ٹی ۔ وی جیسی کارآمد چیز کا غلط استعمال جیسا اس
پاکستان میں ہورہا ہے، اس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے۔ بڑے بڑے قابل
حضرات اسکی باگیں تھامے ہوئے ہیں مگر ذاتی فوائد ، شخصی برتری میں سب کھو
گئے ہیں۔ آپ ایک ٹیم اینکرز کی بنائیں اور ان سے کہیں کہ میڈیا کے پروگرام
اور اسکی آزادی کا ایک تتفصیلی جائیزہ لیں۔ پھر دیکھیں وہ نیچے بیان کردہ
معاملات میں کیا فرماتے ہیں خاص طور پر یہ جانتے ہوئے کہ انکی اولاد ،
والدین اور بہن بھائی کیا اس ماحول کو برداشت کرسکیں گے یا یہ کڑوسے گھونٹ
باآسانی پی رہے ہونگے۔
۱) یہ لگتا ہے کہ پاکستانی چینلز بھارتی قبضے میں چلے گئے ہیں، اردو کے
بجائے ہندی اگر آتی ہو تو پڑھ لیجئے وگر نہ غلط قسم کی رومن جو آجکل ترقی
پارہی ہے، اسے ہجہ کرکے پڑھنے کی کوشش کیجئے۔
۲) نام نہاد ترکی ڈرامے اردو میں ریکارڈ کرکے دکھائے جارہے ہیں ، جسکے قابل
توجہ پہلو یہ ہیں : : شراب کا استعمال پانی کی طرح، عالم نشہ میں کسی جوڑے
کی قریب ترہونے کی جھلکیاں، خواتین پر لباس کی اسقدر کمی کہ ننگ پن کا لفظ
بھی شرماجائے، انگوٹھی ایک دوسرے کو پہنادیں ، پھر چاہے جتنی شادیاں کرلیں،
اگر شومئی قسمت سے بحالت نشہ زیادہ قربت حاصل کرنے کے نتیجے میں شدید بد
نامی کا خدشہ ہو تو اسپتال کی خدمت حاصل کریں ، یہ مشکل بھی آسان۔
۳) صبح کا وقت ایسا ہوتا ہے کہ ہر ایک اس کا صبح کے ساتھ کچھ نام رکھ دیتے
ہیں ، سیکڑوں عورتیں اور لڑکیاں اینکر صاحبہ ، جو دوپٹہ جیسی لعنت سے آزاد
ہوتی ہیں اور سینے کو ڈھکنے کے لئے کافی تحقعق کے بعد بالوں کی لٹوں کو جو
سپولیوں جیسے ہوجاتی ہیں، یہ کام لیتی ہیں، انکے بے تکے اشاروں پر تالیاں
پیٹنے کی ذمہ داری ان بلائی گئی خواتین پر ہوتی ہے۔ تالیوں کی گونج میں یہ
ایک گھنٹہ تک اپنی بولنے کی صلاحیتوں کے کرتب دکھاتی ہیں، کبھی رنگ گورا
کرنے کے نسخے، کچھ پکانے کی ترکیبیں وغیرہ۔
۴) ایک آدھ چینل پر بھو ت اور جن بھگانے والے بیٹھے ہوتے ہیں۔ کسی پر ایک
عاقبت ناشناس شخصیت عاقبت کی باتیں بتا رہا ہے، جسکا علم سوائے اﷲ کی ذات
کے اور کسی کو نہیں ، وہ اپنی پستک میں دیکھ کر بتا دیتے ہیں کہ کب بیٹی کی
شادی ہوجائے گی، کب نوکری مل جائیگی وغیرہ۔
۵) ہر ڈرامہ کا اصل موضوع شادی ، اس سے متعلق کپڑوں اور زیورات کا انتخا ب،
پھر مہندی، ڈھولک، منگنی، نکاح اور ولیمہ کے لئے مہنگی ترین جگہ کاانتخاب،
تصویر کشی کا ٹھیکہ کس کو دینا ہے، کھانوں کی کتنی اقسام ہونگی، رخصتی کے
انتظامات وغیرہ ۔ ہنی مون کی تیاریاں شروع ہوجاتی ہیں۔ اس ماحول میں کیا
کوئی غریب آدمی اپنی بیٹیوں کی شادی کے متعلق سوچ بھی سکتا ہے۔ ابھی شادی
کی گرما گرمی ختم بھی نہیں ہوپاتی کہ دوسری سن گن سنائی دینے لگتی ہے اور
وہ ہے طلاق یا خلاء کی آوازیں، اہم وجوہات میں عدم برداشت اور بڑائی یا
غربت ،تعلیم،ملازمت، گھریلو کاموں سے عدم دلچسپی ، سسرال سے عدم مطابقت اور
ایسے ہی عنوانات
کے نتیجے میں ڈرامہ کا ڈراپ سین ہونے لگتا ہے۔ اس میں مارپیٹ، برا بھلا
کہنابھی شامل ہوتا ہے۔عام طور پر عورتوں کی تزہیک کا پہلو اجاگر ہوتا ہے۔
۶) بعض ڈراموں کو تو انتہائی رکیک کہا جاسکتاہے جو خاندان کے ساتھ بیٹھکر
نہیں دیکھے جاسکتے۔ بہنوئی کا سالی کے ساتھ بہن کا رشتہ سمجھا جاتا ہے، وہ
پارسائی کا لبادہ اوڑھ کر اس سے ملوث ہوتا ہے اور ایسے حالات پیدا کرتا ہے
کہ لڑکی صفائی بھی نہیں پیش کرسکتی۔ دوسرا سین یہ ہے کہ شوہر کے باہر
ملازمت کے دوران دیور سے اتنی گہری محبت جو شوہر بھی نہ دے سکے، پھر دیور
کی شادی چھوٹی بہن سے کرادی اور بے حیائی کا سلسلہ ڈ ھکے چھپے جاری رہا۔
کیا اسٹوری لکھنے والوں کو دنیوی رشتوں کا علم نہیں ہوتایا معاشرے کی
دھجیاں اڑانے پر لگے ہوئے ہیں، پاکستانی حکومت سے کیا تعلق اسلامی شعار کا
، کوئی بے حس معاشرہ اسلام کی بیخ کنی کرنے پر لگا ہوا ہے ، تو یہ اسکا
اپنا ذاتی معاملہ ہے،حکومت کیا کرے۔
تیزی سے جو تبدیلیاں دنیا میں آرہی ہیں ایسے میں سب سے زیادہ توجہ بچوں پر
دینے کیکی ہے۔ انکے لئے نہ کوئی دلچسپ پروگرام ہے نہ کوئی کھیل ایسے کہ وہ
موبائل اور دیگر جدید کھیلوں میں الجھ کر سارا وقت ضائع کرنے سے بچیں۔ کوئی
سا ئنٹفک ایجادات، معلوماتی چینلز کو اردو میں ڈب کریں، دلچسپی کے گیمس
وغیرہ کے پروگرام ، تعلیم میں آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کے گر سکھائیں۔ ذہن
نشین رہے کہ یہ آنے والی نسل کے نمائیندے ہیں انکو صحیح راہ پر لانے کے لئے
مذہب اور تہذیب کو اس انداز سے سکھا یا جائے کہ وہ بآسانی ڈاجسٹ کرلیں۔
۷) قومی سیاسی لیڈران اور اداروں کے ذمہ داران کے بے نتیجہ تزہیک آمیز
سیاسی نوعیت کے مباحثے آپ بھی سنتے ہونگے۔ کیا کبھی آپ نے تجزیہ کرکے دیکھا
کہ گھنٹہ دو گھنٹہ کسی عنوان پر اگر بحث کی جائے تو کچھ نہ کچھ نتیجہ بر
آمد ہو تا ہے اور آپ اپنے تئیں مطمن ہو جاتے ہیں کہ آپ نے مقصد پالیا۔
ہمارے ٹی وی چینلز پر دیکھا گیا ہے کہ بڑے بڑے جید قسم کے اینکرز آتے ہیں ،
کسی سیاسی موضوع کا ذکر کرتے ہیں پھر سیا سی شخصیات کا انتخاب کرکے ان سے
تعارف کرایا جاتا ہے۔ ان میں سے اکثر ایسے ہوتے ہیں کہ جان جائے پر جس کا
کھایا ہے ، اسی کے گانے جو یاد ہیں وہی گائے جائیں چنانچہ کشتی کا آغاز
ہوتا ہے۔ جھوٹ انکا سب سے بْرا آلہ ہوتا ہے جس کے سامنے بڑے سے بڑا
پہلوان بھی نہیں ٹکتا۔ امپائیر بیچارہ کچھ کہنا چاہے تو اسکی آواز دب جاتی
ہے خاص طور پر جب دو مخالف سوچ کے سیاسی پہلوان آپس میں برا بھلا کہکر بس
دست و گریبان ہونے والے ہی ہوں، یہ بھی انتظام نہیں ہوتا کہ جب بولنے والا
دوسرے کی بات سننے کو تیار نہ ہو تو اسکا مائیک بند کردیا جائے۔بعض اوقات
تو یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ ایسے بد زبان اور منہ پھٹ قسم کے سیاسی
غنڈے آجاتے ہیں کہ وہ مخالفین کی بات برداشت نہیں کرتے اور دوسرے کی زبان
گدھی سے کھینچ ڈالنے کی دھمکیاں بھی دینے سے گریز نہیں کرتے۔۔
بالآخر گھنٹہ بھر کی بے ربط بحث کے بعد ایک اسٹیج یہ آتا ہے کہ اینکر اعلان
کرتا ہے کہ اب میرا وقت ختم ہونے کو ہے لہذا آپ حضرات کی تشریف آوری کا بہت
شکریہ۔ آپ ہی فیصلہ کیجئے کہ اس قسم کے مباحث کا کیا حاصل ، سوائے اسکے کہ
وقت کا ضیاع ہوا اور بس۔
۸) کچھ چینلز پاکستانی مصنوعات کی تشہیر پر لگے ہوئے ہیں۔ کمپنیاں مصنوعات
کے علاوہ گاڑیاں، موٹر سائیکلیں ، الکٹرانک آلات اورجھوٹ موٹ کا نہیں سچ مچ
کا سونا، کنی دو کنی نہیں بلکہ تولے ہی تولے ۔۔ لاکھوں روپئے کی مالیت کا۔
اسکی تقسیم کا نظام بہت خوبصورت ہے۔ تقسیم کی ذمہ داری جو انجام دیتے ہیں
وہ عجیب عجیب شرائط لگائی جاتی ہیں معمر اور با ریش لوگوں سے اٹھک
بیٹھ کراتے ہیں، کبھی کوئی کھانے کی چیز رکھدی کہ اسکو منہ سے کھائیں، لوگ
بھی مفت کا مال حاصل کرنے میں اسقدر دلچسپی رکھتے ہیں کہ ایسے چھچھورے کام
کرنے میں بھی کوئی شرم محسوس مہیں کرتے اور متعلقہ شخص کے اشاروں پر ناچنے
لگتے ہیں۔بعض خواتین منہ پھاڑ کے کہتی ہیں کہ میرے میاں کے لئے موٹر سائیکل
دیدیں اور وہ بادشاہ قوت کی طرح انکی نہ صرف خواہش پوری کردیتے ہیں بلکہ
اپنی طرف سے بھی کچھ عنایت کردیتے ہیں۔چھوٹے تحائف تو ایسے باٹے جاتے ہیں
جیسے چنے بٹ رہے ہیں یہ بھی نہیں بتایا جاتا کہ یہ کس کمپنی کی پراڈکٹ ہے۔
سونا بھی بیویوں کو خوش کرنا ہو تو ۱۰؍ تولہ کا پانسہ بھی پڑ سکتا ہے۔ نام
بھی ایسے پروگرام کا رکھا ہے جیتو پاکستان۔
۹) ہمارے پڑوسی ملک نے دو انگریزی کے پروگرام اپنی عوام کے لئے ہندی میں ڈب
کئے ہیں جس میں جدید اور سائنسی معلومات ہوتی ہیں۔ اسکے علاوہ کئی سال قبل
وہاں سے بچوں کے لئے بنیادی کمپیوٹر کی معلومات دکھائی جاتی تھیں۔کیا ہمارے
چینلز پر ایسا کچھ نہیں ہوسکتا۔ ہر شہر کی سیر کرائی جاسکتی ہے۔
ہمارے تعلقات جب چین سے بڑھے تو وہاں کے فلم ہمارے ٹی وی پر دکھائے گئے کہ
چینیوں نے صرف ہتوڑی اور چھینی سے ایک پہاڑ کو کاٹ کر دریا کا رخ موڑ دیا ۔
اس کوشش میں اسکول کے بچوں نے بھی حصہ لیا ۔ اسی جذبہ نے چین کو اسقدر تیز
رفتاری سے بام عروج پر پنہچایا کہ دنیا عش عش کرتی رہ گئی۔
۱۰) کسی پروگرام کے دوران اشتہاروں کی بوچھاڑ ہو جاتی ہے ، ایک ہی اشتہار
اتنی بار دکھایا جاتا ہے کہ پبلسٹی کے بجائے نفرت ہونے لگتی ہے۔ بعض وقت تو
دیکھنے والا بھول جاتا ہے کہ کیا دیکھ رہا تھا۔دنیا کے جن ممالک سے ہمارے
معاہدے ہیں کیا اسی جذبہ سے سرشار فلم منگاکر اردو میں ڈب کرکے دکھاکر قومی
جذبات کو ابھارا جاسکتا ہے۔
ماہرین کا ایک بورڈ بنایا جائے تاکہ پروگراموں کا معیار بہتر بنایا جاسکے
اور قومی جذبات ابھریں اورہم سب سچے پاکستانی بن جائیں اور متعلقہ لوگوں کو
احساس ہوجائے کہ معیار سے گرا ہوا ہر پروگرام ردکردیا جائیگا۔ معاشرہ کی
خرابیاں دکھانے سے کم نہیں ہوجاتیں جب تک ان سے نفرت نہ دلائی جائے۔ خاص
طور پر ڈراموں کے لکھنے والوں اور ڈائرکٹرز کو چاہئے کہ قوم کو اخلاق کے
پہلوؤں کو روشناس کرائیں اور بہتر ہوگا کہ ہندی ڈراموں کی یلغار کو روکا
جائے۔ اس روز ایک پاکستانی بچے نے کہا کہ یہ شادی کیسی ہوئی کہ دولھا دلہن
نے پھیرے تو لئے ہی نہیں۔ ڈریئے آنے والے وقت سے اپنی نسلوں کی حفاظت
کیجئے۔ |