سانحہ گلشن اقبال، لاہور کی اطلاع اخبارات میں کیا
آئی کہ ہر مسلمان جذباتی ہوگیا۔ پنجاب حکومت نے اعلان کیا کہ ۳؍ دن کے لئے
سوگ منایا جائے اور پرچم سرنگوں رہے ۔ سندھ کیسے پیچھے رہتا، اعلان ہوا کہ
ایک دن کا سوگ اور پرچم سرنگوں۔ قوم انگریزی کی جانب اسقدر رجوع ہے کہ اردو
سے نابلد ہو گئی ہے کہ سوگ منانے کے معنی کام چھوڑدینا اور ہڑتال کرنا ہوتا
ہے۔
وکالت کا پیشہ کسقدر اہمیت کا حامل ہے کہ دنیوی عدالتوں سے انصاف د لانے کی
ذمہ د اری انہوں نے اپنے کندھوں پر اٹھا رکھی ہے، صحیح شہادت پیش کرنا اور
مظلوم کی دادرسی کرانا انکا سب سے اہم کام ہے، جسکا معاوضہ وہ لینے میں حق
بجانب ہیں۔بلکہ کلیم منظور کرانے کے سلسلہ میں سابقہ مشرقی پاکستان سے
متعلقہ لوگ وہاں سے لاہور ہیڈ آفس آتے تھے ، پھر انہیں کہا جاتا تھا کہ یہ
کام کراچی جاکر ہوگا، جنانجہ وہ جب یہاں پہنچتے تھے تو جیب خالی ہوجاتی تھی۔
بعض حضرات نے مجھ سے اپنی مجبوری کا ذکر کیا تو ایسے وکلاء سے جنہیں میں
جانتا تھا درخواست کی کہ یہ گھر پہنچ کر آپکو فیس بھیجنے کا وعدہ کر رہے
ہیں آپ انکا کام کروادیں۔ پھر وہ وعدہ پورا ہوتا میں نے دیکھا۔
بعض نام ایسے ہیں جنہیں بھلایا نہیں جاسکتا، مثلا حسن اے شیخ مرحوم،
عبدالحفیظ پیرزادہ، ایس ایم ظفر اور فروغ نسیم ۔ جو غلط قسم کے مقدموں سے
دور رہتے ہیں اور قوانین کی باریکیوں کو سمجھ کر ان سے کامیابیاں حاصل کرتے
ہیں۔ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو پیسہ کمانے کے شوق میں انْساف کے دن کو بھول
جاتے ہیں وہ بظاہر خوش نظر آتے ہیں مگر نامعلوم طور پر قلب پر کالک غالب
آنے لگتی ہے جسکے نتیجہ میں اچھائی اور برائی کا فرق مٹنے لگتا ہے اور مزید
بیماریاں جڑ پکڑنے لگتی ہیں۔ ہمارے یہاں انگریز کا چھوڑا ہوا قانون عدالتوں
میں نافذ ہے، جس میں اتنا عقم ہے کہ کوئی مقدمہ شروع ہوجائے تو اسکا حتمی
فیصلہ ہونے میں ۲۰ ۔ ۲۵ سال بھی لگ جاتے ہیں اور سبکو یہ معلوم ہے کہ
Justice delayed means justice denied بہت سے لوگ وکیلوں کی فیسیں دینے کے
قابل نہیں ہوتے لہذا وہ اپنا حق بھی حاصل کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔
یہ ذکر کرنا رہ جائے گا کہ سوگ منانے کا مطلب جو پاکستان بار کونسل کے جاری
کردہ ا علان سے ملتا ہے وہ یہ ہے کہ آج کوئی وکیل بھی عدالت میں پیش نہیں
ہوگا۔
چیف جسٹس صاحب ملاحظہ فرمائیں کہ ایسے واقعات کا دلی دکھ کسی شقی القلب
انسان ہی کو نہ ہوگا مگر کتنے لوگ ایسے ہیں جو اس غم میں کھانا پینا چھوڑ
بیٹھیں یا روزی کمانے سے تعلق ختم کر ڈالیں، یہ بھی بھول جائیں کہ کتنی
کتنی دور سے انصاف کی تلاش میں عدالت آنے والے بے نیل و مرام واپس چلے
جائیں گے۔
میری حقیر رائے میں اس پر پابندی ہونی چاہئے کہ وکلاء صاھبان نے جب جی چاہا
عدالتیں بند کرادیں اور بیچارے ججز صاحبان بھی دیکھتے رہ گئے۔ مجھے اسکا
علم تو نہیں کہ کالے کپڑے وکلاء کے لئے تجویز کئے تھے مگر میرا خیال ہے کہ
اگر انکا لباس اگر پاکیزہ سفید ہو جائے تو حالات پہ کچھ اثر پڑیگا۔ |