کہتے ہیں۔ ملک عرب کا ایک بادشاہ بڑھا پے کی عمر کو پہنچ
گیا تھا۔ اسی زمانے میں اسے ایک سخت مرض نے آ پکڑا جس کے باعث وہ اپنی
زندگی سے مایوس ہو گیا اور یہ تمناّ کرنے لگا کہ موت کا فرشتہ جلد آئے اور
اسے ان تکلیفوں سے چھڑوا لے۔
انھیں ایام میں میدان جنگ سے ایک سپاہی نے اس کی خدمت میں حاضر ہو کر اسے
یہ خوشخبری سنائی کہ حضور کے اقبال کی یاوری سے ہماری فوج نے دشمن کو شکست
دے کر فلاں علاقے پر قبضہ کر لیا اور اس علاقے کے باشندے سچے دل سے حضور کے
فرمانبردار بن گئے۔
بادشاہ نے یہ خوشخبری افسردہ ہو کر سنی اور پھر آہ کھینچ کر بولا، یہ
خوشخبری میرے لیے نہیں بلکہ میرے دشمنوں کے لیے ہے۔ یعنی ان کے لیے جو میری
جگہ زمام اقتدار سنبھالنے کے لیے میرے مرنے کی دعائیں مانگ رہے ہیں ؎
تمام عمر اس امید میں گزاری ہے
کبھی تو پورا میرے دل کا مدّعا ہو گا
ہوئی ہے آج اگر آرزو میری پوری
تو دیکھتا ہوں کہ یہ سازبے صدا ہو گا
وضاحت:حضرت سعدی علیہ الرحمہ نے اس حکایت میں انسان کو اس کی آرزوؤں کے
انجام سے آگاہ کیا ہے۔ انسان کیسا بھی صاحب اقتدار بن جائے اس کا انجام فنا
ہے۔ موت مقرہ وقت پر اس کے دروازے پر دستک دے گئی اور اسے اپنا تمام سازو
سامان چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہونا پڑے گا اور اس وقت وہ محسوس کرے گا کہ
جن آرزوؤں اور تمنّاؤں کو اس نے زندگی کا مقصد وحید بنا لیا تھا ان کی
حیثیت کم قیمت کھلونوں سے زیادہ نہیں۔٭٭٭٭
|