نیو ورلڈ آرڈر

یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں آئی آر میں ماسٹر کرنے کی تیاریوں میں اخبارات اور بیرونی ممالک کے سیاسی حالات جاننے کے لئے کوشاں تھا۔ یہ نواسی اور دو ہزار کا درمیانی عرصہ تھا۔ ایسے میں ایک تحریر نے مجھے بہت متاثر کیا جو میرے ذہن میں آج بھی ہے اور غیر مسلم ممالک کی مسلمان ممالک پر یلغار کی گواہ ہے۔

اس کا متن کچھ یوں تھا۔

اگر تیل پیدا کرنے والے ممالک کو پیسہ اسی طرح ملتا رہا تو دنیا کا تمام پیسہ اور دولت ان ممالک کے پاس پہنچ جائے گی اور دولت کا توازن بگڑ جائے گا۔ اس کو ہر قیمت پر روکا جائے۔ جن کے پاس دولت ہے ان سے نکلوائی جائے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کو روکا جائے۔

اب ہوا کیا اس نیو ورلڈ آڈر کی ابتدا عراق ایران جنگ سے کی گئی۔ ادھر پاکستان میں جہادی قوت تیار کر کے افغانستان میں مدخلت کرائی گئی۔ روس کا خوف دلوا کر ساری مسلم ممالک سے مجاہدین کے لئے جہاد کے نام پر اسلحے کی خریداری کے لئے رقم لی گئی۔

پہلا ٹارگٹ عراق اور دیگر عرب ممالک سے دولت کی یورپ اور امریکہ میں منتقلی۔ اور روس کے خلاف مجاہدین کی مدد کے لیے مدد کرنے پر دولت کی یورپ اور امریکہ میں منتقلی۔

اسطرح تیل کی آمدنی روک دی گئی لیکن تیل کی ترسیل ہوتی رہی۔ روس خامش ڈپلومیسی کے تحت افغانستان سے پسپا ہو کر اپنے زخم چاٹنے لگا۔

تیل پیدا کرنے والے ممالک سے دولت نکلوائی جائے
اب ان ممالک کو فکر لاحق ہو گئی کہ اتنا جدید اسلحہ جو عراق اور مجاہدین کے پاس ہے اسے کس طرح ختم کیا جائے۔ عراق سے اسرائیل کے خلاف اسلحہ کے استعمال کا خوف ادھر ہندوستان پاکستانی مجاہدین سے خوفزدہ۔

تیسرا ٹارگٹ کویت کو کر کے صدام حسین اور عراق کے تیل پر دسترس حاصل کرنا تھا۔ صدام کو اکسا کر کویت پر قبضہ کی ترغیب دلائی گئی اور اب کے ہوا صدام حسین بنایا گیا کہ اس کے پاس جراثیمی ہتھیار ہیں اور وہ کویت کے بعد سعودی عرب پر قبضہ کرے گا۔ اب کے سعودی عرب پر امریکی فوجیں اس کی حفاظت کے لئے اتار دی گئیں۔ اس جنگ میں جتنا بھی جدید اسلحہ خیریدا گیا اس کی قیمت پہلے ہی وصول کر لی گئی اسطرح وہ تیل پیدا کرنے والے ممالک کی دولت امریکہ اور یورپ منتقل مقروض کر دئے گئے۔ کویت کو آزادی دلانے کی قیمت اتنی وصول کی گئی کہ اس کی یورپ میں جمع دولت یورپی اور امریکی کمپنیوں میں منتقل ہو گئی اور وہ مقروض ہو گیا۔

بڑھتی ہوئی آبادی کی روک تھام
اس کے عملی اقدامات اس طرح دیکھے گئے کہ تیسری دنیا کی مقامی این جی اوز کو استعمال کر کے ان ممالک کی شرح پیدائش کا ریکارڈ مرتب کیا گیا۔ سب ممالک میں این جی اوز کا جال بچھا دیا گیا اور انہوں نے تیسری دنیا کے ممالک میں شراح پیدائش کا ڈاٹا مرتب کیا۔ اور اس بنیاد پر اس آبادی کو کنٹرول کرنے کے عملی اقدامات شروع کر دئے ان کو یہ فکر لاحق ہو گئی کہ اگر یہ آبادی اسی طرح بڑھتی رہی تو کل ان کا رخ بہتر روزگار کی تلاش میں امریکہ اور یورپی ممالک کی طرف ہوگا اور یہ بغیر کسی رکاوٹ کے یورپ پر قابض ہو جائیں گے۔ اور انہیں زیادہ بچوں کے مسائل سے خوفزدہ کر کے کم بچوں کی افادئیت پر اکسانا شروع کر دیا۔ اور خاندانی منصوبہ بندی کی نت نئی اسکیمیں جن میں انعامات بھی شامل تھے بہت زور شور سے شروع کر دی گئیں۔ اسے یو این کی بھی سر پرستی حاصل تھی۔ پہلا ملک بنگلادش چنا گیا۔ اور شرح پیدائش کا گراف سات فی صد سے کم ہو کر تین فیصد لے آئے جس پر بڑی خوشیاں منائی گئیں کہ ہم اتنے لاکھ بچے پیدا ہونے سے روکنے میں کامیاب ہو گئے۔

مسلمان ممالک خاص کر تیسری دنیا کے مسلم ممالک کا فیملی اسٹرکچر کو توڑنے کی کوششیں شروع کر دی گئیں کیونکہ وہاں خواتین گھروں میں رہ کر اپنے سربراہ کی تابعدار رہتی ہیں اوربچوں کی صحیح پرورش اور دیکھ بال کرتی ہیں۔ یہ با ادب اور ذہین بچے کل ہماری راہ میں رکاوٹ بن سکتے ہیں اسلیے اس میں رکاوٹیں ڈال کر اسے تباہ کرو۔

گھر کے سربراہ کو اتنا مصروف کر دیا جائے کہ وہ گھر کے معاملات سے کنارہ کش ہو جائے گھر کے مسائل حل کرنے جب عورت باہر نکلے گی تو باہر نکل کر غیر مردوں سے نگاہ چار کرے گی۔ اسطرح آہستہ آہستہ وہ معاملات میں خود مختار ہو کر اپنے مرد کے مقابلے میں کھڑی ہو جائے گی۔ جب عورت گھر سے باہر نکلے گی تو اس کا اثر بچوں کی پرورش پر پڑے گا۔ مہنگائی بڑھا کر معاشی مسائل پیدا کر دیے جائیں۔

یہ تین باتیں تھیں جن کو حقیقت کا روپ دھارتے دیکھا۔ مسلمان دنیا کی دولت کو اسلحہ کے نام پر لٹتے ہوئے دیکھا۔ صہیونی مفاد میں مسلم خون بہتے دیکھا دوستی کے نام پر ضیاء صدام کے انجام کو بھی دیکھا۔ پھر مجاہدین کوالقائدہ اور طالبان بنتے دیکھا۔ اب دہشت گردی کے نام پر پاکستان ک حدود میں روز حملوں میں مرنے والوں کی خبریں پڑھتے ہیں۔ اور امریکی دوستی کو کوستے ہیں۔
Riffat Mehmood
About the Author: Riffat Mehmood Read More Articles by Riffat Mehmood: 97 Articles with 75660 views Due to keen interest in Islamic History and International Affair, I have completed Master degree in I.R From KU, my profession is relevant to engineer.. View More