اتوار کی شام زندہ دلان ِ لاہور گلشن اقبال پارک میں سیر
اور لطف انگیز لمحات گزارنے کے لیے آئے ہو ئے بے گناہ شہریوں معصوم بچوں کو
دہشت گردوں نے ایک بار پھر خون میں نہلا دیا ۔ پچھلے بارہ سالوں میں شہر
لاہور تین درجن سے زائد بم دھماکوں کا نشانہ بن چکا ہے لیکن حالیہ بم
دھماکہ سب سے زیادہ لرزہ خیز اور دل و دماغ کو شل اور اُدھیڑنے والا تھا ۔
اتوار کی چھٹی اور مسیحی بھا ئیوں کے ایسٹر تہوار کی وجہ سے رش روٹین سے
بہت زیا دہ تھا ۔ معصوم بے گناہ شہری ہو نے والی قیامت صغرٰی سے بے خبر
اپنے معصوم پھول جیسے بچوں کو لے کر پا رک آئے ہو ئے تھے معصوم پھول نما
بچے آنے والی قیامت سے بے خبر اپنی ما ؤں باپوں اور بہن بھائیوں کی انگلیاں
پکڑے چہروں پر خو شی اشتیاق اور جو ش کے تا ثرات سجا ئے دنیا جہاں سے بے
خبر گھوم رہے تھے کو ئی جھو لوں کی طرف کو ئی کو لڈ ڈرنکس دہی بھلے فروٹ
چاٹ وغیرہ کے مطالبے اپنے بڑوں سے کر رہے تھے بچوں کے معصوم پھو ل نما چہرے
خو شی سے دمک رہے تھے تقریباً تین ہزا ر سے زیا دہ لو گ تفریح کی غرض سے پا
رک میں آئے ہو ئے تھے کہ درندے دہشت گرد نے مر کزی دروازے کے قریب جہاں بہت
زیا دہ بھیڑ اور رش کی وجہ سے لو گ جمع تھے خو دکو دھما کے سے اڑا لیا
اچانک قیا مت صغری بر پا ہو گئی اس ہو لناک دھما کے کی وجہ سے 72سے زائد
افراد جان بحق اور سینکڑوں زخمی اور اپا ہج ہو گئے ۔ دھما کے کے بعد
افراتفری پھیلنے سے اکثر معصوم چھو ٹے ، بچے ما ں با پ سے بچھڑ گئے
افراتفری میں اِیسی بھگ دڑمچی کہ کسی کو کسی کا ہو ش نہ رہا معصوم پھول نما
بچے لوگوں کے پا ؤں تلے روندے گئے کئی ما ئیں اپنے بچوں کے کٹے اعضا دیکھ
کر پا گل ہو گئیں با پ غم کی شدت سے بے ہو ش ہو گئے افراتفری اور بھا گ دوڑ
میں کسی کو کسی کا ہو ش نہ تھا ۔ وحشی درندے نے خون کا ایسا بھیانک کھیل
کھیلا کہ انسا نیت کو خود پر شر م آنے لگی انسان اِس حد تک گر سکتا ہے
انسانیت شر مندگی کے سمندر میں ڈوب گئی ۔ بہت سارے لو گ اور بچے لا پتہ ہو
گئے جن کی تلاش کے لیے کو ششیں ابھی تک جا ری ہیں ۔ لو گ اپنے پیاروں کی
تلاش میں دیوانہ وار گلشن پا رک کی طرف دوڑے کسی کو کسی کی کو ئی خبر نہ
تھی وحشت اوردرندگی کا کھیل اپنے جو بن پر تھا ۔ ما ئیں اپنے بچوں کو اور
بچے اپنے ماں با پ بہن بھا ئیوں کو دیوانہ وار پکا ر رہے تھے ۔ ما ئیں اور
بہنیں اپنے ماں جا ئیوں کو دیوانہ وار پکا رتی پھر رہی تھیں ان کی چیخ و
پکار اور دھا ڑوں سے صفِ ما تم بچھا ہوا تھا ما ؤں اور بہنوں کی آوازوں سے
لگتا تھا آسمان پھٹ پڑے گا یا اِن کی چیخیں آسمان کو اور دھرتی کو چیر
ڈالیں گی ۔ متا ثرین کی بے چینی دکھ درد آہ و بکا اور رونے پیٹنے سے آنے
والوں کی آنکھوں سے بھی درد کی شدت سے آنسوؤں کے آبشار اُبلتے رہے ۔ جب اِن
کے لا شے گھروں میں گئے تو گھر ما تم کدوں میں تبدیل ہو گئے اور جب اِن کے
جنا زے اُٹھے تو ہر آنکھ اشکبار اور دل زخمی تھا ۔ اُن ما ں با پ بہن بھا
ئیوں کے دکھ کا کیا عالم ہو گا جن کے جگر گوشوں کے لا شے ا ن کے سامنے لا
ئے گئے ہوں آنے والی ساری زندگی کیا یہ متا ثرین دکھ کے اس سمندر سے نکل پا
ئیں گے ۔ کیا ان کی با قی ساری زندگی پل صراط پر گز رنے کے برابر نہیں ہو
گی تصور کر یں اُن زخمی اور اپا ہجوں کا معذوری ساری زندگی جن کا مقدر بن
گئی ۔ ایسی ایسی معذوری کہ موت سے بھی بد تر۔ درندے دہشت گردوں نے ما ؤں
بہنوں کو درد اورجس خو ف میں مبتلا کیا ہے اِ س کا وہ اندازہ بھی نہیں کر
سکتے کہ نا دانستگی میں ظالموں نے معاشرے کے کس حساس حصے کو زخمی اور بے
پناہ تکلیف اور خوف میں مبتلا کر دیا ہے ۔ یہ وہی پا رک ہے جو پچھلے کئی
عشروں سے آنے واے لو گوں کو خو شی کے لمحات با نٹ رہا تھا ۔ پا رک کے ایک
ایک گو شے سے زندگی اور خوشیا ں پھولوں کی طرح چاروں طرف بکھرتی تھیں ایسا
پا رک جہاں یہ فطرت اپنی تما م تر رعنائیوں کے ساتھ پو ری طرح جلوہ افروز
تھی ۔ لا ہور اور دوسرے شہروں سے آنے والوں کے لیے پا رک نے اپنی ماں جیسا
دامن ہمیشہ وا کیا ہوا تھا ۔ ایسا پا رک جہاں معصوم بچوں کی بھا گ دوڑ کھیل
کو د نو جوانوں کے چہروں کا لا زوال حسن شا دی شدہ جو ڑے اور مختلف خاندان
اپنے بچوں اور عزیز و اقارب کے ساتھ آکر زندگی سے بھر پور لمحات یہاں
گزارتے ۔ گلاب کے پھولوں کا حصہ ہو یا ہرنوں کا کشادہ پا رک جھیل ہو یا
مختلف پھولوں سے سجے مہکتے گو شے یا پیدل واک کر نے والوں کا ٹریک یا پھر
بچوں کے جھو لے اور کھا نے پینے کی دکا نیں ہر وقت میلے کا سماں آپ جتنے
بھی پریشان ہو ں جب بھی آپ اِس ما ں جیسے سر سبز پا رک میں گئے تو پا رک نے
اپنی با ہوں کو پھیلا کر آنے والوں کو خو ش آمدید کہا ۔ ایسا پا رک جس کے
گو شے گو شے سے خوشیوں اور مسر توں کے چشمے پھو ٹتے تھے ۔ یہاں پریشاں سے
پریشان بندہ یا زندگی کے مسائل سے لڑتے لڑتے تھک کہ جب بھی کو ئی آیا چند
لمحا ت اِس پھولوں اور سبزے سے بھر پور لہلہاتے درختوں میں گزارے تو اپنا
سارا غم اور تھکا وٹ بھو ل گیا ۔ اِس پا رک نے سب کو زندگی اور مسر ت انگیز
لمحات دئیے ۔ لیکن ظا لم درندوں کی درندگی کی انتہا دیکھیں کہ انہوں نے
معصوم بچوں ،خوا تین اور شہریوں کو hitکیا ۔ کسی مفکر نے کیا خوب کہا تھا
کہ اگر آپ زندگی سے بے زار ہو جا ئیں آپ کی زندگی میں کشش ختم ہو جا ئے تو
آپ صرف ایک بار کسی آئس کریم کھا تے بچے کو دیکھیں وہ جس محویت اور خوشی سے
آئس کریم کھا تا اور enjoyکر تا ہے اُس بچے کے چہرے پر خو شی اور مسرت کے
قوس ِ قزح کے رنگوں کو دیکھ کر آپ زندگی کی تمام تلخ حقیقتوں کو بھول جا
ئیں گے آپ واپس زندگی کی طرف آجا ئیں گے اور دھما کے کے وقت ایسے بے شما ر
بچے آئس کریم بھی کھا رہے ہو ں گے اُس ظا لم درندے کو یہ جنت کے لا زوال
مہکتے پھولوں جیسے چہرے نظر نہ آئے آپ تاریخ انسانی کا ورق ورق پڑھ لیں آپ
کو ایک بھی ایسا ظالم حکمران نظر نہیں آئے گا جس نے اِس بے دردی اور بے
رحمی سے اِن معصوم پھولوں کو کچلا ہو گا اِن پھولوں کو موت کی بے رحم وادی
میں اُتا را ہوگا ۔ اِ س ہو لناک حا دثے کے بعد پو ری دنیا میں جہاں جہاں
بھی لو گو ں نے بھیا نک اور دلوں کو چیرنے والے مناظر دیکھے لو گ بلک بلک
کر رو پڑے ما ئیں اِس بے دردی سے بچوں پر ہو نے والی قیا مت کے بعد آج تک
ڈپریشن اور سکتے میں ہیں ۔ وہ ما ئیٰں جو اپنے بچوں کو کا نٹا بھی نہیں
چبھنے دییتیں اُن ما ؤں کے بچوں کو اِس بے درد ی سے ما را گیا کہ ظالم سے
ظالم بھی رو پڑا بلک پڑا ظا لم درندے جس جنت کی تلاش میں یہ تبا ہی پھیلا
تے ہیں اُس جنت کے مالک سرور کا ئنات مجسم رحمت آقا ئے دو جہاں ﷺ کا بچوں
کے بارے میں جوفرمان ہے اُس کو کا ش یہ ظالم پڑھ لیں ۔ ایک دفعہ ایک غزوے
میں ایسا ہو ا کہ چند بچے کسی طرح لڑائی میں آکر ما رے گئے شافع دو جہاں ﷺ
کو جب پتہ چلا تو بہت آزردہ ہو ئے تو ایک صحابی نے عرض کیا ۔ یا رسول اﷲ ﷺ
وہ تو مشرکوں کے بچے تھے تو اس سے شافع دو جہاں رحمتِ دو جہاں ﷺ نے فرمایا
مشرکوں کے بچے بھی تم سے بہتر ہیں خبردار بچوں کو قتل نہ کرو یا د رکھو ہر
بچہ اﷲ ہی کی فطرت پر پیدا کیا جا تا ہے ۔ حضور ﷺ جب بھی سفر سے واپس آتے
تو راستے میں جو بچے بھی ملتے مسلمان یا مشرک کے تو آپ ﷺ نہا یت شفقت سے
اُنہیں اپنی سواری پر آگے یا پیچھے بٹھا لیتے ۔ حضرت جا بر بن سمرہ ؓ بیا ن
کر تے ہیں کہ میں سرور دو جہاں ﷺ کے پیچھے نما ز ظہر پڑھی نماز سے فارغ ہو
نے کے بعد آپ ﷺ دولت خا نہ کو تشریف لے گئے تو میں بھی آپ ﷺ کے ساتھ ہو لیا
راستے میں پیا رے آقا ﷺ کو جو بھی بچہ ملا حضور اقدس ﷺ نے اُس کے رخسار پر
دست شفقت پھیرا اور پھر میرے رخساروں پر بھی دستِ اقدس پھیرا میں نے آپ ﷺ
کے دست ِ مبارک کی ٹھنڈک اور خوشبو ایسی پائی گو یا آپ ﷺ نے دستِ مبا رک
عطا ر کی صندوقچی سے نکالا تھا ۔ سرتاج الانبیاء ﷺ کو راستے میں کھیلتے ہو
ئے بچے ملتے تو شفقت و محبت سے متبسم ہو کر بڑی محبت سے انہیں سلام کر تے
اور اُنہیں سلام میں پہل کر نے کا مو قع نہ دیتے پھر اُن کے پاس کھڑے ہو کر
اُن بچوں سے پیا ر بھری با تیں کر تے ۔بچے حضور اقدس ﷺ کی محبت اور شفقت
بھرے سلوک کی وجہ سے آپ ﷺ سے بہت محبت کر تے جہاں آپ ﷺ کو دیکھتے بھا گ کر
آپ ﷺ کے پاس پہنچ جا تے سرور کا ئنات ﷺ اُن سے پیار کر تے پھل دیتے کھجو
ریں دیتے جو پا س ہو تا وہ دیتے اور گلشن پا رک میں جن جنت کے پھولوں کو
مرجھا یا گیا شہید کیا گیا جب اِن کی روحیں سرور دو جہاں ﷺ کے پاس زخمی
زخمی جا ئیں گی تو دہشت گر دو آپ کس منہ سے پیا رے آقا ﷺ کا سا منا کر یں
گے ۔
|