد کے لیے جانا چاہیے۔‘‘ چناں چہ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کے حکم پر چند درویشوں کے ساتھ سومنات آگئے اور ستر سال کی عمر
میں کفار و مشرکین کے مقابلہ میں شریکِ جہاد ہوئے ایک دن جنگ میں مشرکین
غالب آگئے مسلمانوں نے راہِ فرار اختیار کی خواجہ ابو محمد چشتی نے یہ
منظر دیکھا تو اپنے مریدِ خاص خواجہ محمد کاکو کو میدان سے آواز دی اے
کاکوآگے بڑھ کاکو نے جھپٹ کر کفار پر حملہ کردیا اور اتنی بے جگری سے لڑا
کہ مشرکین کو پسپا ہونا پڑا اور لشکرِ اسلام کو فتح نصیب ہوئی۔ ( نفحات
الانس صفحہ ۵۶۰) |
|