دہشت گردی کا واقعہ ہوتا ہے اور ہمارے
حکمران الفاظ کے ڈھیر لگا دیتے ہیں کہیں سے بیان آتا ہے دہشت گردوں کی کمر
ٹوٹ چکی ہے ،کسی کا خیال ہوتا ہے کہ دہشت گردی کا آخری دم ہے، کوئی اس عزم
کا اظہار کر دیتا ہے کہ دہشت گردوں سے ڈریں گے نہیں آخری دم تک مقابلہ کریں
گے اور سب سے زیادہ مدبرانہ خیال جو عوام کا خون جلا دیتا ہے کہ حملہ دشمن
کی شکست کا ثبوت ہے ۔ ساری باتیں درست ہیں دہشت گردوں کی کمر واقعی پاک فوج
کی زد میں آچکی ہے، دہشت گرد واقعات میں کمی بھی ہوئی ہے اور آخری دم تک
مقابلہ بھی کریں گے کیونکہ مجبوری ہے خواص تو باہر چلے جائیں گے عوام نے تو
ادھر ہی رہنا ہے لہٰذا چاہے نہ چاہے مقابلہ بھی کرنا ہے لیکن اس بات کی
کوئی دلیل سمجھ میں نہیں آرہی کہ گلشن اقبال پارک لاہورمیں ستر معصوم
پاکستانیوں کا خون بہا دیا گیا خاندانوں کے خاندان ختم کر دیئے گئے اور ہم
کہہ رہے ہیں کہ یہ سب دشمن کی شکست خوردگی کا ثبوت ہے ۔ عوام ان بیانات سے
تنگ آچکے ہیں اور اب تو یہ ان کے زخموں پر مرہم نہیں نمک پاشی کا کام کرتے
ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری فوج اور قانون نافذ کرنے والے دوسرے
ادارے ان سب کے خلاف بر سر پیکار ہیں اور اپنی جانوں کی پرواہ کیے بغیر ان
پر کاری ضرب لگا رہے ہیں، ہماری خفیہ ایجنسیو ں کا کردار تو یقیناًقابل
ستائش ہے جنہوں نے سینکڑوں واقعات کو ہونے سے روکا اور رپورٹس کے مطابق اب
تک 396 یقینی اطلاعات پر ایکشن لے کر انہیں روکا جا سکا۔ کل بھوشن یا دیو
کی گرفتاری تو ایک بہت بڑی کامیابی ہے لیکن واحد نہیں اور دراصل یہی وہ لوگ
ہیں جو ملک میں پھیلے ہوئے ہیں اور معاشرے میں سے اپنے مرضی کے لوگ ڈھونڈ
کر ان سے اپنے مرضی کے کام کر واتے ہیں اور یہی کام ہیں جس نے ہمارے ملک کا
امن و امان بر باد کر رکھا ہے ۔ یہ عناصر نہ صرف پر تشدد حملے کرتے ہیں
بلکہ معاشرے میں کبھی نسلی اور کبھی مذہبی منافرت پھیلاتے ہیں اور یوں ایک
ایسی ذہنیت پیدا کر دیتے ہیں جس کے خلاف ایک الگ جنگ کی ضرورت پڑ جاتی ہے ۔
ملک میں بے شمار تنظیمیں دشمن کے ایجنڈے پر کام کر رہی ہیں کہیں مذہب کا
نام لیا جارہا ہے،کہیں صوبے کا اور کہیں زبان کا،کبھی یہی دشمن تحریکِ
طالبان کا نام اپنا لیتا ہے،کبھی القائدہ،جماعت الاحرار ،لشکر اسلام اور
کبھی بلوچ لبریشن فرنٹ،بلوچ لبریشن آرمی،لشکر جھنگوی اور بہت سارے دوسرے
ناموں کے ساتھ ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے میں مصروف ہیں۔ ان کی زد پر
عوام اور خواص دونوں ہیں لیکن عوام ان کے لیے ایک آسان ہدف ہے اور نہ صرف
یہ کہ یہ دہشت گرد حملوں کے ذریعے ان کو نشانہ بناتے ہیں بلکہ معاشرے میں
نسلی اور مذہبی منافرت پھیلانے میں بھی ان کو استعمال کیا جاتا ہے اور
مختلف فرقوں کو آپس میں لڑایا جارہا ہے یہ ایک دوسرے کو کافر قرار دینے میں
اتنا ترددبھی نہیں کرتے جتنا صریح کافر کے بارے میں بھی کیا جاتا ہے کہ
پہلے اس کا مذہب اور عقیدہ تو پوچھا جائے اورپھر اسے کافر یا غیر مسلم قرار
دیا جائے۔کسی کو جنتی اور کسی کو دوزخی قرار دے دیا جاتا ہے حالانکہ یہ
اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ کس کا کونسا عمل کتنا مقبول ہوا ۔یہ لوگ چھوٹے
چھوٹے اختلافی مسائل کو اچھال اچھال کر اسے پہاڑ جتنا بڑا بنا دیتے ہیں اور
یوں دو گروہوں کو لڑا دیا جاتا ہے۔ بہر حال پاکستان اس وقت کئی اطراف سے
حملہ آوروں کی زد میں ہے اور کئی طرح کی دہشت گردی ہو رہی ہے جس کے خلاف ہر
سطح پر جنگ ضروری ہے اور ہمیں اپنی بقاء کے لیے یہ جنگ لڑنی پڑے گی اگر چہ
ہماری افواج ،خفیہ ادارے اور پولیس اپنا اپنا حصہ ڈال رہے ہیں لیکن اس جنگ
کو اب عوامی سطح پر بھی سنجیدگی سے لینا چاہیے اور عام آدمی کو یہ شعور
دینا ہو گا کہ اُس نے اس ذہنیت کو شکست دینی ہے تبھی ہم اپنے ملک کا امن
امان بحال کرسکتے ہیں ۔دراصل ہم چند سہولت کاروں کو پکڑ لیتے ہیں اور
سمجھتے ہیں کہ ہم نے مسئلے کو جڑ سے اکھاڑ دیا ہے جبکہ ہم نے صرف شاخ تراشی
کی ہوتی ہے۔حکومت اور عوام دونوں کو اس مسئلے کو سنجیدگی سے لینا چاہیے ور
نہ اگر اسے بھی فوج اور طاقت کے استعمال کے لیے چھوڑ دیا گیا تو شاید ایسا
ممکن نہ ہو سکے فوج ،پولیس،رینجرز اور ایف سی ڈی چوک میں تومظاہرین کو
منتشر کر سکتی ہے لیکن ان کی ذہنیت نہیں بدل سکتی اور جب تک ذہنیت نہ بدلی
جائے حالات نہیں بدل سکتے اور ذہنیت تب ہی بدلے گی جب ہم اپنے علاوہ دوسروں
کو بھی مسلمان سمجھنا شروع کر دیں،اس بات کو سمجھ لیں کہ اسلام تنگ نظر
نہیں اور اس نے فتنے اور فساد کے لیے ایک ہی دینی مسئلے پر مختلف نکتہء
ہائے نظر کو قبول نہیں کیابلکہ اس لیے کیا ہے کہ دنیا کو بتا سکے کہ وہ
وسیع النظر ہے بنیادی عقائد کو مکمل طور پر ایک جیسے رکھتا ہے،بنیادی مسائل
کو بھی ایک جیسا رکھتا ہے اور چھوٹی چھوٹی چیزوں پر سختی نہیں کرتا بلکہ
خود اللہ تعالیٰ چھوٹے گناہ معاف کرنے کی خوشخبری دیتا ہے لیکن یہاں گناہ
کی معافی دینا تو دور کی بات معمولی اختلافات پر کفر اور قتل کے فتوے جاری
ہوجاتے ہیں اور بات آگے بڑھ کر فرقہ وارانہ فسادات اور خونریزی پر ختم ہو
جاتی ہے۔دوسری طرف اسی ذ ہنیت نے ہزاروں معصوم پاکستانیوں اور مسلمانوں کی
زندگیاں نگل لیں ہیں۔اب ہمیں اس بات کو طے کر لینا ہو گا کہ ہمیں ہر صورت
اپنے ملک کو اس عفریت سے چھڑانا ہے اور یہ بھی سمجھ لینا ہو گا کہ بلا شبہ
ہماری فوج، پولیس،رینجرز،ایف سی اور دوسرے ادارے اپنا کام کر رہے ہیں اور
ہماری خفیہ ایجنسیاں جو معلومات دیتی ہیں اس پر کافی واقعات کو ہونے سے روک
بھی لیتے ہیں سہولت کاروں کی گرفتاری بھی عمل میں آجاتی ہے لیکن اس دائرہ
کار کو وسیع کرنا ہو گااور عوام کو اس میں شامل ہونا ہو گا ۔مساجد کو
اپنااہم کرداردا کرنا ہو گا اور علماء کو اپنے ذاتی خیالات میں اختلافات کو
دین میں اختلاف بنانے سے روکنا ہو گااور آگے بڑھ کر مثبت کردار ادا ہو گا
پھرجب پوری قوم ایک پیج پر آجائے گی تو انشاء اللہ ہم طالبان،لشکروں،فرنٹوں
اور غیر ملکی ایجنسیوں اور ان کے کار کنوں سب کو شکست دے سکیں گے۔ |