آج کے دور کی سب سے اہم بات سوشل میڈیا اور نیٹ ہے جس کی
وجہ سے لوگ اپنی رائے کا بے دھڑک اظہار کرتے ہیں اسی کے ذریعے کئی ممالک
میں انقلابات بھی آئے اسی کو بعض قوتیں پروپیگنڈے کے لیے بھی استعمال کرتے
ہیں اس کا مثبت استعمال بھی ہو رہا ہے اور منفی بھی۔ پاکستان میں بھی سوشل
میڈیا سے شعور اجاگر ہو رہا ہے اور بڑے بڑے چہرے بے نقاب ہورہے ہیں نوجوان
سوشل میڈیا اور نیٹ کو اپنے جذبات کے اظہار کے زیادہ استعمال کر رہے ہیں
انہی نوجوانوں میں سے ایک محمد شعیب تنولی بھی ہے اس نوجوان کا تعلق ہزارہ
سے ہے یہ اپنے جذبات کے اظہار کے لیے مختلف ذرائع استعمال کرتاہے سوشل
میڈیا کے علاوہ ای میل بھیج کر بھی وہ یہ کام کررہا ہے مختلف اوقات میں ان
کی مختلف میلز ملتی رہتی ہیں جس سے ان کے جذبات کے ا ظہار کی شدت کا اندازہ
ہوتا ہے۔
بعض اوقات ان کی میلز بڑی معلوماتی ہوتی ہیں چونکہ ان دنوں پی آئی اے کی نج
کاری کا معاملہ گرم ہے دونوں ایوانوں میں بل پیش ہوچکا ہے اورحکمران پی آئی
اے کو ہر صورت میں نجی شعبے کے حوالے کرنے کا تہیہ کرچکے ہیں اس لیے اس
قومی ادارے کے بارے میں جس کے پاس جو معلومات ہوتی ہیں وہ اسے اپنے کالموں
‘سوشل میڈیا اور ای میلز کے ذریعے لوگوں سے شیئر کررہے ہیںشعیب تنولی نے
بھی اس حوالے سے اپنا حصہ ڈالنے کی کوشش کی ہے انہوں نے پی آئی کے بارے میں
ایک معلوماتی اور فکر انگیز میل بھیجی ہے جیسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا
جارہا ہے انہیں یہ اعداد و شمار کہاں سے ملے ہیں انہوں نے یہ نہیں لکھا
تاہم انہوں نے جو حقائق بھیجے ہیں وہ نہایت دلچسپ بھی ہیں اور فکر انگیز
بھی اس لیے ان کی اس ای میل کو ہم قارئین کی معلومات کے لیے پیش کر رہے ہیں
وہ لکھتے ہیں۔
”روز ویلٹ ہوٹل کا شمار امریکہ کے تاریخی ہوٹلوں میں ہوتا ہے جس کی اوپننگ
1924میں ہوئی اور یہ دنیا کے مہنگے ترین علاقے مین ہیٹن نیویارک میں واقع
ہے۔ اس میں 1015کمرے ہیں اور 52 لگژری سوئیٹس ہیں۔ یہ اچھے وقتوں کی بات
ہے، جب ہم ذرا کم کرپٹ ہوا کرتے تھے اور ہمارے ادارے انسان چلایا کرتے تھے۔
1979میں پی آئی اے نے اس ہوٹل کو اس وقت لیز پر لیا جب اس کا بزنس کچھ مندا
چل رہا تھا۔ پی آئی اے کے انوسٹمنٹ آرم نے ایک سعودی پرنس کے ذریعے یہ
شاندار ڈیل کی جس کے مطابق 20 سال بعد پی آئی اے اس ہوٹل کو خرید سکتا
تھا۔90کی دہائی میں ہوٹل کے مالک نے کورٹ میں مقدمہ کردیا کہ جس معاہدے کے
تحت پی آئی اے یہ ہوٹل خریدنے جارہا ہے، اس سے ملنے والی رقم مارکیٹ ویلیو
سے بہت کم ہے۔
پی آئی اے کی انتظامیہ اپنے سفارتخانے کے ذریعے امریکی کورٹ میں گئی اور
مقدمہ جیت گئی جس کے نتیجے میں 1999 میں پی آئی اے کو صرف ساڑھے 36 ملین
ڈالر میں یہ ہوٹل مل گیا۔2005میں مشرف دور میں پی آئی اے نے سعودی پرنس کو
40ملین ڈالر دے کر اس کے روزویلٹ ہوٹل میں موجود چند پرسنٹ شئیرز بھی خرید
لئے۔ مشرف دور میں 2006اور 2007میں پی آئی اے نے اس ہوٹل کی تزئین و آرائش
پر 65 ملین ڈالر خرچ کردیئے۔(یعنی ہوٹل کی خریدی گئی قیمت سے ڈبل میں اس کی
صرف تزئین و آرائش ہوئی)2009میں پی آئی اے نے اس ہوٹل کی مارکیٹ ویلیو
کروائی اور اسے 1 بلین ڈالر، یعنی 1000 ملین ڈالر کے عوض بیچنے پر لگا
دیا۔(جبکہ یہ ہوٹل خود پی آئی اے کو ایک ہزار ایک ملین مین میں پڑا ہے)
بدقسمتی( یا خوش قسمتی) سے اس وقت امریکہ کی اکانومی اور ہاسنگ مارکیٹ کریش
ہوچکی تھی جس کی وجہ سے یہ ہوٹل بک نہ سکا۔
ھر پی آئی اے نے اسے سیل کرنے کا پلان واپس لے لیا۔ اس ہوٹل کے اردگرد واقع
کچھ ہوٹل پچھلے چند ماہ میں فروخت ہوئے ہیں جس سے اندازہ ہورہا ہے کہ ہوٹل
سیکٹر میں انویسٹمنٹ آج کل پھر گرم ہوچکی ھے۔ روز ویلٹ کے سٹینڈرڈ کے جتنے
بھی ہوٹل مین ہیٹن کے علاقے میں پچھلے ڈیڑھ سال میں فروخت ہوئے ہیں، ان کی
اوسط قیمت 10سے 14لاکھ ڈالر فی کمرہ رہی ہے۔ روزویلٹ میں 1015کمرے ہیں اور
52انتہائی لگژری سویٹس۔ اس حساب سے اس ہوٹل کی قیمت کم سے کم بھی 1200 ملین
ڈالر یعنی 1اعشاریہ 2 بلین ڈالر تک آنی چاہیے۔
کہا جارہا ہے کہ حکومت کا پی آئی اے کو پرائیویٹائز کرنے کا اصل مقصد یہ
ہوٹل بیچنا ہے۔ اور آپ کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ حکومت نے اس ہوٹل کا سودا
اپنے قریبی فرنٹ مین میاں منشا کے ساتھ کردیا ہے۔ جاننا چاہیں گے کہ یہ
ہوٹل جس کی مارکیٹ ویلیوایک اعشاریہ 2 بلین ڈالر ہے، وہ حکومت نے کتنے میں
بیچا ہے؟ میں پورے اعتماد سے آپ کو بتا دیتا ہوں۔ یہ ہوٹل نوازشریف نے
تقریبا 9 ملین ڈالر میں بیچا ہے، یعنی اصل قیمت کا ایک پرسنٹ سے بھی کم۔جب
نیب پنجاب میں کاروائیاں شروع کرنے کا اعلان کرتی ہے تو ایسے ہی میاں
برادران کی چیخیں نہیں نکلتی۔ |