مذہب اسلام مکمل طور پر ایسا تہذیب و تمدن والا مذہب ہے
کہ جس کی اپنی تہذیب و شناخت ہے، جس کے اندر زندگی کے طور اطوار و اصول و
اسلوب واضح طور پر بیان کیے گئے ہیں،ہمارے مذہب نے زندگی کے تمام پہلوؤں کو
نمایا ں طور پر کھل کر بیان اس طرح کیا کہ ہر برائی اور اچھائی کی شناخت ہو
جاتی ہے۔مگر ہم اس مذہب کے ماننے والوں کو نہ جانے آج کل کے جدید دور میں
کیا ہو گیا ہیکہ ہم اغیار کی رسم و رواج کو فیشن سمجھ کر منانے میں بڑ ا
فخر محسوس کرتے ہوئے بڑھ چڑھ کر ایسے حصہ لے رہے ہوتے ہیں کہ جیسے کوئی اہم
فریضہ سرانجام دے رہے ہوں۔
آئیے میں آپ کو اپریل فول کی حقیقت تاریخ کے اوراق پلٹ کر بتاتا ہوں کہ یہ
کیا ہے۔۔۔؟؟؟اسپین پر مسلم حکومت کے تقریباََ آٹھ سو سالہ حکمرانی کے بعد
جب عیسائیوں نے اسپین فتح کر لیااور اس فتح کے مناظر یہ تھے کہ جب عیسائیوں
کے گھوڑے شہر کی گلیوں میں سے گزرتے تو ان کی ٹانگیں گھٹنوں تک مسلمانوں کے
خون میں ڈوب جاتی تھیں۔ اس قدر ہولناک خون ریزی کے بعد عیسائیوں کو یقین
نہیں آرہا تھا کہ سارے مسلمان شہید ہو گئے ہیں۔ مسلمان رپوشی کی زندگی بسر
کرنے لگے مگر عیسائیوں نے مل بیٹھ کر ایک منصوبہ جوڑااور ماہ ِ مارچ میں
اعلانات کرواتے رہے کہ "یکم اپریل کو تمام مسلمان غرناطہ میں اکٹھے ہو
جائیں تاکہ انہیں ان کے سابقہ ممالک میں باحفاظت بھیجا جا سکے ۔دن بدن
اعلانا ت ، الحمراء کے نزدیک بڑے بڑے میدانوں میں خیمے ، پے در پے جہازوں
کا لنگر انداز ہونا یہ سب وہ عناصر تھے کہ جنھوں نے مسلمانوں کے دلوں میں
یقین پیدا کر دیا کہ اب کوئی خوف و خطر ہ نہیں کہ ہم ظاہر ہو جائیں اور
باحفاظت اپنے سابقہ ممالک میں منتقل ہو جائیں اسی امید و آس کے ساتھ مسلمان
غرناطہ کے مقام پر جوق در جوق آرمانوں کی ڈولیاں ساتھ لے کر اکٹھا ہونے لگے
، جن میں بچے، بوڑھے ، عورتیں ، جوان ، بیمار اور زخمیوں کی ایک کثیر تعدار
شامل تھی اکٹھا ہو جانے کے بعد ان کو بحری جہاز میں بٹھا کر روانہ کر دیا
تو عین سمند ر کے وسط میں پہنچ کر جہازوں کے سوراخ کھول دیئے گئے جو کہ
افواج نے مسلمانوں کو سمندر بدر کرنے کے لیے پہلے سے منصوبہ بندی کے تحت
بنائے تھے، جہاز پانی سے بھرنے لگے تو عیسائی افواج حفاظتی کشتیوں سے راہ
فرار ہو گئی اور مسلمان سمند ر کی خاموش مگر پر اسرار لہروں میں ابدی نیند
سو گئے۔یہ خبر اسپین کے محلات تک پہنچنی تھی کہ ہر طرف خوشی کا سماں پیدا
ہو گیا گلی محلے میں یہ جشن عام کا سماں پیدا کیا گیا پھر رفتہ رفتہ یہ رسم
اسپین کی در و دیوار سے باہر نکل کر پورے یورپ میں جنگل کی آ گ کی طرح اس
قدر عام ہو گئی کہ جس کی لپیٹ میں ہم مسلمانوں کی نوجوان نسل بڑی تعداد میں
متا ثر ہو گئی اور اس دن کو First April Fool یعنی یکم اپریل کے بیوقوف کے
نام سے مشہور کر دیا گیا۔ یہ ہی نہیں کسی مقام پرآپ کو ویلنٹائن ڈے اور کسی
مقام پر رنگوں کی ہولی کی چنگاریاں سلکتی نظر آئیں گئی۔ خیر یہ علیحدہ
موضوعات ہیں ۔
افسوس صد افسوس کے ہم مسلمان یکم اپریل کو اس انداز میں مناتے ہیں کہ اس دن
کسی بھی شرعی ، اخلاقی اور معاشرتی اقدار کو سر عام اور فراغ دلی سے پس پشت
ڈال کر لوگوں کو جھوٹے پیغامات بھیجتے ہیں، حالانکہ جھوٹ اور دوسروں کو
پریشان کرنا نہ صرف اسلامی معاشرے میں برا سمجھا جاتا ہے بلکہ یہ فطری طور
پر بھی برے معاشرے کی علامت ہے، جبکہ کسی رنگ و نسل ،قوم و ملت ، دین و
مذہب کے پوری دنیا میں جھوٹ اور دوسروں کو دھوکا دینا ایک سنگین اور غیر
اخلاقی جرم و عمل سمجھا جاتا ہے۔ ہم تو پھر مسلمان ہیں اور مسلمانوں کے لئے
سرا سر غیر اسلامی و غیر اخلاقی دن کا منایا جانا اسلام کی عظیم تعلیمات
اور اخلاقی اقدار کے منافی ہے، جبکہ ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہمیں اغیار کی
اندھی تقلید کے بجائے دین اسلام کی روشن تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کے ساتھ
اپنے اندر ایسے اوصاف اور اپنی شخصیت میں ایسا نکھار پیدا کرنا چاہیے کہ
ہماری ذات سے لوگوں کو نقصان یا ان کی دل آزاری کے بجائے لوگوں کی معاونت و
خیر خواہی ہو ۔ کچھ آیات اور احادیث سے جھوٹ اور مکر و فریب سے اجتناب کے
بارے میں آگا ہ کرتا ہوں۔پس پرہیز کروبتوں کی نجاست سے اور جھوٹی بات سے
(القران سورہ الحج، آیت ۳۰) بے شک جھو ٹ وہی لوگ گڑھتے ہیں جو اﷲ کی
نشانیوں پر ایمان نہیں لاتے اور وہی لوگ جھوٹے ہیں (القران سورہ النحل،
آیت۱۰۵) سیدناابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول ﷺ کا فرمان ِ
پاک ہے کہ "منافق کی تین علامتیں ہیں جب بات کر ے تو جھوٹ بولے ، جب وعدہ
کرے تو خلاف ورزی کرے اور جب اس کے پاس کوئی امانت رکھی جائے تو خیانت کرے(
صحیح البخاری ۳۳، صحیح مسلم ۵۹) ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا کہ افسوس ہے
اس شخص پر اور درد ناک عذاب ہے جو محض لوگوں کو ہنسانے کے لئے جھوٹ بولتا
ہے، (ابو دا ود، کتاب الادب، باب فی التشدید فی الکذب، حدیث نمبر ۹۹۰)یہ ہی
نہیں ہم مسلمانوں کو یہود و نصاریٰ کے ہر کام کی تلقید سے روکا گیا ہے جیسے
کہ عاشورہ کے روزے یہود بھی اہتمام کے ساتھ رکھتے تھے تو ہم کو تاکید کی
گئی کہ اس سے پہلے یا بعد میں ایک روزہ ملا لیا کرو(بیہقی، ۸۷) وہ افطار
میں دیر کیا کرتے تھے آپ نے وقت ہونے کے بعد افطار میں عجلت کی تاکید
فرمائی (ابو داود ۳۳۵۵)سورج کے طلوع و غروب کے اوقات میں کفار بت پرستی
(عبادت) کیا کرتے تھے، ان اوقات میں مسلمانوں کو نماز پڑھنے سے منع کیا
گیا(مامسند احمد ، ۱۸۰۱) داڑھی رکھنے اور مونچوں کو کتروانے کا حکم دیتے
ہوئے کہا گیا کہ مشرکین کی مخالفت کرو(بخاری جلد ۳، صفحہ ۸۷۵) اس کے علاوہ
فقہ و حدیث کی کتابوں میں سینکڑوں مثالیں موجود ہیں مگر آج کا مسلم نوجوان
اسلامی تعلیمات سے محروم ہے، دنیاؤی معاملات میں جائز و ناجائز میں تمیز ہی
نہیں کرتا اور افسوس اس پر ہے کہ بتانے پر سمجھنے کو بھی تیار نہیں جبکہ
حقیقت تو یہ ہے کہ کسی بھی قوم کی تہذیب و ثقافت اس قوم کی پہچان ہوتی ہے،
اگر وہ اپنی تہذیب سے منہ موڑ کر اغیار کی ثقافت پر عمل پیرا ہو جائیں تو
اس قوم کی پہچان مٹ جاتی ہے، افسوس آج قومِ مسلم اپنے ازلی و ابدی دشمنان
یہود و نصاریٰ کی تمام رسم و رواج کو بڑے احسن طریقے سے نبھا رہی ہے،آخر
میں صر ف دعائیہ کلمات ہی ادا کر سکتا ہوں کہ اﷲ پاک ہم تمام مسلمانوں کو
اسلامی تعلیمات اور سیرت مصطفیﷺ اور بزرگان ِ دین کی راہ پر چلنے اور دوسری
قوموں ، کفار و مشرکیں اور یہود و نصاریٰ کی تقلید سے دور رہنے کی توفیق
عطا فرما۔۔۔آمین۔۔۔! |