دہشت گردی کیخلاف آئی ایس آئی کا شاندار کردار
(Raja Majid Javed Ali Bhatti, )
خفیہ دشمن کے خلاف خفیہ ایجنسی کا موثر
کردار ہی کامیابی کی علامت ہوتا ہے۔ بھارتی جاسوس اور دہشت گرد کل بھوشن
یادیوکی گرفتاری اس کی ہلکی سی ایک جھلک ہے۔ 2014-15ء میں آئی ایس آئی نے
دہشت گردی کے 396بڑے حملوں کی منصوبہ بندی کا پتہ چلایا اور پورے ملک میں
بروقت اطلاعات و معلومات کی بنیاد پر یہ حملے نہیں ہونے دیئے۔ خودکش بمباری،
وی آئی پیز پر حملوں اور سکیورٹی اداروں کو نشانہ بنانے کے کئی بڑے دہشت
گردانہ منصوبوں کو ناکام بنا دیا گیا ۔ ’’را‘‘ ،تحریک طالبان پاکستان، لشکر
جھنگوی سمیت کئی فرقہ وارانہ، انتہاء پسند دہشت گرد گروپوں کے نیٹ ورک کا
پتہ بھی چلایا گیا اور اسے کمزور بھی کیا گیا۔ اسلام آباد، آزاد جموں و
کشمیراور گلگت میں 22، پنجاب میں 45، خیبر پختوانخوا اور فاٹا میں 85، سندھ
میں 56اور بلوچستان میں 188دہشت گردی کے منصوبوں کا بروقت پتا چلا کر
مجموعی طور پر 396دہشت گردی کے منصوبے بے نقاب کرکے ناکام بنا دیئے گئے۔
جنگوں اور امن کے زمانے میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کا کردار ہمیشہ سے اہم اور
مسلم رہا ہے۔ یہ کردار اگرچہ ہروقت سامنے نہیں ہوتا، لیکن پس منظر میں اس
کی حیثیت کسی بڑے جنگی معرکے میں حاصل ہونے والی کامیابی سے کم نہیں ہوتی،
جنگ میں بہت سی کامیابیاں انٹیلی جنس معلومات کی مرہون منت ہوتی ہیں، جس
جنگ میں دشمن کا چہرہ متعین ہو اور فوجیں محاذوں پر آمنے سامنے ہوں وہاں
بہت سی چیزیں عیاں ہوتی ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دشمن کب اور کس جانب
سے حملہ آور ہو سکتا ہے، حملے کی نوعیت اور اس کا کیف و کم کیا ہو گا، اس
میں کتنی فوج ہو گی اور کون سا اسلحہ استعمال ہو گا،لیکن پاکستان کو دہشت
گردی کی جس جنگ نے پندرہ سال سے زائد عرصے سے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اس
کا کوئی محاذِ جنگ نہیں، اس میں دشمن کا چہرہ سامنے نہیں، حملے کی نوعیت کا
علم نہیں، حملے کے مقام کا کوئی تعین نہیں۔ یہ بھی معلوم نہیں کہ دشمن کب
اور کس انداز میں حملہ کرے گا، کبھی وہ سرحد پر پرچم اتارنے کی تقریب میں
اکیلے خود کش حملہ آور کی صورت میں نمودار ہو جاتا ہے، کبھی بچوں کے سکول
پر باقاعدہ طور پر حملہ آور ہو جاتا ہے اور اس حملے میں بیک وقت بہت سے
مسلح لوگ دہشت گردی کی واردات کر کے اور بچوں اور خواتین کو یرغمال بنا کر
گولیاں چلاتے اور معصوم لوگوں کی جان لیتے ہیں، کبھی دو موٹر سائیکل سوار
راہ چلتے پولیس افسروں کو گولی کا نشانہ بنا دیتے ہیں، کبھی کسی جگہ راستے
میں بارودی سرنگ بچھا کر فوجی قافلے کو نشانہ بنا دیتے ہیں، کبھی دس بارہ
مسلح افراد مسافر بس کو روک کر اور اس کے اندر داخل ہو کر بیک وقت درجنوں
لوگوں کی جان لے لیتے ہیں، کبھی ہوائی اڈے کے اندر گھس کر اس کی تنصیبات کو
نقصان پہنچاتے ہیں، کبھی کسی مسجد میں مصروف نماز لوگوں کی جان لے لیتے ہیں
اور کبھی کسی گرجا گھر میں مصروف عبادت لوگوں کو نشانہ بناتے ہیں۔
جب پورا ملک ہی محاذ جنگ بن کر رہ گیا ہو اور جب یہ معلوم ہی نہ ہو کون سا
دشمن کس وقت ، کس نوعیت کی واردات کر دے گا اور کتنے لوگوں کی جان لے لے گا،
تو انٹیلی جنس ایجنسیوں کا کردار بہت بڑھ جاتا ہے، جو لوگ دہشت گردی کی اس
جنگ میں ملوث ہیں ان کے پاس نہ صرف جدید ترین ہتھیار ہیں، بلکہ انہوں نے
دہشت گردی کے نت نئے طریقوں کی تربیت بھی حاصل کر رکھی ہے، جس طرح جنگوں
میں ناگہانیت کا عنصر بہت اہمیت رکھتا ہے اور دشمن پر اچانک بے خبری میں
حملہ کر کے کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے اِسی طرح دہشت گردوں کا بھی کچھ پتہ
نہیں ہوتا، وہ کس وقت، کس انداز میں، کس شہر میں، کس نوعیت کا حملہ کریں گے
ایسے دہشت گردوں کے بارے میں انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر ہی کامیابی
حاصل کی جا سکتی ہے اور جس جس جگہ ان کے ٹھکانوں کا شبہ ہو، وہاں کے متعلق
پوری طرح معلومات حاصل کی جانی چاہئیں۔ امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ
میں جہاں جہاں بھی کامیابیاں حاصل کیں وہ سب انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد
پر ہی حاصل کی ہیں۔ ڈرون حملے تو کئے ہی انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر
جاتے ہیں، فضا سے ان حملوں کی کامیابی کا سارا انحصار زمینی معلومات پر
ہوتا ہے، جن میں بتایا جاتا ہے کہ اِس وقت ٹارگٹ کی لوکیشن کیا ہے۔ اگر
ٹارگٹ متحرک ہو تو بھی یہ دیکھا جاتا ہے کہ گاڑی کس وقت کس مقام پر ہو گی
اور جس متحرک ٹارگٹ کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اس میں مطلوبہ ہدف موجود بھی
ہے یا نہیں، زمینی معلومات ناقص ہوں تو ہدف نشانہ نہیں بنتا۔ |
|