بہار میں اردو صحافت
(Safdar Imam Qadri, India)
دنیا میں صحافت کی تاریخ آزادیِ اظہار اور
ظلم و جبر سے نبرد آزمائی کے پہلو بہ پہلو اپنے مقاصد طے کرنے کی وجہ سے
اعتبار حاصل کر سکی۔صحافت کے موّرخین نے بادشاہی نوشتہ جات اور مفادِ عامہ
کے اعلان ناموں کو صحافت کا اوّلین نمونہ مانتے ہوئے قبل مسیح عہد ہی سے
صحافت کا آغاز تسلیم کیا ہے۔ اس اعتبار سے یونان، قدیم ہندستان اور مصر میں
تاریخی طور پر صحافت جیسی اوّلین شَے کی تلاش کی جاتی ہے لیکن جدید صحافت
نے مفادِ عامّہ کی اُن تشہیری تحریروں کی اس شِق پر صحافت کی اصطلاح منطبق
کی جس کی نقلیں عوام کو دستیاب کرائی جا سکیں۔ اسی سے صحافت کی کاروباری
جہت بھی سامنے آئی اور کاغذ کے چند صفحات جن پر کچھ خبریں اور چند تاثرات
مرقوم ہوں، انھیں دنیا اور ملک وقوم کے گوشے گوشے تک پہنچا دینے کی کوشش
شروع ہوئی۔ اس سے صحافت کا دائرۂ کار تو بڑھا ہی، اُس کے حلقۂ اثر میں بھی
گو ناگوں اضافے ہوئے۔
ہندستان میں صحافت کی تاریخ ایسٹ انڈیا کمپنی کے بعض اصحاب الراے ملازمین
کی مرحونِ منّت رہی۔ ولیم بوٹس اور پھر جیمس آگسٹس ہکّی اس اعتبار سے محترم
ہیں کیوں کہ انھوں نے ہندستان میں صحافت کے موضوعات، مضامین اور مواد پر نہ
صرف یہ کہ غور کیا بلکہ اس کے عملی نمونے ظاہر کرکے اٹھارویں صدی کے اواخر
میں باضابطہ اخباری نمونے بھی پیش کیے۔ انگریزی کے بعد بنگلہ اور فارسی کے
اخبارات بھی فوراً انیسویں صدی کے آغاز میں سامنے آگئے۔ ’’جامِ جہاں نما‘‘
(1822) سے ’’دہلی اردو اخبار‘‘(1836) تک باضابطہ طور پر اردو صحافت نے خود
کو واضح سماجی اورسیاسی نقطۂ نظر کے ساتھ جوڑلیا تھا۔ اس دوران انگریزی،
بنگلہ، فارسی، گجراتی، اردو اور ہندی زبانوں کی صحافت نے اپناایک قومی منظر
نامہ مرتب کرلیا۔ دیکھتے دیکھتے کلکتہ، مدراس، بمبئی اور دلّی سے باہر
علاقائی صحافت کا آغاز بڑی سُرعت کے ساتھ نظر آتا ہے۔ انگریزی حکومت کے
پھیلنے اور متعدّد سماجی و حکومتی جبرہی تھے جن کی وجہ سے ہندستان میں عموی
طور پر علاقائی اور کثیر لسانی صحافت کا فروغ ممکن ہوا۔ 1857 سے کافی پہلے
اگر علاقائی اور کثیر لسانی صحافت کا فروغ نہیں ہوا ہوتا تو یہ ممکن ہے
کہ1857 کا انقلاب اور آزادی کی جنگ کا بہترین آغاز شاید ہی ہوپاتا۔ اردو
اور ہندستانی صحافت کا یہ ُرخ کم وبیش آج بھی اپنے واضح اور ہمہ گیر اثرات
کے اعتبار سے قائم ہے اور انگریزی کے ساتھ ساتھ علاقائی زبانوں اور
جغرافیائی خطّوں کی صحافت خوب پھل پھول رہی ہے۔
اخبارات کے مورّخین عام طور سے اردو صحافت کی جب تاریخ مرتّب کرتے ہیں تو
پہلا دور 1857 سے قبل کا مانا جاتا ہے۔ صوبۂ بہار اس اعتبار سے نہایت اہمیت
کا حامل ہے کیوں کہ بہار میں انگریزی اور ہندی صحافت سے قبل اردو صحافت کی
داغ بیل پڑ چکی تھی۔ دوسرے صوبوں میں بالعموم پہلے انگریزی صحافت نے اپنی
بنیاد رکھی اور تب علاقائی یا دیسی صحافت کا آغاز ہو سکا۔ شاید یہ اس لیے
بھی ممکن ہوا کیوں کہ بہار میں 1850ء میں شاہ کبیر الدین احمد نے سہسرام
میں ایک پریس قائم کرلیا تھا۔ شہرِ آرا سے اردو کا پہلا اخبار جولائی 1853
میں ’’نو رالانوار‘‘ نام سے شایع ہوا۔ اس اخبار کے ایڈیٹر سیّد خورشید احمد
تھے اور مالک سیّد محمد ہاشم بلگرامی تھے۔ آرا اُس وقت شاہ آباد ضلعے کا
مرکز تھا۔ اس اخبار کے سلسلے سے جن محقّقین نے بنیادی نوعیت کی اطلاعات
فراہم کی ہیں، اُن میں سیّد محمد اشرف (اختر شہنشاہی)، محمد عتیق صدیقی (ہندستانی
اخبار نویسی کمپنی کے عہد میں)، سیّد مظفّر اقبال (بہار میں اردو نثر کا
ارتقا 1857 سے 1914 تک)، رخشاں ابدالی (مقالۂ مطبوعہ رسالہ ’ندیم‘ گیا۔
1940) وغیرہ اہمیت کے حامل ہیں۔ بہار ڈسٹرکٹ گزیٹیر کے صوبائی مدیر جناب
این۔ کمار نے 1971 میں ’جرنلزم اِن بہار‘ نام سے جو کتاب شایع کی، اُس میں
بھی ’نورالانوار‘ کو بہار کی تمام زبانوں کا پہلا اخبار تسلیم کیا گیاہے۔
این۔ کمار نے اسے ہفتہ وار اخبار تسلیم کیا ہے لیکن دیگر ذراع سے اس کی
معیاد کا ٹھیک طریقے سے پتا نہیں چلتا۔ بد قسمتی سے ایسا کوئی محقّق اب تک
سامنے نہیں آسکا جس نے یہ دعوا کیا ہو کہ اُس نے اِس اخبار کا مطالعہ کیا
ہے۔ اکثر و بیش تر افراد کا ماخذ ’اخترِ شہنشاہی‘ مطبوعہ 1888 ہی ہے جہاں
نہایت ہی مختصر اطلاع ملتی ہے جس کی نقل یا نقل درنقل سے اکثر محقّقین نے
اپنے چراغ جلائے ہیں۔ ’اخترِ شہنشاہی‘ میں ’نورالانوار‘ کے بارے میں لکھا
ہے: ’’نورالانوار : آرہ ضلع شاہ آباد محلہ پھاٹک سادات بلگرام، مالک سیّد
محمد ہاشم بلگرامی اثنا عشری مہتمم سیّد خورشید احمد اثنا عشری اجراے
جولائی 1853ء‘‘ (اخترِ شہنشاہی ص 275) ۔ یہاں یہ بھی معلومات حاصل نہیں ہو
پاتیں کہ یہ اخبار کس نقطۂ نظر کا تھا اور اس کا مزاج کیا تھا یا اس کے
مشتملات کی نوعیت کیا تھی؟ کسی لائبریری یا ذخیرۂ دستاویز میں اب تک اِس کا
کوئی شمارہ کسی محقّق کو ہاتھ نہیں لگا جس کی وجہ سے خطّۂ بہار میں اردو
صحافت کی پہلی کڑی اب بھی معلومات کے اعتبار سے تقریباً گم شدہ ہی ہے اور
ہم ’نورالانوار‘ کے نام سے آگے نہیں بڑھ پاتے۔
صوبۂ بہار سے دوسرا اردواخبار ’’پٹنہ ہر کارا‘‘ تین شعبان 1271ھ بمطابق 21
اپریل 1855 کو شایع ہوا۔ یہ مہینے میں تین بار انگریزی کی پہلی، گیارویں
اور اکیسویں تاریخوں کو شایع کیا جا تا تھا۔ اس اخبار کے مالک شاہ ابو تراب
تھے جو پریس کے بھی مالک تھے۔ ایڈیٹر کا نام تو کہیں شایع نہیں ہوتا تھا
لیکن سیّد مظفّر اقبال نے یہ قیاس کیا ہے کہ شاہ ابوتراب ہی اس کے ایڈیٹر
تھے۔ 1855 کے 21 اپریل، یکم مئی، 21 مئی، یکم جون، گیارہ جون اور 21 جون کے
شمارے خدا بخش لائبریری، پٹنہ میں موجود ہیں۔ مظفّر اقبال کی اطلاع یہ ہے
کہ یہ اخبار یکم مارچ 1856 تک نکلتا رہا۔ 12 صفحات کے اس اخبار میں دو کالم
ہوتے تھے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی اور انگریزی حکومت کی طرف داری میں یہ اخبار
سرگرم معلوم ہوتا ہے۔ عیسائیت کی تبلیغ کے امور کی مخالفت میں اِس اخبار
میں مضامین شایع ہوئے ہیں۔ اس اخبار میں معاصراخبارات سے خبریں اخذ کرنے کا
خاص اہتمام ہے۔ کچھ خبریں اپنے مخصوص نمائندوں کی بھی شایع ہوتی تھیں۔ اس
اخبار نے اپنے نمائندوں کو ’منحبر‘ نام سے یاد کیا ہے جو موجودہ مذاق کے
اعتبار سے ایک علاحدہ مفہوم کا لفظ ہے اور عام طور سے منفی معنوں میں
استعمال کیا جاتا ہے۔ ’پٹنہ ہرکارا‘ نے اپنی پالیسی کچھ اس طرح سے پیش کی
تھی :
(I) ’’جو خبر مثل ہجو کسی شخص کے جس میں تذلیل وہ تحقیر کسی کی ہو، ہرگز
طبع نہ ہوگی۔ برخلاف اس کے کہ جو خبر ایسی صحیح کہ وقوع اس واقع کا بلا
تشکیل و تمہید ہو، ہر چند وہ محمول ہو اوپر قدح یا مدح کے، چار وناچار طبع
ہونا اُس کا ضرور ہوگا۔‘‘
(II) اسی سبب سے حرماں متوسطین مخوف رہے کہ حاکم، اخبار نویس سے پوچھ بیٹھے
کہ یہ خبر تم کو کہاں سے ملی جو مندرجِ اخبار کیا تو اُس وقت ایسا نہ ہو کہ
حاکم تصوّر کریں ہم بچّہ شتریت(؟) وحالاں کہ یہ تصوّر مخبر کا غلط ہے کیوں
کہ جو واقعہ صحیح و بلا تمہید نسبتِ رعایا یا حُکّام کے ہو، اُس کے لکھنے
میں کچھ قباحت نہیں ہے مگر ہم کو وہ بات نہیں لکھنا چاہیے جس میں کسی طرح
کا نقصان سرکار یا ملک کے حاکم کے برخلاف وقوع کی ہو۔‘‘ (پٹنہ ہرکارا: 21
جون 1855)
اُس وقت کی عام روِش کے اعتبار سے یہ پالیسی کُچھ زیادہ قابلِ اعتراض نہیں
ہے کیوں کہ اُس زمانے میں اخباروں کا خاص کام حکومت کی خبروں اور خاص طور
پر سرکاری احکامات کی تشہیر تسلیم کیا جاتا تھا۔ قاضی عبدالودود نے اِس
اخبار کے 14 شماروں کی تلخیص اپنے مضمون مطبوعہ معاصر (عہد جدید حصّہ 15)
میں پیش کی ہے۔ خبروں کے جو نمونے سامنے آئے ہیں، اُن سے یہ اندازہ ہوتا ہے
کہ اِس اخبار میں پورے مُلک کی خبریں شایع ہوتی تھیں اور مختلف سماجی،
سیاسی اور ادبی امور زیرِ بحث رہتے تھے۔ یہ اخبار ٹھیک غدر سے پہلے کی
واقعی صورتِ حال کیا تھی، اِسے جاننے کے لیے بھی ایک اہم ذریعہ ہے۔ قاضی
عبدالودود نے اس اخبار کے سلسلے سے جو یادداشتیں رقم کی ہیں، اُن میں 15
نمبر یادداشت سے لکھنؤ کے حالات کا اندازہ ہوتا ہے۔ دو خطوط کے حوالے سے
قاضی عبدالودود نے یہ لکھا ہے:
’’ایک خط کا یہ خلاصہ ہے کہ شاہ اودھ نے تمام شہرِ لکھنؤ میں منادی کی ہے
کہ کوئی فرد بشریہ لفظ زبان پر نہ لاوے کہ اب سرکار انگلشیہ....... اودھ کو
اپنے تحت و تصرف میں لاوے گی ورنہ ناک کاٹ لی جاوے گی۔ چنانچہ دو آدمیوں کی
ناک بہ علّت اسی جرم کے کاٹی گئی...... خلاصہ دوسرے خط کا مطابق خلاصہ قطعۂ
اوّل کے ہے مگر اسی قدر اختلاف ہے جو کوئی ایسا لفظ زبان پر لاوے گا وہ بہ
سواریِ خرشہر میں تشہیر کیا جاوے گا چنانچہ کوتوالِ شہر نے حضور میں وزیر
اعظم کے عرض کی کہ یہ خبر.....ہر خاص وعام کی زبانوں پر جاری ہے، اس قدر
گدھے کہاں سے میسّر آویں گے جو اس قدر عوام الناس سزا پاویں گے۔‘‘
[قاضی عبدالودود : چند اہم اخبارات ورسائل، ادارہ تحقیقاتِ اردو، پٹنہ۔
1993ء ص۔60]
اس اقتباس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ٹھیک غدر سے پہلے لکھنؤ کے
حالات کیا تھے اور آخری نواب اس سلسلے سے کِس سختی سے حالات پر قابو رکھنے
کا ارادہ کر رہے تھے لیکن چند دنوں میں ہی صورتِ حال بالکل بدل گئی۔ یکم
مئی 1855ء کے شمارے میں ’پٹنہ ہر کارا‘ میں یہ خبر شایع ہوئی :
’’ ناظرین اخبار ظاہر ہے کہ اس امر میں کوئی ....احکام..... صادر نہیں
ہُوا۔ جیسا کہ زبان زدعوام ہے، بلکہ اکثر خواص بھی یہی اعتقاد رکھتے ہیں کہ
سرکار بلند افتخار نے اب تک کوئی زبردستی بہ نسبت رعایا نہیں فرمائی بلکہ
ہمیشہ عدل و انصاف ہی رہا..... اور یہی باعث تھا کہ قیام سلطنت تاہنوز باقی
نہ بچا۔‘‘[ص۔۱۱]
اس اقتباس سے یقین ہوتا ہے کہ یہ اخبار کم و بیش انگریزی حکومت کا طرف دار
ہوتا تھا۔ ہر چند اس میں برطانوی حکومت کے خلاف پیدا ہورہی صورتِ حال سے
متعلّق بھی کُچھ خبریں ضرور شایع ہوتی تھیں۔ قاضی عبدالودود نے اپنے تاثرات
میں یہ جملہ درج کیا ہے : ’’پٹنہ ہرکارا کسی نقطۂ نظر سے اچھّے اخباروں میں
شمار نہیں کیا جا سکتا‘‘ لیکن اُس عہد کی صحافت کے معیار کے پیشِ نظر اس کے
مشتملات اسے معمولی اخبار قرار دینے سے گریز کرتے ہیں۔
’اخترِ شہنشاہی‘ سے بِہار کے تیسرے اخبار ’’ویکلی رپورٹ‘‘، گیا کے بارے میں
یہ اطلاع ملتی ہے کہ یہ اخبار یکم مئی 1856ء کو شروع ہوا تھا۔ اس کی مدّت
ماہانہ تھی اور 24 اوراق پر مشتمل تھا۔ اس کے مالک جے۔جے۔ رام تھے۔ ’اخترِ
شہنشاہی‘ کی اطلاع کو ہی بنیاد بناکر عتیق صدّیقی اور سیّد مظفّر اقبال نے
اپنی کتاب میں اس اخبار کا تذکرہ کیا ہے۔ سیّد احمد قادری [اُردو صحافت
بہار میں، 2003]نے گیا ضلع کی مختلف لایبریریوں میں اس اخبار کی تلاش کی
کوشش کی لیکن کامیابی نہیں ملی۔ اس اخبار کے اقتباسات یا یادداشتیں بھی
کہیں دستیاب نہیں جس کی وجہ سے اس کے طرز تحریراور صحافتی معیار پر گفتگو
کی جا سکے۔
شاہ ابو تراب کے مطبع سے لالہ بِندا پر ساد حسرتی کی ادارت میں یکم ستمبر
1856ء کو ’’اخبارِ بہار‘‘ جاری ہُوا۔ اس کے کاتب کا نام فتح بہادر تھا۔ اس
کے بیش تر شمارے 8 صفحات پر مشتمل ہیں مگر چند شماروں میں 10 سے لے کر 14
صفحات تک ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں۔ ’پٹنہ ہرکارا‘ کی طرح ہی یہ اخبار بھی
مہینے میں 3 بار یکم، گیارویں اور اکیسویں تاریخ کو شایع ہوتا تھا۔ 1856ء
اور 1857ء کے 33 شمارے منیرشریف کی خانقاہ میں محفوظ تھے جن کے مطالعے کے
بعد سیّد مظفّر اقبال نے یہ مشاہدہ درج کیا : ’’پٹنہ ہرکارا کی طرح یہ
اخبار بھی کمپنی کی حکومت کا خیر خواہ تھا۔‘‘ سیّد احمد قادری نے اس اخبار
کے جو چند اقتباسات پیش کیے ہیں، اُن سے بھی یہی نتیجہ نکلتا ہے حالاں کہ
اُنھوں نے قدیم خط پڑھنے اور نقل کرنے کے سلسلے سے فاش غلطیاں کی ہیں۔ اصل
اقتباسات ملاحظہ ہوں :
(۱) ’’عنایات سرکار : ۔ سرکار دولتمدار نے حُکم دیا ہے کہ جس وقت کسی
شاہزادہ کی یا کسی اور تنخواہ دار گورنمنٹ کی وفات کی خبر حکام مفصل کو
معلوم ہو، فوراً دوسوروپے خزانۂ سرکاری سے بلا انتظار اجازت ومنظوری
گورنمنٹ، تجہیز و تکفین کے واسطے دیا کریں۔ سبحان اﷲ کیا عنایات بے پایاں
والطاف بے کراں ہے‘‘
[’’اخبار بہار‘‘ بتاریخ یکم فروری 1857ء ص ۔10]
(۲) ’’29مئی کو کلکتہ سے یہ خبر پہنچی کہ الہٰ آباد و لکھنؤ میں کُچھ فساد
نہیں ہے اور لاہور سے یہ خبر آئی ہے کہ چاروں طرف سے فوج سرکاری پہنچ گئی
اور دہلی کا محاصرہ ہوگیا اور اس مہینے کی 8 تاریخ سپاہیان باغی کی سزادہی
کے واسطے مقرر ہوئی، یقین ہے کہ باغیوں کو سزاے اعمال مل گئی ہو۔‘‘
[’’اخبار بہار‘‘ بتاریخ 11 ؍جون 1857ء ص۔ 5]
مذکورہ اقتباسات اس بات کا واضح اشارہ کرتے ہیں کہ یہ اخبار پورے طور پر
ایسٹ انڈیا کمپنی اور برطانوی سامراج کی طرف داری پر قائم تھا۔ ایسا محسوس
ہوتا ہے کہ انقلاب جیسے جیسے قریب آتا گیا، انگریزی حکومت نے ذرائع ترسیل
بالخصوص اخبارات پر اپنی مضبوط گرفت قائم کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔
ایک طرح سے یہ اخبارات بھی بلاواسطہ طور پر عوام اور ہندستانی مجاہدین کے
واضح مخالف ہو چکے تھے۔ بعض دوسرے اخبارات کی طرح ’’اخبارِ بہار‘‘ اس کی
ایک نمایاں مثال ہے۔
بہار کے قدیم اخبارات میں ’عظیم الاخبار‘ پٹنہ بھی خاص اہمیت کا حامل ہے
کیوں کہ غدر کے فوراً بعد جولائی 1859ء مطابق 1275ھ میں یہ شایع ہونا شروع
ہوا۔ اس کی اشاعت عبدالجلیل اور سیّد محمد اسمٰعیل کے پریس سے ہوئی۔ مظفر
اقبال نے 4 ستمبر 1859 سے 5 مئی 1860ء کے درمیان کے 16شمارے ملاحظہ کیے تھے
اور اس پر اپنی کتاب میں تاثرات درج کیے ہیں۔ اس اخبار کے زیادہ تر شمارے
12 صفحات پر مشتمل ہیں۔ یہ ہفتہ وار اخبار تھا اور اتوار کو شایع ہوتا تھا۔
غدر کے بعد بہار سے شایع ہونے والا یہ پہلا اخبار تھا۔ اس کے بارے میں مظفر
اقبال نے مزید تفصیلات یوں پیش کی ہیں:
’’اس اخبار میں زیادہ تر قوانین وضوابطِ عدالت اور مختلف دیار و امصار کی
خبریں درج ہوتی تھیں۔ یہ خبریں ہم عصر اخبارات سے نقل کی جاتی تھیں اور ان
کا حوالہ بھی دیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ اخبار کے نامہ نگار بھی تھے اور ان
کی بھیجی ہوئی خبریں بھی چھپتی تھیں۔ خبروں کے علاوہ اخبار میں مختلف
موضوعات پر مضامین بھی چھپتے تھے۔‘‘
(سیّد مظفر اقبال : بہار میں اردو نثر کا ارتقا، ص ۱۴۷)
بہار کے قدیم اخبارات میں ’اخبار الاخیار‘مظفرپور کی واضح اہمیت تسلیم کی
جاتی ہے کیوں کہ یہ اخبار سرسیّد کی تحریک سے متعلّق تھا اور اس کا ایک
قومی تناظر دکھائی دیتا ہے۔ 15ستمبر 1868 ء کو مطبع چشمہ نور، مظفر پورسے
یہ جاری ہوا تھا۔ عام طور پر ہر شمارے میں 16 صفحات شامل ہوتے تھے۔ یہ
اخبار 15 روزہ تھا اور اس کے صفحات بائیں سے دائیں جانب لکھے جاتے تھے۔ اس
سلسلے سے اخبار میں کسی نے سوال کیا تو جواب میں ایڈیٹر نے 15 اپریل 1869ء
کے شمارے میں یہ وضاحت کی کہ جلد ہی اس اخبار کو انگریزی میں بھی شایع کیا
جائے گا۔ اس لیے پہلے سے ہی اس کے صفحات بائیں سے دائیں جانب کھُلیں گے۔ اس
کے پہلے ایڈیٹر بابو اجودھیا پرشاد منیری تھے۔ آغاز سے 15 ستمبر 1870ء تک
کے شمارے میں اجودھیا پرشاد کا ہی نام ملتا ہے۔ یکم ستمبر 1870ء سے دسمبر
1870 سے جو شمارے ملے، ان پر ایڈیٹر کی حیثیت سے منشی قربان علی خاں صاحب
کا نام درج ہے۔
سرورق پر ہی اس اخبار میں یہ درج ہوتا تھا کہ یہ صوبۂ بہار کی سائنٹفک
سوسائٹی کا ترجمان ہے۔ 15 جون 1869ء کے شمارے میں سائنٹفک سوسائٹی کی
سالانہ روداد کی اشاعت سے اس کی مزید وضاحت ہو جاتی ہے جس کا درج ذیل حصّہ
تحقیقی جہت سے نہایت کارآمد ہے:
’’پانچواں منشا اس سوسیٹی (؟) کا یہ ہے بملاحظہ اخبار انگلستان و ہندوستان
اور دیگر ممالک واقالیم کے ایک اخبار جو واسطے ترقّی فہم و فراست اہل ہند
کے کافی ہو اور جس سے روز بروز اتحاد و محبت فیمابین رعایہ اور گورنمنٹ کے
زیادہ ہو،چھاپ کر مشتہر کیا جاوے۔ تاریخ 15ستمبر 1868ء ایک اخبار باسم
’اخبار الاخیار‘ اسی صنعت کا مہینے میں دوبار اس سوسیٹی (؟) سے نکلتا ہے۔‘‘
اس اخبار کے سلسلے سے قاضی عبدالودود نے دو مضامین ’فکرو نظر‘ علی گڑھ اور
’مجلس‘، حیدرآباد، میں 1960ء میں شایع کرائے تھے۔ ان مضامین میں اس اخبار
سے متعلّق بے حد اہم اقتباسات درج ہوئے ہیں۔ غالب کی وفات پر ایک جون 1869ء
کے شمارے میں شاہ محمد یحییٰ ابوالعلائی کا قطعۂ تاریخ شایع ہوا ہے۔ مرزا
رجب علی بیگ سرور کی وفات کے سلسلے سے اسی شمارے میں جو خبر شایع ہوئی، وہ
کچھ یوں ہے:
’’مرزا رجب علی بیگ، سرور کی وفات سے نہایت رنج ہوا۔ مرزا صاحب مہاراجہ بنا
رس کے پاس نوکر تھے، اور اس زمانے میں بڑے نامی گرامی شعر اے اردو میں شمار
کیے جاتے تھے، جن کی کتاب ’فسانہ عجائب‘ بھی اردو میں شہرۂ آفاق ہے۔‘‘
اس اخبار کے 15 جولائی 1869ء کے شمارے سے یہ پتا چلتا ہے کہ اس سال انڈین
سول سروس میں چار امیدوار کا میاب ہوئے۔ ان کے نام بھی اخبار میں شایع ہوئے
ہیں: رمیش چندر دت، بہاری لال گپتا، سریندر ناتھ بنرجی، شری پدماباجی
ٹھاکر۔ انگریزی اخبار پایونیر کے حوالے سے 15 جولائی 1869ء کے شمارے میں اس
اخبار نے لکھا ہے کہ ’’وہابیوں سے جیل خانہ آباد ہوتا جارہا ہے‘‘۔ اسی طرح
شمارہ بابت 25 اکتوبر 1869ء میں یہ خبر شایع ہوئی ہے کہ ’’ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر
اس امر پر مامور ہوئے تھے کہ ایک کتاب تالیف کریں جس میں ......... مشہورو
شریف خاند ان ہائے اہلِ اسلام کا احوال بخوبی بیان کیا جائے‘‘۔ 15 اکتوبر
کے شمارے میں ایک خبر شایع ہوئی ہے : ’’بمبئی میں ایک نیا مذہب معراج پنتھ
جاری ہوا۔ ہندو اور مسلمانی مت دونوں کی شرکت سے اور معتقدین اس کے شری
کرشن جی کو بھی مانتے ہیں اور حضرت محمد کو بھی‘‘۔
’اخبار الاخیار‘ چوں کہ سائنٹفک سوسائٹی، صوبۂ بہار کا ترجمان تھا، اس لیے
اس اخبار کے مشمولات میں سرسیّد احمد خاں کے امور زیرِ بحث نہ آئیں، یہ
کیسے ممکن تھا؟ قاضی عبدالودود نے اپنے مضمون (اخبارالاخیار، مظفرپور اور
سیّد احمد خاں) میں ایسے اہم نوشتہ جات جمع کرنے کی کوشش کی ہے جس سے
سرسیّد، سائنٹفک سوسائٹی اور دیگر متعلقات واضح ہوجائیں ۔’ اخبارالاخیار‘
کی اشاعت کا یہ وہی زمانہ ہے جب سرسیّد احمد خاں ہندستان سے انگلینڈ گئے
اور پھر واپس ہوئے۔ اس اعتبار سے اس اخبار کے بعض مندرجات قومی اور سماجی
معاملات میں ہمیں نئے سرے سے تجزیہ کرنے کے لیے مجبور کرتے ہیں۔ 15
جولائی1869ء کے شمارے میں سرسیّد کو حکومتِ برطانیہ کی طرف سے کے۔ایس۔آئی۔
کا اعزاز ملنے پر مبارک باد دی گئی ہے اور پھر ولایت کے سفر کے اسباب و
علَلْ پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس سلسلے سے یکم ستمبر کے اخبار سے ایک
اقتباس ملاحظہ ہو:
’’سفرِ ولایت کی ترغیب!‘‘...فی زماننا ہماری سوسیٹی کے لیف آنریری سکریٹری
جناب مولوی سیّد احمد خاں صاحب بہادرکے۔ ایس۔ آئی۔....اپنی ذاتی ہمت کی
بدولت لندن میں پہنچے اور اولوالعزمی ہندستانیوں کی جبلی عادت کے برخلاف
ہوئی،....جب تک ہندستانی رعایا خاص لندن میں جاکر اپنی ملکہ معظمہ کی دلی
توجہ اور اہل یورپ کے اس ذاتی اخلاق کو جو وہ اپنے ملک میں مسافروں کے حال
پر مبذول فرماتے ہیں، آنکھ سے نہ دیکھ لیں گے، ہر گز اس کے جی میں اپنی
گورنمنٹ کا پکّا خلوص پیدا نہ ہوگا۔ اور جو حق گورنمنٹ کا اس پرواجب ہے، اس
سے پورا ادانہ ہوگا۔جب مولوی صاحب لندن گئے تو تمام ممبران انڈیا کونسل سے
ملاقات ہوئی اور چند ممبران پارلیمنٹ بھی ان سے ملے اور یہ سب صاحب
نہایت...اخلاق کے ساتھ پیش آئے اور یقین ہے کہ اب وہ بہ حضور...سکریٹری آف
اسٹیٹ بھی باریاب ہوئے ہوں گے۔ جب مولوی صاحب.. وہاں کسی جلسے میں بلائے
جاتے ہیں تو ارباب جلسہ ان کی خاطرداری میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کرتے۔
سرجان لارڈ بہادر گورنر جنرل سابق کی عنایتیں ہرگز بیان میں نہیں آسکتیں۔
دو مرتبہ خاص مولوی صاحب کی فرودگاہ پر تشریف لائے اور ایک جلسے میں خاص
مولوی صاحب کی نسبت اپنی ایک اسپیچ میں بہت کچھ فرمایا اور بدرجۂ غایت
تعریف و توصیف کی‘‘
اس شذرہ سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ غدر کے بعد کے زمانے میں برطانوی
حکومت سے تعاون کرنے کی جو مہم چلائی گئی تھی، اس کے پیچھے کون سے نفسیاتی
عوامل کام کر رہے تھے۔ ہندستانِ جدید کی تاریخ سے نسبت رکھنے والوں اور
بالخصوص علی گڑھ تحریک کے مورخین کے لیے مذکورہ عوامل تجزیے کی نئی راہ
تلاش کرنے میں امداد پہنچائیں گے۔ ’اخبارالاخیار‘ میں خطباتِ احمدیہ کے
اشتہارات اور اس کے مشمولات کے بارے میں بھی واضح طور پر گفتگو کی گئی ہے۔
پروفیسر شاہ مقبول احمد کلکتّہ کی تحویل میں ’اخبار الاخیار‘ مظفر پور کے
43 شمارے بابت 15 اپریل 1869ء تا 15 دسمبر 1870 ء محفوظ تھے جن سے قاضی
عبدالودود اور سیّد مظفر اقبال نے استفادہ کیا تھا۔ لیکن ان کی وفات کے بعد
اب وہ شمارے کس حال میں ہیں، اس کا اندازہ مشکل ہے۔
انیسویں صدی کے اخبارات میں بہار سے نکلنے والے ’انڈین کرانیکل‘ کو ایک خاص
اہمیت حاصل ہے۔ یہ ہفتہ وار اخبار تھا اور 16صفحات پر مشتمل ہوتا تھا۔ ہر
سوموار کو یہ شایع ہوتا تھا۔ اس کے اوّلین ایڈیٹر منشی رحمت اﷲ تھے۔ کچھ
زمانے تک یہ ہفتے میں دوبار بھی شایع ہوتا تھا۔ 1885 میں اس کا نام ’اردو
انڈین کرانیکل‘ ہوا اور اس کے ایڈیٹر عبدالغنی استھانوی ہوگئے تھے۔ اس
دوران یہ اردو کے علاوہ انگریزی میں بھی شایع ہونے لگا تھا۔ 26 فروری 1886ء
کے بعد کچھ دنوں کے لیے یہ اخبار بند ہوگیا۔ اور پھر ’اردو بہار ہرلڈ و
انڈین کرا نیکل‘ کے بدلے ہوئے نام سے جاری ہوا اور سوموار کی جگہ اس کی
اشاعت کا دن سنیچر مقرر ہوا۔ اس اخبار کے مالک پٹنہ کے مشہور بنگالی وکیل
بابو گرو پرساد ہوئے۔ یہ آخری طور پر کب بند ہوا، اس کی اطلاع کسی محقق کے
پاس نہیں ہے۔
رسالہ معاصر، پٹنہ کے حصّہ تین بابت ماہ دسمبر 1959ء میں قاضی عبدالودود نے
اس اخبار کے متعدّد شماروں کا بہ تفصیل تعارف کرایا تھا۔ معاصر کے حصّہ
پانچ میں ’اردو بہار ہرلڈوانڈین کرانیکل‘ کے چند شماروں کا تعارف قاضی
عبدالودود نے اپنے ایک دوسرے مضمون میں کرایا۔ یہ دونوں مضامین رسالہ معاصر
کی تقطیع کے اعتبار سے 99صفحات پر مشتمل ہیں جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل
نہیں کہ قاضی عبدالودود نے 1884، 1885 ، 1886اور 1887 کی اشاعتوں کی معقول
تلخیص اپنے اس مضمون میں پیش کر دی ہوگی۔
اس اخبار کے ایڈیٹر کا نام شایع نہیں ہوتا تھا لیکن 13اپریل 1885 کے شمارے
میں اخبار کے مدیر کی ترجمہ شدہ ایک کتاب کا اشتہار چھپا ہے جس میں مدیر
اور مترجم کا نام سیّد عبدالغنی درج ہے۔ قاضی عبدالودود نے یہ بھی قیاس کیا
ہے کہ دسمبر 1884 میں شاد عظیم آبادی کی تصنیف ’نوائے وطن‘ پر جو تفصیلی
تبصرہ شایع ہوا ہے، وہ بھی سیّد عبدالغنی کا ہی لکھا ہوا ہے۔ قاضی صاحب کا
اندازہ ہے کہ ’’یہ غالباً وہی بزرگ ہیں جو استھاواں ضلع پٹنہ کے رہنے والے
تھے اور بعد کو ریاستِ حیدر آباد میں ملازم ہوگئے تھے۔ قاضی عبدالودود نے
اس اخبار کے مشتملات کی تعریف کی ہے اور اسے صحافت کے معیار پر تولنے کی
کوشش کی ہے۔ ان کا خیال ہے:
’’کرانیکل خبریں بھی دیتا تھا اور جمہور کے خیالات کی ترجمانی اور رہنمائی
بھی کرتا تھا۔ عموماً اہم امور کی طرف زیادہ اور غیر اہم کی طرف کم توجہ کی
جاتی تھی۔ مگر خبروں کے متعلّق اتنی احتیاط نہ ہوتی تھی کہ کوئی غلط بات
شایع ہی نہ ہونے پائے.......... مقالات افتتاحی عموماً بصیرت افروز ہوا
کرتے تھے اور بڑی بے باکی سے لکھے جاتے تھے۔ میرے نزدیک اس زمانے کے اردو
اخباروں میں شاید ہی کسی کے مقالاتِ افتتاحی کرانیکل کے مقالاتِ افتتاحی کا
مقابلہ کر سکتے ہیں۔ اور ان میں متعدّد ایسے ہیں کہ اس زمانے میں بھی کسی
کے قلم سے نکلیں تو مستحقِ تحسین قرار پائیں۔ اس اخبار کی ایک خصوصیت یہ
بھی ہے کہ یہ ہندو مسلمان دونوں کا اخبار تھا۔‘‘
1885 کے 21ستمبر کے شمارے میں مدیر کی طرف سے جو مضمون بعنوان ’’لڑکوں کے
اخلاق اور ٹھیئٹر‘‘ شایع ہوا ہے، وہ مدیر کے بالغ نظر اور سنجیدہ ہونے کی
نشاندہی کرتا ہے۔ اس مضمون سے یہ بھی سمجھ میں آتا ہے کہ سرسیّد کی تحریک
اور اس کے اثرات میں افادہ بخش ادب کی ترویج و اشاعت کا زور یہاں بھی قائم
تھا۔ مدیر اُن کے اثرات سے لاتعلّق نہیں دکھائی دیتے۔ مدیر کے یہ خیالات جو
ٹھئیٹر کے بارے میں ہیں، قاضی عبدالودود کا خیال ہے کہ یہ فنونِ لطیفہ کی
دیگر شاخوں پر بھی منطبق ہو سکتے ہیں۔
اس اخبار نے صحافت اور صحافیوں کے معیار اور مزاج کے بارے میں بھی گفتگو
کی۔ 2مارچ 1885 کے اخبار میں دیسی اخباروں کے بارے میں لفٹیننٹ گورنر،
بنگال کی رپورٹ کا تجزیہ کرتے ہوئے مدیر نے دیسی اخباروں کے سلسلے سے سرکار
کی لعنت وملامت پر اختلاف درج کرایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انگریزی اور دیسی
دونوں اخبارات حکومت کے کاموں کے احتساب میں ایک جیسی زبان کا استعمال کرتے
ہیں۔ اس حالت میں صرف دیسی اخباروں کو نشانہ بنانا درست نہیں۔ قاضی
عبدالودود نے اس اخبار کے مدیر کے نقطۂ نظر کو پیش کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’مدیرِ کرانکل کے نزدیک ایڈیٹر کو اعلا اخلاقی صفات کا حامل ہونا
چاہیے...... اس کا خیال تھا کہ آزاد اخبار نویسی خطرے سے خالی نہ تھی، اس
لیے کہ حکومت نکتہ چینی کو پسند نہیں کرتی‘‘
اخبار ’رفیقِ ہند‘ کے مقدمے کے سلسلے سے، جس میں اخبار کے مدیر محرم علی
چشتی کو ایک ماہ کی سزا ہوئی تھی، 13 اپریل 1885کے کرانیکل میں مدیر نے بہت
صفائی سے اپنی بات درج کی ہے جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ’اردو
کرانیکل‘ کیسا سلیقہ شعار اور ہوش مند اخبار تھا۔ صحافت کے معیار اور ذمہ
داریوں پر غور کرتے ہوئے اردو کرانیکل کا یہ اقتباس ملاحظہ ہو:
’’ ’رفیق ہند‘، لاہور کے نوجوان ایڈیٹر محرم علی چشتی کا واقعہ ایسا نہیں
ہے جس پر افسوس نہ آئے۔ جن لوگوں نے دیوان داس مل کے مقدمے کی کاروائیاں
پڑھی ہیں، وہ بہ خوبی جانتے ہیں کہ یہ ایڈیٹر اس سزا کا مستحق نہ تھا۔ مسٹر
پارکر کا دل بُرے جذبات سے خالی ہوتا تو صرف جرمانے کی سزا بھی کافی ہوتی،
اور اگر ان کے دل کے پھپھولے بغیر قید کے نہیں ٹوٹ سکتے تھے، توقید ہی کی
ایسی سزا کیوں نہیں دی جو اپیل کے قابل ہوتی؟ عموماً اردو اخباروں اور
پنجاب کے عوام وخواص نے مظلوم ایڈیٹر کی ہمدردی کی۔ جو دیسی ایڈیٹر آزادی
کا دل دادہ، سچائی کا عاشق ،پبلک کا بہی خواہ، حکّام کا نکتہ چیں، خوش آمد
سے بیزار، جھوٹ سے متنفر ہوگا، وہ اس تعصب کے زمانے میں ضرور... ایسے روزِ
بد کے لیے آمادہ ہو گا؛ البتہ جس نے اپنے اخبار کو صرف ٹکا کما کھانے کا
ذریعہ اور بھیک کا ٹھیکرا بنا رکھا ہے، وہ اپنے کو محفوظ کر ایسے آزاد
منشوں پر ہنسے گا۔ ’کوہ نور‘ کی جگر خراش تحریروں کو جو اس مقدمے کے بارے
میں چھپی ہیں، ہم نے برابر نہایت حیرت و افسوس کے ساتھ پڑھا .....کسی شریف
اور فیاض دل سے ہرگز یہ نہیں ہو سکتا کہ کسی انسان کی مصیبت پر، گو وہ اس
کا دشمن ہی کیوں نہ ہو، خوشی منائے۔‘‘
’اُردو انڈین کرانیکل‘ کے 19 جنوری 1884ء کے شمارے میں ہندستان کی نوکرشاہی
کے بارے میں خاصی تنقیدی گفتگو کی گئی ہے۔ سِول سروس کے عہدے داران کے مزاج
پر اس اخبار نے ایک احتسابی رویّہ قائم کررکھا ہے۔ اخبار نے شمارۂ مذکور
میں لکھا ہے :
’’ہندستان کی زندگی کے لیے سول سروس آفتِ ناگہانی ہے....ہمارا مطلب خود سول
سروس کا عہدہ نہیں ... بلکہ ایسے سویلین ہیں جن کے دماغ میں خیالاتِ بے
ہودہ بھرے ہوئے ہیں اور جن کا دبانا....بڑے بڑے قوانین..... اور ملکی حقوق،
باقاعدہ آزادی کی لمبی چوڑی تقریروں سے کہیں زیادہ ضروری ہے۔ سویلین کی
زیادتیوں...کی مثالیں ...فطرتِ انسانی کی معمولی ابتری و خرابی کی مثالیں
نہیں بلکہ وہ لگاتار اور بلاارادہ اصرار وہٹ کی مثالیں ہیں۔‘‘
یکم جون 1884ء کے کرانیکل میں سول سروس کے افراد کے کام اور اُن کی
تنخواہوں سے اس کا موازنہ کرتے ہوئے پھر ایک تنقیدی خبر شایع کی گئی ہے۔
اسے ملاحظہ کیا جائے :
’’باوجود اس کے کہ ڈال کے ٹپکے ہوئے سویلین اس قدر زیادہ تنخواہیں پاتے ہیں
کہ کسی ملک میں نہیں ملتیں، اس پر بھی اپنی بدنصیبی کی شکایت ہی کرتے ہیں۔
آسام اور اضلاع متوسطہ کے چیف کمشنر اور کلکتہ ہائی کورٹ کے چھوٹے چھوٹے
جج...... برطانیہ کے وزیراعظم کے برابر اور اوّل درجے کے مجسٹریٹ
ضلع........ جرمنی کے چانسلر کے برابر تنخواہیں پاتے ہیں۔‘‘
اِن شذرات سے یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ یہ اخبار معاملات کو غور وفکر کے
ساتھ پیش کرتا تھا۔ 10 اگست 1884ء کی ایک خبر اور جس میں انگریز حاکم کی
جانب سے ہندستانیوں کے بارے میں نامناسب الفاط استعمال کرنے کا تنازعہ
سامنے آتا ہے، اس کے مطالعے سے اخبار کے خبرنویس کی سُوجھ بُوجھ اور صحیح
تناظر میں واقعات کا تجزیہ کرنے کی صلاحیت ظاہر ہوتی ہے۔ اصل اقتباس ملاحظہ
ہو
’’سول سروس کے ایک لائق ممبرلیڈمین کی عادت تھی کہ اُن کی عدالت میں
جو...داد خواہ ہوا کرتے تو ان سے نہایت مہربانی کے ساتھ لفظ بدمعاش، سور،
حرام زادہ وغیرہ سے خطاب فرمایا کرتے..... کپتان ہیرسے کو ایسے غیر
مہذّبانہ الفاظ چند مقتدر دلیسیوں کے حق میں استعمال کرتے دیکھ کر رنج ہوا،
اور انھوں نے....... گورنمنٹ... کو اطلاع دی۔ سرالفرڈ لائل صاحب نے یہ سمجھ
کر کہ سول سروس کے ممبر پر ایسے سخت الزام لگانا نہایت معیوب ہے، حکم دیا
کہ کپتان پر ہتک عزّت کی نالش کریں..مگر...کپتان نے ثابت کردیا کہ مسٹر
لیڈمین فی الواقع الفاظ کا استعمال کرتے ہیں، اور مقدّمہ خارج ہوگیا۔ ہم
کپتان...کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں...دیکھا چاہیے کہ اب گورنمنٹ مسٹر
لیڈ مین سے کیا برتاؤ کرتی ہے۔ اگر وہ.... دیسی ہوتے تو ہم کہہ سکتے کہ
گورنمنٹ...کیا....کرے گی۔‘‘
22 جنوری 1887 ء کے شمارے میں ایک طویل مراسلہ ہندو مسلمانوں کے سلسلے سے
بعض انگریزوں یا طرف دارانِ انگریز کے خیالات سے شدید اختلاف کرتے ہوئے
شایع کیا گیا ہے۔ اس میں سیّد احمد خاں کے اُس نقطۂ نظر سے بھی اختلاف کیا
گیا ہے جو بالآخر دو قومی نظریے کی شکل میں آدھی صدی کے بعد اُبھر کر سامنے
آیا۔ اخبار نے لکھا :
’’اس سے بڑھ کر کوئی جھوٹ نہیں ہے کہ ہندو اور مسلمانوں میں عداوت اس سے
بڑھ کر ہے جو انگلستان میں متفرق مذہبوں میں نظر آتی ہے، ہوگی یا ہو سکے
گی۔ یہ ایک واقعہ ہے کہ دس میں نو ہندو مسلمانوں میں کوئی عداوت نہیں ہے،
گویہ ....چھوٹا سا فرقہ...ہر ایک کوشش اس کے پیدا کرنے کی کررہا ہے..پھر یہ
خیال کرنا بالکل غلط ہے کہ ایک پارلیمنٹ میں سب ہندو ایک جانب ہوں گے اور
مسلمان ایک جانب.... میں ایڈیٹر علی گڑھ اِنسٹی ٹیوٹ گزٹ سے عرض کرتا ہوں
کہ وہ لکھ رکھے کہ، نہ تو کسی شخص نے اب تک تجویز کی اور نہ خیال کیا اور
نہ جہاں تک مُجھ کو واقفیت ہے ہندستان میں پارلیمنٹری گورنمنٹ کا ذکر کیا
ہے۔‘‘
19 ویں صدی کے آخر میں نکلنے والے اُردو اخبارات جو بہار سے شایع ہوئے، اُن
میں ’’الپنچ‘‘ کی واضح اہمیت ہے۔ یہ اخبار 5 فروری 1885ء کو پٹنہ سے نکلنا
شروع ہوا؛ اور تھوڑے سے تعطّل کے ساتھ 1907ء تک شایع ہوتا رہا۔ 1890 سے لے
کر 1907 ء تک کے متعدّد شمارے اور اخبار کی فائلیں خدابخش لائبریری میں بہت
حد تک محفوظ ہیں۔ اس کے مالکان اور ایڈیٹر بدلتے رہے اور پریس میں بھی
تبدیلی ہوتی رہی۔ تعدادِ صفحات بھی مختلف اوقات میں چھ، آٹھ، دس اور بارہ
ملتی ہے۔
’’اودھ پنچ‘‘ کو نگاہ میں رکھ کہ ہی یہ اخبار اس عجیب وغریب نام سے نکلنا
شروع ہوا ہوگا، اس لیے اس اخبارکی دو باتیں خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ اس
کی عمومی پالیسی میں حبّ الوطنی اور انگریزی حکومت کی نکتہ چینی شامل تھی۔
اسی کے ساتھ اس اخبار کے بیشتر مشمولات کا اسلوب ظریفانہ ہوتا تھا۔ اس
اخبار نے بڑی تعداد میں لکھنے والوں کو متوجّہ کیا اور بعض اہلِ قلم بہت
تواتر کے ساتھ یہاں شایع ہوتے تھے۔ اس میں ادبی حِصّہ بھی اچھّا خاصا شامل
ہوتا تھا۔ اُس زمانے کے شعرا میں صُوفی منیری، اکبرداناپوری، فضلِ حق آزاد،
نسیم ہلسوی اور عبدالغفور شہباز عظیم آبادی کا کلام اور دیگر تخلیقات کی
لگاتار اشاعت ہوتی تھی۔ اس کی زبان اور اندازِ تحریر کی ایک جھلک 4فروری
1898ء کے شمارے سے ملاحظہ ہو :
’’انگلشمین کا نامہ نگار بھی نرا گھامٹر رہا۔ جو دل میں آتا ہے، اُوٹ پٹانگ
لکھ مارتا ہے۔ اس کا بیان ہے کہ ڈمراؤں کے آس پاس کے باشندے سورج گر ہن کو
انگریزی اقبال کے زوال کی نشانی سمجھتے ہیں۔ سبحان اﷲ بھلا ہندیوں کا یہ
دماغ کہاں کہ ایسی پولیٹکل چٹکیاں لیں۔ ہاں یہ انگریزی سانچے کے ڈھلے ہوئے
خیالات البتہ ہو سکتے ہیں۔ ہندستانیوں کے دماغ میں تو یہ بات گھُسی ہوئی ہے
کہ ہندستان ہی میں کامل کسوف ہوا ہے۔ اس لیے ہندستانیوں کا رہا سہا اقبال
آفتاب کی طرح غروب ہوگیا اور انگریزی اقبال کا کیا پوچھنا، اس کی عملداری
میں تو آفتاب سرے سے غروب ہی نہیں ہوتا۔ آفتاب دولت و اقبال درخشاں باد۔‘‘
قاضی عبدالودود نے 1902ء اور 1903ء کے بعض شماروں کا تعارف کراتے ہوئے
’معاصر‘، پٹنہ اور ’چراغِ راہ‘، کلکتہ میں دو مضامین شایع کیے تھے جن میں
اس اخبار کے اصل اقتباسات موجود ہیں۔ ’اُردو انڈین کرانیکل‘ کے حوالے سے
قاضی عبدالودود نے وہ عبارت بھی نقل کی ہے جس سے ’الپنچ‘ اخبار کی ابتدائی
حالت کے بارے میں واضح معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ 2 فروری1885ء کے ’اُردو
انڈین کرانیکل‘ میں یہ اطلاع شایع ہوئی :
’’اس ہفتے میں ایک اور ظریف اخبار ’’الپنچ‘‘ کی آمد آمد ہے۔ اشتہار سے
معلوم ہوتا ہے کہ ابھی بہ طور آزمایش چار مہینے کے لیے جاری ہوا ہے۔ مہتم
منشی محمد اعظم ہیں۔‘‘
9مارچ 1885 ء کے اردو انڈین کرانیکل میں ’’الپنچ‘‘ کے متعلّق یہ خبر شایع
ہوئی ہے :
’’اس وقت تک اس کے چار پرچے شایع ہو چُکے ہیں۔ چند تعلیم یافتہ نوجوانوں کی
کوشش کا نتیجہ ہے۔ ہفتہ وار پنجشنبے کو چار ورقوں پر شایع ہوتا ہے۔ نہایت
معتبر ذریعہ سے معلوم ہوا ہے کہ تیسرے ہی پرچے سے اشاعت 750 تک پہنچ گئی
ہے۔‘‘
اِن دونوں نوشتوں سے ’’الپنچ‘‘ کے بارے میں بنیادی نوعیت کی چند اطلاعات
حاصل ہوجاتی ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ اخبار شایع ہونے کے ساتھ ہی
قبولِ عام کا درجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔
’’الپنچ‘‘ کے بارے میں یہ بات اکثر و بیش تر کہی جاتی ہے کہ اس اخبار میں
شاد عظیم آبادی کے سلسلے سے لگاتار مخالفانہ مضامین، شعری تخلیقات اور
طنزیہ شذرات شایع ہوتے رہے۔ اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ منشی محمد اعظم،
جو اس کے مالک ومختار تھے، اُن سے ناول ’’صورۃ الخیال‘‘ کے سلسلے سے شاد
عظیم آبادی سے معرکہ تھا۔ منشی محمد اعظم اور منشی حسن علی [مدیر بہار
بندھو۔ ہندی اخبار] نے شاد پر یہ الزام عائد کیا تھا کہ اِن دونوں کی
مشترکہ کوششوں کو شاد نے اپنے نام سے شایع کرالیا۔ اس وجہ سے یہ بات غیر
فطری معلوم نہیں ہوتی کہ یہ اخبار شادؔ کی غیر ضروری طور پر بھی مخالفت
کرے۔ شادؔ کی ’’نوائے وطن‘‘ کے سلسلے سے بھی 19ویں صدی کے آخر میں بعض
افراد خفا تھے۔ ان وجوہات سے شادؔ کی بعض حلقوں میں مخالفت سمجھ میں آتی
ہے۔ اس سلسلے سے قاضی عبدالودود کا کہنا ہے کہ ’’1902 میں یا اس سے بھی پیش
تر ’الپنچ‘ اور شاد میں صلح ہو چُکی تھی۔‘‘2 اگست 1902ء کے شمارے میں اس
وقت کے مدیر سیّد رحیم الدین مہجور کی وفات پر شادؔ کے قطعاتِ تاریخ شایع
ہوئے تھے۔ 1 نومبر 1902ء کے شمارے میں عظیم آباد کے یادگار مشاعرے کے سلسلے
سے جو مراسلے شایع ہوئے ہیں، ان میں شاد کی استادانہ اہمیت ظاہر کی گئی ہے۔
قاضی عبدالودود نے اس اخبار کے بارے میں اپنے اجمالی تاثرات اس طرح رقم کیے
ہیں :
’’آج کل جو اردو کے اخبار بہار میں جاری ہیں، اُن کی عُمر کیا ہوگی، اس
بارے میں کُچھ کہنا ممکن نہیں۔ مگر یہ مسلّم ہے کہ جو اخبارات اب زندہ نہیں
ہیں، ان میں سب سے پہلے طویل عُمر’ الپنچ‘ نے پائی۔’ الپنچ‘ جیسا کہ اُس کے
نام سے ظاہر ہے، ظریفانہ اخبار تھا، لیکن اس کی ظرافت کا پایہ بلند نہ تھا،
اور یہ بے تکلّف ذاتی حملے سوقیانہ انداز میں کیا کرتا تھا۔‘‘ [چند اہم
اخبارات اور رسائل، ص۔ 199]
بہار کی اردو صحافت ’الپنچ‘ کے ساتھ ہی 20ویں صدی میں داخل ہوتی ہے۔ 1910ء
کے پریس ایکٹ کے سبب ہندستان کے دوسرے اخبارات کی طرح بہار کے اردو اخبارات
بھی مشکل دور میں پہنچ گئے۔ بڑی تعداد میں اخبارات و رسائل بند ہوئے اور
صحافیوں نے حکومت کے سامنے سپرڈال دی۔ اس دوران بہار شریف سے 1912 ء میں
’’اتحاد‘‘ نام سے ایک اخبار جاری ہوا۔ اس کے بانی مدیر شیخ نُور محمد تھے۔
ابتدائی عہد میں یہ ہفتہ وار تھا۔ حکومت مخالف رویّے کی وجہ سے اخبار کی
ضمانت ضبط ہوئی اور پھر جناب شفیع داؤدی کی کوششوں سے اس کا دفتر بہار شریف
سے پٹنہ منتقل ہوا۔ اس اخبار سے عبدالجبّار حیدری، پروفیسر اسماعیل وحشی،
راغب احمد وغیرہ بہ طور مدیر اور معاون مدیر وابستہ تھے لیکن 1935ء سے
1951ء کے دوران تقریباً 16برس تک اس اخبار کے مدیر سلطان احمد تھے۔ یہ
اخبار اپنے حلقۂ اثر کے اعتبار سے نہایت اہم تھا۔ ہندستان کی جنگِ آزادی کی
تحریک اپنے فیصلہ کُن دور میں پہنچ چُکی تھی۔ اس وجہ سے بھی اس اخبار نے
بہار میں اپنی خاص جگہ بنالی۔ ڈاکٹر عبدالخالق نے ’مقالاتِ سلطان احمد‘
ترتیب دے کر شایع کردیا جس میں ’اتحاد‘ کے وہ اہم مضامین جو ایڈیٹر سلطان
احمد کے قلم سے نکلے، یکجا ہوگئے ہیں۔ ’اتّحاد‘ کے مزاج کو سمجھنے کے لیے
مدیر سلطان احمد کی ایک تحریر کافی ہے :
’’1942ء کے ابتدائی ایّام تھے۔ گاندھی جی نے ’’بھارت چھوڑو‘‘ کا نعرہ بلند
کیا اور سارے ملک میں ہنگاموں کا سلسلہ شروع ہوا۔ کانگریسی کارکنوں نے
ہندکا چپّہ چپّہ چھان ڈالا۔ قومی اخبارات نے پورا تعاون کیا۔ پُرجوش مضامین
ومقالوں کی بھرمار ہوئی۔ خبروں کی وہ اودھم مچی کہ داستانوں کا مزا جاتا
رہا۔ اس وقت اُردو صحافت کا نمائندہ بہار کا کثیر الاشاعت اخبار ’’اتحاد‘‘
تھا۔ اخبار عوام کی رہنمائی کرتے ہیں اور ترجمانی بھی۔ ’اتحاد‘ اس تحریک سے
وابستہ ہوگیا۔ پھر کیا تھا، ہر جگہ سفرو حضر میں اسی کا ذکر تھا، نئی نئی
خبروں، پُرزور مقالوں اور مسلسل مضامین نے قوم میں زندگی وحرکت کی لہریں
دوڑا دیں۔ چنانچہ تحریک پروان چڑھی، مُلک کو آزادی ملی۔‘‘
آزادی سے قبل ’’دیہات‘‘ نام سے ایک اخبار جنوری 1940 میں شروع ہوا۔ یہ
حکومتِ بہار کا ترجمان تھا اور اس کا مطمحِ نظر یہ تھا کہ دیہاتی حلقے میں
رہنے والے لوگوں سے دنیا جہان کی خبروں کو متعارف کرانا ضروری ہے۔ برقی
پریس، سبزی باغ، بانکی پور، پٹنہ سے یہ اخبار شایع ہوتا تھا۔ حکومت بہار
اسے مفت تقسیم کرتی تھی۔ یہ اخبار کمپنی حکومت کے لیے اپنی خاص باتیں دیہی
عوام تک پہنچانے کے مقصد سے ایک پلیٹ فارم تھا۔ اس اخبار میں دوسری جنگِ
عظیم کے سلسلے سے خبروں کی بہتات ہے۔ بہار میں ریڈیو اسٹیشن کے آغاز کے
سلسلے سے 19مارچ 1940 کے شمارے میں یہ اطلاع شایع ہوئی ہے :
’’بہاری اس خبر کو بڑی خوشی سے سنیں گے کہ عنقریب پٹنہ میں ایک ریڈیو
اسٹیشن کھلنے والا ہے۔ عرصے سے یہ تجویز تھی۔ لیکن اب اس سلسلے میں انتظامی
کاروائیاں بھی شروع ہو گئی ہیں۔ وہ دن دور نہیں جب کہ بہار کا صدر مقام
بہار کی آبادی سے قریب تر ہوجائے گا۔‘‘
پندرہ روزہ ’’روشنی‘‘ اس اعتبار سے ایک تجرباتی اخبار تھا کیوں کہ اردو اور
ہندی دونوں زبانوں میں ایک ساتھ شایع ہوتا تھا۔ ماس لٹریسی کمیٹی کے زیرِ
اہتمام اس کی اشاعت ہوتی تھی اور اس کے چیف ایڈیٹر عبدالمنان اور مدیران
میں دھرمیندر برھمچاری شاستری، سیّد حسن اور رگھونندن پرساد سنہا شامل تھے۔
یکم اپریل 1940 سے دسمبر 1941 تک کے شمارے کتب خانے میں دستیاب ہیں۔ یہ
اخبار بھی ’’دیہات‘‘ کی طرح ہی حکومت کا طرف دار تھا۔ اس کے صفحات سے دوسری
جنگِ عظیم کی بعض توجّہ طلب تفصیلات معلوم ہوتی ہیں۔ دو اقتباسات ملاحظہ
ہوں جو ’روشنی‘ میں 15 اگست 1941ء کے شمارے میں شایع ہوئے ہیں:
(۱) ’’روس دیس میں روسیوں اور جرمنوں میں گھماسان کی لڑائی ہورہی ہے۔ ا س
وقت دونوں طرف کے نوّے لاکھ آدمی لڑرہے ہیں۔ جرمنوں نے لینن گراد، کیو اور
روس کی راجدھانی ماسکو کو لے لینے کے لیے سراور دھئر کی بازی لگادی ہے۔
لیکن سورماروسیوں کے آگے ان کی ایک نہیں چل رہی ہے۔ اب تک جرمنوں کو پندرہ
لاکھ اور روسیوں کو چھ لاکھ سپاہیوں سے ہاتھ دھو نا پڑا ہے۔ ہٹلر نے جب روس
پر چڑھائی کرنے کے لیے حکم دیا تھا تو اس کے دوبڑے بڑے سینا پتیوں نے، جو
اس کے ہاتھ پاؤں سمجھے جاتے تھے، اسے بہت منع کیا۔ ہٹلر نے کسی کی بات نہ
مانی۔ اس نے ایک کو ایسا ذلیل کیا کہ اس نے اپنی جان دے دی اور دوسرا نظر
بند کرلیا گیا لیکن وہ کسی طرح بھاگ کر لاپتہ ہو گیا۔‘‘
(۲) ’’ہندستان کے بڑے لاٹ صاحب لڑائی کے خزانہ سے ہندستان کے بنے ہوئے ایک
لاکھ روپے کے مرہم پٹّی کے سامان ، اوزار اور دوائیں روس بھیجنے والے
ہیں۔‘‘
آزادی کے آس پاس روزناموں کی بابت غور کریں تو 9ستمبر 1942 سے شایع ہونے
والا اخبار ’صداے عام‘ واضح اہمیت کا حامل ہے۔ ’صدائے عام‘ تقسیمِ ہند سے
پہلے مسلم لیگ کی حمایت میں تھا اور بعد میں وہ اخبارکانگریس کی طرف داری
میں شامل ہوگیا۔ اس کے اوّلین ایڈیٹر سیّد نظیر حیدر تھے۔ بعد میں سیّد رضی
حیدر نے ادارت کی ذمّے داری سنبھالی اور محمد مرغوب اور شبیر احمد کارکن
صحافی کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ ’صدائے عام‘ کے خصوصی نمبر شایع ہوا کرتے
تھے اور اُن کی اچھی خاصی شہرت بھی رہی لیکن تکنیکی ترقّی میں یہ اخبار
دوسرے اخباروں کی طرح وقت کی گرد بن گیا۔ کانگریس رہنما عبدالقیوم انصاری
کے ایما سے معروف افسانہ نگار سُہیل عظیم آبادی نے اپریل 1949 میں روز نامہ
’’ساتھی‘‘ شایع کیا۔ بعد میں غلام سرور، و لایت علی اصلاحی، نور محمد، خالد
رشید صبا، حق ندوی اور شاہد رام نگری اس اخبار سے متعلّق ہوئے۔ ’صدائے عام‘
کی طرح ’ساتھی‘ کے بھی خصوصی نمبر علمی حلقے میں توجّہ کے ساتھ پڑھے جاتے
تھے۔ ابتدا میں یہ اخبار متوازن تھا لیکن بعد میں یہ کانگریس حکومت کی ہم
نوائی میں گرفتار ہوگیا۔ رفتہ رفتہ یہ اخبار بھی وقت کی تحویل میں سماگیا۔
جناب غلام سرور نے ہفتہ وار کی شکل میں ’’سنگم‘‘ اخبار‘‘ نکالا جو بعد میں
1962 سے روزنامہ کی شکل میں شایع ہونے لگا۔ اس اخبار کے صحافیوں میں بیتاب
صدیقی، شاہ مشتاق احمد، سیّد شہباز حُسین (جو بعد میں رسالہ ’آج کل‘ کے
ایڈیٹر ہوئے)، شاہد رام نگری، عبدالمغنی اور معین انصاری جیسے افراد شامل
تھے۔ اس اخبار میں غلام سرور نے اپنی صحافتی تحریروں سے ایک بڑے حلقے کو
متاثر کیا۔ وہ صحافی کے ساتھ ساتھ سیاست داں بھی ہوئے لیکن قلم پیشگی کو
انھوں نے ایک عرصے تک نہیں چھوڑا۔ اس وجہ سے آزادی کے بعد اُبھرنے والے
اردو صحافیوں میں وہ سب سے ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ دوسرے اخباروں کی طرح
صرف نام کے مدیر نہیں تھے بلکہ مُلک اور صوبے کی سیاست اور سماجی صورتِ حال
پر وہ اپنی واضح رائے دینے میں کوئی عار نہیں محسوس کرتے تھے۔ سیاست میں
اُن کی مشغولیت نے اخبار کی طرف سے توجہ کم کی اور آٹھویں دہائی سے یہ
اخبار اپنی کشش کھونے لگا۔
پندرہ روزہ کے طور پر در بھنگا سے ’قومی تنظیم‘ کا آغاز ہوا۔ اس کے بانی
ایڈیٹر سیّد محمدعمر فرید تھے۔ 1965 میں یہ عظیم آباد منتقل ہوگیا اور 1975
تک ہفت روزہ کی شکل میں شایع ہوتا رہا۔ یہ اخبار مارچ 1975 سے روزنامہ کی
صورت میں نکلنے لگا، جو اَب تک جاری ہے۔ اب اس کی اِدارت سیّد محمد اشرف
فرید اور سیّد محمد اجمل فرید کے ذمّے ہے۔ بہار سے نکلنے والے اخبارات میں
یہ پہلا اخبار ہے جس نے مختلف شہروں اور صوبوں کے علاحدہ ایڈیشن شایع کیے۔
اپریل 1981ء سے قومی آواز نے پٹنہ ایڈیشن شروع کیا۔ عثمان غنی اور شاہین
محسن نے اس اخبار کو صحافتی قیادت بخشی۔ جس طرح ملک گیر پیمانے پر حیات اﷲ
انصاری اور اُن کے ساتھیوں نے مل کر ’قومی آواز‘ کی اشاعت سے مُلک میں اردو
صحافت کا ایک نیا مذاق پیدا کیا تھا، ’قومی آواز‘ نے بہار میں صحافت کی یہ
نئی روشنی بہم پہنچائی۔ پچھلے تیس پینتس برسوں میں وہ صحافی جو سوجھ بوجھ
کے ساتھ بہار میں سرگرمِ عمل رہے ہیں، اُن میں بلاشبہ ’قومی آواز‘ کے تربیت
یافتہ افراد کی ایک بڑی جماعت ہے جو اخبار کے بند ہوجانے کے بعد دوسرے
اخباروں سے منسلک ہوگئے۔
1974 میں رضوان احمد نے ہفتہ وار کی شکل میں ’عظیم آباد ایکسپریس‘ شایع
کیا۔ 1980 سے یہ روزنامہ میں تبدیل ہوگیا۔ ’عظیم آباد ایکسپریس‘ اپنی سنسنی
خیزی کی وجہ سے پہچانا جاتا تھا۔ رضوان احمد کے اِداریے غیر منطقی اندازِ
فکر اور سیاسی کھیل تماشے کا حصّہ بننے کی وجہ سے تذکرے میں ہوتے تھے۔ 26
فروری 1985 سے روزنامہ ’ایثار‘ شایع ہونا شروع ہوا۔ اس کے بانی مدیر شاہین
محسن تھے اور شاہد رام نگری اس کے پرنٹر پبلشر تھے۔ 8اپریل 1987 کو یہ
اخبار بند ہوگیا۔ طباعت اور پیش کش کے اعتبار سے اُس وقت تک کے سب سے خوب
صورت اخباروں میں اس کا شمار ہوتا تھا۔ 1974 میں ہفت روزہ ’پندار‘ کا آغاز
ہوا۔ جولائی 1988 سے یہ روزنامہ ہوگیا۔ 1984ء میں ہفتہ وار فاروقی تنظیم
شروع ہوا جو دو برسوں کے بعد روزنامہ کی شکل میں بدل گیا۔ 1992 میں اس
اخبار نے رانچی سے اپنا علاحدہ ایڈیشن شروع کیا۔ فی الوقت رانچی اور پٹنہ
دونوں جگہوں سے یہ اخبار شایع ہو رہا ہے۔ روزنامہ ’انقلابِ جدید‘ 10 ستمبر
1995 سے شروع ہوا لیکن تھوڑے دنوں میں ہی یہ اخبار اپنی عمومی رفتار قائم
نہ رکھ سکا۔ اور اب تو اس کی اشاعت بھی بہت معمولی ہے۔
اس دوران قومی اخبارات میں روزنامہ ’راشٹریہ سہارا‘ نے پٹنہ سے اپنی اشاعت
شروع کی۔ صحافت کے قومی معیار کے پیشِ نظر اس اخبار نے اپنی شناخت قائم کی
لیکن توسیعِ اشاعت کے سلسلے سے اس اخبار نے موثر پیش رفت نہیں کی جس کی وجہ
سے ایک معیاری اخبار مقبولیت کے معاملے میں وہ جگہ نہیں بناسکا جو اس کا حق
تھا۔ 27 مئی 2013 سے روزنامہ ’انقلاب‘ 16 صفحات پر مشتمل مکمل رنگین اخبار
کی شکل میں شایع ہونا شروع ہوا جو اپنے اندازِ پیش کش اور صحافت کے قومی
معیار کی پاسداری کی وجہ سے مقبولیت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا ہے۔ ملٹی
سٹی ایڈیشن کے سبب ہر خطے میں اخبار کے پہنچ جانے سے بھی روزنامہ ’انقلاب‘
مختصر مدّت کے باوجود بہار میں کامیاب تسلیم کیا جارہا ہے۔ اخبار کے خصوصی
فیچر اور سیاسی وسماجی موضوعات پر خصوصی تبصرے شایع کرنے کی روش نے بھی اس
کی مقبولیت میں اضافہ کیا۔ اس اخبار میں ایڈیٹر سے لے کر عام رپورٹر تک
سبھی صحافت پیشہ افراد کام کررہے ہیں جب کہ بہار کے دوسرے اخبارات کے
مدیران حقیقت میں غیر صحافی مالکان ہیں اور اکثر و بیش تر ان کے نام سے
شایع شدہ تحریریں حقیقت میں ان اخباروں کے کارکن صحافیوں کی ہوتی ہیں۔
بہار کی ادبی صحافت پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو انجم مانپوری کے ’ندیم‘،
قاضی عبدالودود کے ’معیار‘، کلیم الدین احمد کے ’معاصر‘ وفاملک پوری کے
’صبحِ نو‘، قیوم خضر کے ’اشارہ‘، کلام حیدری کے ’آہنگ‘، ظفر اوگانوی کے
’اقدار‘،بہار اردو اکادمی کے ’زبان وادب ‘، عبدالمغنی کے ’مریخ‘ اور سہیل
عظیم آبادی، عبدالقیوم انصاری کے رسالہ ’تہذیب‘، طارق متین کے ’علم و ادب‘
اور وہاب اشرفی کے ’مباحثہ‘ وغیرہ کا تذکرہ لازم ہے۔ ان رسائل میں تقریباً
نصف کی حیثیت علاقائی سے زیادہ نہیں رہی۔ لیکن ان رسائل نے اپنے عہد میں
قومی سطح پر لکھنے والوں کو ایک مستحکم پلیٹ فارم عطا کیا۔ ’ندیم‘،
’معیار‘، ’معاصر‘، صبحِ نو‘، ’اقدار‘، ’آہنگ‘ اور ’مباحثہ‘ کو قومی سطح پر
توجہ سے پڑھاجاتا رہا۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ملک کے کسی بھی صوبے سے
زیادہ ادبی رسائل کی فروخت بہار میں ہوتی ہے لیکن بہار میں تواتر سے نکلنے
والا ایک بھی بہترین ماہانہ ادبی رسالہ ایسا نہیں ہے جسے ملک کے نمائندہ
ادبی رسائل میں شامل کیا جا سکے۔
بہار کی اردو صحافت کی ڈیڑھ صدی کا جائزہ لیتے ہوئے یہ بات بھی افسوس ناک
ہے کہ آزادانہ طور پر بہار کے اردو صحافیوں نے اپنی قومی پہچان اس اعتبار
سے قائم نہ کی جس کے لیے وہ ہر اعتبار سے موزوں تھے۔ اخبارات و رسائل کا یہ
مقدر ہے کہ ان کے صفحات پر روز ایک دنیا پیدا ہوتی ہے اور پھر نئے شمارے کی
آمد تک وہ دفن ہوجاتی ہے۔ ایسے میں ہمارے بڑے صحافیوں کا یہ دستور رہا ہے
کہ اپنے کالم اور مضامین کا انتخاب جِلد بند طریقے سے منظرِ عام پر لائیں۔
بعض اخبارات و رسائل نے بھی اپنے اداریے یا مضامین کتابی شکل میں شایع کیے۔
غلام سرور نے اپنے مضامین کا انتخاب شایع کیا لیکن صحافت سے متعلّق ان کے
ہزاروں نوشتہ جات اخبار کی گرد ہو کر رہ گئے۔ رضوان احمد کے ابتدائی مضامین
تو ’’مجھے بولنے دو‘‘ کے عنوان سے شایع ہوئے لیکن اس سے زیادہ ان کے مضامین
اخبار میں ہی پڑے رہ گئے۔ شاہد رام نگری، عبدالرافع،ریاض عظیم آبادی، مشتاق
احمد، ریحان غنی، راشد احمد وغیرہ ایسے صحافی ہیں جن کے مضامین جمع کردیے
جائیں تو سب کی کئی جلدیں تیار ہوجائیں گی لیکن اس جانب کسی کی خاص توجہ
نہیں ہے۔ کلام حیدری نے اپنے اداریے یکجا کیے تھے لیکن ان کی بھی بعد کی
صحافیانہ تحریریں جمع نہ کی جا سکیں۔
ہندستان کی اردو صحافت رِوایت اور جدّت کے دوراہے پر کھڑی ہے۔ روایت سے اسے
ادبی شان اور سماجی جواب دہی کی پونجی حاصل ہوئی تھی۔ اس نے جفاکشی کے ساتھ
بے باکی سیکھی تھی۔ لیکن ٹیکنالوجی اور کارپوریٹ لازمیت نے اردو صحافت کو
ایک الگ زمین پر لا کر کھڑا کر دیا ہے۔ اب ادب اور ادبیت کی کون کہے، عام
قواعد اور انشا کے کھلواڑ روزانہ صبح سے ہمارا امتحان لیتے ہیں۔ جلدی میں
خبریں یا اُن پر تاثرات پیش کردینے کا جبر ہمیں روزانہ حقائق کی بھول
اورمعیار کی پستی میں پہنچا رہا ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ رنگین اور
روشن چھپائی نے ہم سے دھیرے دھیرے جتنا کچھ چھین لیا ہے، اس کی بھرپائی
ابھی ہوتی ہوئی دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ بہار کے اردو اخبار اور ادبی رسائل
کو سامنے رکھیں اور ہندی اور انگریزی جرائد سے ان کا موازنہ کریں تو یہ
سمجھنا مشکل نہیں کہ حقیقی صحافت کے میدان میں ہماری جگہ کہاں ہے؟ ’انقلاب‘
اور ’راشٹریہ سہارا‘ اخبار کے علاوہ دوسرے اخبارات کے پاس اپنے خصوصی کالم
نگار نہیں ہیں۔ انھیں جو کچھ پکا پکایا آگیا، انھی پر ان کی زندگی ٹِکی
ہوئی ہے۔ اس سے ان کی ترقّی رُکی ہوئی ہے اور معیار کے بارے میں روزانہ
سوالات قائم ہو رہے ہیں۔ اردو صحافیوں کا یہ بڑا مسئلہ ہے کہ وہ دوسرے ہر
ادارے کا احتساب تو کرنا چاہتے ہیں لیکن اپنے صحافتی اعمال اور معیارو
مرتبے کے لیے کسی متواتر جائزے کی اہمیت کے وہ قائل معلوم نہیں ہوتے۔ سب کی
ڈیڑھ اینٹ کی جدا مسجدیں ہیں۔ اس لیے صحت مند طریقے سے ایک دوسرے کے دامن
میں جھانکنا انھیں زیادہ معقول معلوم نہیں ہوتا۔ ان وجوہات سے بھی بہار کی
اردو صحافت معیار کے اعتبار سے اب بھی قومی اوسط سے کم تر ہے۔ ہمیں امید ہے
کہ موجودہ دور کے صحافی اخبار کی نہ صرف تکنیکی ترقیوں پر توجّہ دیں گے
بلکہ اس کے معیار اور مرتبے کے سلسلے سے بھی بیدار ذہنی کا ثبوت پیش کریں
گے اور اپنی ڈیڑھ سو سالہ تاریخ کے بہترین وارث ثابت ہو پائیں گے۔
[اس مضمون کی تکمیل میں قاضی عبدالودود، پروفیسر سیّد مظفر اقبال، ڈاکٹر
سیّد احمد قادری اور ڈاکٹر افضل مصباحی کی کتابوں سے خصوصی طور سے رجوع کیا
گیا ہے جس کے لیے ان کا شکریہ ادا کیا جاتا ہے۔]
[مطبوعہ آج کل، اگست ۲۰۱۴ء (صحافت نمبر)]
٭٭٭ |
|