پانامہ لیکس کے انکشافات، خفیہ دولت،ردعمل اورسرمایہ کاری

زیادہ وقت نہیں گزرا کہ وکی لیکس کاچرچاہواکرتا تھا۔اس نے بھی بڑے بڑوں کوبے نقاب کیاتھا۔قارئین کوتہلکہ کالفظ بھی یادہوگا۔تہلکہ کہاں کہاں اورکب کب مچایاگیا یہ سب کچھ اخباروں میں محفوظ ہے۔اب پانامہ لیکس نے بیک وقت متعددممالک کی ان شخصیات کوبے نقاب کیاہے جوٹیکس سے بچنے کیلئے آف شورکمپنیوں میں سرمایہ کاری کیے ہوئے ہیں۔اخبارات میں شائع شدہ تفصیل کچھ یوں ہے کہ پنامہ پیپرزکوخفیہ دستاویزات کاخزانہ ہاتھ لگنے سے انتہائی رازاداری سے کام کرنے والی غیرملکی کمپنیوں میں ملوث پاکستان سمیت دنیاکے متعددمعروف شخصیات کے نام آشکارہوئے ہیں۔کئی ملکوں، سیاستدانوں،کاروباری شخصیات بینکرز،ہائی کورٹ کے حاضراورریٹائرڈ جج بھی شامل ہیں۔پاکستانی شخصیات میں بینظیربھٹو،مریم نواز، حسین نواز،حسن نواز، جاویدپاشا،عبدالرحمان ملک، چوہدری اورسیف اللہ برادران بھی شامل ہیں۔جبکہ نوازشریف ،شہبازشریف کی براہ راست کسی کمپنی کی ملکیت نہیں تاہم فہرست میں نام شامل ہیں۔اوربتایاگیا ہے کہ شریف خاندان کے ان لوگوں نے لندن کے ہائیڈپارک کے علاقے میں چھ پراپرٹیزخریدیں جوکہ لندن کامہنگاترین علاقہ ہے۔برٹش ورجن آئی لینڈمیں چارکمپنیز رجسٹرڈ کرائیں اورانہی کمپنیوں کے ذریعے برطانیہ کے پوش علاقے میں چھ مہنگی ترین پراپرٹیزخریدیں۔کہاجارہا ہے کہ خرچ ہونے والاپیسہ کرپشن کرکے اکٹھاکیاگیاتھا اورٹیکس سے بچنے کیلئے ان کمپنیوں کاسہارالیا۔مقامی جریدے کی رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پرآئی ایس آئی جے کومعلوم ہواہے کہ غیرملکی کمپنیاں چلانے میں آئس لینڈ کے وزیراعظم ،برطانیہ کے وزیراعظم کے آنجہانی والد،آذربائیجان کے صدرکے بچے،سعودی شاہ اورروسی صدرکے قریبی ساتھی جنہوں نے بینکوں اورمتبادل کمپنیوں کے ذریعے ۲ ارب ڈالرکی رقم جمع کی یوکرائنی صدر، چینی صدرکے برادرنسبتی اوردیگرشامل ہیں۔چاردہائیوں تک یہ ریکارڈ صیغہ رازمیں رہا۔لیکن اب یہ منظرعام پرآچکا ہے۔ماضی میں غیرملکی مقامات کے حوالے سے ہونیوالے مباحثوں کوبھی جلاملی کیونکہ شکوک کی تصدیق ہوئی۔ان غیرملکی مقامات میں برطانوی جزائرورجن،پانامپ ودیگرشامل ہیں۔پانامہ میں ایک لاکمپنی موزاک فینسکاکے پاس بین الاقوامی سطح پرغیرملکی موکلات کاریکارڈ ہے۔اس سلسلے میں دوسو پاکستانیوں کی نشاندہی کی جاچکی ہے۔اوریہ گنتی ابھی جاری ہے۔مزیدکتنے پاکستانی کتنی لاء فرمزکااستعمال کرکے غیرملکی کمپنیوں کی ملکیت اپنے پاس رکھتے ہیں اس کااندازہ نہیں حالانکہ اب تک محض ایک ہی کمپنی کاریکارڈ دستیاب ہوا ہے۔یہ ریکارڈ ۷۷۹۱ء سے ۵۱۰۲ء تک کاہے ۰۹۹۱ء کے ریکارڈ میں پاکستانیوں کانام بھی آناشروع ہوا۔ایسے لوگ جن میں ہندوستان سمیت دیگرممالک کی شخصیات بھی شامل ہیں کالے دھن کوسفیدکرنے کیلئے ایسی کمپنیوں کاسہارالیتے ہیں۔اورایسی کمپنیوں کی تعداددولاکھ چودہ ہزارکے قریب ہے۔تفصیلات کے مطابق دنیامیں دولت بھیجنے کے قانونی طریقے بھی ہیں اورہمارایہ دعویٰ نہیں کہ یہ سب کام غیرقانونی ہے۔آئی سی آئی جے نے ۶۷ ممالک کی سومیڈیاتنظیموں کے ساتھ ان دستاویزات کاتبادلہ کیاجوکہ جرمن اخبارکوکسی نے فراہم کئے تھے۔ان خفیہ فائلوں کی تعدادایک کروڑپندرہ لاکھ تھی۔ایک اورخبریوں ہے کہ دنیاکی چوتھی بڑی لاء فرم موساک فونسیکا نے پانامہ لیکس کے نام سے ایک کروڑ پانچ لاکھ خفیہ دستاویزات جاری کی ہیں جس میں بتایا گیا ہے کہ مختلف ممالک کے موجودہ وسابق حکمران، سیاسی شخصیات اورفلمی ستاروں کی جانب سے ٹیکس چھپانے کیلئے کیسے خفیہ دولت بنائی گئی دنیاکے ۳۴۱ راہنماؤں میں سے ۲۱اعلیٰ حکومتی شخصیات اوران کے خاندان اورعزیزاقارب شامل ہیں۔جنہوں نے خفیہ طریقے سے دولت بنائی ان دستاویزات میںآئس لینڈ کے وزیراعظم کانام شامل ہونے عوام مشتعل ہوکرسڑکوں پرآگئے اورحکومت کیخلاف احتجاج کرتے ہوئے پارلیمنٹ کاگھیراؤکرلیا۔ادھر آسٹریلیا کے ٹیکس حکام نے آٹھ سوافرادکیخلاف تحقیقات شروع کردی ہیں۔جبکہ نیوزی لینڈ میں بھی وسیع پیمانے پرتحقیقات کاآغازکردیاگیا ہے۔ادھربھارتی وزیرخزانہ نے خفیہ دولت بنانے والوں کی تحقیقات کیلئے مشترکہ تحقیقاتی گروپ تشکیل دیا ہے۔ پانامہ لیکس کے انکشافات پرآئس لینڈ کے وزیراعظم نے صدرسے پارلیمنٹ تحلیل کرنے کی سفارش کی ہے۔ ماہرمعاشیات گیبرل زکمین کاکہنا ہے کہ پانامہ لیکس کی دستاویزات کے مطابق دنیابھرکی مختلف شخصیات کی جانب سے بنائی گئی خفیہ دولت کی مالیت ۷ کھرب ۰۶ ارب ڈالربنتی ہے۔جودنیاکی تمام دولت کاآٹھ فیصدبنتی ہے اوراس رقم میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے۔پانامہ لیکس میں بینظیرکی جانب سے عراقی صدرصدام حسین کورشوت دیئے جانے کاانکشاف ہواہے۔دستاویزات کے مطابق سابق وزیراعظم نے شارجہ میں موجوداپنی کمپنی کوتیل کے کنٹریکٹس دینے کیلئے عراقی صدرصدام کورقوم اداکی تھیں۔۵۰۰۲ ء میں اقوام متحدہ کی تحقیقات میں دوملین امریکی ڈالرادائیگی کاانکشاف ہواتھا۔۶۰۰۲ء میں نیب کے دعوے کوبینظیرنے مستردکردیاتھا۔ پنجاب اسمبلی میں پانامہ لیکس کے انکشافات پرقراردادکی اجازت نہ ملنے پراپوزیشن نے شدیدہنگامہ اورواک آؤٹ کیا۔اپوزیشن محمودلرشیدنے کہا کہ تمام سیاستدانوں کی بیرون ملک موجود دولت واپس لائی جائے۔نیب تحقیقات کرے قراردادآؤٹ آف ٹرن ہونی چاہیے۔سپیکرکاکہنا ہے کہ قراردادمجھ تک نہیں پہنچی ،راناثناء اللہ کاکہنا ہے کہ ہم اس میں ترمیم چاہتے ہیں پہلے آپ یہ برداشت کریں پھرقراردادپیش کرتے ہیں۔ عمران خان کاکہنا ہے کہ نوازشریف نے منی لانڈرنگ کرکے اپنے بچوں کوپھنسایا نیب تحقیقات کرے۔پانامہ لیکس سازش نہیں اللہ کی پکڑ ہے ۔وزیراعظم بتائیں پیسہ کیسے آیا اورکیسے باہرگیا مریم نوازنے بھی اصل اثاثے ڈکلیئر نہیں کئے ۔ ادارے وزیراعظم کااحتساب نہیں کرسکتے انہیں بندکردیاجائے میری باری آئی توکسی کونہیں چھوڑوں گا،جیلوں میں ڈالوں گا۔ انہوں نے یہ معاملہ سات اپریل کوپارلیمنٹ میں اٹھانے کااعلان بھی کیا ہے۔اعتزازاحسن نے کہاہے کہ نیب شریف فیملی کے اثاثوں کی تحقیقات کرے۔میڈیاسے گفتگوکرتے ہوئے قمرزمان کائرہ نے کہا کہ پنامہ لیکس نوازشریف کیلئے تباہ کن ثابت ہوگا۔وزیراعظم کاپاؤں اس شکنجے میں آیا ہے جودوسروں کیلئے تیارکیاگیاتھا۔سابق وزیراعظم پرویزاشرف کہتے ہیں کہ کرپشن کیخلاف عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں شریف برادران کہتے تھے ہمارے پیٹ پھاڑکردولت نکالیں گے اب ان کے پیٹ کون پھاڑے گا۔ ایک انٹرویومیں حسین نوازنے کہا ہے کہ آف شورکمپنیاں محنت کی کمائی ہیں کرپشن نہیں کی پرویزمشرف نے ہمارے ہمارے خلاف بہت کچھ چھان بین کی الزامات لگائے مگروہ غیرقانونی ثابت نہیں کرسکے۔پانامہ لیکس آنے سے پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ آف شورکمپنیاں ان کی ہیں شریف خاندان نے سیاست سے پہلے کاروبارمیں محنت کی کوئی تحقیقات کرناچاہے توشریف خاندان خودکورضاکارانہ طورپرنیب سمیت ہرادارے کے سامنے پیش کرتا ہے۔مریم ہماری آف شورکمپنیوں کی ٹرسٹی ہیں عمران خان کے پاس ثبوت ہیں توسامنے لائیں ثابت ہونے پر سزابھگتنے کوتیارہوں۔آف شورکمپنی برطانیہ اورملکی قوانین کے مطابق غیرضروری ٹیکس بچانے کاایک قانونی طریقہ ہے ۔پاکستان میں بھی قانونی تحفظ حاصل ہے۔ وفاقی وزیراطلاعات کہتے ہیں کہ نوازشریف کے صاحبزادوں کے تمام اثاثے حلال ہیں ،پانامہ لیکس نے شریف خاندان کی سچائی پرمہرثبت کردی ہے۔رپورٹ میں نوازشریف، شہبازشریف کی بیرون ملک کسی جائیدادکاذکرنہیں بدقسمتی سے شریف خاندان سے الزامات کوجوڑدیاجاتا ہے۔سابق وفاقی وزیرداخلہ عبدالرحمن ملک کاکہنا ہے کہ پانامہ لیکس کی رپورٹ جعلی من گھڑت اورجھوٹ پرمبنی ہے پانامہ لیکس میرے خلاف راکی سازش ہے۔ ایسے الزامات عائد کرکے بینظیراور میری ساکھ کونقصان پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔بینظیربھٹواورمیں نے جلاوطنی کے دنوں میں پیٹرولائن کاکاروبارقانونی طریقے سے شروع کیاتھا جوبعد میں مالی نقصانات کے باعث بندکردیاگیا۔ پیپلزپارٹی نے پانامہ لیکس کے انکشافات کے بعد وزیراعظم سے استعفیٰ کامطالبہ کردیا ہے۔
پانامہ لیکس کی اس رپورٹ یہ بات سامنے آئی ہے کہ سرمایہ چھپانے اورٹیکس بچانے کامرض صرف پاکستان میں ہی نہیں پایاجاتا دنیاکے دیگرممالک میں بھی پایاجاتا ہے۔اس رپورٹ میں پاکستان سمیت ۰۷ سے زائدممالک کے سیاستدانوں، کاروباری افراد، فنکاروں اوردیگرشخصیات کے بارے میں انکشاف کیاگیا ہے کہ انہوں نے اپناخفیہ سرمایہ آف شورکمپنیوں میں لگارکھا ہے۔حسین نواز اورعبدالرحمن ملک نے آف شورکمپنیوں میں سرمایہ کاری سے انکارنہیں کیا۔حسین نواز کہتے ہیں کہ یہ غیرضروری ٹیکس بچانے کاقانونی طریقہ ہے۔اس کی وضاحت تووزارت خزانہ اورماہرین معاشیات ہی کرسکتے ہیں کہ غیرضروری ٹیکس بھی ہوتا ہے۔ہم نے غیرضروری ٹیکس کالفظ پہلی بارپڑھا ہے۔ریاست ملک کے مختلف طبقات سے جوٹیکس وصول کرتی ہے کیااس میں کچھ ٹیکس غیرضروری بھی ہوتا ہے۔ ٹیکس بچانا ٹیکس چوری کے زمرے میں آتا ہے اورٹیکس چوری ہمارے ملکی قوانین میں جرم ہے۔حسین نوازکہتے ہیں کہ یہ غیرضروری ٹیکس بچانے کاقانونی طریقہ ہے گویا برطانیہ اورملکی قوانین ٹیکس بچانے یاچوری کرنے کی بھی اجازت دیتے ہیں۔ البتہ حسین نوازنے کرپشن سے انکارکرتے ہوئے خودنیب سمیت کسی بھی ادارے سامنے پیش ہونے کی پیشکش کی ہے۔عبدالرحمن ملک نے اس رپورٹ کوراکی سازش اوربینظیربھٹومرحومہ اوراپنی ساکھ کونقصان پہنچانے کی سازش قراردیا ہے۔پیپلزپارٹی کے بعض راہنماؤں نے نیب سے شریف برادران کے خلاف توتحقیقات کامطالبہ کیاہے تاہم انہوں نے بینظیرمرحومہ اورعبدلرحمن ملک کانام آنے پرکوئی تبصرہ نہیں کیااورنہ ہی نیب سے تحقیقات کامطالبہ کیا ہے۔پانامہ لیکس کی اس رپورٹ سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ مغربی ممالک میں کس طرح دنیابھرکاسرمایہ اپنے ہاں جمع کرایاجاتا ہے۔ کس طرح شخصیات کوخوبصورت پیکج دے کران کاسرمایہ اپنے ملک میں لگانے پرآمادہ کرلیاجاتا ہے۔آف شورکمپنیوں میں سرمایہ کے اسباب نہیں پوچھے جاتے اورسرمایہ خفیہ بھی رکھاجاتا ہے۔اب سرمایہ کارکیلئے اس سے بڑی سہولت کیاہوسکتی ہے کہ ان کی دولت محفوظ بھی رہے اور رازمیں بھی رہے۔اسلام اورملکی قوانین جائزذرائع سے دولت کمانے سے نہیں روکتے۔ نہ ہی کوئی یہ حدمقررکی گئی ہے کہ ایک انسان زیادہ سے زیادہ کتنی دولت جمع کرسکتا ہے۔جائزذرائع سے کمائی گئی دولت سے آپ زکواۃ، عشر اورریاست کے عائدکردہ تمام ٹیکسزایمانداری سے اداکرتے ہیں توآپ کی کمائی گئی دولت آپ کیلئے جائز ہوجاتی ہے ۔ آپ اسے جس طرح چاہیں مصرف میں لاسکتے ہیں۔دوسری بات یہ ہے کہ آپ جس ذریعہ سے دولت کمارہے ہیں اس میں کام کرنے والوں کومعاوضہ ان کی محنت ،قابلیت کے مطابق بروقت اداکرتے ہیں۔صارفین کی مجبوریوں سے فائدہ نہیں اٹھاتے، مال تجارت میں عیب نہیں چھپاتے توآپ کی دولت آپ کیلئے حلال ہے۔ اپنے ماتحت کام کرنے والوں کے علاوہ علاقہ، بستی، شہر ،گاؤں میں بھی ضرورت مندوں کاخیال رکھنے سے آپ کی دولت میں اضافہ ہوگا۔پانامہ لیکس میں دوسوپاکستانی شخصیات کاانکشاف ہوا ہے کہ انہوں نے آف شورکمپنیوں میں سرمایہ کاری کررکھی ہے۔ایک طرف حکومت ریاست کانظام چلانے کیلئے عالمی مالیاتی اداروں سے سخت سے سخت شرائط پر قرضے پہ قرضہ لے رہی ہے دوسری طرف دوسوشخصیات نے آف شورکمپنیوں میں سرمایہ کاری کررکھی ہے۔آف شورکمپنیوں میں لگایاگیا سرمایہ ملک میں واپس لایا جائے توحکومت کوریاست کانظام چلانے کیلئے عالمی مالیاتی اداروں کی سخت شرائط برداشت نہیں کرناپڑیں گی۔وزیراعظم بیرون ملک جہاں بھی جاتے ہیں سرمایہ کاروں کوپاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کی ترغیب دلاتے ہیں ادھران کے بیٹوں سمیت دوسوپاکستانیوں نے آف شورکمپنیوں میں سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔غیرملکی سرمایہ کاروں کوپاکستان میں لانے سے بہتر ہے کہ ملک کاجوسرمایہ باہر ہے وہ واپس لایا جائے۔جوسہولیات انہیں وہاں حاصل ہیں وہی سہولیات اپنے ہی ملک میں دی جائیں۔پاکستان میں اب دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ ان کے سہولت کاروں کے خلاف بھی کارروائی کی جارہی ہے۔دولت چھپانا جرم ہے توآف شورکمپنیاں بھی دولت چھپانے اورٹیکس بچانے کی سہولت کار ہیں۔ اس جرم میں یہ برابرکی ذمہ دارہیں ۔ایسی کمپنیوں کی اجازت نہیں ہونی چاہیے جودولت چھپانے اورٹیکس بچانے کی سہولت فراہم کرکے دنیابھرکاسرمایہ اپنے ہاں اکٹھاکرنے کی ترغیب دیں۔پاکستانی سیاستدانوں کوایک دوسرے کیخلاف بولنے سے بہتر ہے کہ ان سہولت کاروں کیخلاف مہم چلائیں جن کی وجہ سے ملک کاکثیرسرمایہ وہاں لگاہوا ہے۔اس رپورٹ کے جاری کرانے کامقصد پاکستان میں راکی کارستانیوں کاپردہ چاک ہونے کے بعد دنیا کی توجہ اس سے ہٹانابھی ہوسکتا ہے۔

Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 407 Articles with 351667 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.