قرآن وحدیث میں پردہ کے واضح احکام موجود ہیں لیکن
اس کے باوجود اس قرآنی حکم سے جس طرح اعراض برتاجارہا ہے یہ طرزِ عمل نہ
صرف قابلِ مذمت ہے بلکہ دنیا وآخرت میں شدید نقصانات کا بھی باعث ہے۔
چند اشکالات اور ان کے جوابات
بعض لوگ دل صاف اور نظر پاک یا نظر صاف کا بہانہ کرتے ہیں ان سے پوچھتاہوں
کہ حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا دل اور ان کی نظر کے بارے میں کیا خیال
ہے؟ یقینا ان کا دل پاک اور نظر صاف تھی پھر حضور ا نے ان کو کیوں حکم دیا
کہ اے علی پہلی اچانک نظر معاف ہے مگر خبردار دوسری نظر مت ڈالنا۔ کیا آپ
لوگوں کی نظر اور آپ لوگوں کا دل حضرت علی سے زیادہ پاک صاف ہے؟
بعض لوگ چھوٹے گھر اور زیادہ خاندان میں پردہ برقرار رکھنا مشکل سمجھتے ہیں
اس پر فرمایا: بعض گھرانے ایسے ہیں کہ چار بھائی ایک گھر میں رہتے ہیں مگر
شرعی پردہ کا اہتمام ہے آواز دے کر گھر میں داخل ہوتے ہیں تاکہ جو نامحرم
ہو چہرہ چھپا لے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہسپتال میں جو نرسیں ہیں حضور اکرم صلیٰ اﷲ علیہ وآلہ
وسلم کے زمانے میں بھی عورتیں مرہم پٹی وغیرہ جہاد کے زخمیوں کا کیا کرتی
تھیں اور جہاد میں شریک ہوا کرتی تھیں اس کا جواب یہ ہے کہ ابتداء اسلام
میں قبل نزول آیاتِ حجاب ایسا تھا چنانچہ بعد نزول احکام پردہ بعض عورتوں
نے عورتوں کی طرف سے نمائندگی کے طور پر بارگاہ رسالت سے جہاد کی شرکت کی
اجازت چاہی تو آپ نے منع فرما دیا اور فرمایا کہ تمہارا جہاد اپنے گھروں
میں اپنے شوہروں کی خدمت ہے۔
دعوتِ فکر
قرآن پاک میں واضح طور پر حکم دیا گیا ہے کہ مومنوں کو کہہ دو کہ اپنی
نگاہیں نیچی رکھیں حدیث شریف میں بھی وارد ہے کہ :"لعن الناظر والمظور
الیہا" یعنی عورتوں کو قصد وارادہ سے دیکھنے والا ملعون ہے اور وہ عورت جو
بے پردہ ہوکر دکھا رہی ہے ملعونہ ہے لعنت کا مفہوم شریعت میں خدائے تعالیٰ
کی رحمت سے دوری ہے اور بے پردہ عورت سے جتنے لوگ بدنگاہی میں مبتلا ہوں گے
ان سب کو بھی گناہ تو الگ ہوگا مگر اس عورت کے سر سب کے گناہوں کا مجموعہ
لادا جاوے گا او ر اس کے شوہر یا ماں باپ کو بھی جنہوں نے اسے پردہ میں
رکھنے کی کوشش نہیں کی ان پر بھی سب کے گناہوں کا مجموعی طور پر وبال ہوگا۔
کاش! ہم مذکورہ بالا معروضات پر غور کرکے شرعی پردہ کا اہتمام شروع کردیں
کیونکہ آجکل اس منکر کے عام ہونے کی وجہ سے بے حیائی اور فحاشی دن بدن
بڑھتی جارہی ہے نتیجةً پوری امت مبتلائے عذاب ہے' اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح
سمجھ اور توفیقِ عمل عطا فرمائے آمین
نیچے پردے کے متعلق قرآن کی آیات لکھی گئی ہیں اور آخر میں پردے کے متعلق
سوالات کے جوابات د ئیے گئے ہیں۔ پردے کے معاملے میں مسالک کے درمیان
اختالافات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ لیکن آج کے نام نہاد ڈاکٹروں اور
پروفیسروں سے کچھ بھی بعید نہیں جو مذہبی سکالر بن کر لوگوں کو گمراہ کرتے
ہیں اور دین کی روح سے قطعی واقف نہیں ہوتے۔
القرآن
اللہ نے مومنوں سے انکی جانیں اور ان کے مال خرید لئے ہیں اور اسکے عوض
انکے لئے بہشت تیار کی ہے۔ یہ لوگ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں تو مارتے بھی
ہیں اور مارے بھی جاتے ہیں۔یہ تورات اور انجیل اور قرآن میں سچا وعدہ ہے جس
کا اسے ضرور پورا کرنا ہے اور اللہ سے زیادہ وعدہ پورا کرنے والا کون ہے؟
تو جو سودا تم نے اس سے کیا ہے اس سے خوش رہو۔ اور یہی بڑی کامیابی ہے۔9
التوبۃ 111
اور مومن عورتوں سے کہدو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی
شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی آرائش یعنی زیور کے مقامات کو ظاہر نہ
ہونے دیا کریں مگر جو اس میں سے کھلا رہتا ہو۔ اور اپنے سینوں پر اوڑھنیاں
اوڑھے رہا کریں اور اپنے خاوند اور باپ اور خسر اور بیٹوں اور خاوند کے
بیٹوں اور بھائیوں اور بھتیجوں اور بھانجوں اور اپنی جیسی مومن عورتوں اور
لونڈی غلاموں کے سوا نیز ان خدام کے جو عورتوں کی خواہش نہ رکھیں یا ایسے
لڑکوں کے جو عورتوں کے پردے کی چیزوں سے واقف نہ ہوں غرض ان لوگوں کے سوا
کسی پر اپنی زینت اور سنگھار کے مقامات کو ظاہر نہ ہونے دیں۔ اور اپنے پاؤں
ایسے طور سے زمین پر نہ ماریں کہ جھنکار کانوں میں پہنچے اور ان کا پوشیدہ
زیور معلوم ہو جائے اور مومنو سب اللہ کے آگے توبہ کرو تاکہ فلاح پاؤ۔ 24
النور 31
مومن مردوں سے کہدو کہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی
حفاظت کیا کریں۔ یہ انکے لئے بڑی پاکیزگی کی بات ہے اور جو کام یہ کرتے ہیں
اللہ ان سے خبردار ہے۔ 24 النور 30
اے پیغمبر اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہدو کہ باہر
نکلا کریں تو اپنے چہروں پر چادر لٹکا کر گھونگھٹ نکال لیا کریں۔ یہ چیز
انکے لئے موجب شناخت و امتیاز ہو گی تو کوئی انکو ایذا نہ دے گا۔ اور اللہ
بخشنے والا ہے مہربان ہے۔ 33 الاحزاب 59
یعنی بدن ڈھانپنے کے ساتھ چادر کا کچھ حصہ سر سے نیچے چہرہ پر بھی لٹکا
لیویں۔ روایات میں ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے پر مسلمان عورتیں بدن اور
چہرہ چھپا کر اس طرح نکلتی تھیں کہ صرف ایک آنکھ دیکھنے کے لئے کھلی رہتی
تھی۔ اس سے ثابت ہوا کہ فتنہ کے وقت آزاد عورت کو چہرہ بھی چھپا لینا
چاہئے۔
اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور جس طرح پہلے جاہلیت کے دنوں میں زیب و
زینت کی نمائش کیجاتی تھی اس طرح اظہار زینت نہ کرو اور نماز پڑھتی رہو اور
زکوٰۃ دیتی رہو اور اللہ اور اسکے رسول کی فرمانبرداری کرتی رہو۔ اے پیغمبر
کی گھر والیو اللہ چاہتا ہے کہ تم سے ہر طرح کی ناپاکی دور کر دے اور تمہیں
بالکل پاک صاف کر دے۔ 33 الاحزاب 33
خواتین پر اپنے باپ داد سے پردہ نہ کرنے میں کچھ گناہ نہیں اور نہ اپنے
بیٹوں سے اور نہ اپنے بھائیوں سے اور نہ اپنے بھتیجوں سے اور نہ اپنے
بھانجوں سے نہ اپنی سی خواتین سے اور نہ اپنے باندی غلاموں سے اور اے
خواتین اللہ سے ڈرتی رہو بیشک اللہ ہر چیز سے واقف ہے۔ 33 الاحزاب 55
اور بڑی عمر کی عورتیں جنکو نکاح کی توقع نہیں رہی اور وہ زائد کپڑے اتار
کر سر ننگا کر لیا کریں تو ان پر کچھ گناہ نہیں بشرطیکہ اپنی زینت کی چیزیں
نہ ظاہر کریں۔ اور اگر اس سے بھی بچیں تو یہ ان کے حق میں بہتر ہے اور اللہ
سنتا ہے جانتا ہے۔ 24 النور 60
اگر تم کسی چیز کو ظاہر کرو یا اسکو مخفی رکھو تو یاد رکھو کہ اللہ ہر چیز
سے باخبر ہے۔ 33 الاحزاب 54
اے پیغمبر کی بیویو تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو۔ اگر تم پرہیزگار رہنا
چاہتی ہو تو کسی اجنبی شخص سے نرم لہجے میں بات نہ کرو تاکہ وہ شخص جسکے دل
میں کسی طرح کا روگ ہے کوئی امید نہ پیدا کر لے۔ اور دستور کے مطابق بات
کیا کرو۔ 33 الاحزاب 32
سوالات و جوابات
سوال: مجھے یہ معلوم کرنا ہے کہ کن رشتہ داروں سے آدمی کو یا عورت کو پردہ
کرناچاہئے ؟ اور کون سے رشتہ دار ہیں جن سے نکاح کی حرمت وقتی ہے؟ یعنی
ابدی حرمت نہیں ہے۔ اللہ تعالی آپ سب کو جزائے خیر دے اور آپ سب کی خدمت کو
قبول کرے۔ آمین
جواب: خالہ زاد بہنوں، پھوپھی زاد بہنوں اسی طرح ماموں زاد بہنوں اور چچا
زاد بہنوں سے پردہ کرنا چاہیے اس لیے کہ یہ محرمات میں سے نہیں ہیں یعنی
اِن رشتہ دار عورتوں سے مرد کا نکاح کسی وقت بھی جائز ہے، بشرطیکہ پہلے سے
وہ کسی کے نکاح و عدت میں نہ ہو، اسی طرح جن عورتوں سے نکاح کی حرمت وقتی
ہے ان سے بھی پردہ ہے جیسے چچی جب تک چچا کے نکاح یا عدت میں ہو اس سے نکاح
ناجائز ہے اسی طرح ماموں کی بیوی جب تک وہ ماموں کے نکاح و عدت میں ہو یا
بھائی کی بیوی جب تک بھائی کے نکاح و عدت میں ہو اس سے نکاح ناجائز ہے اور
پردہ لازم ہے۔
سوال: میرے لیے کون کون سے رشتہ دار محرم ہیں ؟ میرا مطلب یہ ہے کہ کن رشتہ
دار عورتوں کو اس لڑکے سے پردہ لازم ہے؟ کیا ممانی، چچی وغیرہ محرم ہیں،
کیاان پر لڑکے سامنے پردہ لازم ہے؟ کیا میرے ابو یا امی کے کزن (ماموں
زاد،چچازاد، خالہ زاد، پھوپھی زادبھائی بہن) کی بیٹی کو مجھ سے پردہ لازم
ہے؟ نیز، کزن بھائی بہنوں کو ایک دوسرے سے پردہ کرنا چاہیے یا نہیں؟
جواب: جن عورتوں سے ہمیشہ کے لیے نکاح حرام ہے مثلاً، بیٹی، بہن، ماں،
دادی، نانی، بھتیجی، بھانجی وغیرہ وہ سب محرم ہیں، ممانی، چچی وغیرہ محرم
نہیں ہیں، ان سے پردہ لازم ہے۔ اپنے ابو یا امی کے کزن کی لڑکیوں سے پردہ
ہے اور خوداپنے کزن (چچازاد، پھوپھی زاد وغیرہ) بھائی بہن کو ایک دوسرے سے
پردہ لازم ہے۔
سوال: عورت کن کن سے پردہ کرے؟ کیا وہ اپنے شوہر کے چچا اور شوہر کے ماموں
سے پردہ کرے؟ براہ کرم، اس کی وضاحت فرمائیں۔
جواب: تمام غیر محرم مردوں سے پردہ کرنا ضروری ہے اپنے شوہر کے چچا اور
ماموں سے بھی پردہ کرنا ضروری ہے تفصیل کسی کتاب میں دیکھ لی جائے۔
سوال: اسلام میں پردہ کرنا ضروری ہے لیکن مسلم لڑکیاں جینس پہنتی ہیں۔ کیا
ہمارے اسلام میں یہ جائز ہے؟
جواب: مذہب اسلام میں پردہ ضروری ہے۔ لڑکیوں کو ایسا لباس پہننا جس سے جسم
کی ساخت معلوم ہو یا عریانیت ظاہر ہو تو جائز نہیں۔
سوال: کچھ لوگ کہتے ہیں کہ عورت کے لیے چہرے کا پردہ کرنا ضروری نہیں ہے
اور اس طرح کا کوئی حکم قرآن اور صحیح حدیث میں نہیں ہے ۔ براہ کرم، قرآن و
حدیث کے حوالے سے ترجمہ کے ساتھ پردہ کے بارے میں بتائیں ۔ نوازش ہوگی۔
جواب: جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ عورت کے لیے چہرے کے پردے کے متعلق کوئی حکم
قرآن حدیث میں نہیں ہے ان کی بات صحیح نہیں ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالی کا
ارشاد ہے وَاِذَا سَاَلْتُمُوْھُنَّ مَتَاعًا فَسْئَلُوْھُنَّ مِنْ
وَّرَآءِ حِجَابٍ (الأحزاب: ۵۳) دوسری جگہ ارشاد ہے: یُدْنِیْنَ
عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلاَبِیْبِھِنَّ (الأحزاب:۵۹) پہلی آیت میں حکم ہے کہ جب
عورتوں سے کوئی چیز مانگی جائے تو بے پردہ نہ مانگی جائے بلکہ پردے کے
پیچھے سے مانگی جائے۔ دوسری آیت میں حکم ہے کہ عورتیں جب باہر نکلیں تو
اپنے اوپر چادریں لٹکالیا کریں۔ ظاہر ہے کہ ان چادروں کا لٹکانا چہرے کے
پردے کے لیے ہے جیسا کہ مفسرین کی صراحت سے معلوم ہوتا ہے، پس قرآن کے
ذریعہ عورتوں کو حکم ہے کہ وہ اپنے گھروں میں پردہ کے ساتھ رہیں اور جب کسی
ضرورت سے باہر نکلیں تو برقع یا چادر سے چہرے کو ڈھانپ لیں۔ البتہ ضرورت کے
وقت بقدر ضرورت کھول لینے کی اجازت ہے، مثلاً یہ کہ بھیڑ میں چلنا ہو او
رچہرہ ڈھانکنے سے اسے نقصان ہوسکتا ہو۔ البتہ اس صورت میں مردوں کو حکم ہے
کہ وہ اپنی نگاہوں کو نیچی کرلیں: قُلْ لِّلْمُوٴْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ
اَبْصَارِھِمْ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، فقہی مقالات: ج۴)
سوال: مجھے پردہ کے بارے میں تفصیل سے بتائیں۔ کیا نقاب ضروری ہے؟
جواب: پردہ کا حاصل یہ ہے کہ عورت اپنے تمام بدن مع چہرہ کے غیر محرم مرد
سے چھپالے عموماً یہ نقاب ہی سے ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ مسلمان عورتیں نقاب
ہی استعمال کرتی ہیں، ورنہ اگر کوئی عورت چادر اپنے چہرہ پر ڈال لے اس طور
پر کہ اس کے اعضاء کی بناوٹ ظاہر نہ ہو اور چہرہ ڈھک جائے تو ایسا کرنا بھی
درست ہے۔
سوال: ساس اور سسر کا شرعاً کیا مقام ہے؟
کیا ساس داماد سے پردہ کرسکتی ہے؟
جواب:
ساس اور سسر مثل والد والدہ کے ہیں ان کا اسی طرح احترام کرنا چاہئے.
ساس اور داماد میں پردہ نہیں ہے البتہ اگر ساس جوان ہو اور فتنہ کا اندیشہ
ہو تو داماد کو خلوت میں ساس کے ساتھ رہنا نہیں چاہئے وإن كانت الصهرة شابة
فللجيران أن يمنعوها منه إذا خافوا عليهما الفتنة .
سوال: کیا عورتوں کے لیے جائز ہے کہ وہ عورتوں اور بچوں کے سامنے سر کھولے
رہیں؟ (سر کا پردہ نہ کریں)
نیز، کیا وہ ہاف آستین کا کپڑا پہن سکتی ہیں؟
جواب: مسلمان عورتوں، اسی طرح ایسے چھوٹے بچوں کے سامنے عورت سر کھول سکتی
ہے، جو عورت کے پردے کی باتوں کے بارے میں واقف نہ ہوں اور نہ ہی انھیں
شہوت کا کچھ پتہ ہو:
اَوْ نِسَآئِهنَّ اَوِ الطِّفْلِ الَّذِیْنَ لَمْ یَظْهَرُوْا عَلَی
عَوْرَاتِ النِّسَآءِ- الآیة: ۳۱، سوة النور
عورت اپنے محارم کے سامنے ہاتھ اور بازو کھول سکتی ہے اس لیے ہاف آستین کا
لباس بھی ان کے سامنے پہن سکتی ہے۔ (ومن محرمہ إلی الرأس والوجہ والصدر
والساق والعضد إن أمن شهوتہ) وشهوتها أیضا (وإلا لا) ]الدر المختار مع
الشامي. ط زکریا: 9/528) لیکن چونکہ عورت کے ہاتھ اور بازو ستر میں داخل
ہیں، جن کانماز میں چھپانا ضروری ہے اس لیے ایسا لباس پہننے سے احتراز ہی
کرناچاہیے۔
سوال: کیا عورتوں کے لیے چہرے کا پردہ کرنا فرض ہے یا واجب ہے یا مستحب ہے؟
اور جو عورت صرف چہرے کا پردہ نہ کرے اس کے لیے کیاحکم ہے؟
جواب: فرض ہے، کذا فی تفسیر ابن کثیر ج۳ ص۵۱۸، جو عورت کوتاہی کرتی ہے وہ
گنہ گار ہے۔
سوال: میرے بھائی کے آفس میں لڑکیاں بھی کام کرتی ہیں اور پردہ بھی نہیں
کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ بے حیائی والے لباس جن میں آستین بھی نہیں ہوتی
پہنتی ہیں۔ کمپنی کیمکل کی امپورٹ (درآمدکرنے)کا کام کرتی ہے۔ کیا اس کے
لیے اس کمپنی میں کام کرنا جائز ہے یا نہیں؟
جواب: جو لڑکیاں آفس میں کام کرتی ہیں، ان کے ساتھ بے تکلفی ہنسی مذاق کرنا
سخت گناہ ہے۔ بے محابا سامنے ہونے سے بھی احتیاط برتی جائے۔ بدنظری سے
پرہیزکرتے ہوئے اس آفس میں کام کرنے کی آپ کے بھائی کے لیے گنجائش ہے۔ بوقت
ضرورت سامنے ہونے یا بات کرنے میں نگاہیں نیچی کرلی جائیں۔
نگاہوں کی حفاظت کے ساتھ اس سے بہتر کوئی ملازمت مل جائے جہاں اور کوئی
دوسرے مفاسد نہ ہوں تو صاف شفاف جگہ کی ملازمت زیادہ بہتر ہے۔
سوال: ایک شرعی پردہ کرنے والی لڑکی کی والدہ اسے بار بار اس بات پر مجبور
کررہی ہے کہ وہ رشتے کے لیے تصویر کھینچوائے تو ایسے میں وہ لڑکی کیا کرے؟
(۲) کیاپہلے سے کھینچائی ہوئی تصویررشتہ کے لیے دی جاسکتی؟ دعاؤں کی خاص
درخواست ہے۔
جواب: صورت مسئولہ میں لڑکی کو تصویر کھنچوانے کے لیے مجبور کرنا قطعاً
جائز نہیں ہے، اس بارے میں شرعی حکم یہ ہے کہ لڑکا لڑکی کے سامنے حاضر ہوکر
خود اپنی نگاہ سے دیکھ لے، تصویر کھنچوانے کے بارے میں حدیث میں سخت وعید
وارد ہوئی ہے۔
پہلے سے کھنچائی ہوئی تصویر بھیجنا بھی جائز نہیں ھے،مکروہ ہے۔ وعن المغیرة
بن شعبة قال خطبت امرأة فقال لي رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ھل نظرت
إلیہاقلت لا قال فانظر إلیھا فإنہ أحری أن یودم بینکما رواہ أحمد
مشکاة:۲۶۹۔ إن أشد الناس عذابًا یوم القیامة المصورون (الحدیث)
سوال: میرا اور میرے سسرال والوں کا پردہ پر اختلاف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ
میری بیوی اپنے بہنوئی اور کزن کے سامنے آئے۔ مگر میں ایساہونے نہیں دیتا۔
اسی پردہ کی وجہ سے آج میرے سسرال والوں سے اختلاف بہت زیادہ ہے۔ میرے
سسرجو کہ نقشبندی سلسلے سے وابستہ ہیں ان کا کہنا ہے کہ کزن اور بہنوئی
بھائیوں کی طرح ہوتے ہیں ان سے پردہ نہیں ہوتا۔ میری بیوی جس طرح میرے
سسرال کی طرف داری کرتی ہے اس طرح میرا ساتھ نہیں دیتی۔
جواب: شرعاً ہراس شخص سے پردہ ہے جس سے عورت کا نکاح ہمیشہ کے لیے حرام نہ
ہو، بیوی کے بہنوئی اگر اپنی بیو ی کو طلاق دیدے یا اس کی وفات ہوجائے اور
آپ بھی اپنی بیوی کو طلاق دیدیں تو اس بہنوئی کے لیے آپ کی بیوی سے نکاح
کرنا جائز ہوگا، دوسرے معنی کے لحاظ سے یہ کہہ لیجیے کہ دو بہنوں کو ایک
نکاح میں جمع کرنا حرام ہے، اگر ایک بہن کو طلاق ہوجائے اور اس کی عدت
گذرجائے تواس کی دوسری بہن سے نکاح کرنا جائز ہے۔ یہی حال چچیرے اور خلیرے
بھائیوں کا ہے کہ ان سے عورت کے لیے نکاح کرنا جائز ہے، بنابریں وہ سب
غیرمحرمہیں اور شرعاً ان سے پردہ کرنا واجب ہے، آپ کے سسر کا یہ کہنا کہ
کزن اوربہنوئی بھائیوں کی طرح ہیں،ان سے پردہ نہیں ہوتا، یہ ان کی جہالت
اور کم عقلی کی دلیل ہے، اسی طرح آپ کی بیوی کا اس مسئلہ میں آپ کے سسرال
والوں کی طرف داری کرنا بھی غلط ہے۔
سوال: میں جاننا چاہتا ہوں کہ از روئے شریعت پردہ کے دوران چہرہ ، ہاتھ اور
پیر کا کتنا حصہ کھولنے کی گنجائش ہے؟ عمرہ اور حج کے دوران کیا عورت اپنے
چہرہ ، ہتھیلی اور پنجوں کو کھول سکتی ہے؟اس میں کتنی گنجائش ہے؟
جواب: عورت اجنبی مردوں کے سامنے چہرہ نہیں کھول سکتی ہے، ہتھیلی اوراس کی
پشت اسی طرح ٹخنوں سے نیچے دونوں پیر اگر کھلے ہوئے ہوں تواس کی گنجائش ہے:
قال في الدر مع الرد: 2/79، وتمنع من کشف الوجہ بین الرجال اھ البتہ بوڑھی
عورت چہرہ بھی کھول سکتی ہے بشرطیکہ فتنے کا اندیشہ نہ ہو
حج یا عمرہ کے احرام میں بھی اجنبی مردوں کے سامنے چہرہ کھولنا جائز نہیں؛
لیکن چونکہ احرام میں چہرہ کا چھپانا ممنوع ہے اس لیے سرکے اوپر سے کوئی
ایسی چیز لٹکائے جو چہرہ سے نہ لگے اور اس کے ذریعہ پردہ بھی ہوجائے، باقی
ہتھیلی اور پنجوں کا حالت احرام میں وہی حکم ہے جو عام حالات میں ہے قال في
الرد: 3/497: في البحرعن الغایة: أنھا تغطي وجھھا إجماعًا أي: إنما تستر
وجھھا عن الأجانب بإسدال شيء متجاف لا یمسّ الوجہ اھ
سوال: میں گاؤں کا رہنے والا ہوں۔ ہمارے یہاں کچھ عورتیں ہوتی ہیں جو کہ
مکمل طور پردہ نہیں کرسکتی ہیں کیوں کہ اس میں کچھ پریشانی ہے جیسے دوردراز
علاقہ سے پانی لانا اوردوسرے کام جیسے بھینسوں کی دیکھ بھال کرنا وغیرہ۔
کیا ان عورتوں کے لیے اسلام میں کوئی خاص رعایت ہے؟
جواب: پردہ کا حکم عام ہے خواہ شہر کی عورتیں ہوں یا دیہات کی، اگر وہ کسی
ضرورت کی بنا پر باہر نکلتی ہیں تو ان کو مکمل پردہ کی رعایت کرتے ہوئے
نکلنا ضروری ہے۔
سوال: میرا سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شوہر اللہ کے حکم کے مطابق اپنی بیوی سے
کہے کہ تم پردہ کرو اور وہ نہ مانے، سات آٹھ مہینے تک اسے سمجھاتا رہے کہ
وہ پردہ کرے، پھر بھی وہ نہ مانے تو کیا شوہر اپنی بیوی سے زبردستی پردہ
کرواسکتا ہے؟ اور اگر نہیں تو پھر اس کو کیا کرنا چاہیے کہ جس سے اس کی
بیوی پردہ کرنے پر راضی ہوجائے؟ یاد رہے کہ وہ ہر طرح زبانی طور پر بیوی کو
سمجھاچکا ہے، لیکن وہ مانتی نہیں۔
جواب: اپنا اور اپنی بیوی کا مزاج نیز گھر یلو نظام ملحوظ رکھ کر کبھی
کبھار مناسب مقدار میں زبردستی کا انداز اختیار کرلیا جائے تو گنجائش ہے
مگر بہتر یہی ہے کہ حکمت، بصیرت، نرمی و شفقت، سے ہی نصیحت کرتے رہیں۔ اصل
یہ ہے کہ انسدادِ گناہ (بے پردگی وغیرہ)کے لیے تزکیئہ باطن کی ضرورت ہے. دل
میں اگر خوف و خشیت، تقوی و طہارت پیدا ہوجائے، جنت و جہنم کا استحضار ہو
جائے، قبر، حشر، حساب کتاب اور آخرت کی جواب دہی کا احساس ہوجائے تو بڑے
بڑے گناہوں کا چھوڑدینا بہت آسان ہوجاتا ہے ورنہ عامة سختی سے اصلاح نہیں
ہوتی اگر ہوتی بھی ہے تو عارضی ہوتی ہے۔ بہشتی زیور حیوة المسلمین، فضائل
اعمال، جزاء اعمال جیسی کتابوں کا گھر میں سننے سنانے اور مطالعہ کا ماحول
بنائیں۔ ان شاء اللہ اس سے فائدہ ہوگا۔
کیا ابھی تک مومنوں کے لئے اس کا وقت نہیں آیا کہ اللہ کی یاد کرنے کے وقت
اور قرآن جو حق کی طرف سے نازل ہوا ہے اسکے سننے کے وقت انکے دل نرم ہو
جائیں اور وہ ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنکو ان سے پہلے کتابیں دی گئیں
تھیں۔ پھر ان پر طویل عرصہ گذر گیا تو انکے دل سخت ہو گئے۔ اور ان میں سے
اکثر نافرمان ہیں۔ 57 الحدید 16
اور جو اپنے پروردگار کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے مصائب پر صبر کرتے ہیں۔
اور نماز پڑھتے ہیں اور جو مال ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے پوشیدہ اور
ظاہر خرچ کرتے ہیں اور نیکی سے برائی کو دور کرتے ہیں یہی لوگ ہیں جن کے
لئے عاقبت کا گھر ہے۔ 13 الرعد 22 |