ترک وزیر اعظم کا بیان کہ
اسرائیل کو اس حملے کی سزا ضرور ملے گی۔ اور ترکی اتنا کمزور نہیں کہ
اسرائیلی جارحیت کا منہ توڑ جواب نہ دے سکے۔ اور اسے ترکی سے دشمنی کی قیمت
چکانا ہوگی۔ جس طرح ترکی کی دوستی اہم ہے اس طرح نفرت بھی شدید ہے۔ ان کا
کہنا کہ سلامتی کونسل پر یہ تنقید کہ روکھے سوکھے بیانات کافی نہیں اب
نتائج سامنے آنے چاہئیں۔
اور کسی مسلم ریاست کے قائد نے ایسا شدید رد عمل ظاہر نہیں کیا۔ اسے سزا
دینے کی دھمکی نہیں دی۔ جانے یوں ترک وزیر کا بیان ایک تازہ ہوا کا جھونکہ
سا محسوس ہوا۔
ترکی مسلم خلافت کا قلعہ جسے سازشوں میں الجھا کر غیر مسلموں کے لیڈر نما
ایجنٹوں کی مدد سے ڈھے دیا گیا۔ اپنی حکمرانیوں کے شوق میں اپنا وجود بھی
کھو دیا۔ کیا خلافت کی قیمت پر شوق حمکرانی پورا ہوا۔ یا غلامی کی زنجیروں
میں جکڑ کر سرکس کے شیر بن کر رہ گئے۔
پورے عالم اسلام میں صرف بر صغیر ہی میں خلافت بچاؤ تحریک اٹھی اور بس عرب
لیڈر نما ایجنٹ تو حکمرانی کے تصور میں بد مست۔ ترکوں کی مخالفت پر کمر
بستہ تھے انہیں تو اتحادی اپنے نجات دہندہ نظر آ رہے تھے۔ جنہوں نے حوق کے
نام پر انکا استحصال کیا اور دوستی ہی دوستی میں اسرائیلی خنجر انکے سینے
میں پیوست کر دیا۔
لیکن کیا عربوں کو اتحادیوں سے وہ فیض ملا۔ کیا خلافت مل گئی جس کی توثیق
وہ غیر مسلموں سے چاہتے تھے۔ یہ باکل ایسا ہی ہے کہ چوروں اور لٹیروں کو
اپنے گھر کی رکھوالی سونپ دی جائے۔
اب بھی وقت ہے کہ متفقہ طور پر اپنی قیادت کسی اہل مملکت کو سونپ کر اتحاد
بین المسلمین کی بنیاد رکھی جاہے۔ اور امت کا استحصال بند کیا جائے۔ |