قومی ترانہ پر منفی سیاست !
(Salman Abdul Samad, India)
ہندوستانی تاریخ کا المیہ یہ ہے کہ تسلیم
شدہ حقیقت کو بھی باربا ر مسخ کرکے پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اورقانون
کے’ پاسدار‘ ہی ایسے شگوفے چھوڑتے رہتے ہیں، جن سے ملک کی جگ ہنسائی ہوتی
رہتی ہے۔کوئی ہفتہ بھر قبل آرایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے بھارت ماتا کی
جئے زبردستی نہ کہلوانے کی وکالت کی تھی ، لیکن آرایس ایس کے بھیا جی نے
ایک بیان سے سب کو چونکا دیا ہے ۔ انھوں نے بھگواجھنڈے کو قومی پرچم
اورقومی ترانہ کو وندنے ماترم کے ساتھ جوڑ کر جو بیان دیا ہے ، وہ جہاں
سیاسی حربہ ہے ، وہیں ہندوستانی تاریخ سے چھیڑ چھاڑ اور ملک کی جگ ہنسائی
پر مبنی ہے ۔ اس بیان پر سیاسی تجزیہ سے قبل ایک تاریخی جھلک دکھانا مناسب
ہے ۔
ذرا گہری نظر سے دیکھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ خواہ قومی ترانہ ہو کہ
قومی گیت ، دونوں تاریخی نقطہ ٔ نظر سے متنازعہ ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ
محققین اور مورخین نے اپنے دلائل سے تنازعہ کو حل کرنے کی کوشش کی ہے ،
تاہم تشفی بخش دلیل کوئی بھی نظر نہیں آتی۔جہاں تک قومی ترانہ کا تعلق ہے
تو اس کے متعلق کہاجاتا ہے کہ سب سے پہلے گرودیو نے اس نغمہ کو 27دسمبر
1911 میں شہنشاہ برطانیہ جاری پنجم کی ہندوستان آمد پر کولکاتا میں بطور
قصید پیش کیا تھا ۔ جبکہ دوسری بات یہ ہے کہ ٹیگور کے ایک دوست نے شہنشاہ
برطانیہ کی آمد کے موقع پر لکھنے کی درخواست کی تھی:
Tagore composed the song at the requeest of his friend Asutosh
Chaudhurai, a Judge of the Calcutta Hight Court.It was to be sung during
the 26th Calcutta session of the Indian National Congress on 27 December
1911.
(Bhikhu Parekh, Debating India,Oxford University Press 2015, Page 333)
اگر یہ تسلیم کرلیں تو یہ نغمہ درحقیقت شہنشاہ برطانیہ کی شان میں قصیدہ ہے
تو بطور قومی ترانہ ،حمدیہ اور جذبہ وطنی کی جو چاشنی اس میں نظر آتی ہے ،
اس کا پس منظر دوسرا ہے ۔ یعنی حمدیہ اور وطنیہ نہیں ہے ، بلکہ برطانیہ کے
شاہ کی اتنی تعریف ہے کہ ہندوستانی ان کے ہی رحم وکرم جیتے ہیں۔ ا ن کے ہی
دم سے ہندوستانی ریاستوں میں جان ہے ۔ اس طرح قومی ترانے میں ،حمدیہ ا ور
حب الوطنی کا جذبہ شامل نہیں ہے ، متنازعہ تاریخی پہلو روشن ہے ۔کہنے والوں
نے یہاں تک کہاکہ رابندر ناتھ ٹیگور کو نوبل پرائز دلانے میں اس نغمہ کی
بھی کرشمہ سازی رہی ہے ۔شاید ان کے وہم وگمان میں نہیں تھا کہ 1950میں
سیاسی اتار چڑھاؤ کے بعد ان کے نغمے کو ملک کا قومی ترانہ قرارد ے دیا جائے
گا ۔ اگر قومی گیت ’وندے ماترم‘ کی بات جائے تو پتا چلے گا کہ بنکم چند
چٹرجی کے ناول ’آنند مٹھ ‘سے یہ ماخوذ ہے ۔ انھوں نے 15ناول لکھے ہیں ، جن
میں سے درگیش نندنی ، مر نالینی، چندرشیکھر ، راج سنگھ قابل ذکر ہے ۔ جس
ناول ’آنند مٹھ ‘سے قومی گیت ماخوذ ہے ، وہ خود ایک متنازعہ ناول ہے ۔ایک
طرف جہاں اس میں تاریخی حقائق پر غلط رنگ چڑھانے کی کوشش کی گئی ہے، وہیں
اس میں دیوی دیوتا ؤں کے غلوپسندانہ عقیدہ کی شمولیت ہے ۔یہ ناول 1882میں
لکھا گیا تھا ۔ بیسوی صدی کے ابتدائی دور میں جب کانگریس میں تناؤ جاری تھا
تو اس وقت ہی ’وندے ماترم‘پر گرما بحث ہوئی تھی۔ ایک گروہ ’وندے ماترم ‘کے
حق میں تھا ، جب کہ دوسرا سخت مخالف ۔ حتی کہ اس نغمہ پر گاندھی اور نہرو
تک میں اختلاف تھا ۔ ا س کے باوجود بھی اس نغمہ کو قومی گیت میں شامل کرلیا
گیا ۔اس طرح دیکھا جائے تو انداز ہ ہوگا کہ کسی نہ کسی حد تک قومی ترانہ
اور قومی گیت دونوں متنازعہ فیہ ہیں ۔
اگرسیاسی تجزیہ کیا جائے تو کہنا پڑے گا کہ منظم طریقے سے بھاگوت اور اس کے
بھیا جی نے یہ ایسے ایسے بیانات دئے ۔ایک طرف ملک میں ہنگامی ماحول ہے ۔
آرا یس ایس اور بی جے پی کی شبیہ تشدد پسندوں کے طور پر سامنے آرہی ہے ۔
پھر ملک کی مختلف ریاستوں میں اسمبلی کے الیکشن ہونے ہیں ۔ ایسے میں ووٹروں
کو لبھانے کے لیے موہن بھاگوت نے نرم گوشہ دکھا یا ، تاکہ ان کی تنظیم اور
بی جے پی کی شبیہ کچھ بہت صاف ہو ۔ کشمیر کی اتحادی جماعت پی ڈی پی کے دل
میں آر ایس ایس کا چہر ہ کچھ چمک دار بن جائے ۔ محبوبہ کو بطور مفتی کوئی
فتوی دینے کی ضرورت نہ پڑے کہ بھارت ماتا کہلوانے پر آر ایس ایس کو زور
نہیں دینا چاہئے۔اسی طرح موہن بھاگوت کے بیان کے بعد ہی مسلم مذہبی لیڈران
بھی آپس میں الجھے پڑے تھے کہ’ بھارت ماتا کی جے ‘ کہنا کتنا غلط ہے اور
کتنا صحیح ۔ ساتھ ہی بھاگوت کے نرم سیاسی بیان سے متشددغیر مسلموں میں
تھوڑی ناراضگی تھی ، لہذا اس ماحول میں بھیا جی نے ایک شوشہ چھوڑکر مختلف
گوشوں میں ہلچل مچادی ہے ۔ اس طرح شدت پسند ہندوؤں کے دل سے ناراضگی دور
ہوئی اور وہ بھاگوت کے بیان کے بجائے بھیا جی کے بیان سے خوش ہوگئے ۔بلکہ
یہ کہنا مناسب ہوگا کہ بھاگوت کے بیان سے پریشان ہونے والے لوگوں کو بھیا
نے اتنا خوش کردیا کہ شاید وہ بھی اب کہنے لگ جائیں گے ’جن من گن‘قومی
ترانہ نہیں ، وندے ماترم ہے۔افسوس کی بات تو یہ بھی ہے کہ مسلم مذہبی
لیڈران شرکیہ جملوں کو قبول کرنے کے لیے تیار نظر آرہے ہیں تو ایسے میں
متشدد قسم کے برادران وطن ہنگامہ آرائی کریں گے ہی کہ وندے ماترم ہی گاؤ !
یہی قومی ترانہ ہے ۔
اس پہلو کے علاوہ بھیا جی کے بیان پرکئی سوالا ت ہوسکتے ہیں ۔ ان کا کہنا
ہے کہ ’وندے ماترم، جن من گن سے قدیم ہے‘ ، اس لحاظ سے بھی اسے ہی قومی
ترانہ تسلیم کیا جائے ۔ سوال یہ ہے کہ اگر قدامت بھی قومی ترانہ کے تئیں
’وندے ماترم‘کے حق میں دلیل فراہم کرسکتی ہے تو 1911میں لکھے جانے والے
قومی ترانے سے قبل ہی علامہ اقبال نے 1905 میں’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں
ہمارا‘لکھا تھا ۔تو اسے کیوں کہ نہیں قومی ترانہ کی حیثیت دی گئی ؟یہ نظم
تو مکمل طور پر غیر متنازع ہے ۔ اس میں نہ کسی کی قصیدہ خوانی کا معاملہ ہے
اور نہ اس میں کسی مذہبی عقیدہ کو شامل کیا گیا ہے ۔ تاہم حال تو یہ ہے کہ
مکمل طور پر اس نظم کو قومی گیت تک تسلیم نہیں کیا گیا ۔حالانکہ جب بھی
فخریہ کوئی ماحول ہوتو اسی نظم کو بڑے شوق سے گایا جاتا ہے۔ جب ہندوستان کے
پہلے خلاباز راکیش شرما سے خلائی سفر کے دوران اندرا گاندھی نے پوچھا تھا
کہ کیسا لگ رہا ہے تو انھوں نے کہا تھا ’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
‘۔ پھر سوال یہ ہے کہ’صحیح ارتھوں‘میں وندے ماترم کو قومی ترانہ کہنے کا حق
انھیں کیسے مل گیا ؟ یہ ’ارتھ‘کس ’رتھ‘پر سوار ہو کر ان تک پہنچا ؟ اسی طرح
سوال یہ ہے کہ آخر کیوں بھگواجھنڈے کو قومی پرچم کی طرح احترام کریں ؟کیا
مودی جی بھی اصل قومی پرچم کو ، نہیں مانتے ہیں ، اس لیے وہ کبھی اس دستخط
کردیتے ہیں تو کبھی منہ پوچھ لیتے ہیں ؟ کیا مودی جی ،بھیا جی کے قول کا
عملی نمونہ پیش کر تے ہیں کہ وہ قومی ترانہ کے وقت احترام میں کھڑے کیوں
رہے ؟ جب وندے ماترم گایا جائے تو وہ احترام کریں گے ؟ |
|