1849ء میں انگریزوں نے سکھ حکمرانوں سے اقتدار چھین کر جب
پنجاب پر قبضہ کیا تو پاکپتن، اوکاڑہ، منٹگمری، (موجودہ ساہیوال) گوگیرہ
اور ہڑپہ کے علاقوں پر مشتمل ایک ضلع بنایا جس کا صدر مقام پہلے پاکپتن اور
بعد ازاں 1852ء میں گوگیرہ کو رکھا گیا۔صدر مقام میں انتظامی امور کو چلانے
کے لیے ضلع کچہری، بخشی خانہ اور جیل تعمیر کی گئی اور لارڈ برکلے کو
گوگیرہ کا اسسٹنٹ کمشنر تعینات کیا گیا۔اس وقت گوگیرہ کی حدود مشرق میں
فیروز پور، شمال میں لاہور، مغرب میں گجرانوالہ اور جھنگ جبکہ جنوب میں
دریائے ستلج کے میدانی علاقوں تک پھیلی ہوئی تھی۔1865ء تک گوگیرہ صدر مقام
رہا اور بعد ازاں انگریز نے منٹگمری کو صدر مقام بنا دیا۔گوگیرہ میں تب
کھوکھر، بھٹی، ملک، ارائیں، فتیانہ، کھرل، کاٹھیہ و دیگر قومیں آباد تھیں
جن میں کھرل قوم کے سپوت رائے احمد خاں کھرل کو تاریخی لحاظ سے خاص مقام
حاصل ہے جو راوی کے دوسرے کنارے پر واقع گاؤں جھامرہ کا رہائشی تھا۔احمد
خان کھرل نے تمام قبائل کو متحد کرکے انگریزوں کے خلاف اعلان جنگ کیا اور
26 جولائی 1857ء کو گوگیرہ جیل پر حملہ کرتے ہوئے پابند سلاسل بے گناہ
قیدیوں کو رہائی دلوائی۔
اس کاروائی کا بدلہ لینے کے لیے انگریز فوجوں نے جھامرے پر حملہ کیا۔ سردار
احمد خاں کھرل تو نہ ملا مگر انگریزوں نے بستی کو آگ لگا کر عورتوں اور
بچوں کو قیدی بنا لیا اور انتقامی کاروائی جاری رکھتے ہوئے گشکوریاں کے
قریب 'نورے دی ڈل' کے مقام پر دورانِ نماز احمد خان پر حملہ کر کے انہیں
شہید کر دیا۔احمد خاں کھرل کا مزار جھامرے میں جبکہ لارڈ برکلے کو گوگیرہ
کے ایک چھوٹے قبرستان میں دفنایا گیا۔آبادیایک اندازے کے مطابق گوگیرہ کی
آبادی پچاس ہزار کے قریب اور زیادہ تو لوگوں کا زریعہ معاش کھیتی باڑی
ہے۔اٹھارھویں صدی میں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر کا درجہ رکھنے والا گوگیرہ موجودہ
دور میں تحصیل تک کی حثیت سے محروم ہے جس سے شہر میں بنیادی سہولیات کا
فقدان ہے۔سیاسی کارکن چوہدری ربنواز کا کہنا ہے آج سے تقریبًا دس سال قبل
مرحوم رائے محمد اسلم خاں کھرل اور ایم این اے راؤ سکندر اقبال نے گوگیرہ
کے دھوبی بازار میں جلسہ کرتے ہوئے وعدہ کیا تھا کہ گوگیرہ کو تحصیل کا
درجہ دلوایا جائے گا تاہم یہ وعدہ آج تک وفا نہیں ہو سکا۔
اہم عمارتیں
بنگلہ گوگیرہ میں ایک گورنمنٹ بوائز ہائی سکول، ایک گورنمنٹ گرلز ہائی
سکول، گورنمنٹ بوائز کالج، گورنمنٹ گرلز کالج موجود ہیں تاہم گورنمنٹ گرلز
کالج عملہ کی تعیناتی نہ ہونے کے سبب گزشتہ پانچ سال سے غیر فعال ہے۔گوگیرہ
میں رورل ہیلتھ ڈسپنسری اور گورنمنٹ سکول و کالج کے علاوہ اور کوئی خاطر
خواہ سرکاری ادارہ موجود نہیں ہے۔نادرہ دفتر کو بھی ضم کر کے یونین کونسل
دفتر بنا دیا گیا ہے جس کی وجہ سے شناختی کارڈ سائلین کو اوکاڑہ کا رخ کرنا
پڑتا ہے۔اسسٹنٹ کمشنر لارڈ برکلے کے دفتر میں آزادی کے بعد سکول قائم کر
دیا گیا جو کہ آج بھی موجود ہے۔انگریز دور میں بنائے جانے والے بخشی خانہ
کی بھی اب باقیات ہی رہ چکی ہیں جس سے تاریخ کی خستہ حالی جھلکتی ہے۔
اہم سیاسی شخصیات
گوگیرہ کی اہم شخصیات میں چوہدری ندیم عباس ربیرہ ایم این اے، چوہدری مسعود
شفقت ربیرہ ایم پی اے، سیاسی و سماجی کارکن ملک اسلم اور یونین کونسل
چئیرمین ملک اقبال شامل ہیں۔گوگیرہ کا موسم گرم اور خشک ہے۔ موسمِ گرما
اپریل سے شروع ہوتا ہے اور اکتوبر تک جاری رہتا ہے۔مئی، جون، جولائی اور
اگست گرم ترین مہینے ہیں۔ ان مہینوں میں زیادہ سے زیادہ درجہء حرارت 40 تا
50 ڈگری اور کم از کم 28 ڈگری تک ہوتا ہے۔ شہر کے نواح و مضافات میں مٹی
بہت زرخیز ہے۔ |