کئی سالوں سے پاکستان حالت جنگ میں ہے ملک
میں خانہ جنگی کی سی صورت دیکھائی دیتی ہے جس میں کوئی بھی کہیں سے بھی
حملہ آور ہو جاتا ہے اور ان گندے عناصر نے کو ئی مسجد ، مندر ، چرچ ، دربار
یا بچوں کا سکول ، یونیورسٹی غرض کہ روز مرہ کی زندگی کے ہر پہلو کو نشانہ
بنایا جس سے معاشرے میں خوف کی فضا پیدا ہو ۔ یہ تھوڑے سے لوگ ہیں جو ہم پر
حاوی ہونے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن کیا وجہ ہے کہ ہم انکو قابو نہیں کر پا
رہے جس طرح ایک سچے اور کامل مومن کا پختہ ایمان ہوتا ہے اسی طرح ان کے دل
میں ایمان کے نام پر گمراہی بھر دی گئی ہے جس کی کیفیت مومن کے ایمان جیسی
ہی ہے۔
لیکن اس کے بر عکس ہماری ترجیحات کیا ہیں آخر کب تک یونہی چلتا رہے گا کتنے
بے گناہ لوگوں کی جانوں کا نظرانہ اور دینا ہو گا کیوں ہمیں سمجھ نہیں آ
رہی ہماری آنکھوں کے سامنے ہر روز ہمارے بزرگ ، بہن بھائی ، رشتہ دار ،دوست
احباب اور ہمارے تعلقات والے لوگ دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں ہم انکی نمازہ
جنازہ ادا کرتے ہیں اللہ سے توبہ استغفار کرتے ہیں انکو اپنے ہاتھوں سے قبر
میں بھی دفنا کر آتے ہیں لیکن افسوس اس انسانی سوچ اور فطرت پر کہ ہم یہ
جانتے ہوئے بھی کہ ہمیں بھی ایک دن اسی مٹی میں چلے جانا ہے ہم سے بھی قبر
میں حساب ہو گا اگر برائی کر رہے ہیں تو شدید عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا جو
دنیاوی مشکلات سے کہیں مشکل ہو گا جو دنیا کا مال ہے جس طرح یہ لوگ خالی جا
رہے ہیں ہمیں بھی خالی ہاتھ ہی جانا ہے اگر ساتھ جائے گا تو ہمارا اعمال
نامہ۔
لاہور میں جو المناک حادثہ پیش آیا پچھلے کئی سالوں سے پاکستان میں ایسے
بہت سے اور اس سے بھی درد ناک اور تکلیف دہ مناظر دیکھے اور محسوس کئےایسے
موقع پر کسی پر تنقید تو نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن بڑے افسوس اور دکھ سے
کہنا پڑھ رہا ہے ہم نے جب اپنی غلطی کو غلطی تسلیم ہی نہیں کیا تو پھر اسکا
سد باب کہا ں سے ہو گا۔
محترم وزیر اعظم نواز شریف صاحب اور وزیر اعلی شہباز شریف صاحب آپ نے پنجاب
میں اتنی بار حکومت کی تیسری بار ملک کے وزیر اعظم بنے اب پاکستان سے اور
کیا چاہے آپ کو پیچھے کیا رہ گیا ہے جس کی آپ کو طلب ہے اقتدار کے نشے
سےلیکر دولت کے خزانوں تک سب کچھ تو آپ نے لے لیا اللہ سب کو صحت و تندرستی
دے لیکن ایک دن میں نے ، آپ نے اور سب نے اسی قبر میں جانا ہے جس میں ہم
روز لوگوں کو جاتا دیکھتے ہیں اس لئے شائد آپ کو یہ موقع دوبارہ نہ ملے اسے
ہی غنیمت سمجھے اور پاکستان کی عوام پر رحم کریں اپنی غلطی نہیں غلطیاں
تسلیم کرے اور اپنی تر جیحات درست کر لیں ۔
مسلمانوں کا ایک وہ دور تھا جس کا خلیفہ وقت حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہہُ
تھے اور وہ رات کو بھید بدل کر لوگوں کے مسائل جاننے کی کوشش کرتے تھے تا
کہ انکا سد باب کر سکے لیکن آپ کو تو مسائل سامنے نظر آ رہیں ہیں اور آپ نے
آنکھوں پر اقتدار کی پٹی باندھی ہوئی ہے ۔ لندن دنیا کا بین الاقوامی اور
ترقی یافتہ شہر ہے لیکن آپ ائیر پورٹ سے لیکر شہر کے سنٹر میں کہیں بھی سفر
کر لیں آپ کو ہر جگہ سڑک اونچی نیچی ، ٹوٹی ہوئی یا پھر اسطرح لگے گا کہ جس
طرح پھٹے ہوئے کپڑے کو پیوند لگائے ہوتے ہیں لیکن پھر بھی دنیا بھر سے لوگ
سیرو تفریح ، پڑھائی اور کاروبار کی غرض سے یہاں آتے ہیں کیونکہ برطانیہ
میں ادارے مظبوط ہیں لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کی جاتی ہے پولیس غیر
سیاسی ہے ، عدالتیں لوگوں کو انصاف دیتی ہیں لوگ ٹیکس دیتے ہیں ہسپتالوں
میں لوگوں کا مفت علاج ہوتا ہے مختصر عوام کا پیسہ عوام پر لگایا جاتا ہے۔
میاں صاحب آپ تیسری بار ویر اعظم بنے ہیں آپ کو چاہئے تھا کہ ماضی سے
سیکھتے اپنی غلطی تسلیم کرتے اور پاکستان کو نئی منزل کی طرف لے کر جاتے
پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی ہے پولیس کو جدید بنیادوں پر تیار
کرتے اور سیاسی مداخلت بند کی جاتی ، سول ادارے بنائے جاتے ، عدالتیں آزاد
ہوتی لوگوں کو جلد اور سستا انصاف ملتا سول اداروں کا یہ حال ہے کہ کوئی
بھی نا گہانی صورت سے نمٹنے کے لئے ہر جگہ فوج سے مدد طلب کی جاتی ہے
ہسپتالوں کا یہ حال ہے کہ حادثے کی صورت میں ہسپتالوں میں بستر اور ادویات
دستیاب نہیں ہوتی ۔ وزیر اعظم صاحب ابھی بھی وقت ہے قبر کے عذاب سے ڈریں
کیونکہ وہاں نہ تو آپ کے سعودی دوستوں کی سفارش چلے گی اور نہ ہی کسی این
آر او پر دستخط ہو گے۔ |