پاکستان کی سالمیت مخالف’’را‘‘

پاکستان کے صوبہ بلوچستان سے بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے حاضر سروس نیول کمانڈر ’کل بھوشن یادیو کا پکڑا جانا اور صوبہ پنجاب کے شہر لاہور میں اتوار کی شام گلشن اقبال پارک میں دھماکہ یقینا دو الگ الگ واقعات ہیں مگر اس کے پس پشت ایک ہی فلسفہ کار فرما ہے کہ بھارت پاکستان کا ازلی دشمن ہے اور وہ پاکستان کو عدم استحکام کا شکارکرنے کی ہر ممکن کوشش میں ہر پل مصروف عمل رہتا ہے،کل بھوشن یادیو کی گرفتاری سے بھارت کا مکروہ چہرہ سب کے سامنے آ گیا ہے اور ثابت ہو چکا ہے کہ پاکستان کی سلامتی کے خلاف کئی محاذوں اور صوبہ جات میں خون خرابے اوربغاوت میں بھارتی ’’را‘‘ ملوث ہے۔ تو لہذا اب تو اس کا اندازہ ان افراد کو بھی ہو جانا چاہیے جن کی آنکھوں پر امن کی آشا کی پٹی بندھی ہوئی ہے اور ان کو بھارت کا فریب دکھائی ہی نہیں دیتا ،مگر افسوس بھارت میں اگر کوئی معمولی سا بھی واقعہ رونما ہو جائے تو اس کا میڈیاسمیت حکمران طبقہ بھی چیخ چیخ کر عالمی دنیا کو اپنی مظلومیت کی جھوٹی کہانی سناتا نہیں تھکتابلکہ مگر مچھ کے آنسو بہا کر وہ پاکستان کی سالمیت کو کمزور کرنے اور اس کو پوری دنیا میں بدنام کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے آپ اس کی مثال ’’جاسوس کبوتر‘‘ کے پکڑے جانے سے لے لیں کہ جون 2015میں پاکستان کی سرحد کے قریب چھوٹے سے بھارتی گاؤں میں 14 سالہ لڑکے کو سفید کبوتر ملا جس کے پروں پر اردو میں ایک پیغام کے ساتھ کچھ ہندسے لکھے ہوئے تھے ،جس کے بعد اس پرندے کو پولیس کے پاس لے جایا گیا جنھوں نے اس کبوتر کا ایکسرے کرانے کا حکم دیا،کبوتر سے کوئی مشتبہ چیز تو نہ ملی لیکن بھارتی حکومت نے اس معاملے کو ’مشتبہ پاکستانی جاسوس کبوتر‘ کے نام سے اچھالا اوراتنا شور مچایا کہ خدا کی پناہ!،اور دوسری طرف پاکستانی حکومت ایسے چپ کا روزہ رکھے ہوئے ہے کہ جیسے ان کو پرواہ ہی نہیں کہ کوئی جاسوس پکڑا گیا ہے،بلکہ وہ پاکستان کی حدود سے پکڑا جانے کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے منصوبوں میں ملوث ہے وہ جاسوس نہ تو کوئی جانور ہے اور نہ کبوتر بلکہ جیتا جاگتا ایک انسان ہے جو رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ہے جس کے تہلکہ خیز انکشافات نے بھارت کے پاکستان دوستی ڈرامہ کا پول کھول دیا ہے۔

ریسرچ اینڈ اینالائسس ونگ(Research and analysis wing) جو "را" (RAW)کے نام سے جانی جاتی ہے یہ بھارت کی خفیہ ایجنسی ہے اور اس کا قیام 21 ستمبر 1968 کو عمل میں آیاا س کا ہیڈکوارٹر نئی دہلی بھارت میں واقع ہے اور اس کا مشن پاکستان کی جڑیں کاٹنے اورپاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنا شامل ہے صرف یہی نہیں یہ پاک فوج کی جنگی صلاحیت تباہ یا کمزور کرنے کے ’’مشن‘‘ پرکام کر رہی ہے اور بھارت دنیا سمیت پاکستان کوگمراہ کرنے کیلئے ’’امن کی آشا‘‘ کا فریب دے رہا ہے ۔ پاکستان کے اعلیٰ وفاقی و صوبائی حکام دفاعی اداروں پر حملے، اثاثہ جات کے نقصان، دہشت گردی کے مسلسل بڑھتے واقعات کی تحقیقات کے بعد اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ ’’را‘‘ پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے آپریشن کروا تا ہے پاکستان کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ بھارت کو ایک اچھے پڑوسی کا درجہ دے کربھارت کے ساتھ تعلقات استوار کئے جائیں۔اس مقصد کیلئے پاکستان کی ہر حکومت نے سر توڑ کوششیں کیں۔بعض اوقات اپنے مفادات کو قربان کر کے بھی بھارت کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوششیں کی گئیں مگر پاکستان کی بدقسمتی کہ ہمارے تمام تر مخلصانہ ارادے اور کوششیں کبھی بارآور ثابت نہیں ہوئیں۔بھارت میں معمولی سے معمولی واقعہ بھی رونما ہوتا ہے تو بغیر سوچے سمجھے ،بغیر حالات کا تجزیہ کئے ہوئے انگلی پاکستان کیخلاف اٹھ جاتی ہے اور تعلقات بہتر کرنے کی کوششوں میں تعطل آجاتا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات ہمیشہ سے ہی اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں۔ مختلف واقعات سے تعلقات پر بہت اثر پڑتا ہے۔ پاکستان اور بھارت بالترتیب چودہ اور پندرہ اگست1947ء کو آزاد ملک کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر نمودار ہوئے۔ بھارت جس میں ہندو اکثریتی قوم تھی، ایک سیکولر ریاست قرار پایا جبکہ مسلم اکثریتی پاکستان کو اسلامی جمہوریہ ریاست کا نام دیا گیا۔ آزادی کے وقت سے ہی دونوں ممالک نے ایک دوسرے سے اچھے تعلقات استوار رکھنے کا عزم ظاہرکیا مگر ہندو مسلم فسادات اور علاقائی تنازعات کی وجہ سے دونوں ممالک میں کبھی اچھے تعلقات دیکھنے کو نہیں ملے۔ آزادی کے وقت سے اب تک دونوں ممالک کے درمیان چار بڑی جنگیں جبکہ بہت ہی سرحدی جھر پیں بھی ہوچکی ہیں۔دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے بھی بہت سی کوششیں کی گئیں جن میں آگرا ، شملہ اور لاہور کا سربراہی اجلاس شامل ہے۔ 1980ء کی دہائی سے دونوں ممالک کے تعلقات کے درمیان تاریخ ساز بگاڑ محسوس کیا گیا ہے۔ اس بگاڑ کا سبب سیاچن کا تنازعہ ، 1989ء میں کشمیر میں بڑھتی کشیدہ صورتحال ، 1998ء میں بھارت اور پاکستانی ایٹمی دھماکے اور 1999ء کی کارگل جنگ کو سمجھا جاتا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ تعلقات کو معمول پر لانے کے لئے 2003ء میں جنگ بندی کا معاہدہ اور سرحد پار بس سرورس کا آغاز کیا گیا ہے۔ مگر تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے تمام کوشش پے در پے رونما ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کی نظر ہوتی گئیں۔ جن میں 2001ء بھارتی پارلیمان عمارت پر حملہ، 2007ء میں سمجھوتہ ایکسپریس ٹرین کا دھماکا اور 26 نومبر 2008ء ممبئی میں دہشت گردی کی کاروائیاں شامل ہیں۔

اس امرمیں تو کوئی شک نہیں کہ بھارتی ’را‘ اور دیگر خفیہ ایجنسیاں پاکستان کے خلاف بہت پہلے سے ہی سر گرم ہیں اور بلوچستان سے ’را‘ کے ایجنٹ کی گرفتاری کا عمل کوئی نیا نہیں ہے یعنی اس سے پہلے بھی کئی بار بھارتی جاسوسوں کو پکڑا گیا ہے ۔بلوچستان سے’ را‘ کاپکڑا جانے والا ایجنٹ کلبھوشن یادیو نا صرف ایک بھارتی ہے بلکہ کٹر ہندو بھی ہے،’سلیم عمران‘اور حسین مبارک پٹیل بھی اسی کل بھوشن یادیو کے فرضی نام ہیں جن کا استعمال وہ اپنے مکروہ کاموں کے لیے کرتاتھا،اس کا اصل ہندوستانی نام’’ کل بھوشن یادیو‘‘ اور باپ کا نام ’’ سدھیر یادیوہے یہ 16اپریل 1970کو ممبئی میں پیدا ہوااور اس کا بھارتی پاسپورٹ نمبرL9630722جبکہ اس کا انڈین نیوی نمبر41558Zہے ۔کلبھوشن یادیو نے 1987میں بھارت کی ’’نیشنل ڈیفنس اکیڈمی ،پونا‘‘ جوائن کی، یکم جنوری 1991میں’’ انجینئرنگ برانچ ‘‘میں کمیشن حاصل کیااور 2001میں بھارتی’’ نیول انٹیلی جنس ‘‘میں شامل ہوا۔2013سے ’’را‘‘کے لئے کام کررہاتھا،2022میں ریٹائرہونا تھا، اس نے ایرانی شہر چاہ بہار سے پاکستان میں داخلے کے لئے اپنا مْسلم نام ’’ حْسین مبارک پٹیل ‘‘ رکھا اور خود کو مسلمان ظاہر کرنے کے لئے پکا مسلمان بنا اوراس کا گواہ اس کی پیشانی پر نماز کا بڑاحقیقی نشان ہے اور یہ خود کو مسلمان ظاہر کر نے کے لیے قرآن بھی پڑھتا اور قرآنی آیا ت کو ترجمے کے ساتھ پڑھتااور سمجھتابھی ہے اور یہ2003سے ایران کے شہر چا بہارمیں پاکستان کے خلاف کام کرنے لیے تعینات رہا اور با ظاہر اس نے ایران کے مشہورو معروف بازار میں سونے کی بڑی دْکان کھولی اور وہاں بیٹھ کر پاکستان میں دہشت گردی کا خفیہ آپریشن چلایا،با ظاہر کاروباری سلسلے کے یہ ایرانی سرحد کے راستے بلوچستان آیاجایاکرتاتھااس کے پاسپورٹ پر ایران کا ویزہ تھااوریہ ایرانی شہرچاہ بہار میں تعینات تھا،بعد ازاں کل بھوشن یادیونے بلوچستان میں ہی مکمل سکونت اختیارکر لی اور یہیں سے اِس نے اپنا جاسوسی نیٹ ورک چلایا۔اس کی بیوی اور 2بچے اس کے والدین کے ساتھ ممبئی میں رہائش گاہ ہاؤس نمبر 502بی،سلوراوک پوئی ،ہیرانندنی گارڈنز میں رہائش پذیر ہیں۔کلبھوشن یادیو بلوچستان اور کراچی میں کالعدم تنظیموں سے رابطے میں تھا،اور بلوچستان اور کراچی کی علیحدگی کے منصوبے پر کام کررہا تھا، دوران تفتیش کلبھوشن یادیو نے بہت سی باتیں تسلیم کیں، اس نے بتایا کہ اسے پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے خلاف کارروائیوں کاٹاسک دیا گیا تھا نیز اس دوران کل بھوشن یادیو نے دو بار ’را‘ کے سربراہ جندرکھنہ سے بھی ملاقات کی ۔بعد ازاں ملزم کے انکشافات کی روشنی میں کئی اور لوگ بھی گرفتار کر لیے گئے ہیں۔گرفتار بھارتی ایجنٹ نے انکشاف کیا ہے کہ وہ بلوچستان کے علاقے وڈ میں حاجی بلوچ سے رابطوں میں تھااور حاجی بلوچ کالعدم تنظیموں کے دہشت گردوں کو مالی اور لاجسٹک سپورٹ فراہم کرتا تھااور اس کا مشن کراچی میں داعش کا نیٹ ورک مضبوط کرنا تھااس نے یہ بھی انکشاف کیا کہ سانحہ صفورا کے ماسٹر مائنڈ بھی بلوچستان میں حاجی بلوچ سے رابطوں میں تھے واضح رہے کہ صفورا بس پر ہونے والی فائرنگ سے 45 افراد جاں بحق ہوئے تھے نیز کراچی میں فرقہ وارانہ قتل و غارت گری کیلئے مقامی دہشت گردوں کی مدد لی گئی دوران تفتیش یہ بھی انکشافات سامنے آئے کہ بھارت کو پاکستان کی ترقی ایک آنکھ نہیں بھارہی، بلوچستان میں علیحدگی کی آگ بھارت نے ہی جلائی ہے۔’را ‘‘کے گرفتار دہشتگرد کایہ بھی مانا کہ بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کو ٹریننگ بھارت دے رہا ہے،ان علیحدگی پسندوں کو کشتیوں کے ذریعے ممبئی لے جایا جاتا ہے جہاں انہیں تربیت کے بعد بلوچستان میں حملوں کیلئے واپس لایا جاتا ہے۔کل بھوشن یادیو نے دوران تفتیش بتایا کہ وہ علیحدگی پسندوں کو پاک بحریہ کے جہازوں اور دیگر تنصیبات پر حملے کیلئے تیار کررہا تھااور علیحدگی پسندوں کو سمندر کے سخت حالات اور اندھیرے میں لڑنے کی تربیت دی جارہی تھی جس کے لئے اس نے چاہ بہار میں کشتیاں خرید کر کھڑی کر رکھی تھیں،اس سب کے بعد تحقیقات کا دائرہ مزید وسیع کردیا گیا ہے جبکہ بھارتی ایجنٹ کے پاکستان میں ممکنہ ساتھیوں سے رابطوں کی تصدیق کی جا رہی ہے۔پس کل بھوشن یادیو اور دیگر افراد کی گرفتاریوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ بھارت کی پاکستانی دشمنی اب ڈھکی چھپی ہے نہ ہی لفاظی ۔

ایک طرف بھارت اور’را‘کے ایجنٹ نے تہلکہ خیز انکشافات کے ساتھ ساتھ تمام سچائی بھی اگل دی ہے تو دوسری طرف بھارتی ہٹ دھرمی اور رویہ اپنی جگہ ویسا ہی ہے جیسا 68سال سے پاک بھارت تعلقات کے دوران ہوتا ہے،بھارت نے یہ تو تسلیم کر لیا کہ یہ ہندوستانی شہری ہے اور نیوی کا افسر بھی تھا مگرقبل از وقت اس نے نیوی سے ریٹائرمنٹ لے لی تھی اس کے بعد سے ہندوستانی حکومت کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ پاکستان میں ’’ را ‘‘ کے ملوث ہونے کا دوسرا بڑا ثبوت حال ہی میں لندن میں سامنے آچکا ہے پچھلے ایک سال سے لندن پولیس ایم کیو ایم کیخلاف الزامات کی تفتیش کر رہی ہے حال ہی میں سامنے آنیوالی پولیس دستاویزات میں سے ایک رپورٹ کے مطابق ’’را‘‘ ایم کیو ایم کو 8لاکھ پونڈ سالانہ ادا کر تی رہی ہے اوروہ ایم کیو ایم سے ڈائرکٹ رابطے میں رہتی تھی، ’را‘‘ ہی نے ایم کیو ایم کو پالا اور سنبھالا۔یہاں یہ سوال سامنے آنا قدرتی عمل ہے کہ آخر کار’’را‘‘ ایم کیو ایم پر اتنی مہربان کیوں تھی؟ تو صاف ظاہر ہے کہ ’را‘ کا واحد مقصد پاکستان کو کمزور اور تباہ کرنا ہے اوربدقسمتی سے ’را‘ایسا کرنے میں کامیاب رہی ہے،بھارتی ایجنٹ کی گرفتاری کے بعد پاکستان نے امریکہ،برطانیہ سمیت دنیا بھر میں بھارتی دراندازی کا معاملہ اٹھا دیا ہے اور پاکستان کے دورے پر آئے ایرانی صدر کو بھی اس سے متعلق آگاہ کر دیا کہ یہ پاکستان کے امن کو تباہ کرنے کے لیے ’را ‘ایرانی سرزمین کا بے دریغ استعمال کر رہی ہے آپ کو بھی باخبر رہنے کی ضرروت ہے۔اس کے علاوہ کل بھوشن یادیو کی آئی ایس پی آر کی جانب سے میڈیا کو فراہم کی جانے والی ویڈیو نے بھی حقائق کو سمجھنے میں آسان بنا دیا ہے جس میں کل بھوشن یادیو تمام حالات و واقعات سے خود آگاہ کر رہے تھے اور تمام سچائی کوبیان کر رہے تھے جس میں انہوں نے تفصیل سے تمام واقعات اور انکشافات کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ میں یہ سب صرف اس لیے بتا رہا ہوں کہ میں اپنے آپریشن میں ناکام ہو چکا تھا اور مجھے یہ بھی احساس ہو گیا تھا کہ اب میں پاکستانی فوج کی حراست میں ہوں تو میں نے سچ بولنے کا فیصلہ لیا اور یہ سب باتیں میں کسی کے دباؤ میں آ کر نہیں کر رہا بلکہ یہی سچ ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان ملک میں بھارتی خفیہ ادارے ’را‘ کی سر گرمیوں کی روک تھام کے لیے اس معاملے کو سنجیدگی کے ساتھ اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر لے کر جائے اور ٹھوس اقدامات کی بدولت اس کی سرگرمیوں کو روکے تاکہ پاکستان کی سالمیت کو قائم و دائم رکھنے کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے۔

Ishrat Javed
About the Author: Ishrat Javed Read More Articles by Ishrat Javed: 70 Articles with 92556 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.