کس کا کمال؟

مصطفٰی کمال کے مبینہ کمالات کے پس پردہ کس کاکمال ہے اورآئندہ مزید کیا کمالات سامنے آنے والے ہیں،بہت جلد سب کچھ سامنے آجائے گالیکن ایم کیوایم کے ڈھانچے میں ایک بھونچال ضرورآگیاہے اورہرآئے دن مصطفٰی کمال کی پریس کانفرنس میں مزیدباغیوں کی شمولیت اورانکشافات ابھی جاری وساری ہیں اوریقیناً جلدہی اس کاکوئی نتیجہ قوم کے سامنے آکررہے گا لیکن لندن اورکراچی میں متحدہ کے اندرونی حلقوں میں موجودہ ذرائع نے بتایاہے کہ متحدہ کےساٹھ فیصدارکان پارلیمنٹ اور پارٹی کے اہم عہدیداران الطاف حسین کی پالیسیوں سے سخت نالاں اورمایوس ہیں اوریہی وجہ ہے کہ انتہائی دباؤ کی بناء پراس وقت جماعت کی اعلیٰ قیادت کے اہم افرادکو کراچی میں ہی رہنے کاکہاگیاتھا لیکن اس کے باوجوداکثریت ملک سے فرارہوچکے ہیں تاکہ ایم کیوایم کی ٹوٹ پھوٹ کے بعد جوبھی نتیجہ نکلے ،اس کے مطابق وہ اپنے مستقبل کافیصلہ کرسکیں لیکن یہ بات تو طے ہے کہ متحدہ کی تنظیمی قوت کوشدیددھچکاپہنچ چکاہے لیکن کیا کمال دکھانے والوں کے مزید کمالات متحدہ کی دیوارکوآخری دھکادینے میں کامیاب ہوجائیں گے؟بظاہریہ ساٹھ فیصدمیں سے نصف تعدادسے زائدنے تحفظ کی سو فیصد یقین دہانی پرباغی گروپ کے ساتھ جانے کیلئے اپنی آمادگی کااشارہ دے دیاہے تاہم کچھ افرادالطاف سے مایوس ہونے کے باوجودماضی کے تلخ تجربوں کے سبب کوئی انتہائی قدم اٹھانے سے ابھی گریزاں ہیں۔
ان لوگوں کامؤقف ہے کہ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی الطاف سے اس لئے وابستہ ہیں کہ ان کے پاس کوئی دوسراآپشن نہیں کیونکہ وہ ماضی میں بھی دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح اس جماعت کاالگ دھڑا بنایا گیااورپھرچندبرس بعدہی اچانک پالیسی تبدیل ہوگئی اوریوں الطاف سے بغاوت کرنے والوں کے گھربار تباہ وبربادکر دیئے گئے لہندا انہیں ملک کی طاقتورشخصیت سامنے بیٹھ کربھی یقین دہانی کرائے توان کادل اعتبارپرمائل نہیں ہوگاتاہم ایم کیوایم کے اہم ذرائع کے بقول یہ مؤقف رکھنے والے افراد کایہ ضرور کہنا ہے کہ کراچی کی سیاست میں اگر کوئی بڑی تبدیلی آتی ہے تووہ خاموش رہ کراپناکردارضروراداکر سکتے ہیں لیکن ماضی کے تجربے کی روشنی میں وہ منظرعام پرآنے کیلئے تاحال آمادہ نہیں۔ بہرحال متحدہ کے جودیگرافراداورچھوٹے بڑے عہدیداران کھل کرسامنے آنے کی تیاری کررہے ہیں،ان میں ایک بڑی تعدادیونٹ وسیکٹرانچارجزکی ہے۔کراچی کی موجودہ صورتحال پرنائن زیروسے متحدہ کے انٹیلی جنس ونگ کی ایک رپورٹ بھی لندن بھیجی گئی ہے ،جس میں کہاگیا ہے کہ اب تک ایسے پانچ سے چھ سیکٹرزکی نشاندہی ہوئی ہے، جس کے کم و بیش تمام چھوٹے بڑے عہدیداران وذمہ داران اندرونِ خانہ باغی گروپ سے جاملے ہیں۔اس رپورٹ نے الطاف حسین کے بلڈپریشراورشوگرکالیول خطرناک حدتک بڑھادیاہے۔

باغی گروپ میں متوقع شمولیت کے حوالے سے اس وقت میڈیامیں متحدہ کے جن سنیئررہنماؤں کانام لیاجارہاہے،ان میں رضا ہارون اورانیس ایڈووکیٹ کی شمولیت کے بعدفیصل سبزواری شامل ہیں تاہم کراچی تنظیمی کمیٹی کے پہلے سربراہ وسیم آفتاب کی باغی گروپ میں ممکنہ شمولیت نے متحدہ کوہلاکررکھ دیاہے کیونکہ کراچہ تنظیمی کمیٹی کاپہلاسربراہ ہونے کے ناطے وہ شہرمیں پارٹی کے تنظیمی ڈھانچے کی تمام ترسرگرمیوں سے واقف ہیں جس میں مختلف مظاہروں اورکاروائیوں کیلئے پارٹی کے سیکٹروں کوہدایات کی تفصیل شامل ہے ۔ ڈاکٹر صغیراوروسیم آفتاب پارٹی وابستگی کے علاوہ مصطفٰی کمال کے انتہائی قریبی دوست بھی رہے ہیں اوریہ کہ پچھلے برس دونوں نے بیک وقت دبئی میں موجود مصطفٰی کمال سے رابطہ کیاتھا،اس میں ان تینوں کی ذاتی اور گہری دوستی کا خاصاکردارتھا۔ ذاتی دوستی کی بناء پرہی بطورصوبائی وزیر صحت ڈاکٹر صغیر نے وسیم آفتاب کومحکمہ صحت میں ملازمت بھی دلائی تھی،جہاں وہ ایک طویل عرصے تک گھوسٹ ملازم کے طورپرگھربیٹھے تنخواہ لیتے رہے،تاہم پچھلے برس سندھ حکومت نے خصوصی کاروائی کرتے ہوئے یہ سلسلہ بندکرادیاتھا،اس کے بعدوسیم آفتاب لندن چلے گئے تھے۔

کراچی تنظیمی کمیٹی کے ایک اورسابق سربراہ نیک محمدبھی باغی گروپ میں شمولیت کافیصلہ کرچکے ہیں۔ نیک محمداگرچہ پارٹی میں لوپروفائل میں رہے ہیں لیکن متحدہ سے ان کی متوقع علیحدگی اس لئے بہت اہمیت رکھتی ہے کہ جب بارہ مئی۲۰۰۷ء کاواقعہ ہواتواس وقت نیک محمدکراچی تنظیمی کمیٹی کاسربراہ تھا لہندااس وقت کے چیف جسٹس افتخارچوہدری کی کراچی آمد پر پچاس سے زائد افرادکے قتل عام کے متعلق اس کے پاس کافی رازہیں۔ ذرائع کے بقول باغی گروپ میں شمولیت کے حوالے سے قمرمنصور پربھی کام ہورہاہے، فی الحال اس نے کوئی حتمی جواب تونہیں دیالیکن ارادے ڈانوا ڈول ہیں،انکاربھی نہیں کیا۔ رینجرزکی جانب سے ''جذبہ خیرسگالی''کے طورپررہاکئے جانے کے بعدسے ویسے بھی وہ پارٹی قیادت کی نظرمیں مشکوک چل رہاہے جبکہ آنے والے دنوں میں متحدہ کے دیگررہنماء اورارکانِ قومی وصوبائی اسمبلی سہیل منصورخواجہ، ارتضیٰ خلیل فاروقی،جمال احمد،کامران اختر،محمددلاوراورسیف الدین خالدبھی باغی گروپ کوجوائن کرسکتے ہیں۔

پارٹی کے بعض ذرائع تویہاں تک دعویٰ کررہے ہیں کہ اس بات کی سوفیصدیقین دہانی کی صورت میں کہ الطاف حسین کا چیپٹراب ہمیشہ کیلئے بندکیاجارہاہے ،ڈاکٹرفاروق ستار اورخالدمقبول صدیقی بھی اپنے راستے الگ کرسکتے ہیں،تاہم فی الحال دونوں کوخدشہ ہے کہ جو کہانی چلائی جارہی ہے وہ فلاپ ہوگئی تو اس کے نتائج بھگتنے ہوں گے۔پارٹی کے یہ دونوں سنیئررہنماء عظیم احمدطارق کے خیالات سے بہت زیادہ متاثرہواکرتے تھے اوراپنے مقتول رہنماء کی اس بات سے اتفاق کرتے تھے کہ الطاف حسین کی صورت میں پارٹی قیادت مہاجروں کی نئی نسل کوتباہی کی طرف لیجارہی ہے ۔ان ذرائع نے بتایاکہ۹۲ء کے آپریشن کے دوران جب عظیم احمدطارق ،الطاف حسین کی پالیسیوں سے نالاں ہوکرحاجی شفیق کے بنگلے میں منتقل ہوگئے تھے توان کے ساتھ جانے والوں میں ڈاکٹر فاروق ستاراور خالدمقبول صدیقی بھی شامل تھے۔

ادھرگزشتہ دنوں فاروق ستارکی سربراہی میں متحدہ کے وفدنے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثارسے ملاقات کرکے مصطفٰی کمال کی جانب سے پارٹی میں ہونے والی نقب زنی کی شکائت کرتے ہوئے مددکی درخواست کی جس کے جواب میں وفاقی حکومت نے مددکرنے سے صاف انکارکردیاہے۔وزیرداخلہ نے واضح کردیا کہ ایم کیو ایم میں بغاوت کی ذمہ دارحکومت یا اورکوئی نہیں بلکہ خودان کے پارٹی لیڈر الطاف حسین ہیں۔ متحدہ کے قائدالطاف حسین کے ''را''کے ساتھ تعلقات اورپاکستان کے خلاف کام کرنے کے انکشافات نے ایم کیوایم کے اندرگہری دراڑیں ڈالی ہیں لیکن حکومت اس کے واضح ثبوت کے بغیر ایم کیوایم کے خلاف کائی کاروائی نہیں کرے گی البتہ مصطفٰی کمال کو الزامات کے ثبوت فراہم کرنے کیلئے کہاگیاہے جبکہ اس سے قبل لندن سے سرفراز مرچنت نے بھی وفاقی حکومت کومتحدہ اورالطاف حسین کے''را''کے ساتھ مبینہ تعلقات کے ثبوت فراہم کرنے کی پیشکش کی ہے جس کے جواب میں حکومت نے ابھی تک مشکوک خاموشی اختیار کررکھی ہے۔ سرفراز مرچنت پاکستانی میڈیاکو انٹرویودیتے ہوئے موجودہ حکومت کودوبارہ پیغام دیاہے کہ اس کے پاس الطاف حسین کے ''را''کے ساتھ تعلقات کے ایسے ٹھوس شواہد موجودہیں جن کی تصدیق برطانوی تحقیقاتی ادارے بھی کرسکتے ہیں۔

متحدہ کی پریشانی کاسبب بھی یہی ہے کہ وفاقی حکومت جس نے حالیہ کئی آپریشنزمیں متحدہ کی فیس سیونگ کی تھی،نائن زیرو پرچھاپے کے بعدنیٹوکے اسلحے اورقاتلوں کوپکڑے جانے کے باوجوداسے دہشتگردجماعت قرارنہیں دیا ، حتیٰ کہ اسے ضمنی انتخابات اوربلدیاتی انتخابات میں اپنی مسلح قوت کے ساتھ انتخابات میں حصہ لینے کاموقع بھی دیا لیکن اب وفاقی حکومت نے بغاوت سے پریشان متحدہ کی کسی بھی قسم کی مددسے معذرت کرلی ہے۔سیکورٹی ادارے سے قربت رکھنے والے ایک ذریعے نے بتایا کہ رینجرزکواختیارات دینے میں بھی تاخیرکی گئی اورکراچی میں وعدے کے مطابق فوجی عدالتیں نہیں بنی ،اسی سبب متحدہ کے خطرناک دہشتگردوں کوملک سے فرارکاموقع بھی ملا۔ متحدہ کی تشویش کاسب سے بڑاسبب اس کے لاپتہ ہونے والے کارکن ہیں جن کے بارے میں اس کادعویٰ ہے کہ ان کو رینجرزنے گرفتارکیاہے۔فاروق ستارکی سربراہی میں متحدہ کے وفدنے وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار سے ملاقات میں یہ مطالبہ بھی کیاکہ کراچی آپریشن میں رینجرزکوپابندکیاجائے کہ متحدہ کے گرفتار کارکنوں کے بارے میں معلومات فراہم کریں اوران پرکھلی عدالت میں مقدمہ چلایاجائے جس کیلئے چوہدری نثارنے تعاون کرنے سے معذوری کا اظہار کر دیا۔اب دیکھنایہ ہے کہ باغی گروپ کے چوبیس اپریل کے جلسے کے بعدکمال اور کیا کمال دکھائے گا!
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 390209 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.