پاناما لیکس کی جانب سے مختلف ممالک کے حکمرانوں اور دیگر
شخصیات کے خفیہ طریقے سے دولت بنانے کے انکشافات نے عالمی منظر نامے میں
ہلچل کی کیفیت پیدا کی ہوئی ہے۔ کئی ”پردہ نشین“ بے نقاب ہوگئے ہیں۔ نام
آنے پر آئس لینڈ کے وزیراعظم کو عوامی دباﺅ پر مستعفی ہونا پڑا، جبکہ کئی
ملکوں میں تحقیقات کا عمل جاری ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ نے 2 سابق ججوں پر
مشتمل کمیٹی تشکیل دے دی ہے جو 25 اپریل تک اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔ فرانس،
اسپین، نیدرلینڈز، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ سمیت دیگر ممالک میں بھی پاناما
لیکس کے انکشافات کے حوالے سے باقاعدہ تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے، جبکہ
دنیا کے بڑے ٹیکس چوروں میں شریف خاندان کا نام آنے پر پاکستان کے سرمایہ
دار وزیر اعظم میاں نواز شریف بھی بچ بچاﺅ کے لیے کوشاں ہیں۔ انہوں نے
گزشتہ روز اپنی صفائی میں قوم سے خطاب کیا اور ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں
ایک عدد عدالتی کمیشن کے قیام کا اعلان کیا ہے، جس کو اپوزیشن نے مسترد
کردیا ہے اور عوام کی اکثریت بھی اس سے مطمئن نظر نہیں آتی۔ پاناما لیکس کی
جاری کی گئیں دستاویز ات میں پاکستان کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کی بیٹی
اور بیٹوں سمیت پاکستان کی مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی 200 ایسی با اثر
شخصیات کے نام سامنے آچکے ہیں، جو ٹیکس بچانے اور اپنی حقیقی دولت چھپانے
کی اس لت میں مبتلا رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم کے بیٹوں اور بیٹی
نے چار خفیہ کمپنیوں کے ذریعے لاکھوں ڈالر کمائے ہیں۔ ان انکشافات کے بعد
وزیر اعظم میاں نواز شریف پر نہ صرف اپوزیشن اور عوام کی جانب سے شدید
تنقید کی جارہی ہے، بلکہ خود ان کی اپنی شریف فیملی کے اندر سے بھی آوازیں
بلند ہورہی ہیں۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی اہلیہ تہمینہ درانی نے
شریف خاندان کو تمام غیر ملکی دولت واپس لاکر اپنے اوپر کرپشن کے الزامات
ختم کرانے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر آف شور کمپنیاں قانونی بھی ہوں تو
ان میں رکھا پیسہ ملک کو واپس کیا جائے۔ ہو سکتا ہے کہ آف شور کمپنیاں ،
غیر ملکی جائیداد اور اکاؤنٹس قانونی ہوں لیکن میری نظر میں یہ غیر اخلاقی
ضرور ہیں اور ان کی نظر میں غیر اخلاقی کا مطلب اپنی روح بیچنا ہے اور یہ
غیر قانونی ہونے سے کہیں بڑا گناہ ہے۔ تحریک انصاف پاناما لیکس کے معاملے
کو قومی اسمبلی میں اٹھانے کا فیصلہ کرچکی ہے، اس حوالے سے پی ٹی آئی کی
جانب سے قومی اسمبلی میں تحریک التواءجمع کروائی جائے گی۔
شدید عوامی تنقید کے بعد پہلے تو حکومتی وزرا نے شریف فیملی کے وکیل بن کر
ان کی صفائی دینے کی کوشش کی، لیکن عوام کو مطمئن نہ کرسکے، اس کے بعد میاں
نواز شریف کو خود آکر اپنی صفائی دینے کے لیے قوم سے خطاب کرنا پڑا، لیکن
قوم سے خطاب میں میاں نواز شریف نے خود پر لگنے والے الزامات کا جواب دینے
کی بجائے اپنے خاندانی کاروبار کی 80 سالہ تاریخ، صنعتی قربانیوں اور مصائب
پر تفصیلی روشنی ڈالی، حالانکہ اس سب کچھ کا پاناما پیپرز کی تفصیلات سے
کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ میاں نواز شریف نے الزامات کی تحقیق کے لیے ایک
عدد عدالتی کمیشن کے قیام کا اعلان کیا، جس کو اپوزیشن جماعتوں نے فوری طور
پر مسترد کردیا۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ عدالتی کمیشن سے کچھ حاصل نہیں ہوگا،
اس معاملے کی تحقیقات کے لیے فرانزک آڈٹ کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم کے خطاب سے
ہمیشہ کی طرح کنفیوژن پیدا ہوئی، وزیراعظم خود ہی جج مقرر کرکے اپنے خلاف
تحقیقات کرائیں گے، وزیراعظم مستعفی ہوکر تحقیقات کرائیں۔ وزیراعظم نے
پاناما لیکس کے کسی سوال کا جواب نہیں دیا، دنیا میں جہاں جہاں الزامات لگے
وہاں تحقیقات ہورہی ہیں، اس طرح جواب دے کر خاموشی ممکن نہیں تحقیقات تو
کرنا پڑگے۔
قانونی ماہرین نے بھی پاناما لیکس کے انکشافات کی تحقیقات کے لیے وزیر اعظم
پاکستان میاں نواز شریف کی جانب سے ریٹائرڈ ججوں پر مشتمل عدالتی کمیشن کے
اعلان پر عدم اطمنان کا اظہار کرتے ہوئے اسے ناکافی قرار دیا ہے۔ ماہرین کا
کہنا ہے کہ ریٹائرڈ ججوں پر مشتمل کمیشن معاملے کا حل نہیں ہے، یہ اہم
معاملہ ہے، بدعنوانی کی وجہ سے ملک بدحالی کا شکار ہے، ایسے میں ریٹائرڈ
ججوں کی بجائے حاضر سروس جج، ایف آئی اے یا نیب سے تحقیقات کرانا چاہیے۔ یہ
تحقیقات صرف ایک خاندان تک نہیں بلکہ بلاامتیاز ملکی دولت باہر بھیجنے والے
ہر فرد سے متعلق ہونی چاہیے، جو اس دھرتی سے دولت کماکر باہر بھیجتا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نے عدالتی کمیشن کا اعلان تو کردیا ہے،
لیکن یہ نہیں بتایا کہ عدالتی کمیشن کا دائرہ کار کیا ہوگا اور کن الزامات
کی تحقیقات کرے گا۔ یہ الزامات پچھلے پچیس سال سے شریف خاندان پر لگ رہے
ہیں۔ کئی غیر ملکی نشریاتی ادارے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں یہ دعویٰ کرچکے
ہیں کہ شریف خاندان فرضی ناموں سے کئی آف شور اکاﺅنٹ چلا رہا ہے، جو منی
لانڈرنگ کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ 1998ءمیں ایف آئی اے کی رپورٹ میں بھی
دعویٰ کیا گیا کہ نوازشریف نے بیرون ملک لاکھوں ڈالر کے آف شور اکاﺅنٹس
کھولے ہوئے ہیں اور لندن میں ان کی کئی ایسی جائئدادیں بھی ہیں، جو ظاہر
نہیں کی گئیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق وزیر اعظم پاناما لیکس پر انکشافات کی
تحقیقات الیکشن کمیشن، ایف آئی اے، نیب اور ایف بی آر کو کرنی چاہیے۔ دوسری
جانب لاہورہائی کورٹ میں تحریک انصاف لائرز فورم کے نائب صدر گوہرن واز
سندھو کی جانب سے پانامہ لیکس کی بنیاد پر وزیراعظم نواز شریف کو نا اہل
قراردینے کے لیے دائر کی گئی درخواست کو سماعت کے لیے منظور کرلیا گیا ہے،
جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ سیاست دانوں نے ملکی دولت لوٹ کر بیرون
ملک اثاثے بنائے ہیں، پاناما لیکس کی دستاویزات کی روشنی میں ان سیاستدانوں
کو نااہل قرار دیا جائے اور ان کے خلاف منی لانڈرنگ کا مقدمہ درج کیا جائے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ پاناما پیپرز پاکستان کی حکمران اشرافیہ کے جرم کی
داستان ہے۔ پاکستان کا حکمران طبقہ صرف اپنے مفادات کا تحفظ کرنے اور
دوسروں کے اس مقام تک پہنچنے میں رکاوٹیں ڈالنے میں مصروف ہے۔ حکمران طبقہ
سیاست کو بھی کاروبار کی طرح چلاتا ہے، دیگر ممالک میں عوام کی خدمت کے لیے
حکومت کی جاتی ہے، لیکن یہاں کاروباری لوگ حکومت کو بھی اپنے کاروباری
مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان کے اشرافیہ براہِ راست ٹیکس سے بچ
نکلتے ہیں۔ پاناما پیپرز نے ٹیکس سے بچنے اور کرپشن کا پیسہ چھپانے کے مفصل
اور باریک منصوبوں کی قلعی کھول دی ہے۔ شریف فیملی کا کہنا ہے کہ انہوں نے
کچھ بھی غیر قانونی نہیں کیا، ساری دولت جائز طریقے سے کمائی ہے، لیکن جو
بھی ہو حقیقت یہی ہے کہ دولت آف شور کمپنیوں میں لگانے کا مقصد ٹیکس بچانا
ہی ہے، جبکہ وزیرِ اعظم کے خاندان کو توٹیکس ادائیگی میں سب سے آگے ہونا
چاہیے، تاکہ ان کی دیکھا دیکھی ملک کے باقی افراد بھی ٹیکس ادا کریں۔ شریف
فیملی کے مطابق اگر وزیر اعظم کی اولاد کا بیرون ملک کاروبار کرنا کچھ غلط
نہیں ہے تو پھر وزیرِ اعظم بیرونِ ملک جاکر سرمایہ کاروں کو پاکستان میں
سرمایہ کاری کرنے پر کیوں زور دیتے ہیں؟ اور وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کی پوری
کوشش ہے کہ ہر پاکستانی ایمانداری سے ٹیکس دے اور جو تاجر و صنعت کار ٹیکس
نیٹ سے باہر ہیں یا ٹیکس چوری کررہے ہیں، انہیں ایسا نہ کرنے دیا جائے ،
مگر جب خود پاکستان کے طاقتور خاندان اور افراد ہی ٹیکس چھوٹ کی تلاش میں
سمندر پار سرمایہ رکھ رہے ہوں تو کس منہ سے پاکستان میں ٹیکس کلچر کے فروغ
کی بات کر سکتے ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ابھی توسمندر پار اثاثوں کی دیکھ بھال کرنے والی صرف
ایک کمپنی کے ریکارڈ پر نقب لگی ہے۔ دوہری شہریت اور دوبئی، سوئٹزر لینڈ،
برطانیہ، جنوبی فرانس، سپین، کینیڈا، امریکا، کیریبئن، ملائشیا اور
آسٹریلیا سمیت متعدد ممالک میں پاکستانیوں کی تمام دولت کا بھانڈا پھوٹ گیا
تو قوم حیران رہ جائے گی، کیونکہ پاکستانی اشرافیہ کی بہت بڑی رقوم بیرون
ملک بینکوں میں جمع ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق قومی خزانے سے لوٹی گئی دولت کے
375ارب ڈالر بیرونی بنکوں میں پڑے ہیں، جنہیں ملک میں لاکر نہ صرف آئی ایم
ایف اور ورلڈ بنک کے 70ارب ڈالر کے قرضے چکائے جاسکتے ہیں بلکہ اس دولت کو
عوام کی فلاح و بہبود پراور عام آدمی کو زندگی کی بنیادی سہولتیں فراہم
کرکے ملک سے غربت جہالت بدامنی اور دہشت گردی کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کیا
جاسکتا ہے۔ سوئس بینکوں میں پاکستانیوں کے 200 ارب ڈالر موجود ہونے کی
اطلاعات ہیں۔ سوئس بینک کے ایک ڈائریکٹر نے سوئس بینکوں میں موجود پاکستانی
دولت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان صرف سوئس بینکوں میں پڑی دولت
سے 30 سال تک ٹیکس فری بجٹ بنا سکتا ہے۔ 6 کروڑ پاکستانیوں کو ملازمتیں دی
جاسکتی ہیں۔ کسی بھی دیہات سے اسلام آباد تک چار رویہ سڑکیں تعمیر ہوسکتی
ہیں۔ 500 سماجی منصوبوں کو ہمیشہ کے لیے مفت بجلی فراہم کی جاسکتی ہے
۔پاکستان کا ہر شہری 60 سال کے لیے ماہانہ 20 ہزار تنخواہ حاصل کرسکتا ہے
اور پاکستان کو کسی بھی عالمی بینک یا آئی ایم ایف سے بھیک مانگنے کی ضرورت
نہیں رہے گی، یہ تو صرف سوئس بینکوں کی کہانی ہے، جبکہ ایک رپورٹ کے مطابق
دبئی میں پاکستانیوں کی سوئٹزرلینڈ سے دس گنا زیادہ غیر قانونی رقم موجود
ہے۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق پاکستانی کی اشرافیہ کی بیرون ملک اتنی بڑی دولت پڑی
ہے، جس کو اگر پاکستان واپس لایا جائے تو قوم بہت جلد ترقی کرسکتی ہے، لیکن
حکومت،سیاست اور انتظامی امور کے شعبوں پر حاوی طبقہ اپنی دولت بیرون ملک
منتقل کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔ ایک طویل عرصے سے پاکستان میں محب وطن حلقے
یہ واویلا کررہے ہیں کہ مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے بااثر طبقے نے
اپنی دولت بیرون ملک منتقل کر رکھی ہے اور قیمتی جائیدادیں خرید رکھی ہیں،
بیرون ملک ان کے کاروبار وہیں ہیں حتیٰ کہ ان کے بچے بھی وہاں کی شہریت
حاصل کر چکے ہیں، پاکستان سے ان کا کوئی مفاد وابستہ نہیں ہے، سوائے اس کے
کہ وہ یہاں صرف حکومت کرنے کے لیے رہتے ہیں۔ ملک کا موجودہ کمزور نظام
انھیں لوٹ مار کرنے اور اقتدار تک پہنچنے کا ہر ممکن آسان راستہ فراہم کرتا
ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ یہ نظام بدلنا نہیں چاہتے، کیونکہ ان کی بقا ہی اس
کرپٹ اور دیمک زدہ نظام میں ہے، اگر یہ نظام بدل گیا تو حکمران طبقوں کی
لوٹ مار کے تمام راستے بھی بند ہو جائیں گے، اس لیے وہ ایسا نہیں ہونے دینا
چاہتے۔ متعدد سرکاری افسران کے بیرون ملک اربوں روپے کے اثاثے ہیں اور ان
کی سالانہ آمدن کروڑوں میں ہے۔ بیوروکریسی اور سیاستدانوں نے گٹھ جوڑ کر
رکھا ہے۔ملک میں ہر سال لاکھوں افراد غربت کی لکیر کے نیچے جا رہے ہیں اور
غریب کے لیے دو وقت کی روٹی کمانا بھی مشکل ہو گیا ہے جب کہ دوسری جانب
سیاستدانوں اور بیوروکریسی کا رہن سہن کسی شاہانہ انداز سے کم نہیں۔ وہ
ٹیکس بھی نہیں دیتے لیکن تمام ملکی مراعات اور پروٹوکول سے استفادہ بھی
کرتے ہیں۔ ایک بار جو انتخابات میں کامیاب ہو جاتا ہے، وہ چند ہی سال میں
دولت مندوں کی فہرست میں شامل ہوجاتا ہے، آخر یہ سب دولت کہاں سے آتی ہے۔
آج تک کبھی کسی طاقتور کا حقیقی معنوں میں احتساب نہیں ہوا۔ |